یہ ہے امت مسلمہ کا اصل درد، جہاں ہر فاسق وفاجر کی اطاعت کا حکم دیا جاتا ہے۔
.
اہلسنت کے ہاں مشہور ومعروف کتاب السنۃ میں جناب خلال نے سوید بن غفلۃ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ
مجھے جناب عمر نے کہا: اے ابوامیہ! مجھے معلوم نہیں ، شاید اگلے میں تم سے نہ مل سکوں! اگر تمہارے اوپر ایک حبشی معیوب غلام کو امیر بنایا جائے تو اس کی بات سنو اور اطاعت کرو۔ اگر وہ تجھے مارے تو تم صبر کرو، اگر وہ تجھے محروم رکھے تو تم صبر کرو! اگر وہ تیرا دین سے کچھ کم کرنے کا ارادہ کرے تو کہو کہ میں اطاعت کرتا ہوں……
یہ روایت صحیح ہے۔
.
عن سويد بن غفلة قال قال لي عمر يا أبا أمية إني لا أدري لعلي لا ألقاك بعد عامي هذا فإن أمر عليك عبد حبشي مجدع فاسمع له وأطع وإن ضربك فاصبر وإن حرمك فاصبر وإن أراد أمرا ينقص دينك فقل سمعا وطاعة دمي دون ديني ولا تفارق الجماعة إسناد هذا الأثر عن عمر رضي الله عن صحيح
السنة للخلال ، اسم المؤلف: أبو بكر أحمد بن محمد بن هارون بن يزيد الخلال الوفاة: 311 هـ ، دار النشر : دار الراية – الرياض – 1410هـ – 1989م ، الطبعة : الأولى ، تحقيق : د.عطية الزهراني
.
خلفاء اور حاکم کا جو دل کرے تم نے صرف اطاعت کرنی ہے، دراصل ایسی احادیث خود خلفاء نے گھڑی ہیں اور اس کے لئے بہت بہت راوی استعمال ہوئے ہیں تاکہ لوگوں کو بتائیں کہ ان کو مکمل طور پر چھٹی مل گئی ہے، وہ اگر دین میں کچھ کم کرنے کا ارادہ کریں تو بھی کسی کو ان کے خلاف آواز اٹھانے کا حق نہیں۔
.
چلیں ہم مان لیتے ہیں کہ ہر خلیفہ اور حاکم کی اطاعت ضروری ہے اور ان کے خلاف تلوار اٹھانا حرام ہے۔ بس ایک سوال کا جواب دیں کہ
امیرالمومنین علی بھی تو خلیفہ تھے ان کے خلاف تلوار کھینچنے والوں کا کیا انجام ہوگا؟ کیوں انہوں نے یہ اصول ترک کرکے خلیفہ راشد کے خلاف میدان جنگ سجایا۔

