امام علی ع اور سیدہ زھراء ص کا واقعہ غدیر سے استدلال کرنا (روایت)

اہل سنت بھائی ایک سوال یہ پوچھتے ہیں کہ اگر حدیث غٖدیر میں مولی کا معنی آقا وسرپرست ہوتا تو حضرت امام علی علیہ السلام اپنی خلافت کے لئے اس حدیث سے استدلال کرتے۔
ہمارا جواب یہی ہے کہ اہل سنت کے ہاں کئی ایسی روایات موجود ہیں جن میں امام علی علیہ السلام نے حدیث غدیر سے خلافت کے لئے استدلال کیا ہے، نیز امیر المومنین نے کئی مقامات پر اس حدیث سے استدلال کیا ہے، یہاں پر ہم ان روایات کو ذکر نہیں کرتے بلکہ اہل سنت کے بہت ہی بڑے اور جید عالم دین جناب سعد الدین تفتازانی (المتوفی ۷۹۳ ہجری) کا قول نقل کرتے ہیں:
جناب سعد الدین تفتازانی اپنی کتاب شرح المقاصد میں لکھتے ہیں:
أما حديث الغدير فهو أنه عليه السلام قد جمع الناس يوم غدير خم موضع بين مكة والمدينة بالحجفة وذلك بعد رجوعه عن حجة الوداع وكان يوما صائفا حتى أن الرجل ليضع رداءه تحت قدميه من شدة الحر وجمع الرجال وصعد عليه السلام عليها وقال مخاطبا معاشر المسلمين ألست أولى بكم من أنفسكم قالوا اللهم بلى قال فمن كنت مولاه فعلى مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه وانصر من نصره واخذل من خذله وهذا حديث متفق على صحته أورده علي رضي الله عنه يوم الشورى عندما حاول ذكر فضائله ولم ينكره أحد
حدیث غدیر: نبی کریم علیہ السلام نے مکہ ومدینہ کے درمیان جحفہ کے مقام پر غدیر خم کے دن لوگوں کو جمع کیا، جب نبی کریم حجۃ الوداع سے پلٹ رہے تھے اور اس دن اتنی سخت گرمی تھی کہ اس کی شدت کی وجہ سے لوگ اپنے پاوں کے نیچھے چادر بچھاتے تھے، کجاووں کو جمع کیا گیا اور رسول اللہ ان پر تشریف لے کر لوگوں کو مخاطب کیا اور فرمایا: اے مسلمانو! کیا تم پر تمھاری نفسوں سے زیادہ حقدار نہیں ہوں؟ تمام لوگوں نے جواب دیا: ہاں! (یارسول اللہ)۔ تو رسول اللہ نے فرمایا: پس جس کا میں مولا ہوں، اس کا علی مولا ہے۔
(تفتازانی لکھتے ہیں): اس حدیث کے صحیح ہونے پر اتفاق ہے، اسے حضرت علی نے شوری کے دن بیان کی تھی۔
شرح المقاصد في علم الكلام ج 2 ص 290 ، اسم المؤلف: سعد الدين مسعود بن عمر بن عبد الله التفتازاني الوفاة: 791هـ ، دار النشر : دار المعارف النعمانية – باكستان – 1401هـ – 1981م ، الطبعة : الأولى
یہاں ہم چند مطالب پیش کرتے ہیں:
حضرت علی نے شوریٰ کے دن حدیث غدیر سے استدلال کیا تھا، شوری کا دن اس دن کو کہا جاتا ہے جب حضرت عمر کی وفات کے بعد ۶ افراد (حضرت علی، زبیر، طلحہ، عثمان، عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص) اپنے درمیان خلیفہ کے انتخاب کے لئے بیٹھ گئے، اس شوری میں امام علی نے اپنی خلافت کے لئے دلائل دئیے کہ خلافت ان کا ہی حق ہے، اور ان دلائل میں سے سرفہرست دلیل حدیث غدیر ہے، واضح ہے کہ غدیر سے امام نے خلافت کے لئے استدلال کیا ہے، پس بعض اہل سنت کا یہ کہنا کہ امام علی نے غدیر سے اپنی خلافت کے لئے استدلال نہیں کیا ہے بالکل بھی غلط ہے۔ شیعہ سنی کتابوں میں ایسی کئی نصوص و روایات موجود ہیں جن میں حضرت علی اور اہل بیت کا حدیث غدیر سے استدلال کا ذکر ہے۔
شیخ صدوق رحمہ اللہ اپنی کتاب الخصال میں لکھتے ہیں:
قَالَتْ سَيِّدَةُ النِّسْوَانِ فَاطِمَةُ ع لَمَّا مُنِعَتْ فَدَكَ وَ خَاطَبَتِ الْأَنْصَارَ فَقَالُوا يَا بِنْتَ مُحَمَّدٍ لَوْ سَمِعْنَا هَذَا الْكَلَامَ مِنْكِ قَبْلَ بَيْعَتِنَا لِأَبِي بَكْرٍ مَا عَدَلْنَا بِعَلِيٍّ أَحَداً فَقَالَتْ وَ هَلْ تَرَكَ أَبِي يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ لِأَحَدٍ عُذْراً.
جب حضرت فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیھا کو فدک سے محروم کیا اور انصار کی عورتوں نے سیدہ سے فرمایا: اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ) کی بیٹی! اگر ہم جناب ابوبکر کی بیعت سے پہلے تمہاری باتیں سنتے تو ہم علی کے علاوہ کسی اور کے پاس نہ جاتے۔ بی بی سیدہ فاطمہ سلام اللہ نے فرمایا: کیا میرے بابا نے غدیر کے دن کسی کو عذر وبہانہ کا لائق رکھا ہے؟ (یعنی میرے بابا نے غدیر میں سب پر واضح کیا ہے کہ حضرت علی ہی خلیفہ ہیں، لہذا اب کسی کو بہانے کا حق نہیں)
الخصال ج ۱ ص ۱۷۳
امامت بلافصل حضرت علی ع اور اعلان غدیر سیدۃ النساء العلمین سلام اللہ علیہا کی نظر میں۔۔
.
حدثنا علي بن الحسين (5)، قال حدثنا محمد بن الحسين الكوفي، قال حدثنا محمد بن علي بن زكريا، عن عبد الله بن الضحاك، عن هشام بن محمد، عن عبد الرحمن، عن عاصم بن عمر، عن محمود بن لبيد قال: لما قبض رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم كانت فاطمة تأتي قبور الشهداء وتأتي قبر حمزة وتبكي هناك، فلما كان في بعض الأيام أتيت قبر حمزة رضي الله عنه فوجدتها صلوات الله عليها تبكي هناك، فأمهلتها حتى سكتت (1)، فأتيتها (2) وسلمت عليها وقلت: يا سيدة النسوان قد والله قطعت أنياط (3) قلبي من بكائك. فقالت: يا با عمر يحق (4) لي البكاء، ولقد أصبت بخير الآباء رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم، واشوقاه (5) إلى رسول الله، ثم أنشأت عليها السلام تقول:
محمود ابن لبيد کہتا ہے جب رسول خدا (ص) دنیا سے رخصت ہوئے تو حضرت فاطمہ ہمیشہ شہداء کی قبور اور حضرت حمزہ کی قبر پر آتی اور وہاں گریہ کیا کرتی تھیں۔
ایک دن میں حضرت حمزہ کی قبر پر آیا تو میں نے دیکھا کہ وہ وہاں بیٹھی گریہ کر رہی ہیں۔ میں انکے پاس گیا، سلام کرنے کے بعد عرض کیا: اے عورتوں کی سردار بی بی، خدا کی قسم آپکا گریہ سن کر میرے دل کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے ہیں۔
بی بی نے فرمایا: اے ابو عمر یہ میرا حق ہے کہ میں گریہ کروں کیونکہ میں اپنے بہترین والد گرامی سے جدا ہو گئی ہوں اور ان سے ملنے کی مشتاق ہوں۔۔۔۔۔
محمود کہتا ہے میں نے انکی خدمت میں عرض کیا: اے میری بی بی میرے دل میں کافی عرصے سے ایک سوال ہے۔ بی بی نے فرمایا: ہاں پوچھو، محمود نے کہا: کیا رسول خدا ص نے اپنی وفات سے پہلے حضرت علی ع کی امامت کو صراحت سے بیان کیا تھا ؟
بی بی نے فرمایا: بہت عجیب بات ہے کیا تم نے غدیر خم کے دن کو بھولا دیا ہے ؟ محمود نے کہا: نہیں، لیکن جو راز آپکے پاس ہے، میں وہ سننا چاہتا ہوں۔
حضرت زہرا نے فرمایا: خداوند شاہد ہے میں نے رسول خدا ص کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ: میں نے بہترین شخص حضرت علی ع کو تمہارے لیے اپنا جانشین بنایا ہے اور وہ میرے بعد امام و جانشین ہے، میرے دو نواسے (امام حسن و امام حسین ع ) اور امام حسین (ع) کی نسل سے نو فرزند آئمہ ہیں کہ اگر انکی اتباع و پیروی کرو گے تو انھیں ہدایت شدہ اور ہدایت کرنے والا پاؤ گے لیکن اگر انکی مخالفت کرو گے تو قیامت تک تم لوگوں میں اختلاف باقی رہے گا، پھر بی بی نے فرمایا:
امام، کعبہ کی مانند ہے کہ اسکی طرف آیا جاتا ہے نہ کہ وہ کسی کی طرف آتا ہے۔۔۔۔۔ پھر فرمایا: خدا کی قسم اگر حقدار کو اسکا حق دے دیتے اور رسول خدا کے اہل بیت کی پیروی کرتے تو حتی دو افراد کا بھی آپس میں کوئی اختلاف نہ ہوتا اور اس حق کو آئمہ ارث میں لیتے رہتے یہاں تک کہ امام حسین کی نسل سے نواں فرزند قیام کرتا، لیکن انھوں نے آخری کو پہلے مقدم کیا اور خداوند نے جسے مقدم کیا تھا، اسے مؤخر کر دیا۔ (اسی لیے امت میں اب اختلاف ہے)۔
كفاية الأثر في النص على الأئمة الاثني عشر، ص ۳۰۱ ، ۳۰۲ ، ۳۰۳
الخزاز القمي الرازي، علي بن محمد بن علي (متوفي400 ق)،
.

کیا علی علیہ السلام ۲۵ سال خاموش رہے اور اپنی اولویت پہ مناظرہ نہیں کیا ؟؟؟

.

📜استناد حضرت امیر المومنین علیہ السلام حدیث غدیر سے 👇
📚از مصادع اھل جماعت
🔷 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ حَدَّثَنِى أَبِى حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ وَأَبُو نُعَيْمٍ الْمَعْنَى قَالاَ حَدَّثَنَا فِطْرٌ عَنْ أَبِى الطُّفَيْلِ قَالَ جَمَعَ عَلِىٌّ النَّاسَ فِى الرَّحَبَةِ ثُمَّ قَالَ لَهُمْ أَنْشُدُ اللَّهَ كُلَّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ مَا سَمِعَ لَمَّا قَامَ . فَقَامَ ثَلاَثُونَ مِنَ النَّاسِ – وَقَالَ أَبُو نُعَيْمٍ فَقَامَ نَاسٌ كَثِيرٌ – فَشَهِدُوا حِينَ أَخَذَهُ بِيَدِهِ فَقَالَ لِلنَّاسِ « أَتَعْلَمُونَ أَنِّى أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ ». قَالُوا نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ « مَنْ كُنْتُ مَوْلاَهُ فَهَذَا مَوْلاَهُ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاَهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ ». قَالَ فَخَرَجْتُ وَكَأَنَّ فِى نَفْسِى شَيْئاً فَلَقِيتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ فَقُلْتُ لَهُ إِنِّى سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُولُ كَذَا وَكَذَا. قَالَ فَمَا تُنْكِرُ قَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ ذَلِكَ لَهُ .
مفھومی ترجمہ 👇
🔶 ………….حضرت على عليه السّلام نے لوگوں کو رحبه میں جمع کیا اور فرمایا : قسم دیتا ہوں ہر اس مسلمان کو جو غدیر خم میں موجود تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ ) سے کچھ سنا تھا ، اپنی جگہیں سے کھڑے ہو . تیس لوگ شھادت دینے کیلیے اپنی جگہ سے کھڑے ہوے ـ ابو نعیم کہتا ہے کہ بھت زیادہ لوگوں نے شھادت دی ـ اور اعلان کیا کہ (یوم غدیر ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی علیہ السلام کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور لوگوں سے مخاطب ہوے اور فرمایا : اے لوگوں کیا میں تمہارے نفسوں پہ تم سے زیادہ اولویت نہیں رکھتا ہوں سب نے قبول کیا اور تصدیق کی پھر حضرت نے فرمایا : جسکا میں مولا ہوں اسکے یہ علی مولا ہیں ، پروردگارا ! علی کے دوست کو دوست رکھ ، اور علی کے دشمن کو دشمن رکھ .
ابو طفيل کہتا ہے : اس جمع کے درمیان سے میں باہر گیا در حالیکہ مجھے احساس راحت نہیں ہو رہا تھا ، پس میں اس اجتماع سے پلٹتے وقت «زيد بن ارقم» کے پاس گیا اور ان سے کہا : میں نے علی سے کذا و کذا سنا ہے ! «زيد» نے کہا : جو بھی علی علیہ السلام سے سنا ہے انکار نہ کرو ! اس کی دلیل یہ ہے کہ ،جو میں نے تم سے سنا ہے وہ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے !
📚📖 مسند أحمد بن حنبل ؛ ج: ۱۴ ، ص: ۴۳۶ ، ح: ۱۹۱۹۸
.
.
غدیر خم اور احتجاج حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیھا
(سنی ماخذ)
امام ابو موسیٰ المدینی
ابی بکر الحافظ نے ابو احمد بن مطرف المطرفی نے جعفر الاحوازی سے بیان کیا کہ
فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
“کیا تم غدیر خم کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان، آپ پر درود و سلام ہو
کو بھول گئے کہ
جس کا میں مولا ہوں، علی اس کے مولا ہیں؟”
آپ کا مقام مجھ سے وہی ہے جو ہارون کا موسیٰ سے ہے، ان دونوں ہستیوں پر سلام ہو
سنی ماخذ: نزہۃ الحفاظ از الحافظ الکبیر ابو موسیٰ المدینی، صفحہ 101,102
کیا مولا علی ( علیہ السّلام ) نے لوگوں کو حدیث غدیر کی یاددہانی کرانے کی کوشش کی؟
اس مقالے میں ہم اہلسنت کے مشہور کتب سے روایات پیش کریں گے، اور ہمارا طریقہ کبھی یہ نہیں رہا کہ ضعیف روایات سے استدلال قائم کیا جائے، اس وجہ سے ہم معتبر روایات پیش کریں گے کہ جن کی وثاقت خود علمائے اہلسنت تسلیم کریں
اس ضمن میں ہم حافظ نور الدین ہیثمی کی کتاب مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، طبع مكتبة القدسي، القاهرة؛ سے استفادہ کریں گے
حافظ صاحب نے خود ہی روایت کے اسنادی حیثیت پر گفتگو کی ہے؛ تاہم ہم دیگر کتب سے بھی حوالہ دیں گے، اور ساتھ ہی اس کتاب کے محقق کا قول بھی پیش کریں گے
زياد بن أبي زياد
ہیثمی جلد ۹، صفحہ ۱۰٦-۱۰۷، پر درج کرتے ہیں کہ
زیاد بن ابی زیاد کہتے ہیں کہ میں نے مولا علی کو لوگوں کو گواہی کے لیے کہتے سنا کہ میں تمہیں خدا کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ تم میں سے وہ مسلمان مرد کہ جنہوں نے رسول اللہ کو کہتے سنا ہو غدیر کے موقع پر جو کہ میں کے کہا۔ تو ۱۲ صحابہ کہ جو بدر کے غزوے میں حصہ لے چکے تھے، انہوں نے گواہی دی
یہ احمد نے روایت کی، اور اس کے راوی ثقہ ہیں
عربی متن یوں ہے
14624 – «وَعَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي زِيَادٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ يَنْشُدُ النَّاسَ، فَقَالَ: أَنْشُدُ اللَّهَ رَجُلًا مُسْلِمًا سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَقُولُ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ مَا قَالَ لَمَا قَامَ. فَقَامَ اثْنَا عَشَرَ بَدْرِيًّا فَشَهِدُوا».
رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
مسند احمد کے محقق، شیخ احمد شاکر، نے اپنی تحقیق کے جلد ۱، صفحہ ۴٦۰، روایت نمبر ٦۷۰؛ میں اس سند کو صحیح مانا ہے
اور دوسری تحقیق، جو کہ شیخ شعیب الارناوط نے کی ہے، اس میں انہوں نے جلد ۲، صفحہ ۹۴ ، پر اسے صحیح لیغرہ مانا ہے
سعيد بن وهب
اسی جلد کے صفحہ ۱۰۴ پر ہیثمی ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ ۔
سعید بن وہب کہتے ہیں کہ مولا علی نے لوگوں سے گواہی دینے کے لیے کہا، تو ۵ یا ٦ صحابیوں نے گواہی دی کہ میں جس کا مولا ہوں، علی اس کے مولا ہیں
احمد نے اس کی روایت کی، اور اس کے راوی، صحیح حدیث راوی ہیں
عربی متن یوں ہے
14613 – «وَعَنْ سَعِيدِ بْنِ وَهْبٍ قَالَ: نَشَدَ عَلِيٌّ – عَلَيْهِ السَّلَامُ – النَّاسَ، فَقَامَ خَمْسَةٌ أَوْ سِتَّةٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَشَهِدُوا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ: ” مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ» “.
رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيحِ.
اس روایت کو ضیا مقدسی نے اپنی کتاب، الاحدیث المختارہ، جلد ۲، صفحہ ۱۰۵، حدیث ۴۷۹؛ میں درج کیا، گویا ان کے مطاطق یہ صحیح ہے۔ نیز، کتاب کے محقق، عبدالملک دہیش نے اسے صحیح سند مانا
نیز، مسند احمد کے محقق، شیخ شعیب الارناوط نے بھی اسے صحیح سند مانا ہے۔ دیکھیے مسند احمد، جلد ۳۸، صفحہ ۱۹۳، حدیث ۲۳۱۰۷، تحقیق شعیب الارناوط۔
ابو طفیل
اسی صفحے پر ہیثمی نے ایک اور روایت بھی نقل کی ہے کہ
ابو طفیل نے نقل کیا کہ مولا علی نے لوگوں کو رحبہ میں جمع کیا، اور انہیں اللہ کا واسطہ دے کر تمام مسلمان مردوں سے کہا کہ جنہوں نے نبی پاک کو سنا ہو غدیر میں کہ وہ کھڑے ہوں اور گواہی دیں کہ انہوں نے کیا سنا تھا غدیر کے روز۔ ۳۰ لوگ کھڑے ہوئے، اور گواہی دی کہ نبی نے علی کا ہاتھ پکڑا اور لوگوں سے کہا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ میں تم پر، تم سے زیادہ حق رکھتا ہوں؟ تو لوگوں نے کہا کہ ہاں ! اے اللہ کے رسول۔ تو نبی نے کہا کہ جس کا میں مولا ہوں، علی اس کے مولا ہیں۔ اے اللہ! اس سے محبت کر جو اس سے محبت کرے، اور اس سے دشمنی رکھ جو اس سے دشمنی رکھے۔ ابو طفیل نے کہا کہ جب وہ وہاں سے نکلے تو دل میں خلش تھی۔ سو وہ زید بن ارقم سے ملے اور کہا کہ میں نے علی کو یہ کہتے سنا۔ زید نے کہا کہ کسی شک میں نہ جانا کیونکہ انہوں نے خود یہ سنا ہے کہ نبی پاک نے یہ لفظ کہے تھے
احمد نے اس کی روایت کی، اور اس کے راوی، صحیح حدیث کے راوی ہیں سوائے فطر بن خلیفہ کے اور وہ ثقہ ہیں
عربی متن یوں ہے
14612 – وَعَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ: «جَمَعَ عَلِيٌّ النَّاسَ فِي الرَّحْبَةِ، ثُمَّ قَالَ لَهُمْ: أَنْشُدُ بِاللَّهِ كُلَّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَقُولُ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ مَا قَالَ لَمَا قَامَ، فَقَامَ إِلَيْهِ ثَلَاثُونَ مِنَ النَّاسِ.
قَالَ أَبُو نُعَيْمٍ: فَقَامَ نَاسٌ كَثِيرٌ فَشَهِدُوا حِينَ أَخَذَ بِيَدِهِ، فَقَالَ: ” أَتَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟ “. قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ: ” مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ “.
قَالَ: فَخَرَجْتُ كَأَنَّ فِي نَفْسِي شَيْئًا، فَلَقِيتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنِّي سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُولُ كَذَا وَكَذَا قَالَ: فَمَا تُنْكِرُ قَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَقُولُ ذَلِكَ».
رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيحِ غَيْرَ فِطْرِ بْنِ خَلِيفَةَ، وَهُوَ ثِقَةٌ.
مشہور محقق، شیخ شعیب الارناوط نے مسند احمد، جلد ۳۲، صفحہ ۵٦؛ میں اس سند کے متعلق کہا کہ
یہ سند صحیح ہے، راوی سارے ثقہ ہیں سوائے فطر کے، جو ابن خلیفہ ہے، اور سنن کا راوی ہے، بخاری نے مقرونا اس سے روایت لی ہے، اور وہ ثقہ ہے
عربی متن یوں ہے
(3) إسناده صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخين غير فطر- وهو ابنُ خليفة- فمن رجال أصحاب السنن، وروى له البخاري مقروناً، وهو ثقة.
عمرو بن ذى مر ؛ سعيد بن وهب اور زيد بن بثيع
ہیثمی جلد ۹، صفحہ ۱۰۴- ۱۰۵ پر فرماتے ہیں کہ۔
عمرو بن ذى مر ؛ سعيد بن وهب اور زيد بن بثيع کہ ہم نے مولا علی کو سنا کہ وہ اللہ کا واسطہ دے کر ان مردوں سے کہہ رہے تھے کہ جنہوں نے سنا رسول کو غدیر کے دن، پس ۱۳ بندے کھڑے ہوئے اور گواہی دی کہ نبی نے کہا: اے لوگوں ! کیا میں زیادہ حق نہیں رکھتا مومنین پر جتنا کہ وہ خود رکھتے ہیں؟ لوگوں نے کہا: ہاں ! اے اللہ کے رسول۔ تو نبی نے کہا کہ جس کا میں مولا ہوں ، اس کا علی مولا ہے۔ اے اللہ! اس سے محبت کر جو اس سے محبت کرے؛ اور اس سے بغض رکھ جو اس سے بغض رکھے ؛اور اس کی مدد کر جو اس کی مدد کرے؛ اسے رسوا کر جو اس کی ہتک کرے
بزار نے اس کی روایت کی، اور اس کے راوی، صحیح حدیث کے راوی ہیں؛ سوائے فطر بن خلیفہ کے اور وہ ثقہ ہے
عربی متن یوں ہے
14614 – وَعَنْ عَمْرِو بْنِ ذِي مُرٍّ، وَسَعِيدِ بْنِ وَهْبٍ، وَعَنْ زَيْدِ بْنِ يُثَيْعٍ قَالُوا: «سَمِعْنَا
عَلِيًّا يَقُولُ: نَشَدْتُ اللَّهَ رَجُلًا سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَقُولُ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ لَمَا قَامَ، فَقَامَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا فَشَهِدُوا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ: ” أَلَسْتُ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟ “. قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ: فَأَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ فَقَالَ: ” مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ، وَأَحِبَّ مَنْ أَحَبَّهُ، وَأَبْغِضْ مَنْ يُبْغِضُهُ، وَانْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ، وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ».
رَوَاهُ الْبَزَّارُ، وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيحِ غَيْرَ فِطْرِ بْنِ خَلِيفَةَ، وَهُوَ ثِقَةٌ.
اسی طرح ہیثمی نے صفحہ ۱۰۷ پر کہا کہ
سعید بن وہب نے زید سے روایت کی کہ وہ کہہ رہے تھے کہ مولا علی نے رحبہ میں لوگوں سے کہا کہ جنہوں نے نبی کو غدیر میں سنا ہو، وہ کھڑے ہوں۔ پس ٦ لوگ سعید کی جانب سے، اور ۷ لوگ زید کی جانب سے کھڑے ہوئے، اور گواہی دی کہ ہم نے رسول اللہ کو سنا غدیر کو دن علی کے لیے کہ کیا میں مومنین پر زیادہ حق نہیں رکھتا؟ لوگوں نے کہا: ہاں۔ رسول اللہ نے کہا کہ اے اللہ! جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے۔ اے اللہ! اس سے محبت کر جو اس سے محبت کرے، اور اس سے دشمنی رکھ کہ جو اس سے دشمنی رکھے
عبداللہ اور بزار نے اس سے ملتی جلتی روایت کی، جنھوں نے اسے مکمل کیا، اند کہا کہ یہ سعید بن وہب سے روایت ہے، نہ کہ زید سے جیسا کہ آ رہا ہے۔ بظاہر اس میں (اور) حذف ہو گیا ہے۔ اسناد حسن ہیں
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ الفاظ یوں ہیں
سعید بن وہب اور زید نے روایت کی
عربی متن یوں ہے۔
14627 – وَعَنْ سَعِيدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ يُثَيْعٍ قَالَ: «نَشَدَ عَلِيٌّ – عَلَيْهِ السَّلَامُ – النَّاسَ فِي الرَّحْبَةِ: مَنْ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَقُولُ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ إِلَّا قَامَ. قَالَ: فَقَامَ مِنْ قِبَلِ سَعِيدٍ سِتَّةٌ، وَمِنْ قِبَلِ زَيْدٍ سَبْعَةٌ، فَشَهِدُوا أَنَّهُمْ سَمِعُوا رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَقُولُ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ لِعَلِيٍّ: ” أَلَيْسَ أَنَا أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ؟ “. قَالُوا: بَلَى قَالَ: ” اللَّهُمَّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ» “.
رَوَاهُ عَبْدُ اللَّهِ وَالْبَزَّارُ بِنَحْوِهِ أَتَمَّ مِنْهُ، وَقَالَ: عَنْ سَعِيدِ بْنِ وَهْبٍ، لَا عَنْ زَيْدِ بْنِ يُثَيْعٍ كَمَا هُنَا، وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: عَنْ سَعِيدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ يُثَيْعٍ، وَالظَّاهِرُ أَنَّ الْوَاوَ سَقَطَتْ – وَاللَّهُ أَعْلَمُ – وَإِسْنَادُهُمَا حَسَنٌ.
یہ روایت مقدسی نے اپنی کتاب الاحدیث المختارہ، جلد ۲، سفحہ ۱۰۵-۱۰٦، روایت ۴۸۰؛ پر درج کی، اور محقق عبدالملک دہیش نے سند کو حسن مانا ہے
شیخ احمد شاکر نے مسند احمد کی تحقیق، جلد ۲، صفحہ ۱۸؛ میں اسے صحیح مانا ہے
شیخ شعیب نے مسند احمد کی تحقیق؛ جلد ۲، صفحہ ۲٦۲؛ میں اسے صحیح لیغرہ مانا ہے
شیخ البانی نے اسے سلسلہ احادیث صحیحیہ؛ جلد ۴، صفحہ ۳۳۸؛ میں اسے حسن مانا ہے
خلاصہ کلام
ہم نے مختلف روایت مع توثیقات بذبان علمائے اہلسنت سے یہ بات ثابت کی ہے کہ مولا علی نے لوگوں کو سے گواہیاں دلائیں بلکہ خدا کے واسظے دیے کہ بیان کریں کہ غدیر میں کیا ہوا تھا
رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیشن کوئی دوبارہ یاد کرا دوں کہ
یہ امت تم سے غداری کرے گی