امام علی کا باجماعت نماز تراویح سے منع کرنا

حضرت علی ع نے کوفہ پہنچ کر لوگوں کو نماز تراویح سے منع فرمایا
.
📜 علي بن الحسن بن فضال عن أحمد بن الحسن عن عمرو بن سعيد المدائني عن مصدق بن صدقة عن عمار عن أبي عبدالله قال: سألتـه عـن الصلاة في (شهر) رمضان في المساجد؟ قال: لما قدم أميرالمؤمنين لل الكوفة أمر الحسن بـن عـلـي أن يـنـادي فـي النـاس: لاصلاة في شهر رمضان في المساجد جماعة، فنادى في الناس الحسن بن علي بما أمره أميرالمؤمنين فلما سمع النـاس مـقالة الحسـن بـن عـلـي صـاحوا: واعـمراه واعمراه! فلما رجع الى أمير المؤمنين قال له: ما هذا الصوت؟ فقال: يا أمير المؤمنين يصيحون: واعمراه واعمراه، فـقال أمير المؤمنين قـل لـهـم: صلوا .
📝 امام جعفر ع سے رمضان کی راتوں میں مساجد میں نماز کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا امام علی ع جب کوفہ پہنچے تو آپ ع نے امام حسن ع کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں جاکر اعلان کرا دیں کہ نمازِ تراویح مساجد میں نہ ہوگی تو امام حسن ع نے ایسا ہی کیا ۔ جب لوگوں نے امام حسن ع کا اعلان سنا تو چیخ اٹھے ” ہائے عمر ، ہائے عمر ” ۔ جب امام حسن ع واپس امام علی ع کے پاس پہنچے تو آپ نے ان سے پوچھا کہ یہ آوازیں کیسی ہیں ؟ تو امام حسن ع نے فرمایا کہ لوگ کہہ رہے ہین ہائے عمر ہائے عمر ، تو آپ ع نے فرمایا کہ کہہ دو کہ وہ نماز(تراویح) پڑھ لیں .¹
✔ اس روایت کو آیت اللہ محسنی رح نے معتبر کہا ہے ²
📚 1- تهذيب الأحكام – الشيخ الطوسي – ج ٣ – الصفحة ٧٠
📚 2- معجم الاحادیث المعتبرۃ – ج ۲ – ص ۱۵۷-۱۵۸
حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام نے نماز تراویح پڑھنے والوں کو انکے حال پر کیوں چھوڑ دیا ؟
امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب ع نے پہلے لوگوں کو تراویح سے منع فرمایا لیکن لوگ نہیں مانے تو انکو انکے حال پر چھوڑ دیا ۔
قرآن میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
{ خُذِ ٱلۡعَفۡوَ وَأۡمُرۡ بِٱلۡعُرۡفِ وَأَعۡرِضۡ عَنِ ٱلۡجَـٰهِلِینَ }
[Surah Al-Aʿrāf: 199]
آپ درگزر کو اختیار کریں نیک کام کی تعلیم دیں اور جاہلوں سے ایک کناره ہو جائیں۔
*عدم جواز الجماعة في صلاة النوافل في شهر رمضان*
.
*ماہ رمضان میں نافلہ نماز (نماز تراویح وغیرہ) کو جماعت میں پڑھنے کا عدم جواز*
الشيخ هادي النجفي ؒ نے اپنی کتاب ** موسوعة أحاديث أهل البيت ؑ ** کی جلد چہارم میں اس باب کو باندها ہے اور اس میں ان روایات کو نقل کیا ہے کہ جن میں معصومین ؑ نوافل کی ادائیگی جماعت کے ساتھ کرنے سے ممانعت فرمائی ہے۔ اس باب میں مولف نے ٤ روایات نقل کی ہیں جن میں سے ٣ روایات کی سند ان کے نزدیک صحیح و معتبر ہیں ۔
📜 1 – الكليني، عن علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن حماد بن عيسى، عن إبراهيم بن عثمان، عن سليم بن قيس الهلالي قال: خطب أمير المؤمنين (عليه السلام) فحمد الله وأثنى عليه ثم صلى عن النبي (صلى الله عليه وآله وسلم) ثم قال: ألا إن أخوف ما أخاف عليكم خلتان اتباع الهوى وطول الأمل – إلى أن قال – قد عملت الولاة قبلي أعمالا خالفوا فيها رسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم) متعمدين لخلافه فاتقين لعهده مغيرين لسنته ولو حملت الناس على تركها لتفرق عني جندي حتى أبقى وحدي أو قليل من شيعتي – إلى أن قال – والله لقد أمرت الناس أن لا يجتمعوا في شهر رمضان إلا في فريضة وأعلمتهم ان اجتماعهم في النوافل بدعة فتنادى بعض أهل عسكري ممن يقاتل معي، يا أهل الإسلام غيرت سنة عمر، ينهانا عنالصلاة في شهر رمضان تطوعا ولقد خفت أن يثوروا في ناحية جانب عسكري، الحديث .
الرواية صحيحة الإسناد.
📝 سلیم بن قیس الهلالي العامري ؒ روایت بیان کرتے ہیں کہ امیرالمومنین علي ابن ابيطالب ؑ نے خطبه دیا اور خدا کی حمد و ثناء کے بعد درود بر مصطفی ﷺوآله کے بعد فرمایا:
تمهارے بارے میں مجهے سب سے زیادہ دو چیزوں کے متعلق خوف ہے، ایک خواہشِ نفس کی پیروی اور دوسری لمبی امیدیں ،،،، اور پهر فرمایا: مجھ سے پہلے حکام نے کچھ کام کیئے ہیں جن میں انهوں نے جان بوجھ کر سنت رسول الله ﷺوآله کی مخالفت کی اور آپ ؑ کی سنت کو تبدیل کیا، اب ( صورت حال یہ ہے کہ) اگر میں لوگوں کو اس (غلط) طریقہ کو ترک کرنے پر آمادہ کروں تو میرا لشکر بهی مجھ سے علیحدہ ہو جائے گا اور میں تنہا رہ جاؤں گا یا چند میرے مخلص شیعہ باقی رہ جائیں گے ،،،، بخدا میں نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ ماہِ رمضان میں سوائے نماز فریضہ کے ( اور کسی جماعت کیلئے) جمع نہ ہوں ( نمازِ تراویح نہ پڑهیں) اور میں نے بتایا کہ نوافل میں جماعت بدعت ہے تو میرے بعد لشکریوں نے جو میرے ہمراہ ہو کر (دشمن سے) جنگ کر رہے ہیں اعلان کرایا ہے کہ اے اہلِ اسلام! عمر بن خطاب کی سنت تبدیل کی جا رہی ہے، یہ (عليؑ) ہمیں ماہِ رمضان میں نمازِ نافلہ پڑهنے سے منع کرتے ہیں اور (یہ کیفیت دیکھ کر) مجهے اندیشہ ہوا کہ میرے لشکر کے اندر ایک فتنہ برپا نہ ہو جائے ،،،، ۔۔۔۔
اس روایت کی سند صحیح ہے ۔۔۔
📜 2 – محمد بن علي بن الحسين بأسانيده عن زرارة ومحمد بن مسلم، والفضيل أنهم سألوا أبا جعفر الباقر (عليه السلام) وأبا عبد الله الصادق (عليه السلام) عن الصلاة في شهر رمضان نافلة بالليل في جماعة؟ فقالا: إن رسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم) كان إذا صلى العشاء الآخرة انصرف إلى منزله ثم يخرج من آخر الليل إلى المسجد فيقوم فيصلي فخرج في أول ليلة من شهر رمضان ليصلي كما كان يصلي فاصطف الناس خلفه فهرب منهم النبي بيته وتركهم ففعلوا ذلك ثلاث ليال فقام في اليوم الرابع على منبره فحمد الله وأثنى عليه ثم قال:
أيها الناس ان الصلاة بالليل في شهر رمضان من النافلة في جماعة بدعة وصلاة الضحى بدعة ألا فلا تجمعوا ليلا في شهر رمضان لصلاة الليل ولا تصلوا صلاةالضحى فإن تلك معصية ألا وان كل بدعة ضلالة وكل ضلالة سبيلها إلى النار ثم نزل وهو يقول قليل في سنة خير من كثير في بدعة ۔
الرواية صحيحة الإسناد.
📝 زرارہ، (محمد) ابن مسلم اور فضیل سے روایت کمروی ہے کہ ان سب نے کہا: ہم نے امام باقر ع اور امام صادق ع سے ماہ رمضان میں باجماعت رات کو نافلہ نماز (تراویح) کا پوچھا۔ تو ان دونوں نے فرمایا: جب نبی ص عشاء پڑھتے، وہ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوجاتے، پھر وی رات کے آخر میں مسجد کی طرف آتے، ادھر نماز قائم کرتے۔ اور لوگ انکے پیچھے صف بنا لیتے، تو آپ ص ان کے پاس سے اپنے گھر چلے جاتے اور ان کو چھوڑ دیتے۔ تو ان سب نے یہ تین رات کیا، تو نبی ص چوتھے دن اپنے منبر پر کھڑے ہوئے، الله کی حمد و ثناء کی، پھر فرمایا: ایھا الناس! بیشک رات کو ماہ رمضان میں باجماعت نافلہ نماز پڑھنا ایک بدعت ہے، اور نماز چاشت ایک بدعت ہے۔ جان لو کہ ماہ رمضان کی کسی رات جمع ہوکر نماز نہ پڑھو، اور نماز چاشت نہ پڑھو، کیونکہ وہ معصیت ہے۔ جان لو کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا راستہ جہنم کی طرف ہے۔ پھر آپ ص منبر سے اتر گئے یہ فرماتے ہوئے: تھوڑی سی سنت بہت ساری بدعت سے زیادہ بہتر ہے۔
اس روایت کی سند صحیح ہے ۔۔۔
📜 3 – الطوسي بإسناده عن علي بن الحسن بن فضال، عن أحمد بن الحسن، عن عمرو بن سعيد المدائني، عن مصدق بن صدقة، عن عمار، عن أبي عبد الله (عليه السلام) قال:
سألته عن الصلاة في رمضان في المساجد؟ فقال: لما قدم أمير المؤمنين (عليه السلام) الكوفة أمر الحسن بن علي أن ينادي في الناس لا صلاة في شهر رمضان في المساجد جماعة فنادى في الناس الحسن بن علي (عليه السلام) بما أمره بهأمير المؤمنين (عليه السلام) فلما سمع الناس مقالة الحسن ابن علي (عليه السلام) صاحوا وا عمراه وا عمراه فلما رجع الحسن إلى أمير المؤمنين (عليه السلام) قال له:
ما هذا الصوت؟ قال: يا أمير المؤمنين الناس يصيحون وا عمراه وا عمراه فقالأمير المؤمنين (عليه السلام) قل لهم: صلوا ۔
الرواية معتبرة الإسناد.
📝 الشیخ الطوسي ؒ باسناد خود عمار سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ امام صادق(ع) سے رمضان کی نافلہ نمازوں کے مساجد میں پڑھے جانے کے متعلق سوال ہوا تو آپ(ع) نے فرمایا: “جب امیر المؤمنین(ع) نے کوفہ میں قدم رکھا تو آپ نے امام حسن(ع) کو حکم دیا کہ لوگوں میں منادی کروائیں کہ رمضان کے مہینے میں جماعت کے ساتھ (نافلہ) نماز نہیں ہے۔ امام حسن(ع) نے منادی کروائی جیسا کہ امیر المؤمنین(ع) کا حکم تھا۔ جب لوگوں نے امام حسن(ع) کی ندا سنی تو فریاد کرنے لگے: وا عمراہ، وا عمراہ ۔۔۔ یعنی ھائے عمر، ھائے عمر ۔۔۔۔۔
امام حسن(ع) واپس امام علی(ع) کے پاس آئے تو انہوں نے پوچھا کہ یہ کیسی آواز ہے؟ تو امام حسن(ع) نے جواب دیا کہ اے امیرالمؤمنین(ع) لوگ ھائے عمر، ھائے عمر کی صدا بلند کر رہے ہیں۔ تو امام علی(ع) نے فرمایا کہ ان سے کہو کہ پھر تم لوگ جیسے چاہے نماز پڑھو۔
اس روایت کی سند معتبر ہے ۔۔۔
📜 4 – محمد بن إدريس في آخر السرائر نقلا من كتاب أبي القاسم جعفر بن محمد ابن قولويه، عن أبي جعفر وأبي عبد الله (عليه السلام) قالا: لما كان أمير المؤمنين (عليه السلام) بالكوفة أتاه الناس فقالوا له: اجعل لنا إماما يؤمنا في رمضان، فقال لهم: لا ونهاهم ان يجتمعوا فيه فلما أمسوا جعلوا يقولون ابك وارمضان وا رمضاناه، فاتى الحارث الأعور في أناس فقال: يا أمير المؤمنين ضج الناس وكرهوا قولك، قال: فقال عند ذلك:
دعوهم وما يريدون ليصل بهم من شاؤوا ثم قال: (ومن يتبع غير سبيل المؤمنين نوله ما تولى ونصله جهنم وساءت مصيرا) (3).
ورواه العياشي في تفسيره عن حريز عن بعض أصحابنا عن أحدهما (عليهما السلام) مثله.
📝 علامة ابن ادریس حلي علیه رحمه محدث محمد ابن قولویه ؒ کی کتاب سے نقل کرتے ہیں اور وہ باسناد خود امام الباقر ؑ اور امام الصادق ؑ سے روایت کرتے ہیں کہ انهوں نے فرمایا:
جب امیرالمومنین ؑ کوفہ میں تهے تو کچھ لوگ ان کے پاس آئے اور آ کر عرض کیا کہ ہمارے لیئے ایک پیش نماز مقرر کریں جو ہمیں ماہِ رمضان کی نماز (تراویح) پڑهائے تو امیرالمومنین ؑنے ان کا مطالبہ مسترد کر دیا اور ان کو نافلہ میں نماز پڑهنے سے منع فرمایا، جب رات ہوئی تو انهوں نے کہا: نماز پڑهاؤ اور کہو کہ ” وا رمضاناه ” یعنی ہائے ماہِ رمضان تو( یہ ماجرا دیکھ کر) حارث ہمدانی کچھ لوگوں کے ساتھ امیرالمومنین ؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا امیرالمومنین ؑ لوگ چیخ و پکار کر رہے ہیں انهوں نے آپ کی بات کا بُرا منایا ہے تو امام ؑ نے فرمایا : ان کو ان کے حال پہ چهوڑ دو جسے پسند کریں وہ ان کو پڑهائے پهر یہ آیت پڑهی ” ومن یشاقق الرسول من بعد ما یبین له الهدي و يتبع غير سبيل المؤمنين نوله ما تولى ونصله جهنم وساءت مصيرا ” ترجمه {جو شخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول ؑ کے خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے، وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے۔} سورة النساء آیة ١١٥ ۔۔۔۔
📚 موسوعة أحاديث أهل البيت (ع) – الشيخ هادي النجفي – ج ٤ – الصفحة ٢٨٦،٢٨٧
.
*مولا کائنات علی ابن ابی طالب (ع) نے نماز تراویح سے منع کیا*
مولا کائنات حضرت علی( ع) فرماتے ہیں
📜 والله لقد أمرت الناس أن لا يجتمعوا في شهر رمضان إلا فيفريضة وأعلمتهم أن اجتماعهم في النوافل بدعة
📝 ترجمہ: مولا فرماتے ہیں: خدا کی قسم میں اس امت کے اوپر لازم کرتا کہ رمضان المبارک کے مھینے میں جماعت کے ساتھ کسی نماز کو انجام نہ دو سواء فریضہ کے ، اور جان لو یہ نوافل میں جماعت کروانا ایک بدعت ( بدعت عمر )
ہے
نوٹ یہ خطبہ علامہ مجلسی رح کے نزدیک معتبر ہے
.
** عترتِ رسول (ص) کے نزدیک نمازِ تراویح جماعت کے ساتھ پڑهنا بدعت ہے **
.
اہل سنت کے قاضی شوکانی لکھتے ہیں :
📜 ” العترة ان التجمع في التراويح بدعة “
📝 العترة (یعنی اهل بیت رسول ؑ) کے نزدیک (نماز) تراویح جماعت کے ساتھ پڑهنا بدعت ہے ۔
مزید لکھتے ہیں :
📜 مالك و ابو يوسف وبعض الشافعية وغيرهم الافضل فرادى في البيت لقول رسول الله افضل الصلاة المرء في بيتة الا المكتوبة ۔۔۔۔
📝 امام مالك ، ابو یوسف اور بعض اصحاب شافعی کا یہ نظریہ ہے کہ نماز تراویح کو بھی دوسرے نوافل کی طرح گهر میں تنہا پڑهنا (بغیر جماعت کے) کے افضل ہے کیونکہ رسول الله (صلی الله علیه وآله وسلم) نے فرمایا : سب سے افضل وہی نماز ہے جو اپنی گھروں میں ادا کی جائے ۔
📚 اسم الکتاب : نیل الاوطار
مصنف : محمد بن علي شوکاني
الجزء : الخامس ، الصفحة : ١٧٢،١٧٣
نبی اکرم ﷺ کی حدیث:
📜 “رمضان میں نوافل کو جماعت سے پڑھنا بدعت ہے۔”
📚 من لا يحضره الفقيه، ج 2، ص 137؛ تهذيب الأحكام، ج 3، ص 70
حضرت علیؑ کا مؤقف: بدعت پر سخت ردّ عمل
حضرت علیؑ فرماتے ہیں:
📜 “خدا کی قسم! میں نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ رمضان میں صرف فرض نمازیں جماعت سے پڑھیں اور انہیں آگاہ کیا کہ نوافل کو جماعت سے پڑھنا بدعت ہے۔
لیکن میرے لشکر میں سے کچھ لوگ چیخنے لگے کہ اے مسلمانو! عمر کی سنت بدل دی گئی، ہمیں رمضان میں نفل پڑھنے سے روکا جا رہا ہے!”
📖 الکافی، ج 8، ص 58، حدیث 21، ناشر: اسلامیہ، تہران، طبع دوم، 1362 ھ ش
علامہ مجلسی اور شیخ طوسی کی تصریحات نمازِ تراویح کے بدعت ہونے پر
✅ علامہ مجلسی اپنی کتاب “مرآة العقول” میں اس حدیث کے بارے میں تصریح کرتے ہیں:
“یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ماہِ رمضان کی نفل نمازوں کو جماعت کے ساتھ پڑھنا جائز نہیں، اور اس مسئلے میں ہمارے اصحاب کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مزید یہ کہ اہلِ سنت (جماعت عمریہ) نے خود اقرار کیا ہے کہ یہ نمازِ جماعت (تراویح) عمر بن خطاب کی بدعتوں میں سے ہے۔”
📚 مرآة العقول، علامہ مجلسی، ج 16، ص 378
✅ شیخ طوسی، نمازِ تراویح کے حوالے سے روایات نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
“ان احادیث کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے کبھی بھی رمضان میں نفل نماز کو جماعت کے ساتھ نہیں پڑھا، اور اگر جماعت کے ساتھ پڑھنے میں کوئی خیر (بھلائی) ہوتی، تو رسول اللہ (ص) اسے ترک نہ کرتے۔ البتہ، ایسا بھی نہیں ہے کہ اسے فرادیٰ پڑھنا ناجائز ہو، جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔”
📚 الاستبصار، شیخ طوسی، ج 1، ص 467
علامہ حلی
علامہ حلیؒ فرماتے ہیں:
📜 “ہمارے تمام علما کا اجماع ہے کہ یہ نماز (نوافلِ رمضان یا تراویح) جماعت سے پڑھنا جائز نہیں۔”
📖 (تذكرة الفقهاء، ج 2، ص 282)
📖 (منتهى المطلب، ج 6، ص 142)
شیخ حر العاملی
امام باقر علیہ السلام اور امام صادق علیہ السلام سے رمضان کی راتوں میں باجماعت نماز پڑھنے کی اجازت کے بارے میں پوچھا گیا۔ ان دونوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک روایت بیان کی ہے جس میں آپ نے فرمایا:
📜 ”بے شک رمضان کی راتوں میں جماعت کے ساتھ نفل پڑھنا بدعت ہے
اے لوگو! رمضان المبارک کی نفل نمازیں جماعت سے نہ پڑھیں۔ بلاشبہ ایک معمولی عبادت جو سنت کے مطابق ہو، اس بڑی عبادت سے افضل ہے جو بدعت ہے۔”
📚 الحر العملی، وصائل الشیعہ، جلد 8، صفحہ 45، حدیث 1[10062]
✅ نماز تراویح کو باجماعت پڑھنے کے بدعت ہونے پر روایات کا تواتر
🔹 شیعہ امامیہ، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل بیت علیہم السلام کی پیروی کرتے ہوئے، اور قرآن کی اس آیت “مَّا نَزَّلَ اللّهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ” (اللہ نے اس کے لیے کوئی دلیل نازل نہیں کی) کی بنیاد پر، رمضان کی نوافل کو بغیر جماعت ادا کرتے ہیں اور اسے باجماعت پڑھنا ایک بدعت اور غیر شرعی عمل سمجھتے ہیں، جو نبی اکرمؐ کے بعد ایجاد کیا گیا۔
شیخ محمد حسن نجفی اپنی کتاب جواہر الکلام میں لکھتے ہیں:
🔸 شیعہ نظریے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ رمضان میں نفل نماز کو باجماعت ادا کرنے کے بدعت ہونے پر روایات کے تواتر کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے۔
📚 جواهر الکلام، شیخ محمد حسن نجفی، جلد 13، صفحہ 229
👍✔️ صحیح سند کے ساتھ شیعہ روایات میں آیا ہے کہ تراویح بدعت ہے اور سنت نہیں۔
🔴 الحسین بن سعید نے حماد بن عیسیٰ سے، انہوں نے حریز سے، انہوں نے زرارہ، ابن مسلم، اور فضیل سے نقل کیا کہ ہم نے امام باقر اور امام صادق علیہم السلام سے رمضان میں رات کے وقت نفل نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کے بارے میں سوال کیا۔
امام باقر اور امام صادق علیہم السلام نے فرمایا:
“جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عشاء کی نماز پڑھ کر اپنے گھر واپس جاتے، پھر آخری رات میں مسجد آ کر نماز پڑھتے۔ رمضان کے پہلے دن آپ اپنے گھر سے باہر آئے تاکہ جیسا آپ پہلے پڑھتے تھے ویسا ہی نماز پڑھیں، لیکن لوگوں نے آپ کے پیچھے صف بندی کی تاکہ آپ کے ساتھ نماز پڑھیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب یہ منظر دیکھا، تو آپ ان لوگوں سے بچتے ہوئے اپنے گھر واپس لوٹ گئے۔ یہ واقعہ تین راتوں تک جاری رہا۔ چوتھی رات، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر چڑھے، اللہ کی حمد و ثنا کی، پھر فرمایا:
“اے لوگو! رمضان کے مہینے میں رات کے وقت نفل نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنا بدعت ہے، اور نمازِ ضحی بھی بدعت ہے۔ رمضان کی راتوں میں نفل نماز کے لیے جماعت نہ بناؤ اور نماز ضحی نہ پڑھو، کیونکہ یہ معصیت ہے۔ جان لو! ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا انجام آگ ہے۔”
پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر سے نیچے اترے اور فرماتے جا رہے تھے:
“وہ عمل کم جو سنت کے مطابق ہو، زیادہ عمل سے بہتر ہے جو بدعت ہو۔”
📚 تهذیب الأحکام، جلد 3، صفحہ 17
📚 من لایحضره الفقیه، جلد 2، صفحہ 137
📚 منتهی المطلب، جلد 4، صفحہ 30
حتمی نتیجہ:
1️⃣ رسول اللہ ﷺ نے تراویح کو جماعت سے نہیں پڑھا، بلکہ اسے بدعت کہا۔
2️⃣ حضرت علیؑ نے کھل کر اس بدعت کو ختم کرنے کی کوشش کی، لیکن “عمر کی سنت” کے نام پر مخالفت ہوئی۔
3️⃣ شیعہ فقہا متفق ہیں کہ تراویح کو جماعت سے پڑھنا بدعت ہے۔
✅ لہٰذا، ثابت ہوگیا کہ تراویح کا جماعت کے ساتھ پڑھنا سنتِ رسول ﷺ نہیں بلکہ بدعتِ عمر ہے!

.
.
.
❓ کچھ مومنین بھی حصول علم کیلئے سوال کرتے ہیں کہتے ہیں کہ اہل سنت حضرات ہم سوال کرتے ہیں کہ اگر باجماعت نماز تراویح بدعت تھی تو مولا علی ع نے اپنے دور خلافت میں اسے ختم یا بند کیوں نہیں کیا ؟ ❌
✅ مومنین کیلئے جواب کچھ مراحل میں دیتا ہوں
1⃣ یہ اعتراض تو خود اہل سنت پر وارد ہوتا ہے کیونکہ اہل سنت نے خود اپنی کتابوں میں یہی بات لکھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب صحیح بخاری میں آیا ہے کہ تراویح عمر کی بدعت ہے، 👈🏼 تو پھر انکے چوتھے خلیفہ نے اس بدعت کو ختم کیوں نہیں کیا؟ 👉🏼 انکے علماء نے اس بدعت کو کیوں نہیں مٹایا، بلکہ اسے جاری رکھا؟ لہٰذا، یہ اعتراض پہلے ان پر ہی لوٹتا ہے۔
ان کے نزدیک انکا چوتھا خلیفہ ان بدعتوں کو ختم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا، اور ابن تیمیہ کے مطابق وہ (نعوذباللہ) ذلیل تھا:
📜 مخذولا حيث ما توجه وأنه حاول الخلافة مراراً فلم ينلها
📃 “بے شک وہ (علی ع) جہاں بھی گیا، ناکام رہا، اور اس نے کئی بار خلافت حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن اسے نہیں ملی۔”
📚 الدرر الکامنة لابن حجر عسقلانی، ج 1، ص 55
👆👆 ابن تیمیہ، جو خود ایک نا//صبی اور زناز//ادہ تھا، کہہ رہا ہے کہ حضرت علیؑ کوشش کے باوجود لوگوں کا مقابلہ نہیں کر سکے اور ان کی کوششیں بے نتیجہ رہیں۔
2⃣ امیرالمؤمنینؑ نے خود اس سوال کا جواب دیا ہے کہ
دین خدا کے نفاذ میں انہیں یہ خوف تھا کہ لوگ کہیں کہ یہ ابوبکر و عمر کی مخالفت کر رہے ہیں، (اسلئے تراویح کی بدعت کو ختم نہ کر سکے)
جیسا کہ اہل سنت کے علماء نے روایت کیا ہے:
📜 قال: كان والله يكره أن يدّعى عليه خلاف أبي بكر وعمر
📃 کہ اللّه کی قسم وہ یہ ناپسند کرتے تھے کہ ان پر ابوبکر و عمر کی مخالفت کا الزام لگایا جائے۔”
📚 تاریخ المدینة المنورة، ج 1، ص 135، دار النشر: دار الکتب العلمیة – بیروت
🔰 لہٰذا، 👈🏼 انکے اپنے اصول کے مطابق، ثابت ہوا کہ امیرالمؤمنینؑ نے لوگوں کے اسلام سے پلٹنے کے خوف سے ان بدعتوں کو نہیں مٹایا، کہ ان پر کوئی الزام نہ لگے اور ابن تیمیہ نا/صبی کے مطابق، حضرت علیؑ نے کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے۔
3⃣ انکے مزہب میں تو اہلبیتؑ کا قول و اجماع حجت ہی نہیں
قال أبو إسحاق الشيرازي الملقب عندهم بالإمام (ت: 476 هـ) في كتابه التبصرة في أصول الفقه (ص: 368)، شرحه وحققه الدكتور محمد حسن هيتو. ط: دار الفكر، دمشق. تصوير 1403 هـ ـ 1983، عن الطبعة الأولى: 1980م:
📜 “اتفاق أهل بيت رسول الله ـ صلى الله عليه وسلم ـ ليس بحجة.” انتهى.
وقال المحقق في الهامش تعليقاً على عبارة الشيرازي: “وهو المذهب المعتمد، والحق الأبلج، ورأي الجمهور. انظر: الإبهاج ونهاية السول (2/242)، وفواتح الرحموت (2/228)، والإحكام (1/223)، والمنتهى لابن حاجب (ص/41).” انتهى.
اردو ترجمہ: امام ابو اسحاق شیرازی (وفات: 476 ہجری)، جنہیں اہل سنت کے یہاں امام کا لقب دیا گیا ہے، اپنی کتاب التبصرہ فی اصول الفقہ (ص: 368) میں لکھتے ہیں:
📃 “اہل بیت رسول اللہ ﷺ کا اتفاق حجت نہیں ہے۔”
تحقیق کرنے والے ڈاکٹر محمد حسن ہیتو نے اس عبارت پر حاشیے میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: “یہی معتبر موقف ہے، روشن حق، اور جمہور علماء کی رائے۔ مزید دیکھیں: الابہاج و نہایۃ السول (2/242)، فواتح الرحموت (2/228)، الاحکام (1/223)، اور المنتہی لابن حاجب (ص/41)۔”
4⃣ ہم یہ کہتے کہ چونکہ لوگ سابق خلفاء کی سنتوں سے مانوس ہو چکے تھے، جب مولا علیؑ نے ان کی غلط سنتوں یا بدعتوں کو ختم کرنا چاہا تو لوگوں نے اعتراض اور بغاوت شروع کر دی، جیسا کہ نمازِ تراویح کے معاملے میں ہوا، اور انہوں نے کہا: “واعمر اہ!” واعمر اہ
یہ روایت خود اہل سنت کے امام ابن ابی الحدید نے نقل کی ہے 👇🏼
.
اسی طرح، رسول اللہﷺ نے بھی اسی مصلحت کے تحت خانہ کعبہ میں کوئی تبدیلی نہیں کی تھی، کیونکہ انہیں خوف تھا کہ لوگ دوبارہ جاہلیت کی طرف پلٹ جائیں گے۔ صحیح بخاری میں آیا ہے:
📜 عنْ عَائِشَةَ رضى الله عنهم زَوْجِ النَّبِیِّ صلى الله علیه وسلم أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله علیه وسلم قَالَ لَهَا أَلَمْ تَرَىْ أَنَّ قَوْمَکِ لَمَّا بَنَوُا الْکَعْبَةَ اقْتَصَرُوا عَنْ قَوَاعِدِ إِبْرَاهِیمَ. فَقُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّهِ أَلاَ تَرُدُّهَا عَلَى قَوَاعِدِ إِبْرَاهِیمَ. قَالَ: « لَوْلاَ حِدْثَانُ قَوْمِکِ بِالْکُفْرِ لَفَعَلْتُ
📃 عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: “کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہاری قوم نے جب کعبہ بنایا تو اسے حضرت ابراہیمؑ کی بنیادوں سے کم کر دیا؟” میں نے کہا: “یا رسول اللہ! کیا آپ اسے دوبارہ حضرت ابراہیمؑ کی بنیادوں پر نہیں بنائیں گے؟” آپﷺ نے فرمایا: “اگر تمہاری قوم نئی نئی اسلام میں داخل نہ ہوئی ہوتی (اور ان کا ایمان کمزور نہ ہوتا) تو میں ایسا کر دیتا۔”
📚 صحیح البخاری، جلد 2، ص 573
📜 صحیح مسلم میں بھی آیا ہے کہ نبیﷺ کعبہ کے خزانے کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہتے تھے، لیکن چونکہ لوگ ابھی نئے مسلمان ہوئے تھے اور جاہلیت کی طرف پلٹنے کا امکان تھا، اس لیے آپﷺ نے یہ کام نہیں کیا۔
📚 صحیح مسلم، ج 2، ص 969
♦️ لہٰذا، بدعتِ تراویح کے معاملے میں امیرالمؤمنینؑ نے بھی وہی کیا جو رسول اللہﷺ نے کیا۔
5⃣ امیرالمؤمنینؑ نے حدیثِ کافی میں، جہاں انہوں نے بدعتوں کا ذکر کیا، اس کی علت بھی بیان کی،
📜 “اور مجھے خوف ہوا کہ میرے لشکر کے ایک جانب سے لوگ میرے خلاف بغاوت کریں گے، جیسا کہ میں نے اس امت میں تفرقہ اور گمراہی کے اماموں کی اطاعت اور آگ کی طرف بلانے والوں کی پیروی دیکھی۔ اور میں نے ذوی القربی کا وہ حصہ دیا جس کے بارے میں اللہ عز و جل نے فرمایا: اگر تم اللہ پر اور اس چیز پر ایمان رکھتے ہو جو ہم نے اپنے بندے پر یوم الفرقان نازل کی، جس دن دو لشکر ایک دوسرے سے ٹکرائے۔ پس، قسم بخدا، ہم ہی ذوی القربی ہیں، جنہیں اللہ نے اپنی ذات اور اپنے رسول کے ساتھ ذکر کیا ہے۔”
📚 (الکافی)
مزید فرمایا:
📜 “پس خدا اور اس کے رسول کو جھٹلایا گیا، اور کتابِ خدا کو جھٹلایا گیا جو ہمارے حق میں نازل ہوئی تھی، اور ہمیں اس مال سے محروم کیا گیا جو خدا نے ہمارے لیے فرض کیا تھا۔ اور جو کچھ ہم نے رسول اللہﷺ کے بعد دیکھا، وہ کسی اور نبی کے اہلِ بیت نے اپنی امت سے نہیں دیکھا۔”
📚 (الکافی، باب خمس)
یہاں امامؑ واضح فرما رہے ہیں کہ انہوں نے کس طرح بدعتوں اور حق کی پامالی کو دیکھا، اور کس طرح لوگوں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کی۔
👈🏼 اب سوال یہ ہے کہ کیا امیرالمؤمنینؑ اور اہلِ بیتؑ کی بات ان کے لیے حجت ہے؟ ظاہر ہے ” نہیں “
اب اگر انکے لیے چوتھے خلیفہ اور اہلِ بیت کی بات حجت ہے، تو یہ حضرات واضح طور پر فرما چکے ہیں کہ تراویح بدعت ہے۔
لہٰذا، یہ کافی ہے کہ امیرالمؤمنینؑ نے فرمایا کہ تراویح بدعت ہے، چاہے لوگ اسے قبول کریں یا نہ کریں۔
⁉️ آخر میں ہمارا بھی ان سے سوال:
1️⃣ ان لوگوں کی منتطق کے مطابق کیا وہ نبیﷺ جو لوگوں کے خوف سے کعبہ کو اس کی اصل حالت پر واپس نہ لا سکے تو کیا انکی نبوت پر کوئی حرف آئے گا ؟
2️⃣ کیا وہ خلیفہ جو عمر کی بدعتِ تراویح کو ختم نہ کر سکا، کیا وہ خلافت کے قابل تھا؟ (جو خود بزبان عمر بدعت ثابت ہے)
🔥 پس، اگر ان دونوں سوالوں کا جواب نہیں دیا جاتا، تو نبیﷺ کی نبوت اور انکے خلیفہ کی خلافت – اور اس کے نتیجے میں انکا سقیفہ پر مبنی باطل مذہب – سب باطل ہو جاتا ہے!
✅ نتیجہ: مذکورہ نکات سے واضح ہو گیا کہ جب معاشرہ اپنی راہ سے ہٹ گیا، رسول اللہﷺ کے برحق خلیفہ کو نظرانداز کر دیا، اور وہ لوگ اقتدار میں آ گئے جو اس کے اہل نہ تھے، تو دینِ اسلام پر کیسی مصیبتیں آئیں۔ مولا علیؑ نے محسوس کیا کہ اگر وہ سابق خلفاء کی بدعتوں کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے تو اس وقت کا معاشرہ اس کا تحمل نہیں کر سکے گا۔
.