کیا مصلہ امامت نیابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دلیل ہے ؟؟

کیا مصلہ امامت نیابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دلیل ہے ؟؟
.
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کئی مرتبہ ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن ام مکتوم کو اپنا قائم مقام اور مصلہ امامت سونپ کر جانا
سنن ابي داود: 2931
.
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله المخرمي، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا عمران القطان، عن قتادة، عن انس، ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم استخلف ابن ام مكتوم على المدينة مرتين.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں دو مرتبہ(جب جہاد کو جانے لگے) اپنا قائم مقام (خلیفہ) بنایا
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: (595)، (تحفة الأشراف: 1321) (صحیح)» ‏‏‏‏
.
حافظ ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ نسب اور سیر کے علماء کی ایک جماعت نے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے غزوات میں ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو تیرہ مرتبہ اپنا جانشین مقرر کیا ہے، اور قتادہ کے اس قول کی توجیہ یہ کی جاتی ہے کہ ان تک وہ روایتیں نہیں پہنچ سکی ہیں جو دوسروں تک پہنچی ہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
انظر الحديث السابق (595
● سنن أبي داود 2931 أنس بن مالك استخلف ابن أم مكتوم على المدينة
● سنن أبي داود 595 أنس بن مالك استخلف ابن أم مكتوم يؤم الناس وهو أعمى
● بلوغ المرام 338 أنس بن مالك استخلف ابن ام مكتوم يؤم الناس وهو اعمى
● مسندالحميدي 1236 أنس بن مالك صوت أبي طلحة في الجيش خير من فئة
.
نابینا کی امامت کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا، وہ لوگوں کی امامت کرتے تھے، حالانکہ وہ نابینا تھے۔
[سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 595]
.
595۔ اردو حاشیہ:
نابینے شخص کی امامت بلا کراہت جائز ہے، بشرطیکہ اس میں صلاحیت ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 595
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2931
.
´اندھے کو حاکم بنانا درست ہے۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں دو مرتبہ (جب جہاد کو جانے لگے) اپنا قائم مقام (خلیفہ) بنایا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2931
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2931
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 338
.
´نماز باجماعت اور امامت کے مسائل کا بیان`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب بنایا۔ وہ لوگوں کی امامت کراتے تھے جب کہ وہ نابینا تھے۔
اسے احمد اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے بھی اسی طرح کی حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کی ہے۔
«بلوغ المرام/حدیث: 338»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الصلاة، باب أمامة الأعمي، حديث:595، وأحمد:3 /132، وحديث عائشة أخرجه ابن حبان(الإحسان):3 /287.»
.
.
رسول پاک ص کی زندگی میں کسی کا نماز پڑھانا دلیل خلافت نہیں ہے⚠️
⬅️نافع کا بیان ہے کہ حضرت ابن عمر نے انہیں بتاتے ہوئے فرمایا کہ سالم مولےٰ ابوحذیفہ مہاجرین اولین اور نبی کریم ﷺ کے دیگر اصحاب کی مسجد قبا میں امامت کا فریضہ ادا کیا کرتے تھے اور مقتدیوں میں ابوبکر، عمر، ابوسلمہ، زید، اور عامر بن ربیعہ بھی ہوتے تھے➡️
⛔اس روایت کو اس لئے پیش کیا تاکہ یہ ثابت ہوسکے کہ ضروری نہیں کہ نبی ص جسکو نماز پڑھانے کو کہیں وہ خلیفہ رسول ص بنادیا جائے اس لئے کہ اس سے پہلے بخاری صاحب نے کئی جگہ پر اس روایت کو نقل کیا ہے جس میں عائشہ سے روایت ہے کہ رسول ص نے اپنی بیماری کے وقت ابوبکر کو نماز پڑھانے کا حکم دیا اور اسی روایت کو دلیل خلافت ِ ابوبکر بنایا جاتا ہے حالانکہ اس روایت میں اگر یہ ہے کہ رسول ص نے ابوبکر کو نماز پڑھانے کےلئے کہا تو یہ بھی ہے کہ خود رسول ص بھی پیچھے پہنچ گئے اور ابوبکر کو مسند امامت سے ہٹنا پڑا جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی ص نے زبانی طور پر امام بنایا اور عملی طور پر ہٹادیا، خیر اس روایت میں ابوحذیفہ کو مسجد قبا میں امامت کرتے دکھایا گیا ہے اور کئی صحابیوں کو ابوبکر اور عمر سمیت ان کے پیچھے نماز پڑھتے دکھایا گیا ہے اگر ابوبکر کے پیچھے لوگوں کا نماز پڑھنا ابوبکر کے خلیفہ ہونے کا ثبوت ہے تو جس غلام کے پیچھے ابوبکر اور عمر نے نبی ص کی زندگی میں نماز پڑھی ہو اسے خلافت کی فہرست سے کیوں نکال دیا گیا؟َ🤔
.
.
سالم جو کہ ابوحذیفہ کا غلام تھا اسے امامت کیلئے مقرر کیا گیا۔۔

⛔اہل سنت برادران کہتے ہیں کہ ابوبکر کو جماعت کرانے کے لئے امام بنایا انہیں اپنے بعد خلیفہ بنانا اور اپنے جانشین کے طور پر انتخاب کرنا ہے۔
👈🏻اگر جماعت کروانا خلافت کے مستحق ہونےکی دلیل ہے تو
1⃣ رسول اللہ صلي الله عليه [وآله] وسلّم کسی جنگ کے لئے بھی مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تو کسی صحابی کو اپنا جانشین بنا کر ہی جاتے تھے ۔
📚تفسير القرطبي، قرطبي(671 هق )، ج 1، ص 268
2⃣عبد الرحمن بن عوف ،خلافت کے لئے ابوبکر سے زیادہ مناسب تھا .
عبدالرحمن بن عوف کا رسول خدا صلّي الله عليه و آله وسلّم پر مقدم ہونا لازم آئے گا یا کم از کم ابوبکر سے زیادہ خلافت کے لئے مناسب ہونا لازم آئے گا ۔کیونکہ رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلّم نے ان کے پیچھے نماز ادا کی ہے ۔
📚صحیح مسلم و ابن ماجہ کتاب الصلوٰة
3⃣جس وقت مہاجرین کا پہلا گروہ قباء کی جگہ پہنچے تو رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلّم کی مدینہ آمد سے پہلے سالم (ابي حذيفه کا غلام) جماعت کے فرائض انجام دئے رہے تھے ۔.
📚صحيح بخاري جلد سوم
4⃣پيامبر صلّي الله عليه [وآله] وسلّم نے ابن امّ مكتوم کو جو ایک نابينا شخص تھا ،اس کو امامت کے لئے جانشین بنایا .
📚سنن أبي داود جلد اول
5⃣جب حضرت عمر کو خنجر لگا اور زخمی ہوئے تو عبدالرحمن بن عوف کو ہاتھ پکڑ کر اپنی جگہ نماز کیلئے کھڑا کردیا اسکا مطلب ہوا کہ اگلے خلیفہ ابن عوف ہوئے۔
📚مصنف ابن ابی شیبہ
6⃣حضرت عمر کا اعتراف کہ رسول اللہ [ص] نے ابوبکر کو اپنا جانشین نہیں بنایا ہے ؛
👈🏻بخاري اور مسلم نے عبد اللّه بن عمر سے نقل کیا ہے
اگر میں خلیفہ منتخب کروں تو یہ ابوبکر کا طریقہ کار ہے کہ جو مجھ سے بہتر ہے ،انہوں نے خلیفہ انتخاب کیا اور اگر میں خلیفہ انتخاب نہ کروں تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا طریقہ ہے اور آپ مجھ سے بہتر تھے ،آپ نے خلیفہ منتخب نہیں فرمایا۔
🎯اہلسنت کا اس بات پہ اجماع ہے کہ کسی فاسق و فاجر کی امامت میں بھی نماز پڑھی جاسکتی ہے اسطرح تو ہر فاسق و فاجر بھی خلافت کیلئے جائز ٹھہرا۔
👈🏻لیکن تشیع کا موقف قرآن کیمطابق ہے “لَا یَنَالُ عَهْدِی الظّٰلِمِیْنَ”
اہلسنت کے ہاں فاسق فاجر باغی حتکہ کھسرے کے پیچھے نماز ھو جاتی ھے
البخاری
قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ : وَقَالَ لَنَا : مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ خِيَارٍ ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ مَحْصُورٌ ، فَقَالَ : إِنَّكَ إِمَامُ عَامَّةٍ ، وَنَزَلَ بِكَ مَا نَرَى ، وَيُصَلِّي لَنَا إِمَامُ فِتْنَةٍ وَنَتَحَرَّجُ ، فَقَالَ : الصَّلَاةُ أَحْسَنُ مَا يَعْمَلُ النَّاسُ ، فَإِذَا أَحْسَنَ النَّاسُ فَأَحْسِنْ مَعَهُمْ ، وَإِذَا أَسَاءُوا فَاجْتَنِبْ إِسَاءَتَهُمْ ، وَقَالَ الزُّبَيْدِيُّ : قَالَ الزُّهْرِيُّ : لَا نَرَى أَنْ يُصَلَّى خَلْفَ الْمُخَنَّثِ إِلَّا مِنْ ضَرُورَةٍ لَا بُدَّ مِنْهَا .
وہ خود حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے ۔ جب کہ باغیوں نے ان کو گھیر رکھا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ آپ ہی عام مسلمانوں کے امام ہیں مگر آپ پر جو مصیبت ہے وہ آپ کو معلوم ہے ۔ ان حالات میں باغیوں کا مقررہ امام نماز پڑھا رہا ہے ۔ ہم ڈرتے ہیں کہ اس کے پیچھے نماز پڑھ کر گنہگار نہ ہو جائیں ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا نماز تو جو لوگ کام کرتے ہیں ان کاموں میں سب سے بہترین کام ہے ۔ تو وہ جب اچھا کام کریں تم بھی ان کے ساتھ مل کر اچھا کام کرو اور جب وہ برا کام کریں تو تم ان کی برائی سے الگ رہو اور محمد بن یزید زبیدی نے کہا کہ امام زہری نے فرمایا ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہیجڑے کے پیچھے نماز نہ پڑھیں ۔ مگر ایسی ہی لاچاری ہو تو اور بات ہے جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو ۔
Sahih Bukhari#695
کتاب اذان کے مسائل کے بیان میں