اہل سنت کے جید عالم ابن شبہ النمیری اپنی کتاب تاریخ المدینہ میں صحیح السند کے ساتھ لکھتے ہیں
ملاحضہ فرمائیں 

حَدَّثَنَا أَبُو مُطَرِّفِ بْنُ أَبِي الْوَزِيرِ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ بَجَالَةَ قَالَ: مَرَّ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِغُلَامٍ مَعَهُ مُصْحَفٌ وَهُوَ يَقْرَأُ {النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ} [الأحزاب: ٦] (وَهُوَ أَبٌ لَهُمْ) فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَا غُلَامُ حُكَّهَا، فَقَالَ: هَذَا مُصْحَفُ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، فَذَهَبَ إِلَى أُبَيٍّ فَقَالَ: مَا هَذَا؟ فَنَادَى أُبَيٌّ بِأَعْلَى صَوْتِهِ، أَنْ كَانَ يَشْغَلُنِي الْقُرْآنُ، وَكَانَ يَشْغَلُكَ الصَّفَقُ بِالْأَسْوَاقِ،
راوي کہتا ہے: حضرت عمر ایک لڑکے کے پاس سے گزرے جس کے پاس ایک مصحف ( قرآن) تھا جب کہ وہ تلاوت کر رہا تھا:
النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ
وَهُوَ أَبٌ لَهُمْ



تو (یہ سن کر) حضرت عمر نے کو (غصہ آیا) اور کہا : اے لڑکے اسے مٹا دو، اس لڑکے نے کہا: یہ قرآن ابی بن کعب والا ہے ، تو حضرت عمر حضرت ابی کے پاس گئے اور کہا: یہ کیا ہے؟ تب ابی ابن کعب نے اپنی بلند آواز میں پکارا، ( اے عمر) میں قرآن پڑھنے میں مشغول تھا اور تم بازاروں میں تالیاں بجانے میں مشغول تھے۔‘‘
كتاب تاريخ المدينة لابن شبة جلد اول صفحہ نمبر708

