.
وقال المحدث الميرزا النوري قدس سره الشريف….
من أنه عرض على الامام الحجة (ع) وأنه قال عنه : ( إن هذا كاف لشيعتنا ) فبين أنه لا أصل له ولا أثر في مؤلفات أصحابنا ، ولم تأت به رواية قط لا صحيحة ولا ضعيفة ، بل صرح المحدث الاسترآبادي – وهو شيخ الأخباريين في عصره – بأنه لا أصل له ولا حقيقة ،
محدث مرزا نوری فرماتے ہے……
کتاب “الکافی” کے بارے میں یہ بات جو کہی جاتی تھی کہ امام زمانہ علیہ السلام کے سامنے پیش کی گئی، اور امام زمانہ علیہ السلام نے کہا کہ یہ کتاب ہمارے شیعوں کے لئے “کافی” ہے، پس یہ واضح ہو کہ “اس روایت کی کوئی اصل نہیں”، اور اس کی تثبیت ہمارے اصحاب کی تالیفات میں نہیں، اور ایسی کوئی روایت صحیح یا ضعیف سند سے موجود نہیں، بلکہ علامہ محدث الاسترآبادی جو اپنے زمانہ میں اخباریوں کے علامہ تھے، وہ خود گویا ہوئے کہ اس روایت کی کوئی اصل اور حقیقت نہیں۔..
حوالہ: خاتمة المستدرك، جلد ١ ، ص ٣٩ ]


(للّه و للحقیقة رد علی کتاب للہ ثم للتاريخ) جلد 2 ص 575؛576 میں الشیخ علی آل محسن نے لکھا ہے کہ : یہ جو اس الکافی کے موثق ہونے کے بارے میں قول نقل کیا جاتا ہے. یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ قول سنداً معتبر نہیں ہے اور اس قول کی کوئی اصل نہیں ہے



علامہ مرتضی عسکری اپنی کتاب میں اس قول کے رد میں عقلی دلیل دیتے ہیں۔
.
چنانچہ علامہ فرماتے ہیں:
وقال السيد مرتضى العسكري أعلى الله مقامه : أما ما قيل من أن المهدي (ع) ، قال : إن الكافي كاف لشيعتنا ، فانه قول مجهول راويه ولم يسم أحد اسمه ، ويدل على بطلانه تأليف مئات كتب الحديث بمدرسة أهل البيت (ع) بعد الكافي مثل : من لا يحضره الفقيه ، ومدينة العلم والتهذيب والاستبصار والبحار ووسائل الشيعة وجامع أحاديث الشيعة ، إلى غيرها ، راجع : ( معالم المدرستين ج 3 – ص 283 )…
ایک مجہول کہنے والے کا یہ کہنا کہ امام مھدی علیہ السلام نے “الکافی” کے بارے میں کہا کہ یہ ہمارے شیعوں کے لئے “کافی” ہے، پس اس کا کہنے والا مجہول راوی اور کسی نے بھی اس کے نام کا تعیین نہیں کیا۔ اس قول کے باطل ہونے کی دلیل یہ ہے کہ “الکافی” کے بعد مدرسہ اہلبیت علیہم السلام کے ماننے والوں نے صدھا کتب حدیث لکھیں جس میں
من لا يحضره الفقيه، مدينة العلم، تھذیب الاحکام، الاستبصار، بحار الانوار، وسائل الشيعة اور جامع أحاديث الشيعة وغیرھم
کتب شامل ہیں….


شیخ باقر الأيرواني
رقم طراز ہیں:
فان هذا لا أصلَ له في مؤلفات اصحابنا بل صرح بعدمه المحدث الاسترابادي
اس قول “کاف لشیعتنا” کی کوئی اصل نہیں ہمارے علماء کی کتب میں جیسا کہ علامہ استرآبادی نے صراحت کی ہے۔
[حوالہ: دروس تمهيدية في القواعد الرجالية، ص ٢٤٣ طبع قم]
.
آیت الله صادق روحانی سے جب اس قول کے بارے میں دریافت کیا گیا تو علامہ رقم طراز ہیں :
وما نُقل عن الإمام الحجّة (أرواحنا فداه) في حقّ الكتاب لم يثبت بسند معتبر.
اور جو امام زمانہ علیہ السلام ہماری ارواح ان پر قربان ہوں، سے “الکافی” کے بارے میں “کاف لشیعتنا” والا قول نقل کیا جاتا ہے تو یہ کسی معتبر سند سے ثابت نہیں……
خير طلب زیدی
.
.
.
کیا الکافی کا مقام شیعوں کے یہاں ویسا ہی ہے جیسا مقام صحیح بخاری کا اھل سنت کے یہاں ہے

جب اھل سنت شیعوں سے بحث کرتے ہیں وہ اکثر یہ جملہ استعمال کرتے ہیں کہ “یہ کتاب الکافی شیعوں کی صحیح بخاری ہے”۔ اس سے وہ عوام الناس کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس کا ہر حوالہ شیعوں پر لازم و ملزوم ہوگا جبکہ حقیقت اسکے برعکس ہے۔
موجود دور میں شیعہ علوم التراث کے محقق آیت اللہ سید محمد حسین جلالی نے اپنے ایک رسالہ میں الکافی کی احادیث کے بارے میں یوں لکھا ہے :
” شیخ یوسف بحرانی نے لؤلؤۃ البحرین صفحہ ۳۹۴ میں کافی کی درج شدہ احادیث کی تعداد کو اس طریقے سے بیان کیا ہے :
صحیح احادیث – ۵۰۷۷
حدیث حسن – ۱۴۴
حدیث موثق – ۱۱۱۸
حدیث قوی – ۳۰۲
حدیث ضعیف – ۹۴۸۰

اس بات کا اعتراف خود اھل سنت کے علماء نے بھی کیا ہے۔ چناچہ اھل حدیثوں کے محدث محمد گوندلوی نے ایک جگہ شیعہ و سنی اختلاف کی وجہ بتاتے ہوئے یوں لکھا ہے :
“نہ کوئی ایک کتاب ایسی ہے جس کی سب حدیثین انکے (شیعوں) یہاں صحیح ہوں۔”۔

الحمدللہ ھم شیعہ صرف قرآن مجید کو قطعی طور صحیح مانتے ہیں باقی جتنی بھی کتب ہیں ان میں غلطی کا امکان ھمیشہ رہے گا۔



