عمر بن خطاب کی انوکھی عاجزی و انکساری

علامہ شمس الدین ذہبی زید بن وہب کے تذکرہ میں لکھتے ہیں
یہ جلیل القدر اور ثقہ تابعین میں سے ایک ہیں ان سے استدلال کرنے پر اتفاق پایا جاتا ہے، البتہ یعقوب فسوی کی رائے مختلف ہے
فسوی نے کہا ہے کہ انکی روایات میں خلل پایا جاتا ہے، تاہم فسوی کا یہ قول درست نہیں ہے پھر انھوں نے حضرت عمر کا یہ قول نقل کیا ہے۔
“اے حذیفہ! اللہ کی قسم میں منا_فقین میں سے ایک ہوں”
فسوی کہتا ہے کہ یہ بات ناممکن ہے مجھے یہ اندیشہ ہے کہ یہ روایت جھوٹی ہے ان کی نقل کردہ روایات کے ضعیف ہونے پر اس بات سے بھی استدلال کیا جاسکتا ہے کہ انھوں نے حذیفہؓ کے حوالے سے یہ حدیث نقل کی:
“اگر دجال نکل آیا تو وہ شخص اسکی پیروی کرے گا جو عثمان سے محبت کرتا ہوگا”
یہ اس سے منقول وہ روایت ہے جو فسوی نے منکر قرار دی ہے
فسوی سے پہلے کسی نے اسےمنکر قرار نہیں دیا۔
🔴ذہبی کا کہنا ہے کہ اگر ہم اس طرح کے وسوسوں کو آنے دیں تو ہمیں بہت سی ثابت شدہ سنتوں کو فاسد وہم کی بنیاد پر مسترد کرنا پڑے گا اور بطورِ خاص زید بن وہب کے بارے میں یہ دروازہ نہیں کھول سکتے۔
[📒میزان الاعتدال اردو جلد سوم]
[📙المطالب العالیہ ابن حجر عسقلانی اسنادہ صحیح]
[📓المعرفة والتاریخ فسوی]
🔰نوٹ؛ اہلسنت شارحین و محققین کا کہنا ہے کہ عمر بن خطاب کا یہ کہنا غلبہِ خوف اور عاجزی و انکساری کیوجہ سے تھا
لیکن قرآن و احادیث سے کوئی ایک دلیل بھی نہیں کہ انبیاء یا اولیاء میں سے کسی نے آج تک انکساری یا غلبہ خوف میں اپنے منا_فق ہونے کا اعتراف کیا ہو بلکہ کئی آیات و روایات میں انبیاء و آئمہؑ کا امت کی رہنمائی واسطے استغفار کرنا اور بارگاہِ الہٰی میں مناجات کرنا ثابت ہے۔
پس ثابت ہوا کہ یہ عاجزی و انکساری نہ تھی بلکہ میرے رسولﷺ اور انکی آلؑ کا اعجاز ہے کہ انکے د__شمنوں کو اللہ تعالیٰ نے بے نقاب کیا اور انھی کی زبانی اعتراف کروائے۔