معاویہ شرابی تھا

عبداللہ بن بریدہ بیان کرتے ہیں میں اور میرے والد معاویہ کے پاس گۓ تو انہوں نے ہمیں بستر پر بیٹھایا پھر ہمارے لیے کھانا لایا گیا تو ہم نے کھایا پھر شراب لائ گئ تو معاویہ نے پی پھر میرے والد نے پکڑی تو کہا جب سے رسولﷺ نے اسے حرام کیا ہے تب سے میں نے اسکو نہیں پیا ۔
حافظ نورالدین ہمیثی نے اس روایت کو
مجمع_الزوائد میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اسکو امام احمد نے روایت کیا ہے اور انکے تمام راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں لیکن انہوں نے اس جملے کو حدیث کے اندر سے حذف کر دیا
.
ما شربتہ منذ حرمہ رسولﷺ
جب سے رسولﷺ نے اسے حرام کیا ہے تب سے میں نے اسکو نہیں پیا
.
خود اعتراف کرتے ہوۓ لکھتے ہیں
وفیی کلام معاویة شی۔۔۔۔۔۔
معاویہ کے کلام میں کوئی چیز تھی جسے میں نے چھوڑ دیا
مجمع الزوائد جلد5۔ص42
.
ایسا ہی انہوں نے اپنی اس کتاب میں بھی کیا ہے جس میں انہوں نے مسند احمد کی وہ حدثیں جمع کی ہیں جو صحاح ستہ کے علاوہ ہیں
غایة المقصد فی زوائد المسند 4۔115 حدیث4045
.
یہ حافظ صاحب کی دیانت داری ہے کہ انہوں نے خود ہی بتا دیا کہ انہوں نے وہ جملہ حزف کر دیا ہے جس سے معاویہ کی شراب نوشی ثابت ہوتی ہے
.
سوال پیدا ہوتا ہے آخر انہوں نے ایسا کیوں کیا جبکہ انکو نزدیک اس روایت کی سند بھی صحیح ہے کیا کوئی صحابی کہا جانے والا شخص بادشاہ بن جاۓ اور پھر وہ کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب ہو تو اس پر پردہ ڈالنا اور اسکی خاطر احادیث صحیحہ سے جملے حذف کرنا شرعی حکم ہے؟
.
اگر یہ جملہ حذف کرنا اتنا ضروری ہوتا تو عبداللہ بن بریدہ اور انکے بعد والے راویوں نے حزف کیا ہوتا۔
قارئین کرام کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ جملہ
مجمع_الزوائد کے قدیم نسخے سے تو مخزف ہے
مگر دارالفکراوردرالکتب العلمیتہ بیروت محقیقین نے اس جملے کو مسند احمد سے لے کر پھر مجمع الزوائد میں شامل کر دیا ہے
مگر قوسین کے اندر ۔لیکن شیخ حسین سلیم اسد کی تحقیق سے جو مجمع الزوائد شائع ہوئ ہے اس میں شیخ موصوف نے اس جملے کو ناپسندیدہ قرار دیا ہے
میں پوچھتا ہوں معاویہ کے متعلق شیخ موصوف کتنے جملوں کو ناپسندیدہ کرار دیں گے؟
دو شرابی نشے میں دھت
معاویہ کو شراب نوشی کا شوق اس قدر تھا کہ اس نے شراب کے نشے میں مدہوش ہو
کر شراب کی تعریف میں اشعار بھی کہے ہیں۔ ہم تاریخ ابن عساکر میں دو شرابی نشے
میں دھت دوستوں یعنی معاویہ اور عبداللہ بن الحارث کی داستان پڑھتے ہیں جو اپنے
پرانے وقت کو یاد کرتے ہیں اور جن کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے درمیان
کچھ اور ہی قسم کی دوستی تھی جو دو مرد ایک دوسرے سے عموما و فطرتا نہیں کیا
کرتے
عنبسہ بن عمرو نے بیان کیا ہے کہ عبداللہ بن الحارث بن امیہ بن عبدشمس معاویہ کے
پاس آیا تو معاویہ اس کے اتنا قریب آگیا کہ معاویہ کے گھٹنے عبداللہ کے سر کو چھو
رہے تھے، پھر معاویہ نے عبداللہ سے پوچھا: ‘تم میں اب کیا باقی رہ گیا ہے؟’۔ اس نے
جواب دیا کہ باخدا میرے پاس اب کچھ نہیں رہ گیا، میرا اچھا اور برا سب چلا گیا ہے۔
معاویہ نے کہا کے باخدا، اچھائی نے تمہارا دل تو چھوڑدیا لیکن برائی اب بھی بہت سی
برائی رہتی ہے تو اب ہم تمارے لئے کیا کرسکتے ہیں؟ عبداللہ نے جواب دیا کہ اگر تم
نے کچھ اچھا فعل کیا تو میں شکریہ بھی نہیں کہونگا لیکن اگر کوئی برا کام کیا تو میں
تمہیں الزام دونگا۔ معاویہ نے کہا، باخدا، تم میرے ساتھ انصاف نہیں کررہے۔ عبداللہ نے
جواب دیا، میں نے تمہارے ساتھ انصاف کیا کب ہے؟ باخدا میں نےتمہارے بھائی حنظلہ
کا سر زخمی کردیا اور میں نے اس کا ہرجانہ بھی ادا نہ کیا۔ میں یہ اشعار پڑھا کرتا تھا :
صخر بن حرب۔ ہم تمہیں مالک تسلیم نہیں کرتے، ہمارے علاوہ کسی اور پر جاکر
حکمرانی کرو، تم ہمارے مالک نہیں ہو۔
اور تم کہا کرتے تھے )اشعار ):
میں نے شراب پی حتیٰ میں اپنے یار کے اوپر بوجھ بن گیا، اور میرا ایک یار ہوا کرتا
تھا۔
پھر عبداللہ نے معاویہ کے اوپر چھلانگ لگائی اور اس کو مارنے لگا جبکہ معاویہ آگے
ہوا اور قہقہا مارنے لگا۔
تاریخ ابن عساکر، ج 27 ص 312 ترجمہ نمبر 323