اللہ تعالی کی حمد و ثنا
ساری تعریف اس اللہ کےلئے ہے جو اپنی یکتائی میں بلند اور اپنی انفرادی شان کے باوجود قریب ہے (توحید کے متعلق خطبہ کی ابتدا کے الفاظ بہت دقیق مطالب کے حامل ہیں جن کی تفسیر کی ضرورت ہے ۔مذکورہ جملہ کی اس طرح وضاحت کی جا سکتی ہے :ساری تعریف اس خد اکےلئے ہے جو یکتا ئی میں بلند مرتبہ رکھتا ہے ،وہ یکتا ہو نے اور بلند مرتبہ ہونے کے باوجوداپنے بندوں سے نزدیک ہے۔) وہ سلطنت کے اعتبار سے جلیل اور ارکان کے اعتبار سے عظیم ہے وہ اپنی منزل پر رہ کر بھی اپنے علم سے ہر شے کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور اپنی قدرت اور اپنے برھان کی بناء پر تمام مخلوقات کو قبضہ میں رکہے ہوئے ہے ۔( اس جملہ سے مندرجہ ذیل دو جہتوں میں سے ایک جہت مراد ہو سکتی ہے: پھلے :خداوند عالم کا علم تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے درحالیکہ وہ چیزیں اپنی جگہ پر ہیں اور خداوند عالم کو ان کے معائنہ اور ملا حظہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔)
وہ ھمیشہ سے قابل حمد تھااور ھمیشہ قابل حمد رہے گا ،وہ ھمیشہ سے بزرگ ہے وہ ابتدا کرنے والا دوسرے :خداوند عالم کا علم تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہو ئے ہے درحالیکہ خداوند عالم اپنے مکان میں ہے ۔البتہ خداوند عالم کےلئے مکان کا تصور نہیں کیا جا سکتا ،پس اس سے مراد یہ ہے کہ خداوند عالم تمام مو جودات پر اس طرح احاطہ کئے ہوئے ہے کہ اس کے علم کےلئے رفت و آمد اور کسب کی ضرورت نہیں ہے ۔
ہے وہ پلٹانے والاہے اور ہر کام کی بازگشت اسی کی طرف ہے بلندیوں کا پیدا کرنے والا ،فرش زمین کابچھانے والا،آسمان و زمین پر اختیار رکھنے والا ، پاک ومنزہ ،پاکیزہ (کلمہ ” قُدُّوْسٌ “کا مطلب ہر عیب و نقص سے پاک اور منزّہ ،اور کلمہ ٴ ” سُبُّوْحٌ “ کا مطلب جس کی مخلوقات تسبیح کرتی ہے اور تسبیح کا مطلب خداوند عالم کی تنزیہ اور تمجید ہے “)، ملائکہ اور روح کا پروردگار، تمام مخلوقات پر فضل وکرم کرنے والا اور تمام موجودات پر مہربانی کرنے والا ہے وہ ہر آنکھ کو دیکھتا ہے اگر چہ کوئی آنکھ اسے نہیں دیکھتی ۔
وہ صاحب حلم وکرم اوربردبار ہے ،اسکی رحمت ہر شے کااحاطہ کئے ہوئے ہے اور اسکی نعمت کا ہر شے پراحسان ہے انتقام میں جلدی نہیں کرتا اور مستحقین عذاب کو عذاب دینے میں عجلت سے کام نہیں لیتا ۔
اسرارکو جانتا ہے اور ضمیروں سے باخبر ہے ،پوشیدہ چیزیں اس پر مخفی نہیں رہتیں ،اور مخفی امور اس پر مشتبہ نہیں ہوتے ،وہ ہر شے پر محیط اور ہر چیز پر غالب ہے ،اسکی قوت ہر شے میں اسکی قدرت ہر چیز پر ہے ،وہ بے مثل ہے اس نے شے کو اس وقت وجود بخشا جب کو ئی چیز نہیں تہی اوروہ زندہ ہے، ھمیشہ رہنے والا،انصاف کرنے والا ہے ،اسکے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے ،وہ عزیز و حکیم ہے ۔
نگاہوں کی رسائی سے بالاتر ہے اور ہر نگاہ کو اپنی نظر میں رکھتا ہے کہ وہ لطیف بھی ہے اور خبیر بھی کوئی شخص اسکے وصف کو پا نہیں سکتا اور کوئی اسکے ظاہر وباطن کی کیفیت کا ادراک نہیں کرسکتا مگر اتنا ہی جتنا اس نے خود بتادیا ہے۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ ایسا خدا ہے جس کی پاکی و پاکیزگی کا زمانہ پر محیط اور جسکا نور ابدی ہے
اسکا حکم کسی مشیر کے مشورے کے بغیر نافذہے ،اور نہ ہی اس کی تقدیرمیں کوئی اسکا شریک ہے،اور نہ اس کی تدبیر میں کوئی فرق ہے ۔
جو کچھ بنایا وہ بغیر کسی نمونہ کے بنایا اور جسے بھی خلق کیا بغیر کسی کی اعانت یا فکر و نظر کی زحمت کے بنایا ۔جسے بنایا وہ بن گیا اور جسے خلق کیا وہ خلق ہوگیا ۔وہ خدا ہے لا شریک ہے جس کی صنعت محکم اور جس کا سلوک بہترین ہے ۔وہ ایسا عادل ہے جو ظلم نہیں کرتااور ایسا کرم کرنے والا ہے کہ تمام کام اسی کی طرف پلٹتے ہیں ۔
میں گو اہی دیتا ہوں کہ وہ ایسا بزرگ و برتر ہے کہ ہر شے اسکی قدرت کے سامنے متواضع ، تمام چیزیں اس کی عزت کے سا منے ذلیل ،تمام چیزیں اس کی قدرت کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں اور ہر چیز اسکی ہیبت کے سامنے خاضع ہے۔
وہ تمام بادشاہوں کا بادشاہ ،تمام آسمانوں کا خالق ،شمس و قمر پر اختیاررکھنے والا ،یہ تمام معین وقت پرحرکت کر رہے ہیں،دن کو رات اور رات کو دن پر پلٹانے والا ہے (اس چیز سے کنایہ ہے کہ رات اور دن دو کشتی لڑنے والوں کی طرح ایک دو سرے پر غالب آجاتے ہیں اور اس کو زمین پر پٹک دیتا ہے اور خود اوپر آجاتا ہے ۔دن کے بارے میں فرمایا ہے”رات کا بہت تیزی کے ساتھ پیچھا کرتا ہے “ لیکن رات کے بارے میں نہیں فر مایا ۔شاید یہ اس بات سے کنایہ ہو کہ چونکہ دن نور سے ایجاد ہو تا ہے اور جیسے ہی نور کم ہوا رات آجاتی ہے) کہ دن بڑی تیزی کے ساتھ اس کا پیچھا کرتا ہے،ہرمعاند ظالم کی کمر توڑنے والا اورہرسرکش شیطان کو ھلاک کرنے والا ہے ۔
نہ اس کی کوئی ضد ہے نہ مثل،وہ یکتا ہے بے نیاز ہے ،نہ اسکا کوئی باپ ہے نہ بیٹا ،نہ ھمسر۔ وہ خدائے واحد اور رب مجید ہے ،جو چاہتا ہے کرگزرتا ہے جوارادہ کرتا ہے پور ا کردیتا ہے وہ جانتا ہے پس احصا کر لیتاہے ،موت وحیات کا مالک،فقر وغنا کا صاحب اختیار ،ہنسانے والا، رلانے والا،قریب کرنے والا ،دور ہٹادینے والا عطا کرنے والا، روک لینے والا ہے، ملک اسی کے لئے ہے اور حمد اسی کے لئے زیبا ہے اورخیر اسکے قبضہ میں ہے ۔وہ ہر شے پر قادر ہے ۔
رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کردیتا ہے ۔ اس عزیزو غفار کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے ،وہ دعاؤں کا قبول کرنے والا، بکثرت عطا کرنے والا،سانسوں کا شمار کرنے والا اور انسان و جنات کا پروردگار ہے ،اسکے لئے کوئی شے مشتبہ نہیں ہے۔ وہ فریادیوں کی فریاد سے پریشان نہیں ہوتا ہے اور اسکو گڑگڑانے والوں کا اصرار خستہ حال نہیں کرتا ،نیک کرداروں کا بچانے والا ، طالبان فلاح کو توفیق دینے والاموٴ منین کا مولا اور عالمین کا پالنے والاہے ۔اسکا ہر مخلوق پر یہ حق ہے کہ وہ ہر حال میں اسکی حمد وثنا کرے ۔
ھم اس کی بے نھایت حمد کرتے ہیںاورھمیشہ خوشی ،غمی،سختی اور آسائش میں اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں ،میں اس پر اور اسکے ملائکہ ،اس کے رسولوں اور اسکی کتابوں پر ایمان رکھتا ہوں،اسکے حکم کو سنتا ہوں اور اطاعت کرتا ہوں ،اسکی مرضی کی طرف سبقت کرتا ہوں اور اسکے فیصلہ کے سامنے سراپا تسلیم ہوں چونکہ اسکی اطاعت میں رغبت ہے اور اس کے عتاب کے خوف کی بناء پر کہ نہ کوئی اسکی تدبیر سے بچ سکتا ہے اور نہ کسی کو اسکے ظلم کا خطرہ ہے ۔
۲ ایک اھم مطلب کے لئے خداوند عالم کا فرمان
میں اپنے لئے بندگی اور اسکے لئے ربوبیت کا اقرار کرتا ہوں اوراپنے لئے اس کی ربوبیت کی گواہی دیتا ہوں اسکے پیغام وحی کو پہنچانا چاہتا ہوں کہیں ایسا نہ ہوکہ کوتاہی کی شکل میں وہ عذاب نازل ہوجائے جس کا دفع کرنے والا کوئی نہ ہواگر چہ بڑی تدبیرسے کام لیا جائے اور اس کی دوستی خالص ہے۔اس خدائے وحدہ لا شریک نے مجہے بتایا کہ اگر میں نے اس پیغام کو نہ پہنچایا جو اس نے علی کے متعلق مجھ پرنازل فرمایاہے تو اسکی رسالت کی تبلیغ نہیں کی اور اس نے میرے لئے لوگوں کے شرسے حفاظت کی ضمانت لی ہے اور خدا ھمارے لئے کافی اور بہت زیادہ کرم کرنے والا ہے ۔
اس خدائے کریم نے یہ حکم دیا ہے : بِسم اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحیمِ،یٰااٴَیُّھَاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ مٰااُنزِلَ اِلَیکَ مِنْ رَبِّکَ( فی عَلِیٍّ یَعْنی فِی الْخِلاٰفَةِلِعَلِیِّ بْنِ اٴَبی طٰالِبٍ) وَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمٰابَلَّغْتَ رِسٰالَتَہُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النّٰاسِ (سورہ ما ئدہ آیت/۶۷)
”اے رسول!جوحکم تمھاری طرف علی (ع) (یعنی علی بن ابی طالب کی خلافت )کے بارے میں نازل کیاگیا ہے،اسے پہنچادو،اوراگرتم نے ایسا نہ کیا تو رسالت کی تبلیغ نہیں کی اوراللہ تمہیں لوگوں کے شرسے محفوظ رکہے گا “
ایھا الناس! میں نے حکم کی تعمیل میں کوئی کوتا ہی نہیں کی اور میں اس آیت کے نازل ہونے کا سبب واضح کردینا چاہتا ہوں :
جبرئیل تین بار میرے پاس خداوندِ سلام (ان دو مقامات پر سلام پروردگار عالم کے نام کے عنوان سے ذکر ہوا ہے۔) کا یہ حکم لے کر نازل ہوئے کہ میں اسی مقام پرٹھہر کر سفید و سیاہ کو یہ اطلاع دے دوں کہ علی بن ابی طالب (ع) میرے بھائی ،وصی،جانشین اور میرے بعد امام ہیں ان کی منزل میرے لئے ویسی ہی ہے جیسے موسیٰ کےلئے ھارون کی تہی ۔فرق صرف یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا،وہ اللہ و رسول کے بعد تمھارے حاکم ہیں اور اس سلسلہ میں خدا نے اپنی کتاب میں مجھ پریہ آیت نازل کی ہے :
اِنَّمٰاوَلِیُّکُمُ اللہ وَرَسُوْلُہُ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْاالَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلاٰةَوَیُوٴْتُوْنَ الزَّکٰاةَ وَھُمْ رٰاکِعُونَ (سورہ ما ئدہ آیت/۵۵۔)
”بس تمھارا ولی اللہ ہے اوراسکا رسول اوروہ صاحبان ایمان جونمازقائم کرتے ہیں اورحالت رکوع میں زکوٰة ادا کرتے ہیں“ علی بن ابی طالب(ع) نے نماز قائم کی ہے اور حالت رکوع میں زکوٰة دی ہے وہ ہر حال میں رضاء الٰہی کے طلب گار ہیں۔
میں نے جبرئیل کے ذریعہ خدا سے یہ گذارش کی کہ مجہے اس وقت تمھارے سامنے اس پیغام کو پہنچانے سے معذور رکھا جائے اس لئے کہ میں متقین کی قلت اور منافقین کی کثرت ،فساد برپاکرنے والے ،ملامت کرنے والے اور اسلا م کا مذاق اڑانے والے منافقین کی مکاریوںسے با خبرہوں ،جن کے بارے میں خدا نے صاف کہہ دیا ہے کہ”یہ اپنی زبانوں سے وہ کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہے ،اور یہ اسے معمولی بات سمجھتے ہیں حالانکہ پروردگارکے نزدیک یہ بہت بڑی بات ہے “۔اسی طرح منافقین نے بارھا مجہے اذیت پہنچائی ہے یھاں تک کہ وہ مجہے ”اُذُنْ“”ہر بات پرکان دہرنے والا“کہنے لگے اور ان کا خیال تھا کہ میں ایسا ہی ہوں چونکہ اس (علی )کے ھمیشہ میرے ساتھ رہنے،اس کی طرف متوجہ رہنے،اور اس کے مجہے قبول کرنے کی وجہ سے یھاں تک کہ خداوند عالم نے اس سلسلہ میں آیت نازل کی ہے:
وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ ۚ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَّكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَيُؤْمِنُ (سوره توبہ آیت/ ۶۱۔)
”اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو رسول کو ستاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ بس کان ہی (کان) ہیں (اے رسول) تم کہدوکہ (کان تو ہیں مگر)تمہاری بھلائی (سننے) کے کان ہیں کہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور مو منین( کی باتوں) کا یقین رکھتے ہیں۔
ورنہ میں چاہوں تو ”اُذُنْ “کہنے والوں میں سے ایک ایک کا نام بھی بتا سکتا ہوں،اگر میں چاہوں تو ان کی طرف اشارہ کرسکتا ہوں اور اگرچا ہوں توتمام نشانیوں کے ساتھ ان کاتعارف بھی کراسکتا ہوں ،لیکن میں ان معاملات میں کرم اور بزرگی سے کام لیتا ہوں ۔
لیکن ان تمام باتوں کے باوجود مرضیٴ خدا یہی ہے کہ میں اس حکم کی تبلیغ کردوں۔
اس کے بعد آنحضرت (ص) اس آیت کی تلا وت فرما ئی :
یٰااٴَیُّھَاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ مٰااُنزِلَ اِلَیکَ مِنْ رَبِّک (فِیْ حَقِّ عَلِیْ )وَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمٰابَلَّغْتَ رِسٰالَتَہُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النّٰاسِ(سوره مائدہ آیت/۶۷۔)
”اے رسول! جوحکم تمہاری طرف (علی (ع) کے سلسلہ میں) نازل کیاگیا ہے،اسے پہنچادو،اوراگرتم نے ایسا نہ کیاتورسالت کی تبلیغ نہیں کی اوراللہ تمہیں لوگوں کے شرسے محفوظ رکہے گا “
۳ بارہ اماموں کی امامت اور ولایت کا قانونی اعلان
لوگو! جان لو(اس سلسلہ میں خبر دار رہواس کو سمجھواور مطلع ہوجاؤ) ہوکہ اللہ نے علی کو تمہارا ولی اور امام بنادیا ہے اور ان کی اطاعت کو تمام مہاجرین ،انصار اورنیکی میں ان کے تابعین اور ہر شہری، دیہاتی، عجمی، عربی، آزاد، غلام، صغیر، کبیر، سیاہ، سفید پر واجب کردیا ہے ۔ہر توحید پرست کیلئے ان کا حکم جاری،ان کا امر نافذ اور ان کا قول قابل اطاعت ہے ،ان کا مخالف ملعون اور ان کا پیرو مستحق رحمت ہے۔ جو ان کی تصدیق کرے گا اور ان کی بات سن کر اطاعت کرے گا اللہ اسکے گناہوں کو بخش دے گا
ایہا الناس ! یہ اس مقام پر میرا آخری قیام ہے لہٰذا میری بات سنو ، اور اطاعت کرو اور اپنے پر ور دگار کے حکم کو تسلیم کرو ۔ اللہ تمہارا رب ، ولی اور پرور دگار ہے اور اس کے بعد اس کا رسول محمد(ص) تمہارا حاکم ہے جو آج تم سے خطاب کر رہا ہے۔ اس کے بعد علی تمہارا ولی اور بحکم خدا تمہارا امام ہے اس کے بعد امامت میری ذریت اور اس کی اولاد میں تمہارے خدا و رسول سے ملاقات کے دن تک با قی رہے گی ۔
حلال وہی ہے جس کو اللہ ،رسول اور انہوں(بارہ ائمہ )نے حلال کیا ہے اور حرام وہی ہے جس کو اللہ،رسول اور ان بارہ اماموں نے تم پر حرام کیا ہے ۔ اللہ نے مجہے حرام و حلال کی تعلیم دی ہے اور اس نے اپنی کتاب اور حلال و حرام میں سے جس چیز کا مجہے علم دیا تھا وہ سب میں نے اس( علی (ع) )کے حوالہ کر دیا ۔
ایہا الناس علی (ع) کو دوسروں پر فضیلت دو خداوندعالم نے ہر علم کا احصاء ان میں کر دیا ہے اور کو ئی علم ایسا نہیں ہے جو اللہ نے مجہے عطا نہ کیا ہو اور جو کچھ خدا نے مجہے عطا کیا تھا سب میں نے علی (ع) کے حوالہ کر دیا ہے۔ (َحْصَاہُ “ کا مطلب ” عَدَّ ہُ وَضَبَطَہُ “ہے ۔یعنی ذہن سے قریب کرنے کےلئے کلمہ”جمع اور جمع آوری “سے استفادہ کیا گیا ہے ۔) وہ امام مبین ہیں اور خداوند عالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے :
وَکُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنَاہُ فِیْ اِمَامٍ مُبِیْنٍ>(سورہ یس آیت/۱۲۔) ”ہم نے ہر چیز کا احصاء امام مبین میں کردیا ہے “
ایہا لناس ! علی (ع) سے بھٹک نہ جانا ، ان سے بیزار نہ ہو جانا اور ان کی ولایت کا انکار نہ کر دیناکہ وہی حق کی طرف ہدا یت کر نے والے ،حق پر عمل کر نے والے ، باطل کو فنا کر دینے والے اور اس سے روکنے والے ہیں ،انہیں اس راہ میں کسی ملامت کر نے والے کی ملامت کی پروا نہیں ہوتی ۔
وہ سب سے پہلے اللہ و رسول پر ایمان لا ئے اور اپنے جی جا ن سے رسول پرقربان تہے وہ اس وقت رسول کے ساتھ تہے جب لوگوں میں سے ان کے علا وہ کوئی عبادت خدا کر نے والا نہ تھا(انہوں نے لوگوں میں سب سے پھلے نماز قائم کی اور میرے ساتھ خدا کی عبادت کی ہے میں نے خداوند عالم کی طرف سے ان کو اپنے بستر پر لیٹنے کا حکم دیاتو وہ بھی اپنی جان فدا کرتے ہو ئے میرے بستر پر سو گئے ۔
ایہا الناس ! انہیں افضل قرار دو کہ انہیں اللہ نے فضیلت دی ہے اور انہیں قبول کرو کہ انہیں اللہ نے امام بنا یا ہے۔
ایہا الناس ! وہ اللہ کی طرف سے امام ہیں (وہ خداوند عالم کے امر سے امام ہیں۔) اور جو ان کی ولایت کا انکار کرے گا نہ اس کی توبہ قبول ہوگی اور نہ اس کی بخشش کا کوئی امکان ہے بلکہ اللہ یقینااس امر پر مخالفت کر نے والے کے ساتھ ایسا کرے گااور اسے ہمیشہ ہمیشہ کےلئے بدترین عذاب میں مبتلا کرے گا۔ لہٰذا تم ان کی مخالفت (میری مخالفت کرنے سے پرہیز کرو) سے بچو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس جہنم میں داخل ہو جاوٴ جس کا ایندہن انسان اور پتھر ہیں اور جس کو کفار کےلئے مہیا کیا گیا ہے ۔
ایہا الناس ! خدا کی قسم تمام انبیاء علیہم السلام و مرسلین نے مجہے بشارت دی ہے اور میں خاتم الانبیاء والمرسلین اور زمین و آسمان کی تمام مخلوقات کےلئے حجت پر ور دگار ہوں جو اس بات میں شک کرے گا وہ گذشتہ زمانہ ٴ جاہلیت جیسا کا فر ہو جا ئے گا اور جس نے میری کسی ایک بات میں بھی شک کیا اس نے گویا تمام باتوں کو مشکوک قرار دیدیا اورجس نے ہمارے کسی ایک امام کے سلسلہ میں شک کیااس نے تمام اماموںکے بارے میں شک کیااور ہمارے بارے میں شک کرنے والے کا انجام جہنم ہے ۔
اس بات کا بیان کردینا بھی ضروری ہے کہ شاید ”جاہلیت اول کے کفر“ سے دور جاہلیت کے کفر کے درجہ میں سے شدیدترین درجہ ہے ۔
ایہا الناس ! اللہ نے جو مجہے یہ فضیلت عطا کی ہے یہ اس کا کرم اور احسان ہے ۔ اس کے علا وہ کو ئی خدا نہیں ہے اور وہ میری طرف سے تا ابد اور ہر حال میں اسکی حمد و سپاس ہے ۔
ایہا الناس ! علی (ع) کی فضیلت کا اقرار کرو کہ وہ میرے بعد ہر مرد و زن سے افضل و بر تر ہے جب تک اللہ رزق نا زل کررہا ہے اور اس کی مخلو ق با قی ہے ۔ جو میر ی اس بات کو رد کرے اور اس کی موافقت نہ کرے وہ ملعون ہے ملعون ہے اور مغضوب ہے مغضوب ہے ۔ جبرئیل نے مجہے یہ خبر دی ہے کہ پر ور دگار کا ارشاد ہے کہ جو علی سے دشمنی کرے گا اور انہیں اپنا حاکم تسلیم نہ کر ے گا اس پر میری لعنت اور میرا غضب ہے ۔لہٰذا ہر شخص کو یہ دیکھنا چا ہئے کہ اس نے کل کےلئے کیا مہیا کیا ہے ۔اس کی مخالفت کرتے وقت اللہ سے ڈرو ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ راہ حق سے قدم پھسل جا ئیں اور اللہ تمہا رے اعمال سے با خبر ہے ۔
ایہا الناس ! علی (ع) وہ جنب اللہ (” جنب “ یعنی طرف، جہت، پہلو۔ شاید یہاں پراس سے مراد امیر المو منین علیہ السلام کا خداوند عالم سے بہت زیادہ مرتبط ہونا ہے) ہیں جن کاخداوند عالم نے اپنی کتاب میں تذکرہ کیا ہے اور ان کی مخالفت کرنے والے کے بارے میں فرمایا ہے: اَنْ تَقُوْلَ نَفْسٌ یَاحَسْرَتَاعَلیٰ مَافَرَّطَّتُ فِیْ جَنْبِ اللّٰہِ (سورہ زمر آیت/۵۶۔) ہائے افسوس کہ میں نے جنب خداکے حق میں بڑی کوتاہی کی ہے“
ایہا الناس ! قر آن میں فکر کرو ، اس کی آیات کو سمجھو ، محکمات میں غوروفکر کرو اور متشابہات کے پیچہے نہ پڑو ۔ خدا کی قسم قر آن مجید کے باطن اور اس کی تفسیر (” زواجر “یعنی باطن ،ضمیر اورنہی کے معنی میں بھی آیا ہے ،اور پہلے معنی عبارت سے بہت زیادہ منا سبت رکھتے ہیں) کو اس کے علاوہ اور کو ئی واضح نہ کرسکے گا۔ (خدا کی قسم وہ نور واحد کے عنوان سے تمہارے لئے بیان کرنے والے ہیں ۔)
جس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہے اور جس کا بازو تھام کر میں نے بلند کیا ہے اور جس کے بارے میں یہ بتا رہا ہوں کہ جس کا میں مو لا ہوں اس کا یہ علی (ع) مو لا ہے ۔ یہ علی بن ابی طالب (ع) میرا بھائی ہے اور وصی بھی ۔ اس کی ولایت کا حکم اللہ کی طرف سے ہے جو مجھ پر نا زل ہوا ہے ۔
ایہا الناس ! علی (ع) اوران کی نسل سے میری پاکیزہ اولاد ثقل اصغر ہیں اور قرآن ثقل اکبر ہے (یہ حدیث : انی تارک فیکم الثقلین کی طرف اشارہ ہے ۔) ان میں سے ہر ایک دوسرے کی خبر دیتا ہے اور اس سے جدا نہ ہوگا یہاں تک کہ دونوں حوض کو ثر پر وارد ہوں گے جان لو! میرے یہ فرزند مخلوقات میں خدا کے امین اور زمین میں خدا کے حکام ہیں ۔
آگاہ ہو جاوٴ میں نے میں نے اداکر دیا میں نے پیغام کو پہنچا دیا ۔میں نے بات سنا دی، میں نے حق کو واضح کر دیا، آگاہ ہو جا وٴ جو اللہ نے کہا وہ میں نے دہرا دیا۔ پہر آگاہ ہو جاوٴ کہ امیر المو منین میرے اس بھائی کے علاوہ کو ئی نہیں ہے اور اس کے علاوہ یہ منصب کسی کےلئے سزا وار نہیں ہے ۔
۴ پیغمبر اکرم (ص)کے ہاتھوں پر امیرالمومنین علیہ السلام کا تعارف
(اس کے بعد علی (ع) کو اپنے ہا تھوں پرپازوپکڑکر بلند کیا یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت علی علیہ السلام منبر پر پیغمبر اسلام(ص) سے ایک زینہ نیچے کھڑے ہوئے تہے اور آنحضرت (ص) کے دائیں طرف مائل تہے گویا دونوں ایک ہی مقام پر کھڑے ہو ئے ہیں ۔)
اس کے بعد پیغمبر اسلام(ص) نے اپنے دست مبارک سے حضرت علی علیہ السلام کو بلند کیا اور ان کے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھایااورعلی (ع) کو اتنابلند کیا کہ آپ (ع) کے قدم مبارک آنحضرت(ص) کے گھٹنوں کے برابر آگئے۔
اس کے بعد آپ (ص) نے فر مایا :
ایھا الناس !یہ علی (ع) میرا بھائی اور وصی اور میرے علم کا مخزن اورمیری امت میں سے مجھ پر ایمان لانے والوںکے لئے میرا خلیفہ ہے اور کتاب خدا کی تفسیر کی رو سے بھی میرا جانشین ہے یہ خدا کی طرف دعوت دینے والا ،اس کی مر ضی کے مطابق عمل کر نے والا ،اس کے دشمنوں سے جہاد کر نے والا، اس کی اطاعت پر ساتھ دینے والا ، اس کی معصیت سے رو کنے والا ۔
یہ اس کے رسول کا جا نشین اور مو منین کا امیر ،ہدایت کرنے والاامام ہے اورناکثین( بیعت شکن ) قاسطین (ظالم) اور مارقین (خا رجی افرا (ناکثین :طلحہ ،زبیر ،عائشہ اور اہل جمل ؛قاسطین :معاویہ اور اہل صفین ؛اور مارقین :اہل نہروان ہیں) سے جہاد کر نے والا ہے ۔
خداوند عالم فرماتا ہے :<مٰایُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ (سورہ ق آیت/۲۹۔) ”میرے پاس بات میں تبدیلی نہیں ہوتی ہے “ خدایا تیرے حکم سے کہہ رہا ہوں۔ خدا یا علی (ع) کے دوست کو دوست رکھنا اور علی (ع) کے دشمن کو دشمن قرار دینا ،جو علی (ع) کی مدد کرے اس کی مدد کرنا اور جو علی (ع) کو ذلیل و رسوا کرے تو اس کو ذلیل و رسوا کرناان کے منکر پر لعنت کر نا اور ان کے حق کا انکارکر نے والے پر غضب نا زل کرنا ۔
پر ور دگا را ! تو نے اس مطلب کو بیان کرتے وقت اور آج کے دن علی (ع) کو تاج ولایت پہناتے وقت علی (ع) کے بارے میں یہ آیت نازل فر ما ئی:
الْیَوْمَ اٴَکْمَلْتُ لَکُمْ دینَکُمْ وَاٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتی وَرَضیتُ لَکُمْ الاِسْلاٰمَ دیناً (سورہ ما ئدہ آیت /۳۔)
”آج میں نے دین کو کامل کر دیا، نعمت کو تمام کر دیا اور اسلام کو پسندیدہ دین قرار دیدیا“
وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَالاِسْلاٰمِ دیناًفَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ وَھُوَفِی الْآخِرَةِمِنَ الْخاسِرینَ۔(سورہ آل عمران آیت/ ۸۵۔)
”اور جو اسلام کے علاوہ کو ئی دین تلاش کر ے گا وہ دین قبول نہ کیا جا ئے گا اور وہ شخص آخرت میں خسارہ والوں میں ہو گا “
پرور دگارا میں تجہے گواہ قرار دیتا ہوں کہ میں نے تیرے حکم کی تبلیغ کر دی۔
۵ امت کو مسئلہ امامت پر توجہ دینے پر زور دینا
ایہا الناس !اللہ نے دین کی تکمیل علی (ع) کی امامت سے کی ہے ۔لہٰذا جو علی (ع) اور ان کے صلب سے آنے والی میری اولاد کی امامت کا اقرار نہ کرے گا ۔اس کے دنیا و آخرت کے تمام اعمال بر باد ہو جا ئیں گے وہ جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا ۔ ایسے لوگوں کے عذاب میں کو ئی تخفیف نہ ہو گی اور نہ انہیں مہلت دی جا ئے گی ۔
ایہا الناس ! یہ علی (ع) ہے تم میں سب سے زیادہ میری مدد کر نے والا ، تم میں سے میرے سب سے زیادہ قریب تر اور میری نگاہ میں عزیز تر ہے ۔اللہ اور میں دونوں اس سے را ضی ہیں ۔قرآن کریم میں جو بھی رضا کی آیت ہے وہ اسی کے با رے میں ہے اور جہاں بھی یا ایہا الذین آ منوا کہا گیا ہے اس کا پہلا مخا طب یہی ہے قرآن میں ہر آیت مدح اسی کے با رے میں ہے ۔ سورہ ھل اتیٰ میں جنت کی شہا دت صرف اسی کے حق میں دی گئی ہے اور یہ سورہ اس کے علا وہ کسی غیر کی مدح میں نا زل نہیں ہوا ہے ۔
ایہا الناس ! یہ دین خدا کا مدد گار ، رسول خدا (ص) سے دفاع کر نے والا ، متقی ، پا کیزہ صفت ، ہادی اور مہدی ہے ۔تمہارا نبی سب سے بہترین نبی اور اس کا وصی بہترین وصی ہے اور اس کی اولاد بہترین او صیاء ہیں ۔
ایہا الناس !ہر نبی کی ذریت اس کے صلب سے ہو تی ہے اور میری ذریت علی (ع) کے صلب سے ہے
ایہا الناس ! ابلیس نے حسد کر کے آدم کو جنت سے نکلوادیا لہٰذا خبر دار تم علی سے حسد نہ کرنا کہ تمہارے اعمال برباد ہو جا ئیں ،اور تمہا رے قد موں میں لغزش پیدا ہو جا ئے ،آدم صفی اللہ ہو نے کے با وجود ایک ترک او لیٰ پر زمین میں بھیج دئے گئے تو تم کیا ہو اور تمہاری کیا حقیقت ہے ۔تم میں دشمنان خدا بھی پا ئے جا تے ہیں یاد رکھو علی کا دشمن صرف شقی ہو گا اور علی کا دوست صرف تقی ہو گا اس پر ایمان رکھنے والاصرف مو من مخلص ہی ہو سکتا ہے اور خدا کی قسم علی (ع) کے با رے میں ہی سورہ عصر نا زل ہوا ہے ۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَالْعَصْرِاِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْر (سورہ عصر:1)
”بنام خدائے رحمان و رحیم ۔قسم ہے عصر کی ،بیشک انسان خسارہ میں ہے “مگر علی (ع) جو ایمان لا ئے اور حق اور صبر پر راضی ہو ئے ۔
ایہا الناس !میں نے خدا کو گواہ بناکر اپنے پیغام کو پہنچا دیا اور رسول کی ذمہ داری اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔ایہا الناس !اللہ سے ڈرو ،جو ڈرنے کا حق ہے اور خبر دار !اس وقت تک دنیا سے نہ جانا جب تک اس کے اطاعت گذار نہ ہو جا ؤ ۔
۶ منافقوں کی کار شکنیوں کی طرف اشارہ
ایہا الناس !”اللہ ، اس کے رسول(ص) اور اس نور پر ایمان لا وٴ جو اس کے ساتھ نا زل کیا گیا ہے ۔قبل اس کے کہ خدا کچھ چہروں کو بگا ڑ کر انہیں پشت کی طرف پہیر دے یا ان پر اصحاب سبت کی طرح لعنت کرے “
خدا کی قسم اس آیت سے میرے اصحاب کی ایک قوم کا قصد کیا گیا ہے کہ جن کے نام و نسب سے میں آشنا ہوں لیکن مجہے ان سے پردہ پوشی کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔پس ہر انسان اپنے دل میں حضرت علی علیہ السلام کی محبت یا بغض کے مطابق عمل کرتاہے ۔
ایہا الناس !نور کی پہلی منزل میں ہوں میرے بعد علی (ع) اور ان کے بعد ان کی نسل ہے اور یہ سلسلہ ا س مہدی قائم تک بر قرار رہے گاجو اللہ کاحق اورہما راحق حا صل کر ے گا چونکہ اللہ نے ہم کو تمام مقصرین ،معا ندین ،مخا لفین ،خا ئنین ،آثمین اور ظالمین کے مقابلہ میں اپنی حجت قرار دیا ہے ۔
ایہا الناس !میں تمہیں با خبر کرنا چا ہتا ہوں کہ میں تمہا رے لئے اللہ کا نما ئندہ ہوں جس سے پہلے بہت سے رسول گذر چکے ہیں ۔ تو کیا میں مر جا وٴں یا قتل ہو جا ؤں تو تم اپنے پرا نے دین پر پلٹ جا وٴ گے ؟ تو یاد رکھو جو پلٹ جا ئے گا وہ اللہ کا کو ئی نقصان نہیں کرے گا اور اللہ شکر کرنے والوں کو جزا دینے والا ہے ۔آگاہ ہو جا وٴ کہ علی (ع) کے صبر و شکر کی تعریف کی گئی ہے اور ان کے بعد میری اولا د کو صابر و شاکر قرار دیا گیا ہے ۔جو ان کے صلب سے ہے ۔
ایہا الناس !مجھ پر اپنے اسلام کا احسان نہ رکھو بلکہ خدا پر بھی احسان نہ سمجھوکہ وہ تمہارے اعمال کو نیست و نابود کردے اور تم سے ناراض ہو جا ئے ،اور تمہیں آگ اور”پگھلے ہوئے “تانبے کے عذاب میں مبتلا کردے تمہارا پروردگار مسلسل تم کو نگاہ میں رکہے ہو ئے ہے ۔
آنحضرت (ص) نے ”پہلے صحیفہٴ ملعونہ “کی طرف اشارہ فر مایا ہے جس پرمنافقین کے پانچ بڑے افراد نے حجة الوداع کے موقع پر کعبہ میں دستخط کئے تہے جس کا خلاصہ یہ تھا کہ پیغمبر اکرم(ص) کے بعد خلافت ان کے اہل بیت علیہم السلام تک نہیں پہنچنی چا ہئے اس سلسلہ میں اس کتاب کے تیسرے حصہ کے دوسرے جزء کی طرف رجوع کیجئے “
ایہا الناس !عنقریب میرے بعد ایسے امام آئیں گے جو جہنم کی دعوت دیں گے اور قیامت کے دن ان کا کو ئی مدد گار نہ ہو گا ۔اللہ اور میں دونوں ان لوگوں سے بیزار ہیں ۔
ایہا الناس !یہ لوگ اور ان کے اتباع و انصار سب جہنم کے پست ترین درجے میں ہو ں گے اور یہ متکبر لوگو ں کا بد ترین ٹھکانا ہے ۔آگاہ ہو جا وٴ کہ یہ لوگ اصحاب صحیفہ ہیں لہٰذا تم میں سے ہر ایک اپنے صحیفہ پر نظر رکہے ۔
راوی کہتا ہے :جس وقت پیغمبر اکرم(ص) نے اپنی زبان مبارک سے ”صحیفہ ٴ ملعونہ “کا نام ادا کیا اکثر لوگ آپ کے اس کلام کا مقصد نہ سمجھ سکے اور اذہان میں سوال ابہرنے لگے صرف لوگوں کی قلیل جما عت آپ کے اس کلام کا مقصد سمجھ پائی ۔
ایہا الناس ! آگاہ ہو جا وٴ کہ میں خلافت کو امامت اوروراثت کے طورپر قیامت تک کےلئے اپنی اولاد میں امانت قرار دے کر جا رہا ہوں اور مجہے جس امر کی تبلیغ کا حکم دیا گیا تھا میں نے اس کی تبلیغ کر دی ہے تا کہ ہر حاضر و غائب ،مو جود و غیر موجود ، مولود و غیر مولود سب پر حجت تمام ہوجائے ۔ اب حا ضر کا فریضہ ہے کہ قیامت تک اس پیغام کوغائب تک اورماں باپ اپنی اولاد کے حوالہ کر تے رہیں ۔
میرے بعد عنقریب لوگ اس امامت(خلافت) کو بادشاہت سمجھ کرغصبی (یہ سورہ رحمن کی ۳۱ اور ۳۵ ویں آیت کی طرف اشارہ ہے ۔) غصب کرلیں گے ،خدا غاصبین اور تجاوز کرنے والوں پر لعنت کرے ۔یہ وہ وقت ہوگا جب (اے جن و انس تم پر عذاب آئے گا آگ اور(پگھلے ہوئے) تانبے کے شعلے بر سا ئے جا ئیں گے جب کو ئی کسی کی مدد کرنے والا نہ ہو گا۔ (یہ سورہ آل عمران کی ۱۷۹ویںآیت کی طرف اشارہ ہے)
ایہا الناس !اللہ تم کو انہیں حالات میں نہ چھو ڑے گا جب تک خبیث اور طیب کو الگ الگ نہ کر ایہا الناس !کوئی قریہ[68] ایسا نہیں ہے مگر یہ کہ اللہ (اس میں رہنے والوںکو آیات الٰہی کی تکذیب کی بنا پر) ہلا ک کر دےگااور اسے حضرت مہدی کی حکومت کے زیر سلطہ لے آئے گا یہ اللہ کا وعدہ ہے اوراللہ صا دق الوعد ہے۔
ایہا الناس !تم سے پہلے اکثر لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور اللہ ہی نے ان لوگوں کو ہلاک کیا ہے۔ اور وہی بعد والوںکو ہلاک کر نے والا ہے ۔خداوند عالم کا فرمان ہے :
اٴَلَمْ نُھْلِکِ الْاٴَوَّلینَ،ثُمَّ نُتْبِعُھُمُ الْآخِرینَ،کَذٰلِکَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمینَ،وَیْلٌ یَوْمَئِذٍ لِلْمُکَذِّبینَ(سورہ مرسلات :آیات /۱۶۔۱۹۔)
ترجمہ: ”کیا ہم نے ان کے پہلے والوں کو ہلاک نہیں کردیا ہے پہر دوسرے لوگوں کو بھی انہیں کے پیچہے لگا دیں گے ہم مجرموں کے ساتھ اسی طرح کا بر تاوٴ کرتے ہیں اور آج کے دن جھٹلانے والوں کے لئے بربادی ہی بربادی ہے “
ایہا الناس !اللہ نے مجہے امر و نہی کی ہدایت کی ہے اور میں نے اللہ کے حکم سے علی(ع) کوامر ونہی کیا ہے۔ وہ امر و نہی الٰہی سے با خبر ہیں۔ ان کے امر کی اطاعت کرو تاکہ سلا متی پا وٴ ، ان کی پیروی کرو تاکہ ہدایت پا وٴ ان کے روکنے پر رک جا وٴ تاکہ راہ راست پر آجا وٴ ۔ان کی مر ضی پر چلو اور مختلف راستے تمہیں اس کی راہ سے منحرف کردیں گے ۔
۷ اہل بیت علیہم السلام کے پیرو کار اور ان کے دشمن
میں وہ صراط مستقیم ہوں جس کی اتباع کا خدا نے حکم دیا ہے۔ پہر میرے بعد علی (ع) ہیں اور ان کے بعد میری اولاد جو ان کے صلب سے ہے یہ سب وہ امام ہیں جو حق کے ساتھ ہدایت کر تے ہیں اور حق کے ساتھ انصاف کر تے ہیں ۔
اس کے بعد آنحضرت (ص) نے اس طرح فرمایا :<بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، الحمد للہ رب العا لمین ۔۔۔> سورہ الحمد کی تلاوت کے بعد آپ نے اس طرح فرمای:
خدا کی قسم یہ سورہ میرے اور میری اولاد کے با رے میں نا زل ہوا ہے ، اس میں اولاد کےلئے عمو میت بھی ہے اور اولاد کے ساتھ خصوصیت بھی ہے ۔(سورہ مجا دلہ آیت/ ۲۲۔) یہی خدا کے دوست ہیں جن کےلئے نہ کوئی خو ف ہے اور نہ کو ئی حزن ! یہ حزب اللہ ہیں جو ہمیشہ غالب رہنے والے ہیں ۔
آگاہ ہو جا وٴ کہ دشمنان علی ہی اہل ِ تفرقہ ، اہل تعدی اور برادران شیطان ہیں جواباطیل کوخواہشات نفسانی کی وجہ سے ایک دوسرے تک پہونچا تے ہیں ۔(سورہ انعام آیت/۸۲۔)
آگاہ ہو جا وٴ کہ ان کے دوست ہی مو منین بر حق ہیں جن کا ذکر پر ور دگار نے اپنی کتاب میں کیا ہے:
لَاتَجِدُ قَوْماًیُوٴمِنُوْنَ بِاللہِ والْیَوْمِ الْآخِرِیُوَادُّوْنَ مَنْ حَادَّاللہَ وَرَسُوْلَہ وَلَوْ کَانُوْااٰبَائَھُمْ اَوْاَبْنَائَھُمْ اَوْاِخْوَانَھُمْ اَوْعَشِیْرَتَھُمْ ،اُولٰئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِھِم الاِیْمَانَ ۔۔۔(سورہ انعام آیت/۸۲۔)
”آپ کبھی نہ دیکہیں گے کہ جوقوم اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والی ہے وہ ان لوگوں سے دوستی کر رہی ہے جو اللہ اور رسول سے دشمنی کر نے والے ہیں چاہے وہ ان کے باپ دادا یا اولاد یا برادران یا عشیرة اور قبیلہ والے ہی کیوں نہ ہوں اللہ نے صاحبان ایمان کے دلوں میں ایمان لکھ دیا ہے “
آگاہ ہو جا وٴ کہ ان (اہل بیت )کے دوست ہی وہ افراد ہیں جن کی توصیف پر ور دگار نے اس انداز سے کی ہے الَّذِیْنَ آمَنُوْاوَلَمْ یَلْبَسُوْااِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ اُوْلٰئِکَ لَھُمُ الْاَمْنُ وَھُمْ مُھْتَدُوْن(سورہ انعام آیت/۸۲)
” جو لوگ ایمان لا ئے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہیں کیا انہیں کےلئے امن ہے اور وہی ہدایت یا فتہ ہیں “
آگاہ ہو جا ؤ کہ ان کے دوست وہی ہیں جو ایمان لائے ہیں اور شک میں نہیں پڑے ہیں ۔
آگاہ ہوجاوٴ کہ ان کے دوست ہی وہ ہیں جوجنت میں امن و سکون کے ساتھ داخل ہو ں گے اور ملا ئکہ سلام کے ساتھ یہ کہہ کے ان کا استقبال کریں گے کہ تم طیب و طاہر ہو ، لہٰذا جنت میں ہمیشہ ہمیشہ کےلئے داخل ہو جا وٴ “
آگاہ ہو جا وٴ کہ ان کے دوست ہی وہ ہیں جن کے لئے جنت ہے اور انہیں جنت میں بغیر حساب رزق دیا جائیگا۔
آگاہ ہو جا وٴ کہ ان (اہل بیت ) کے دشمن ہی وہ ہیں جوآتش جہنم کے شعلوں میں داخل ہوں گے۔
آگاہ ہو جا وٴ کہ ان کے دشمن وہ ہیں جوجہنم کی آواز اُس عالم میں سنیں گے کہ اس کے شعلے بھڑک
رہے ہوں گے اور وہ ان کو دیکہیں گے ۔
آگاہ ہو جا وٴ کہ ان کے دشمن وہ ہیں جن کے با رے میں خدا وند عالم فر ماتا ہے:
کُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّةٌ لَعَنَتْ اُخْتَھَا۔۔۔ (سورہ اعراف آیت /۳۸ ۔)
ترجمہ: ” (جہنم میں) داخل ہو نے والا ہر گروہ دوسرے گروہ پر لعنت کرے گا ۔۔۔‘ ‘
آگاہ ہو جا وٴ کہ ان کے دشمن ہی وہ ہیں جن کے با رے میں پر ور دگار کا فرمان ہے:
کُلَّمَا اُلْقِیَ فِیْھَا فَوْجٌ سَاٴَلَھُمْ خَزْنَتُھَااَلَمْ یَاتِکُمْ نَذِیْرٌ. قَالُوْابَلَیٰ قَدْجَاءَ نَانَذِیْرٌفَکَذَّبْنَاوَقُلْنَامَانَزَّلَ اللہُ مِنْ شَیْءٍ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّافِیْ ضَلَالٍ کَبِیْرٍ.۔۔۔اَلَا فَسُحْقاًلِاَصْحَا بِ السَّعِیْرِ(سورہ ملک آیات / ۸۔۱۱)
ترجمہ:” جب کوئی گروہ داخل جہنم ہو گا تو جہنم کے خازن سوال کریں گے کیا تمھا رے پاس کو ئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا ؟تو وہ کہیں گے آیا تو تھا لیکن ہم نے اسے جھٹلا دیا اور یہ کہہ دیا کہ اللہ نے کچھ بھی نا زل نہیں کیا ہے تم لوگ خود بہت بڑی گمرا ہی میں مبتلا ہو۔۔۔آگاہ ہوجا ؤ تو اب جہنم والوں کےلئے تو رحمت خدا سے دوری ہی دوری ہے“
آگاہ ہو جا وٴ کہ ان کے دوست ہی وہ ہیں جو اللہ سے از غیب ڈرتے ہیں اور انہیں کےلئے مغفرت اور اجر عظیم ہے ۔
ایہا الناس!دیکھو آگ کے شعلوں اوراجر عظیم کے ما بین کتنا فا صلہ ہے ۔
ایہا الناس!ہمارا دشمن وہ ہے جس کی اللہ نے مذمت کی اور اس پر لعنت کی ہے اور ہمارا دوست وہ ہے جس کی اللہ نے تعریف کی ہے اور اس کو دوست رکھتا ہے ۔
ایہا الناس! آگاہ ہو جا وٴ کہ میں ڈرانے والا ہو ں اور علی (ع) بشارت دینے والے ہیں۔
ایہا الناس!میں انذار کرنے والا اور علی (ع) ہدایت کرنے والے ہیں۔
ایہا الناس!میں پیغمبر ہوں اور علی (ع) میرے جا نشین ہیں ۔
ایہا الناس!آگاہ ہو جا وٴ میں پیغمبر ہوں اور علی (ع) میرے بعد امام اور میرے وصی ہیں اوران کے بعد کے امام ان کے فرزند ہیں آگاہ ہو جاوٴ کہ میں ان کا باپ ہوں اور وہ اس کے صلب سے پیدا ہو نگے۔
۸ حضرت مہدی عج۔۔
یاد رکہو کہ آخری امام ہمارا ہی قائم مہدی ہے ، وہ ادیان پر غالب آنے والا اور ظالموں سے انتقام لینے والا ہے ،وہی قلعوں کو فتح کر نے والا اور ان کو منہدم کر نے والا ہے ،وہی مشرکین کے ہر گروہ پر غالب اور ان کی ہدایت کر نے والا ہے ۔
آگاہ ہوجا ؤ وہی اولیاء خداکے خون کا انتقام لینے والااور دین خدا کا مدد گار ہے جان لو!کہ وہ عمیق سمندر سے استفادہ کر نے والا ہے ۔
عمیق دریا سے مراد میں چند احتمال پائے جا تے ہیں ،منجملہ دریائے علم الٰہی ،یا دریائے قدرت الٰہی ،یا اس سے مراد قدرتوں کا وہ مجموعہ ہے جو خداوند عالم نے امام علیہ السلام کو مختلف جہتوں سے عطا فر مایا ہے “
وہی ہر صاحب فضل پر اس کے فضل اور ہر جا ہل پر اس کی جہالت کا نشانہ لگا نے والا ہے ۔
آگاہ ہو جا وٴ کہ وہی اللہ کا منتخب اور پسندیدہ ہے ، وہی ہر علم کا وارث اور اس پر احا طہ رکھنے والا ہے۔
آگاہ ہو جاؤ وہی پرور دگار کی طرف سے خبر دینے والا اورآیات الٰہی کو بلند کر نے والا ہے وہی رشید اور صراط مستقیم پر چلنے والا ہے اسی کو اللہ نے اپنا قانون سپرد کیا ہے ۔
اسی کی بشارت دور سابق میں دی گئی ہے ۔ وہی حجت با قی ہے اور اس کے بعد کو ئی حجت نہیں ہے ، ہر حق اس کے ساتھ ہے اور ہر نور اس کے پاس ہے ، اس پر کو ئی غالب آنے والا نہیں ہے وہ زمین پر خدا کا حاکم ، مخلوقات میں اس کی طرف سے حَکَم اور خفیہ اور علانیہ ہر مسئلہ میں اس کا امین ہے ۔
۹ بیعت کی وضاحت
ایہا الناس!میں نے سب بیان کر دیا اور سمجھا دیا ،اب میرے بعد یہ علی تمہیں سمجھائیں گے
آگاو ہو جا وٴ ! کہ میں تمہیں خطبہ کے اختتام پر اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ پہلے میرے ہاتھ پر ان کی بیعت کا اقرار کرو ، اس کے بعد ان کے ہاتھ پر بیعت کرو ، میں نے اللہ کے ساتھ بیعت کی ہے اور علی (ع) نے میری بیعت کی ہے اور میں خدا وند عالم کی جا نب سے تم سے علی(ع)کی بیعت لے رہا ہوں (خدا فرماتا ہے) اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَایُبَایِعُوْنَ اللہَ یَدُ اللہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ فَمَنْ نَکَثَ فَاِنَّمَایَنْکُثُ عَلیٰ نَفْسِہ وَمَنْ اَوْفَیٰ بِمَاعَاھَدَ عَلَیْہُ اللہَ فَسَیُوْتِیْہِ اَجْراًعَظِیْماً (سورہ فتح آیت/ ۱۰۔)
ترجمہ:” بیشک جو لوگ آپ کی بیعت کر تے ہیں وہ درحقیقت اللہ کی بیعت کر تے ہیں اور ان کے ہا تھوں کے اوپر اللہ ہی کا ہا تھ ہے اب اس کے بعد جو بیعت کو توڑ دیتا ہے وہ اپنے ہی خلاف اقدام کر تا ہے اور جو عہد الٰہی کو پورا کر تا ہے خدا اسی کو اجر عظیم عطا کر ے گا “
۱۰ حلال و حرام ،واجبات اور محرمات
ایہا الناس!یہ حج اور عمرہ اور یہ صفا و مروہ سب شعا ئر اللہ ہیں خدا وند عالم فر ماتا ہے:
فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِعتَمَرَفَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا۔۔۔ (سورہ بقرہ آیت / ۱۵۸) ”لہٰذا جوشخص بھی حج یا عمرہ کر ے اس کےلئے کو ئی حرج نہیں ہے کہ وہ ان دونوں پہا ڑیوں کا چکر لگا ئے “
ایہا الناس!خانہ ٴ خدا کا حج کرو جو لوگ یہاں آجاتے ہیں وہ بے نیاز ہو جا تے ہیں خوش ہوتے ہیں اور جو ا س سے الگ ہو جا تے ہیں وہ محتاج ہو جا تے ہیں۔
ایہا الناس!کو ئی مو من کسی مو قف(عرفات ،مشعر ،منی ) میں وقوف۔ ہیں کرتا مگر یہ کہ خدا اس وقت تک کے گناہ معاف کر دیتا ہے ،لہٰذا حج کے بعد اسے از سر نو نیک اعمال کا سلسلہ شروع کرنا چاہئے
ایہا الناس! حجاج کی مدد کی جاتی ہے اور ان کے اخراجات کا اس کی طرف سے معاوضہ دیا جاتا ہے اور اللہ محسنین کے اجر کو ضا ئع نہیں کرتا ہے ۔
ایہا الناس!پورے دین اور معرفت احکام کے ساتھ حج بیت اللہ کرو ،اور جب وہ مقدس مقامات سے واپس ہو تو مکمل توبہ اور ترک گنا ہ کے ساتھ ۔
ایھا الناس!نماز قائم کرو اور زکوٰة ادا کرو جس طرح اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے۔ اگر وقت زیادہ گذر گیا ہے اور تم نے کو تا ہی و نسیان سے کام لیا ہے تو علی (ع) تمہا رے ولی اور تمہارے لئے بیان کر نے والے ہیں جن کو اللہ نے میرے بعداپنی مخلوق پرامین بنایا ہے اور میرا جا نشین بنایا ہے وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔
وہ اور جو میری نسل سے ہیں وہ تمہارے ہر سوال کا جواب دیں گے اور جو کچھ تم نہیں جا نتے ہو سب بیان کر دیں گے ۔
آگاہ ہو جاوٴ کہ حلا ل و حرام اتنے زیادہ ہیں کہ سب کا احصاء اور بیان ممکن نہیں ہے ۔مجہے اس مقام پر تمام حلال و حرام کی امر و نہی کرنے اور تم سے بیعت لینے کا حکم دیا گیاہے اور تم سے یہ عہد لے لوں کہ جو پیغام علی (ع) اور ان کے بعد کے ائمہ کے با رے میں خدا کی طرف سے لا یا ہوں ،تم ان سب کا اقرار کرلوکہ یہ سب میری نسل اور اس (علی (ع) )سے ہیں اور امامت صرف انہیں کے ذریعہ قائم ہوگی ان کا آخری مہدی ہے جو قیا مت تک حق کے ساتھ فیصلہ کر تا رہے گا “
ایہا الناس!میں نے جس جس حلال کی تمہارے لئے رہنما ئی کی ہے اور جس جس حرام سے روکا ہے کسی سے نہ رجوع کیا ہے اور نہ ان میں کو ئی تبدیلی کی ہے لہٰذا تم اسے یاد رکھو اور محفوظ کرلو، ایک میں پہر اپنے لفظوں کی تکرار کر تا ہوں :نماز قا ئم کرو ، زکوٰة ادا کرو ، نیکیوں کا حکم دو ، برا ئیوں سے روکو ۔
اور یہ یاد رکھو کہ امر با لمعروف کی اصل یہ ہے کہ میری بات کی تہہ تک پہنچ جا وٴ اور جو لوگ حاضر نہیں ہیں ان تک پہنچا وٴ اور اس کے قبول کر نے کا حکم دو اور اس کی مخالفت سے منع کرو اس لئے کہ یہی اللہ کا حکم ہے اور یہی میرا حکم بھی ہے اور امام معصوم کو چھو ڑ کر نہ کو ئی امر با لمعروف ہو سکتا ہے اور نہ نہی عن المنکر۔
ایہا الناس!قرآن نے بھی تمہیں سمجھا یا ہے کہ علی (ع) کے بعد امام ان کے فرزند ہیں اور میں نے تم کو یہ بھی سمجھا دیا ہے کہ یہ سب میری اور علی کی نسل سے ہیں جیساکہ پر وردگار نے فر مایا ہے: وَجَعَلَھَاکَلِمَةً بَاقِیَةً فِیْ عَقَبِہِ (سورہ زخرف آیت / ۲۸۔)
ترجمہ:” اللہ نے (امامت )انہیں کی اولاد میں کلمہ باقیہ قرار دیا ہے “اور میں نے بھی تمہیں بتا دیا ہے کہ جب تک تم قرآن اور عترت سے متمسک رہو گے ہر گزگمراہ نہ ہو گے ۔
ایہا الناس! تقویٰ اختیار کرو تقویٰ۔ قیامت سے ڈرو جیسا کہ خدا وندعالم نے فر مایا ہے:
اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ (سورہ حج آیت/۱ ۔) ترجمہ: ” زلزلہ قیامت بڑی عظیم شیٴ ہے “
موت ، قیامت ،حساب، میزان ،اللہ کی با رگاہ کا محا سبہ ،ثواب اور عذاب سب کو یاد کرو کہ وہاں نیکیوں پر ثواب ملتا ہےاور برا ئی کر نے والے کا جنت میں کو ئی حصہ نہیں ہے۔
۱۱ قانونی طور پر بیعت لینا
ایہا الناس!تمہاری تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ایک ایک میرے ہاتھ پر ہاتھ ما ر کر بیعت نہیں کر سکتے ہو ۔لہٰذا اللہ نے مجہے حکم دیا ہے کہ میں تمہاری زبا ن سے علی (ع) کے امیر المو منین ہونے اور ان کے بعد کے ائمہ جو ان کے صلب سے میری ذریت ہیں سب کی امامت کا اقرار لے لوں اور میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ میرے فرزند ان کے صلب سے ہیں۔
لہٰذا تم سب مل کر کہو :ہم سب آپ کی بات سننے والے ، اطاعت کر نے والے ، راضی رہنے والے اور علی (ع) اور اولاد علی (ع) کی امامت کے با رے میں جو پروردگار کا پیغام پہنچایا ہے اس کے سا منے سر تسلیم خم کر نے والے ہیں ۔ہم اس بات پر اپنے دل ، اپنی روح ، اپنی زبان اور اپنے ہا تھوں سے آپ کی بیعت کر رہے ہیں اسی پر زندہ رہیں گے ، اسی پر مریں گے اور اسی پر دو بارہ اٹہیں گے ۔نہ کو ئی تغیر و تبدیلی کریں گے اور نہ کسی شک و ریب میں مبتلا ہو ں گے ، نہ عہد سے پلٹیں گے نہ میثاق کو تو ڑیں گے ۔
اورجن کے متعلق آپ نے فرمایا ہے کہ وہ علی امیر المومنین اور ان کی اولاد ائمہ آپ کی ذرّیت میں سے ہیں ان کی اطاعت کریں گے ۔جن میںسے حسن وحسین ہیں اور ان کے بعد جن کو اللہ نے یہ منصب دیا ہے اور جن کے بارے میں ہم سے ہمارے دلوں،ہماری جانوں ہماری زبانوں ہمارے ضمیروں اور ہمارے ہاتھوں سے عہدوپیمان لے لیاگیا ہے ہم اسکا کوئی بدل پسند نہیں کریں گے ،اور اس میں خدا ہمارے نفسوں میں کوئی تغیر و تبدل نہیں دیکہے گا۔
ہم ان مطالب کو آپ کے قول مبارک کے ذریعہ اپنے قریب اور دور سبھی اولاد اور رشتہ داروں تک پہنچا دیں گے اورہم اس پر خدا کو گواہ بناتے ہیں اور ہماری گواہی کے لئے اللہ کافی ہے اور آپ بھی ہمارے گواہ ہیں۔
ایہاالناس!اللہ سے بیعت کرو ،علی (ع) امیر المومنین ہونے اور حسن وحسین اور ان کی نسل سے باقی ائمہ کی امامت کے عنوان سے بیعت کرو۔جو غداری کرے گا اسے اللہ ہلاک کردے گا اور جو وفا کرے گا اس پر رحمت نازل کرے گا اور جو عہد کو توڑدے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا اور جو شخص خداوند عالم سے باندہے ہوئے عہد کو وفا کرے گا خدوند عالم اس کو اجر عظیم عطا کرے گا ۔
ایہاالناس !جومیں نے کہا ہے وہ کہو اور علی کو امیر المومنین کہہ کر سلام کرو، اور یہ کہو کہ پرودگار ہم نے سنا اور اطاعت کی ،پروردگاراہمیں تیری ہی مغفرت چاہئے اور تیری ہی طرف ہماری بازگشت ہے اور کہو :حمدو شکرہے اس خداکاجس نے ہمیں اس امر کی ہدایت دی ہے ورنہ اسکی ہدایت کے بغیر ہم راہ ہدایت نہیں پاسکتے تہے۔
ایہاالناس!علی ابن ابی طالب کے فضائل اللہ کی بارگاہ میں اور جواس نے قرآن میں بیان کئے ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں کہ میں ایک منزل پر شمار کر اسکوں۔لہٰذا جو بھی تمہیں خبر دے اور ان فضائلسے آگاہ کرے اسکی تصدیق کرو۔
یاد رکھو جو اللہ ،رسول،علی اور ائمہ مذکورین کی اطاعت کرے گا وہ بڑی کامیابی کا مالک ہوگا ۔
ایہا الناس!جو علی کی بیعت ،ان کی محبت اور انہیں امیر المومنین کہہ کر سلام کرنے میں سبقت کریں گے وہی جنت نعیم میں کامیاب ہوں گے ۔ایہالناس!وہ بات کہو جس سے تمہارا خدا راضی ہوجائے ورنہ تم اور تمام اہل زمین بھی منکر ہوجائیں تو اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہونچا سکتے۔
پرودگارا ! جو کچھ میں نے ادا کیا ہے اور جس کا تونے مجہے حکم دیا ہے اس کے لئے مومنین کی مغفرت فرما اور منکرین (کافرین )پر اپنا غضب نازل فرمااور ساری تعریف اللہ کے لئے ہے جو عالمین کا پالنے والا ہے ۔
.
.
°•••خطبہ غدیر•••°
مکمل حدیث برادران اہل سنت کی مستند کتب سے
محبآن اھل بیت کے لیے شاندار تحفۃ
حمد و ثناء اللہ کی ذات سے مخصوص ہے ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں ، اسی پر توکل کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں ۔ ہم برائی اور اپنے برے کاموں سے بچنے کے لئے اس کی پناہ چاہتے ہیں۔وہ اللہ جس کے علاوہ کوئی دوسرا ہادی و راہنما نہیں ہے ۔ اور جس نے بھی گمراہی کی طرف ہدایت کی وہ اس کے لئے نہیں تھی ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ، اور محمد ؐ اس کا بندہ اور رسول ہے۔ہاں اے لوگو ! وہ وقت قریب ہے کہ میں دعوتِ حق کو لبیک کہوں اور تمھارے درمیان سے چلا جاؤں تم بھی جواب دہ ہو اور میں بھی جواب دہ ہوں ۔
اس کے بعد فرمایا کہ : میرے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے ؟
کیا میں نے تم سے متعلق اپنی ذمہ داری کو پورا کردیا ہے ؟
یہ سن کر پورے مجمع نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمات کی تصدیق کی اور کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے بہت کوششیں کیں اور اپنی ذمہ داری کو پورا کیا اللہ آپ کو اس کا اچھا اجر دے ۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اس پوری دنیا کا معبود ایک ہے اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہے اور جنت و جہنم و آخرت کی جاویدانی زندگی میں کوئی شک نہیں ہے ؟
سب نے کہا کہ: صحیح ہے ہم گواہی دیتے ہیں ۔
اس کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! میں تمھارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ رہا ہوں ، میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد میری ان دونوں یادگاروں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو ۔
اس وقت ایک شخص کھڑا ہوا اور بلند آواز میں سوال کیا کہ ان دو اہم چیزوں سے کیا مراد ہے؟
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ایک اللہ کی کتاب ہے جس کا ایک سرا اللہ کی قدرت میں ہے اور دوسرا تمھارے ہاتھوں میں ، اور دوسرے میری عترت اور اہلبیت ہیں، اللہ نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ ہرگز ایک دوسرے جدا نہ ہوں گے ہاں اے لوگوں ! قرآن اور میری عترت پر سبقت نہ کرنا ، اور دونوں کے حکم کی تعمیل میں کوتاہی نہ کرنا ، ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے ۔
اس وقت حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر اتنا اونچا اٹھایا کہ دونوں کی بغلوں کی سفیدی سب کو نظر آنے لگی ، علی ؑ سے سب لوگوں کو متعرف کرایا ۔اس کے بعد فرمایا:
” مومنین پر خود ان سے زیادہ سزوار کون ہے ؟“
سب نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
” اللہ میرا مولیٰ ہے اور میں مومنین کا مولا ہوں اور میں ان کے نفسوں پر ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہوں۔ “
ہاں اے لوگو! ” من کنت مولاہ فہٰذا علی مولاہ اللہم وال من والاہ،وعاد من عاداہ واحب من احبہ وابغض من ابغضہ وانصر من نصرہ وخذل من خذلہ وادر ا لحق معہ حیث دار “
“جس جس کا میں مولیٰ ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں ،”
[ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اطمینان کے لئے اس جملے کو تین بار کہا تاکہ بعد میں کوئی مغالطہ نہ ہو]
اے اللہ اُسکو دوست رکھ جو علی ؑ کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکھ جو علیؑ کو دشمن رکھے ، اس سے محبت کر جو علی ؑ سے محبت کرے اور اس پر غضبناک ہو جو علی ؑ پر غضبناک ہو ، اس کی مدد کر جو علی ؑ کی مدد کرے اور اس کو رسوا کر جو علی کو رسوا کر ے اور حق کو ادھر موڑ دے جدھر جدھر علی ؑ مڑیں..
یہ پوری حدیث غدیر یا فقط اس کا پہلا حصہ یا فقط دوسرا حصہ ان مسندوں میں آیا ہے مسند احمد ابن حنبل ص 256
تاریخ دمشق ج 43 ، ص 207 ، 208 ،448
خصائص نسائی ص 181
المجمل کبیر ج 17 ، ص 39
سنن ترمذی ج 5 ، ص 633
المستدرک الصحیحین ج 213 ص 135
المعجم الاوسط ، ج 6 ، ص 95
مسند ابی یعلی ج 1 ، ص 280
المحاسن والمساوی ، ص 41
مناقب خوارزمی ص 104 ، اور دیگر کتب۔
مفسرین کا اتفاق ھے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم مولا علی علیہ السلام کی تبلیغ ولایت سے فارغ ھوئے تب یہ آیت نازل ھوئی
“آج میں نے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے(اس) دین اسلام کو پسند کیا”۔
سورہ المائدہ آیت۳
بحوالہ : تفسیر در منثور ملا جلال الدین سیوطی ج۲ ص۲۰۹ / ج۳ ص۳۹۸ مطبوعہ مصر
.
.
خطبہءِ غدیر میں میرے مالک سرکارِ حجت عج کا تذکرہ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سرکارِ نبی کریم ﷺ نے اپنے خطبہءِ غدیر میں مقصدِ کائنات عج کا تذکرہ فرمایا:
ياد رکھو کہ آخری امام “ھمارا ھی قائم مھدی عج” ھے ، وہ اديان پر غالب آنے والا اور ظالموں سے انتقام لينے والا ھے ، وھی قلعوں کو فتح کر نے والا اور ان کو منھدم کر نے والا ھے ، وھی مشرکين کے ھر گروہ پر غالب اور ان کي ھدايت کر نے والا ھے –
آگاہ هوجاؤ وھی اولياء خداکے خون کا انتقام لينے والا اور دين خدا کا مدد گار ھے جان لو ! کہ وہ عميق سمندر سے استفادہ کر نے والا ھے –
وھی ھر صاحب فضل پر اس کے فضل اور ھر جا ھل پر اس کي جھالت کا نشانہ لگا نے والا ھے –
آگاہ هو جاؤ کہ وھی اللہ کا منتخب اور پسنديدہ ھے ، وھی ھر علم کا وارث اور اس پر احا طہ رکھنے والا ھے-
آگاہ هو جاؤوھی پروردگار کي طرف سے خبر دينے والا اورآيات الٰھي کو بلند کر نے والا ھے وھی رشيد اور صراط مستقيم پر چلنے والا ھے اسی کو اللہ نے اپنا قانون سپرد کيا ھے –
اسی کي بشارت دور سابق ميں دی گئی ھے – وھی حجت با قی ھے اور اس کے بعد کو ئي حجت نھيں ھے ، ھر حق اس کے ساتھ ھے اور ھر نور اس کے پاس ھے ، اس پر کوئی غالب آنے والا نھيں ھے وہ زمين پر خدا کا حاکم ، مخلوقات ميں اس کی طرف سے حَکَم اور خفيہ اور علانيہ ھر مسئلہ ميں اس کا امين ھے
.
.
.
وانصرْ مَن نصرَه واخذلْ من خذلَه
اے اللہ جو علی کی مدد کرے تو اس کی مدد کرنا
اور جو علی کو بے یار و مددگار چھوڑ دے تُو اسے چھوڑ دینا
مجمع الزوائد 9/108
حکم : رجاله رجال الصحيح غير فطر بن خليفة وهو ثقة