اہلسنت مکتب میں حدیث لکھنا بدعت ہے۔

اہلسنت مکتب میں حدیث لکھنا بدعت ہے۔
کیونکہ رسول خدا نے اسکو منع کیا ہے۔
ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:
“علماء کا کہنا ہے صحابہ و تابعین کی بڑی جماعت حدیث لکھنے کو مکروہ جانتی تھی بلکہ وہ تاکید کرتے تھے کہ اسے حفظ کرو جیسے ہم نے حفظ کیا۔۔ سب سے پہلے جس نے احادیث کو مدون کیا وہ ابن شہاب الزہری ہیں عمر بن عبدالعزیز کے حکم پر۔۔۔۔”
(فتح الباری)
بقول امام مالک جس نے سب سے پہلے احادیث کی اسناد (نقل کی) وہ “ابن شہاب الزہری” تھے
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم جلد 1 ص 20)
اقول: ابن شہاب الزہری 50 ہجری میں پیدا ہوئے اور اگر ہم انکا اسناد نقل کرنے کا عمل 30 سال کی عمر میں بھی کریں تو 80 ہجری بنتی ہے۔
تو ہم برادران سے پوچھنے کی جسارت کر سکتے ہیں کہ جناب رسول خدا ص کی رحلت کے بعد 70 سال تک کیا احادیث کی اسناد نہیں تھیں؟ یعنی جسکا جو من چاہے وہ حدیث بنا کے پیش کردے؟ نا کوئی سند کا مطالبہ اور نہ ہی نقل اسناد۔۔۔۔۔
بہت نازک صورتحال ہے یہ تو۔۔۔۔۔
امام شہروزی لکھتے ہیں
پہلا شخص جس نے رجال پہ کلام کیا شعبہ بن حجاج ہیں پھر یحی بن سعید قطان نے انکا اتباع کیا پھر اسکے بعد احمد بن حنبل اور یحی بن معین
(مقدمہ ابن الصلاح صفحہ 424 چھاپ مکتبہ رحمانیہ)
ہم برادران سے پوچھنے کے مجاز ہیں کہ شعبہ بن حجاج 83 ہجری میں پیدا ہوئے اور یہ تبع تابعین میں سے تھے یعنی برادران کے ہاں رجال پہ کلام 100 ہجری کے بعد ہی شروع ہوا تو جب 90 سال تک احادیث بغیر راویان کی تحقیق کے گردش کر رہی تھیں تو جو ہونا تھا وہ تو ہوگیا:)