عثمان بن عفان کی بیٹی کی فریاد اور معاویہ کا قصاص کے معاملے سے فرار

ابن تیمیہ لکھتا ہے
وَمِمَّا یُبَیِّنُ ذَلِکَ أَنَّ مُعَاوِیَةَ قَدْ أَجْمَعَ النَّاسُ عَلَیْهِ بَعْدَ مَوْتِ عَلِیٍّ، وَصَارَ أَمِیرًا عَلَى جَمِیعِ الْمُسْلِمِینَ، وَمَعَ هَذَا فَلَمْ یَقْ — تُلْ قَ — تَلَةَ عُثْمَانَ الَّذِینَ کَانُوا قَدْ بَقَوْا، بَلْ رُوِیَ عَنْهُ أَنَّهُ [لَمَّا] قَدِمَ الْمَدِینَةَ حَاجًّا فَسَمِعَ الصَّوْتَ فِی دَارِ عُثْمَانَ: ” یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَاهُ، یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَاهُ ” ، فَقَالَ: مَا هَذَا؟ قَالُوا: بِنْتُ عُثْمَانَ تَنْدُبُ عُثْمَانَ. فَصَرَفَ النَّاسَ، ثُمَّ ذَهَبَ إِلَیْهَا فَقَالَ: یَا ابْنَةَ عَمِّ إِنَّ النَّاسَ قَدْ بَذَلُوا لَنَا الطَّاعَةَ عَلَى کُرْهٍ، وَبَذَلْنَا لَهُمْ حِلْمًا عَلَى غَیْظٍ، فَإِنْ رَدَدْنَا حِلْمَنَا رَدُّوا طَاعَتَهُمْ؛ وَلَأَنْ تَکُونِی بِنْتَ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ خَیْرٌ مِنْ أَنْ تَکُونِی وَاحِدَةً مِنْ عُرْضِ النَّاسِ، فَلَا أَسْمَعَنَّکِ بَعْدَ الْیَوْمِ ذَکَرْتِ عُثْمَانَ.
اسی طرح جب لوگ حضرت علی ع کی وفات کے بعد معاویہ کی حکومت پر جمع ہوگئے اور وہ سب مسلمانوں کا حاکم بن گیا تو اس نے عثمان کے قا — تلوں سے بدلہ نہیں لیا جو باقی بچ گئے تھے بلکہ یہاں تک مروی ہے کہ جب معاویہ مدینہ میں آیا تو اس نے معاویہ کے گھر سے آواز سنی اے امیر المومنین ، اے امیر المومنین ، تو معاویہ نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ بتایا گیا یہ عثمان بن عفان کی بیٹی ہے جو عثمان کا غم کر رہی ہے , معاویہ اسکے پاس گیا اور کہا اے چچا کی بیٹی ، لوگوں نے کراہت سے ہماری بیعت کی ہے ، اگر ہم اپنا حلم لوٹا دیں تو لوگ بھی اپنی بیعت لوٹا دیں گے ، لہذا میں آئندہ یہ نہ سنوں کہ تم نے عثمان کا ذکر کیا ہے ۔
📗 منھاج السنة – (٤/٤٠٧)