کیا امام باقر علیہ السلام نے جناب ابوبکر کو “صدیق” کہا؟

کیا امام باقر علیہ السلام نے جناب ابوبکر کو “صدیق” کہا؟
.
اہلسنت حضرات کشف الغمہ سے ایک روایت پیش کرکے ابوبکر کی فضیلت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ:
🚫 کچھ لوگ امام باقرؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ع سے پوچھا کہ کیا تلوار پر چاندی کا کام کرانا جائز ہے تو آپؑ نے فرمایا ہاں کوئی حرج نہیں کیونکہ ابوبکر صدیق بھی ایسا کرتے تھے اس پر لوگوں نے کہا کیا آپ ابوبکر کو صدیق کہتے ہو ؟ تو امام باقر ع کھڑے ہوئے اور فرمایا ہاں ابوبکر صدیق ہے جو انکو صدیق نہ مانے اللہ اس کو سچا نہ کرے۔ 🚫
.
اس روایت کو علامہ اربلی صاحب کشف الغمہ نے اہلسنت کی کتب سے نقل کی ہے جیسا کہ وہ خود فرماتے ہیں :
▪شیخ ابن جوزی نے اپنی کتاب صفة الصفوة میں اس روایت کو نقل کیا ہے۔
حوالہ : [ کشف الغمہ – جلد ٣ – صفحہ ١٣۵ ]
لہذا یہ روایت اہلسنت مصادر سے نقل ہوئی ہے جس کی وضاحت خود علامہ اربلیؒ نے کی۔ ابوالفرج ابن جوزی سنی امام اور محدث ہیں۔ انکے بارے میں علامہ ذھبی اپنی کتاب سیر اعلام النبلاء میں لکھتے ہیں :
▪ شیخ ، امام ،علامہ ، حافظ ، مفسر ، شیخ الاسلام (ابن جوزی)
حوالہ : [سیر اعلام النبلاء – جلد ٢١ – صفحہ ٣٦۵ ]
.
اس روایت کو اہلسنت امام دارقطنی نے فضائل صحابہ، امام احمد نے فضائل صحابہ اور ابی نعیم نے حلیة اولیاء میں سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔
🔺 حدثنا أبي قال : نا إبراهيم بن شريك ، قال : نا عقبة بن مکرم ، قال : نا يونس بن بكير ، عن أبي عبدالله الجعفي ، عن عروة ابن عبدالله ، قال : سألت أبا جعفر محمد بن علي ، ما قولك في حلية السيف؟
▪اس سند میں موجود “عمرو بن شمر” مجروح راوی ہے جسکو جوزجانی نے کذاب ، ابن حبان نے غالی ، بخاری نے منکر الحدیث ، دارقطنی نسائی اور دیگر حضرات نے متروک الحدیث کہا ہے.
حوالہ : [ فضائل الصحابہ – صفحہ ٧٦ ]
: [ میزان الاعتدال – جلد پنجم – صفحہ ٣٢٢ ]
▪اس روایت کا مرکزی راوی عروہ مشہور سنی راوی ہے جبکہ یہ شیعہ علم رجال کیمطابق مجہول ہے اسکے بار میں علامہ جواھریؒ لکھتے ہیں :
« عروة بن عبدالله : بن بشيره تشير ، أبومهمل الجعفي الكوفي من أصحاب الصادق (ع) ـ مجهول»
حوالہ : [ المفید من معجم رجال الحدیث – صفحہ ٣٧٣ ]
تبصرہ : جو روایت فضیلت ابوبکر میں امام باقر ع سے منسوب کر کے پیش کی جا رہی ہے خود برداران اہل سنت کے معیار کے مطابق بھی مردود ہے کیونکہ اس کے راویان ناقابلِ اعتماد ہیں اور شیعہ علمِ رجال کے اعتبار سے بھی یہ روایت ناقابلِ احتجاج ہے ۔۔کشف الغمہ میں ایسی روایات عامہ سے منقول ہیں ۔۔ جیسا کہ صاحب کشف الغمہ نے بھی اپنی کتاب کے مقدمے میں واضح کیا ہے کہ وہ عامہ و خاصہ دونوں کی کتب سے روایات اخذ کر رہے ہیں۔