“عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَأَنْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ” موضوع حدیث

ســیـد نــادر نــقـوی
.
یہ حدیث (عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَأَنْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ) شیعہ کتب حدیث میں موجود نہیں ہے بلکہ اہلسنت والجماعت کی کتب حدیث سے شیعہ کتب میں نقل ہوئی ہے۔
.
شیخ حر عاملی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
حديث علماء أمتي كأنبياء بني إسرائيل. لا يحضرني ان أحدا من محدثينا رواه في شي‌ء من الكتب المعتمدة نعم نقله بعض المتأخرين من علمائنا في غير كتب الحديث وكأنه من روايات العامة أو موضوعاتهم
ترجمہ: “حدیث، میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں۔ میرے پاس نہیں آیا کسی ایک سے بھی ہمارے محدثین میں سے کہ اس میں سے ایک چیز بھی روایت کی ہو معتبر کتابوں میں، ہاں بعض متاخرین نے اس کو نقل کیا ہے ہمارے علماء میں سے کتب حدیث کے علاوہ میں سے، ایسے جیسے یہ عامہ (اہلسنت ) کی روایات ہوں یا ان کی گھڑی ہوئی احادیث ہوں”.
(الفوائد الطوسية / جلد 1 / صفحہ 376 / الفائدة: 75)
.
سید عبدالله شبر علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
روى عن النبي صلى‌ الله‌ عليه‌ وآله قال : علماء أمتي أنبياء بني اسرائيل او كانبياء بني اسرائيل أو افضل من انبياء بني اسرائيل ، وهذا الحديث لم نقف عليه في اصولنا واخبارنا بعد الفحص والتتبع ، والظاهر انه من موضوعات العامة
ترجمہ : “نبی ﷺ وآلہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:
میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء ہیں، یا بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں، یا بنی اسرائیل کے انبیاء سے افضل ہیں، اور یہ حدیث ہم نہیں پاتے ہمارے کتب میں اور ہماری احادیث میں اسکو معائنہ کرنے اور ڈھونڈنے کے بعد، اور ظاہر یہ ہوتا ہے کہ یہ عامہ (اہلسنت) کی گھڑی ہوئی احادیث میں سے ہے”.
(مصابیح الانوار/ جلد 1 / صفحہ 552)
.
اہلسنت محدثین نے بھی اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے
.
الشیخ محمد عبد الرحمٰن سخاوی لکھتے ہیں:
قَالَ شَيْخُنَا ومن قبله الدميري والزركشي: إنه لا أصل له، زاد بعضهم: ولا يعرف في كتاب معتبر
ترجمہ: “ہمارے شیخ نے اور ان سے قبل دمیری اور زرکشی نے کہا کہ اس حدیث کا کوئی اصل نہیں۔ اور بعض نے اضافہ کیا: اور یہ معتبر کتاب میں نہیں جانی جاتی”.
( المقاصد الحسنة / صفحہ 459 / الرقم: 702)
.
المفسر المحدث اسماعیل بن محمد الجراحی لکھتے ہیں:
١٧٤٤- علماء أمتي كأنبياء بني إسرائيل. قال السيوطي في “الدرر”: لا أصل له
ترجمہ: “میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں، سیوطی نے ( اپنی کتاب) “الدرر” میں کہا کہ اس حدیث کا کوئی اصل نہیں”.
(کشف الخفاء/ جلد 2 / صفحہ 74/ الرقم: 1744)
.