کوفہ کی اکثریت اہلسنت کی تھی

کوفہ کی اکثریت اہلسنت کی تھی /ابن تیمیہ نے اپنی کتاب مہناج السنۃ میں نقل کیا ہے کہ ابو اسحاق نے کہا ” میں کوفہ سے نکلا اس حال میں کہ وہاں کوی ایسا نہیں تھا جو ابوبکر و عمر کی فضیلت کا منکر ہو.
اس سے واضح ہو گیا کہ قاتلین امام حسین علیہ السلام کا عقیدہ کیا تھا. رافضی ابوبکر اور عمر کو کہاں منھ لگاتے ہیں.
.
.
.
.
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ایام محرم آتے ہی شیعہ کی مخالفت شروع ہو جاتی ہے جن کا مقصد شیعہ کی ضد میں انتشار پھیلانا ہوتا ھے ان ایام محرم میں مجھے کئ تحریریں دیکھنے کو ملی جس میں کوفہ اور اہل کوفہ طعن کیا گیا ھے
تو سوچا ایک ایسی تحریر لکھی جاۓ جس میں یہ واضح ہو کہ اہل کوفہ میں کون لوگ تھے جو کہ اس میں آباد تھے اور قتل حسین ؑ کے وقت وہ موجود تھے اور وہ اہل کوفہ میں سے تھے
چونکہ نواصب کو اور تو کچھ آتا نہیں وہ کہہ دیتے ہیں کہ جی کوفیوں نے ہی امام حسین ؑ کو قتل کیا ھے
ہم واضح کرتے ہیں کہ کوفہ شہر کو آباد کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ جناب عمر بن الخطاب کا تھا اس لیے یہ جہالت ھے کہ اہل کوفہ میں سب شیعہ تھے
شبلی نعمانی اپنی کتاب الفاروق میں لکھتے ہیں
اس کوفہ شہر کی آباد کاری کی بنیاد 17 ھجری میں رکھی گئ اور اس میں 40 ہزار کنبوں کی آباد کے قابل مکانات بنواۓ گئے
اور ہباج بن مالک کے اہتمام سے عرب جدا جدا قبیلے جدا جدا محلوں میں آباد ہوۓ
شہر کی ساخت و بناوٹ کے لیے خود عمر بن الخطاب کا تحریری حکم نامہ آیا تھا سڑکیں 40 ہاتھ 30 ہاتھ رکھی جائیں اور گلیاں 70 ہاتھ چوڑی ہوں
ایسے ہی مسجد گارے اور اینٹ پھتر کے لیے بھی عمر بن الخطاب کی اجازت سے بنائ گئ تھی
شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ یہ شہر عمر ؓ کے زمانے میں ہی عظمت و شان کو پہنچا اور عمر بن الخطاب خود اس کو راس الاسلام یعنی اسلام کا سر کہتے تھے
آگے آنے والی تحریر میں ہم فقھاء کوفہ کا بھی مختصر تذکرہ کریں گے
شبلی نعمانی مزید لکھتے ہیں کہ 64 ھجری میں اس شہر کی مردم شماری ہوئ تو اس کی 50 ھزار گھر قبیلہ ربیعہ و مضر اور 42 ہزار گھر اور قبائل کے تھے ایسے ہی اہل یمن کے 6 ھزار گھر تھے
اس شہر کی علمی حثییت یہ ھے کہ فن نحو کی ابتداء یہیں سے ہوئ جب امیر المومنین ؑ ابو الاسود الدؤلی کو علم نحو سکھایا اور انہوں نے اس پر کام کیا اس کے
اسی اہل کوفہ پر بکواس مارنے والے احناف کی فقہ نے بھی یہی سے جنم لیا کیونکہ ابو حنیفہ قاضی ابو یوسف وغیرہ نے جو مجالس علمی منقعد کیں وہ بھی کوفہ میں کیں وہ خود بھی کوفی تھے
اس کے علاوہ آئمہ اھلسنت جن کے بارے میں حنبلیوں حنیفیوں کو کچھ علم نہیں اور بلا سوچے سمجھے شیعوں پر چڑھ دوڑتے ہیں وہ بھی کوفہ کے تھے
جن میں ابراہیم نخعی, امام حماد بن سلمہ, ابو حنیفہ, اور شعبی جیسے محدثین تابعین کوفہ سے تعلق رکھتے تھے
طبقات الکبیر جلد 6 ص 33,34
الفاروق حصہ دوئم ص 38,39
کوفہ کی منزلت و عظمت پر کثیر روایات ہیں لیکن ہمارا مدعا کوفہ کی عظمت و منزلت نہیں بلکہ شیعوں پر اٹھنے والے اعتراضات کا جواب ھے
اوپر واضح کر دیا کہ کوفہ کو عمر ابن خطاب نے اباد کروایا اور اس میں بے شمار عقائد کے لوگ تھے نہ کہ تمام لوگ شیعہ
اس لیے آپ کا شیعوں پر طعن سواۓ جہالت کے کچھ نہیں کیونکہ آپ تاریخ سے انتہائ جاہل اور ناواقف ہیں
اب ہم چند ایک ان اصحاب کا ذکر کریں گے جو کہ واقعہ کربلا کے وقت کوفہ میں موجود تھے اور حسین ؑ کی مدد کو نہ آۓ
کیونکہ مسلمانوں کا وطیرہ بن چکا ھے کہ تحقیق تو کرنی نہیں اور اہل کوفہ پر سب و شتم شروع کر دینا ھے
پہلے صحابی
1 حضرت زید بن ارقم ؓ
قبیلہ الحارث بن خزرج کے انصاری صحابی ہیں کوفہ کے محلہ کندہ میں اپنا مکان بنایا
کربلا کے واقعہ کے وقت زندہ تھے اور کوفہ میں اور شام میں رھے زمانہ مختار ثقفی میں وفات پائ
سر حسین ؑ کے نوک نیزہ پر تلاوت کرنے کے راوی بھی ہیں اور بھی متعدد روایات ان سے نقل ہیں
2 عبداللہ بن یزید ؓ
یہ ابن زید الخطمی انصاری ہیں کوفہ میں آباد ہوۓ اور وہیں مکان بنایا عبداللہ بن زبیر کی خلافت کے زمانہ میں کوفہ میں ہی وفات پائ
عبداللہ بن زبیر کا زمانہ خلافت واقعہ کربلا کے بعد کا ھے
3 عبداللہ بن ابی اوفی ؓ
یہ صحابی رسول ﷺ تھے بیعت رضوان میں شریک ہوۓ وفات رسول ﷺ تک مدینے میں رھے بعد میں کوفہ آکر آباد ہوۓ اس کے 87 ھجری میں کوفے میں وفات پائ
کہا جاتا ھے کہ کوفہ میں یہ آخری صحابی تھے جنہوں نے وفات پائ
کربلا کا واقعہ ان کے زمانے میں آیا لیکن حسین ؑ کی مدد نہیں کی
4 عدی بن حاتم ؓ
محلہ طے میں رھے جمل میں امیر المومنین ؑ کے ساتھ تھے اور ایک آنکھ ضائع ہوئ مختار کے زمانہ میں کوفہ میں وفات پائ
5 جریر بن عبداللہ ؓ
جس سال رسول خدا ﷺ نے وفات پائ اسی سال اسلام لاۓ تھے صحابی تھے رسول خدا نے انکو ذی الخلصہ کی طرف بھیجا تھا اس کے بعد یہ کوفہ میں آباد ہوۓ اور محلہ بجیلہ میں گھر بنایا کوفے میں وفات پائ جب کوفہ پر ضحاک بن قیس کی حکومت تھی
یعنی کہ کربلا کے واقعہ کے وقت ذندہ تھے پر حسین ؑ کی مدد کو نہ پہنچے
6 عمرو بن حریث ؓ
رسول خدا ﷺ کی وفات کے وقت بارہ سال کے تھے کوفے میں آباد ہوۓ اور وہیں گھر بنایا
زمانہ خلافت علی ؑ میں کچھ عرصہ کوفہ کے گورنر بھی رھے
سن 85 ھجری میں کوفہ میں ہی وفات پائ اس وقت کوفہ میں عبدالملک بن مروان کی حکومت تھی
واقعہ کربلا کا زمانہ پایا لیکن مدد حسین ؑ کو نہ پہنچ سکے
7 مشہور صحابی جابر بن سمرہ ؓ
بنو زہرہ بن کلاب کے حریف تھے کینیت ابو عبداللہ کوفہ میں آباد ہوۓ عبدالملک بن مروان کے زمانہ کوفہ میں وفات پائ
8 مخنف بن سلیم ؓ
یہ صحابی تھے جنگ صفین میں امیر المومنین علی ؑ کے ساتھ تھے کوفے میں آباد ہوۓ اور وہیں ان کا بیٹا ابو مخنف لوط بن یحیی پیدا ہوا جس نے مقتل حسین ؑ پر پہلی کتاب لکھی
واقعہ کربلا تک زندہ تھے
9 سوید بن غفلہ ؓ
خلفاء کا زمانہ پایا تابعین میں سے تھے جنگ صفین میں علی ؑ کے ساتھ تھے
حجاج نے انکو آذان اور امامت سے ہٹا دیا تھا
کوفہ میں آباد رھے اور عبدالملک بن مروان کے زمانہ حکومت میں 81 یا 82 ھجری میں وفات پائ
واقعہ کربلا کے وقت میں زندہ تھے مگر واقعہ کربلا میں ان کے حالات نہیں ملتے
10 اسود بن یزید ؓ
یہ قبیلہ مذحج سے علقمہ بن قیس کے بھتیجے تھے
خلفاء کا زمانہ پایا 75 ھجری میں وفات پائ کوفہ میں مقیم رھے تابعین میں سے تھے
الطبقات الکبیر لابن سعد کاتب واقدی
ج 6 ص 34 تا 66
اور بھی ایسے تابعین اور اصحاب ہیں جن کا تذکرہ نہیں کیا محض تحریر لمبی ہونے کے ڈر سے
اہل کوفہ پر لعنت کرنا ایسا ہی ھے جیسے آپ خود اصحاب رسول خدا ﷺ کے گستاخ ہیں
کیونکہ کوفہ میں ایسے کئ اصحاب تھے جو محض جان کے خوف سے کربلا میں شریک نہ ہوۓ اگر آپ اہل کوفہ کو کافر یا مشرک کہیں گے تو کوئ بعید نہیں آپ انجانے میں اصحاب رسول خدا ﷺ کی گستاخی کر رھے ہیں
باقی ہم جانتے ہیں اگر جان کے خوف سے چند جید اصحاب اگر کربلا نہ پہنچ سکے یا چند اصحاب اپنی عمر کے زیادہ ہونے کی وجہ سے نہ پہنچ سکے تو ایسے
اہل کوفہ میں سے چند ایسے بزرگان جو مدد حسین ؑ کو نہ جا سکے ان کو بھی ابن زیاد کی طاقتور فوج نے قتل کی دھمکیاں دیں جس کی وجہ سے بعض افراد پیچھے ہٹ گئے تھے
تحریر و تحقیق سید ساجد بخاری