“”حضرت علی نے فرمایا میں ابوبکر کی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہوں “”‘
.
امام عشاری نے اس روایت کو اپنی تصنیف فضائل ابی بکرؓ میں اپنی سند سے یوں بیان کیا ہے :
۔ حدثنا علي حدثنا علي بن محمد المصري حدثنا علي بن سعيد الرازي حدثنا هناد بن السري حدثنا محمد بن فضيل عن إسماعيل بن أبي خالد عن قيس قال قال علي بن أبي طالب رضي الله عنه وهل أنا إلا حسنة من حسنات أبي بكر. رضي الله عنهما.
.
حضرت علیؓ بن ابی طالب فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابو بکرؓ کی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہوں
[فضائل أبي بكر الصديق، برقم29، ابن العشاري الحنبلي (المتوفى: 451هـ)]
.

.


.

أبو الفرج بن الجوزی أورد له حديثا موضوعا.
یہ منگھڑت روایات بیان کرتا تھا۔

امام اہل سنت امام محمد بن عبدالباقی القادی اور دیگر محدثین نے کہا ہے کہ اس نے ایسی روایات داخل کیں ہیں جن کی اسناد پر اس نے توجہ نہیں دی۔

الذهبي : شيخ صدوق معروف لكن أدخلوا عليه أشياء فحدث بها بسلامة باطن، وليس بحجة
یہ ایک دیانت دار شخص تھا لیکن اس نے کچھ ایسی روایات بیان کیں ہیں جن کا انہوں نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔
۔


.

قال امام الدارقطنىي. لم يكن بذاك تفرد باشياء
اس کی بیان کی ہوئی روایات میں انفرادیت ہے یہ انہیں بیان کرنے میں اکیلا ہے ۔
لَكِنَّهُ دُونَ النَّسَائِيِّ , صَاحِبُ غَرَائِبَ

قال حمزة بن يوسف: فقتل له: إنما أسأل كيف هو في الحديث، فقال: قد حدث بأحاديث لم يتابع عليها، ثم قال: في نفسي منه، وقد تكلم فيه أصحابنا بمصر، وأشار بيده وقال: هو كذا وكذا، كأنّه ليس ثقة..
امام حمزہ بن یوسف کہتے ہیں میں امام اہل سنت امام دارقطنی سے پوچھا (علی بن سعید الرازی) حدیث بیان کرنے میں کیسا ہے، اس انہوں نے جواب دیا: اس نے ایسی احادیث بیان کی ہیں جن پر خود اس نے عمل نہیں کیا، پھر فرمایا مصر میں ہمارے محدثین نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ وہ قابل اعتبار نہیں ہے۔

رواه طبراني في الأوسط عن شيخه علي بن سعيد الرازي وهو ضعيف.
الطبرانی نے الاوسط میں ایک روایت اپنے شیخ علی بن سعید الرازی کی سند سے روایت کی ہے حالانکہ وہ ضعیف ہے،

حافظ متقن صاحب غرائب.
یہ حافظ ہے مگر عجیب چیزیں بیان کرتا ہے.
(الارشاد ٤٣٧/١)

قلت. شيخ الطبراني هذا هو علي بن سعيد وهو مختلف فيه.
میں نے کہتا ہوں. الطبرانی کا یہ شیخ علی بن سعید الرازی مختلف فیہ ہے ۔
۔


.
اس راوی کے متعلق امام احمد بن حنبل، امام أبو داود السجستاني سمیت جمیع محدثین نے لکھا
شيعي، من أهل الكوفة.
یہ راوی شیعہ ہے ۔


وقال الحسن بن عيسى : سألت ابن المبارك عن أسباط محمد بن فضيل بن غزوان ، فسكت ، فلما كان بعد ثلاثة أيام ، قال : يا حسن ، صاحباك لا أرى أصحابنا يرضونهما .
امام حسن بن عیسیٰ کہتے ہیں: میں نے ابن مبارک سے راوی اصبط اور راوی محمد بن فضیل بن غزوان کے بارے میں پوچھا، لیکن وہ خاموش رہے، اور جب تین دن گزر گئے تو انہوں نے کہا: اے حسن آپ کے دونوں لوگوں کے معاملے میں اپنے ساتھیوں ان سے مطمئن نہیں ہیں۔
۔


.

١. إنه روي أحاديث مناكير. ٢. إنه كان يحمل على علي بن ابي طالب. ٣. إنه تغير في آخر عمره.
1. اس نے قابل اعتراض حدیثیں بیان کیں ۔
2. وہ علی رضی اللہ عنہ پر تہمت لگاتا تھا (نـاصبی تھا)
3. وہ اپنی زندگی کے آخر میں ذہنی طور پر پاگل ہو گیا۔

بعض محدثین نے اس (راوی) پر تنقید کی اور کہا: اس کے پاس قابل مذمت احادیث ہیں۔ اس کی تعریف کرنے والوں نے ان احادیث کو ان کے نزدیک قابل اعتراض تو نہیں قرار دیا البتہ کہا یہ عجیب ہیں۔

محدثین نے اس کے عقیدہ پر عیب لگایا ہے اور کہا: وہ مولا علی کی عیب جوہی کرتا تھا مشہور یہ ہے کہ وہ عثمان کا تعارف کرایا کرتا تھا اس لیے کوفہ کے بہت سے قدیم محدثین اس کی روایات نہیں لیتے تھے ۔

امام علی بن المدینی نے بیان کیا کہ امام یحییٰ بن سعید نے ان سے کہا: قیس بن ابی حازم کی منکر حدیث ہے پھر انہوں نے اُسکی قابل مذمت حدیثیں بیان کیں ۔
(ثابت ہو گیا کہ یہ روایت گھڑی ہوئی ہے)



أعلم، فإن صدقنا، اكتب لنا الأجر، وإلا بريئنا منه.