واقعہ غدیر سے استدلال و احتجاج (تحریر)

واقعہ غدیر سے احتجاج و استدلال:
ایک بہترین علمی کاوش
حقیقت یہ ہے کہ سب شواہد و قرائن اصحاب رسول سے لیکر تابعین تک، مفسرین قرآن سے لے کر مؤرخین تک اور مؤلفین غدیر سے لے کر ادباء و شعراء تک سب کے سب۔۔۔۔۔ اس امر کی فیصلہ کن، قطعی اور ناقابل انکار تصدیق کرتے ہیں کہ غدیر کا واقعہ اسلام کے تاریخی، کلامی اور تفسیری مسلمّات کا ایک حصہ ہے۔ اور اس سلسلے میں کسی قسم کے انکار اور شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اس کے باوجود مرحوم علامہ امینی نے بیشتر ثبوت فراہم کرنے اور اس مسئلہ کو دو چندان محکم کرنے کے لیے اپنی انمول کتاب ” الغدیر ” میں واقعہ ” غدیر پر احتجاج و استدلال ” کے عنوان سے ایک اور باب کا اضافہ کیا ہے۔ اس کا آغاز انھوں نے خود امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے احتجاج سے کیا ہے، اس کے علاوہ دیگر لوگوں نے بھی پوری تاریخ کے دوران اس سے استدلال کیا ہے۔ حقیقت میں اگر اس استدلال کے علاوہ غدیر خم کے بارے میں کوئی اور دلیل نہ ہوتی تو تب بھی واقعہ غدیر کے اثبات کے لیے یھی ایک باب کافی تھا۔
.
احتجاجات و استدلات:
.
1- پیغمبر اسلام (ص) کی رحلت کے بعد حضرت علی علیہ السلام کا استدلال کرنا:
سلیم ابن قیس اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ: سب سے پہلا استدلال و احتجاج جو حدیث غدیر کے بارے میں انجام پایا، حضرت علی علیہ السلام کے ذریعہ سے تھا کہ جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد مسجد رسول میں انجام پایا۔
23 ہجری کو شورا کے دن استدلال:
خوارزمی حنفی کتاب ” مناقب ” کے صفحہ 217 میں ابو فضل کی سند سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس نے کہا ہے کہ:
میں شورا کے دن دربان تھا۔ میں نے سنا کہ علی علیہ السلام گھر کے اندر ان لوگوں سے کہہ رہے تھے: میں تمہارے سامنے ایک ایسی چیز سے استدلال کرتا ہوں کہ عرب و عجم اس سے انکار نہیں کر سکتے۔ اس کے بعد اپنے کلام کو آگے بڑہاتے ہوئے فرمایا: میں تمہیں قسم دیکر کہتا ہوں کہ:
کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جو مجھ سے پہلے خدا کی وحدانیت پر ایمان لایا ہو ؟ ان لوگوں نے کہا: نہیں۔ اس کے بعد پوچھا:
کیا تم میں سے کسی کا جعفر جیسا بھائی ہے جو بہشت میں فرشتوں کے ساتھ پرواز کر رہا ہو ؟ انھوں نے جواب میں کہا: نہیں۔ پھر آپ نے پوچھا:
کیا تم میں سے کسی کا چچا میرے چچا حمزہ سید الشہداء کے مانند ہے کہ جو خدا اور اس کے رسول (ص) کی شمشیر تھے ؟ ان لوگوں نے کہا: نہیں ! پھر آپ نے پوچھا:
کیا تم میں سے کسی کی زوجہ میری زوجہ حضرت زہرا سیدة النساء العالمین جیسی ہے ؟
انھوں نے کہا: نہیں۔ اس کے بعد آپ نے پوچھا:
کیا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دو نواسے اور میرے بیٹے حسن (ع) و حسین (ع) کے مانند کسی کے بیٹے ہیں ؟
کہا: نہیں، آخر میں فرمایا: میں تم لوگوں سے قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ:
کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے کہ جس کے بارے میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہو: من کنت مولاہ فعلیّ مولاہ…
اس استدلال و استشھاد کو امام حموینی نے ” فراید السمطین ” میں اور ابن حاتم شامی نے ” در النظیم ” میں اور ابن عقدہ، عقیلی اور ابن ابی الحدید وغیرہ نے بھی نقل کیا ہے۔
خلافت عثمان کے دوران مسجد نبی میں احتجاج:
اسی طرح ابو اسحاق نے ” فراید السمطین ” میں حضرت علی علیہ السلام کا ایک اور احتجاج و استدلال نقل کیا ہے، جو مسجد نبی (ص) میں واقع ہوا ہے۔
کچھ لوگ منجملہ سعد بن ابی وقاص، عبد الرحمٰن بن عوف، طلحہ، زبیر، مقداد، ہاشم، حسن و حسین، ابن عباس، محمد بن ابی بکر، عبد اللہ ابن جعفر، ابی بن کعب، زید بن ثابت، ابو ایوب انصاری، قیس بن سعد، محمد بن سلمۃ، انس بن مالک، جابر بن عبد اللہ، زید بن ارقم، اور دسیوں دیگر لوگ وہاں پر موجود تھے، اور مختلف موضوعات پر گفتگو ہو رہی تھی۔ کچھ لوگ اپنے خاندان کے بارے میں اور بعض لوگ اپنے ماضی کے کارناموں کی تعریف…… کر رہے تھے۔
اس کے بعد لوگوں نے علی علیہ السلام کی طرف رخ کر کے سوال کیا: آپ کچھ کیوں نہیں بول رہے ہیں ؟ حضرت نے بولنا شروع کیا… اور یہاں تک پہنچے:
پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے دن مجھے امامت پر منصوب فرمایا… اور لوگوں سے اقرار لے لیا کہ کیا میں تم لوگوں سے اولیٰ نہیں ہوں ؟ لوگوں نے جواب دیا: ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اس کے بعد میری طرف رخ کر کے فرمایا: اے علی علیہ السلام ! کھڑے ہو جاؤ ! میں اٹھ کھڑا ہوا۔ تو آپ (ص) نے فرمایا: من کنت مولاہ فعلی مولاہ…
35 ہجری میں رحبہ، کوفہ میں استدلال:
نیز اہل سنت کے منابع اور مصادر میں نقل ہوا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کی مخالفت شروع ہونے کی وجہ سے بعض لوگوں نے بیعت شکنی بھی کی۔ ظاہر ہے کہ معاویہ کے مخفی ماموروں اور دوسروں نے حضرت کی خلافت کے بارے میں شک و شبہات پھیلانے شروع کر دئیے، یہاں تک کہ لوگ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ حضرت علی علیہ السلام کی امامت پر مقرر کیے جانے پر بھی شک کرنے لگے تھے۔ اس لیے امام علی علیہ السلام لوگوں کے ایک اجتماع میں جو، کوفہ کے ایک وسیع میدان میں جمع تھے، تشریف لے گئے اور اس مجمع میں حدیث غدیر سے استدلال پیش کیا، یہ احتجاج جہاں تک ہمارے ہاتھ آ سکا ہے، جسکو چار صحابیوں اور چودہ تابعین نے نقل کیا ہے۔
جنگ جمل میں استدلال:
حاکم نیشاپوری نے المستدرک ج 3، ص 371 ہجری میں رفاعہ سے نقل کیا ہے کہ میرے جدّ نے کہا ہے کہ:
ہم جمل میں علی علیہ السلام کے ساتھ تھے۔ حضرت علی (ع) نے طلحہ بن عبید اللہ کو طلب کیا۔ طلحہ حضرت علی علیہ السلام کے پاس آیا۔ حضرت (ع) نے اس سے کہا: میں تمہیں قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ بتاؤ کیا تم نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہیں سنا:
من کنت مولاہ فعلی مولاہ…؟ طلحہ نے کہا: جی ہاں میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سنا ہے۔ اس پر علی علیہ السلام نے طلحہ کی طرف رخ کر کے سوال کیا: پھر میرے ساتھ کیوں جنگ کر رہے ہو ؟ طلحہ نے کہا: میں متوجہ نہیں تھا، اس کے بعد طلحہ پلٹ کر چلا گیا۔
یہ استدلال دیگر مصادر و منابع جیسے مناقب خوارزمی، تاریخ ابن عساکر، مجمع الزواید ہیثمی، تہذیب التہذیب ابن حجر اور جمع الجوامع سیوطی وغیرہ میں بھی نقل ہوا ہے۔
حدیث رکبان (سواروں) کوفہ 36 ہجری یا 37 ہجری:
حنبلیوں کے امام احمد ابن حنبل نے روایت کی ہے کہ:
کچھ سوار کوفہ کے باہر سے رحبہ نام کے ایک میدان میں داخل ہوئے اور حضرت علی علیہ السلام سے کہا:
السلام علیک یا مولانا، علی (ع) نے جواب میں کہا: میں کیسے تم لوگوں کا مولا ہوں جب کہ تم عرب ہو ؟ انھوں نے جواب میں کہا: غدیر کے دن ہم نے سنا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا:
من کنت مولاہ فعلی مولاہ ،
ریاح جو اس حدیث کا راوی ہے کہتا ہے کہ:
جب یہ لوگ وہاں سے چلے گئے تو میں بھی ان کے پیچھے گیا تا کہ دیکھوں کہ یہ لوگ کون ہیں۔ لہذا جب میں نے ان لوگوں سے پوچھا، انھوں نے جواب میں کہا: یہ انصار کا ایک گروہ ہے، جن میں ابو ایوب انصاری بھی تھے۔
اس واقعہ کو ابراہیم بن حسین نے کتاب صفین اور کشف الغمہ میں ابن اثیر نے اسد الغابہ، میں ابن حجر نے الاصابة میں ابن عقدة کی موالاة سے اور محبّ الدین طبری نے : الریاض النضرة میں ہیثمی نے مجمع الزوائد میں، شیرازی نے الاربعین میں اور ابو عمرو کشی نے کتاب فہرست میں مختصر اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے۔
ان کتب میں سے بعض میں اس طرح آیا ہے کہ:
جب انھوں نے مولا کو سلام کیا تو انہیں جواب ملا اس کے بعد حضرت علی (ع) نے ان سے سوال کیا: کیا تم میں اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے بھی کوئی ہے ؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں، اور بارہ آدمی کھڑے ہو گئے، جن میں خالد بن زید، ابو ایوب انصاری، خزیمہ بن ثابت، قیس بن ثابت،… اور ان سب لوگوں نے گواہی دی کہ ہم نے غدیر خم میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ انھوں نے فرمایا: من کنت مولاہ فعلی مولاہ…
ان میں سے انس بن مالک اور براء ابن عازب نے گواہی نہیں دی حضرت نے ان سے سوال کیا کہ تم لوگوں نے دیگر لوگوں کی طرح کیوں گواہی نہیں دی، حالانکہ تم لوگوں نے بھی ان کی طرف رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے ؟ پھر حضرت نے بارگاہ الٰہی میں دعا کی کہ: خداوندا اگر انھوں نے عناد کی وجہ سے گواہی چھپائی ہو تو ان پر بلا نازل فرما ! روایت کے آخر میں آیا ہے کہ یہ دونوں آدمی بلا میں گرفتار ہوئے، براء اندھا ہو گیا اور ایسی حالت سے دوچار ہوا کہ اپنے گھر کا راستہ لوگوں سے پوچھتا تھا اور کہتا تھا: جو نفرین کیا گیا ہو وہ کس طرح اپنا راستہ پا سکتا ہے؟! اور انس کے پیر برص کی بیماری میں مبتلا ہو گئے۔
ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ کے صفحہ 361 پر لکھا ہے کہ ہمارے چند بغدادی اساتید نے کہا ہے کہ:
بعض اصحاب، تابعین اور محدثین حضرت علی علیہ السلام کے مخالف تھے اور دنیوی منفعت کی وجہ سے آپ (ع) کے فضائل کو چھپاتے تھے اور بلکہ آپ کے بارے میں برا بھلا کہتے تھے۔ ان میں سے ایک انس بن مالک تھا۔ ایک دن حضرت علی علیہ السلام نے رحبہ قصر یا مسجد جامع میں فرمایا:
تم لوگوں میں سے کس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ: من کنت مولاہ فعلی مولاہ ؟ بارہ آدمی کھڑے ہوئے اور انھوں نے شہادت دی۔ لیکن انس بن مالک کھڑا نہیں ہوا، علی علیہ السلام نے اس سے فرمایا: اے انس ! تم کیوں نہ کھڑے ہوئے کہ شہادت دیتے، تم تو وہاں پر موجود تھے ؟! اس نے جواب دیا: میں بوڑھا ہو گیا ہوں اور بھول گیا ہوں۔ علی علیہ السلام نے فرمایا: خداوندا ! اگر یہ جھوٹ بولتا ہے تو اسے سفیدی (برص) میں مبتلا کر دے تا کہ اس کا عمامہ بھی نہ چھپا سکے۔ طلحہ بن عمیر کہتا ہے: خدا کی قسم میں نے دیکھا کہ وہ ایسا ہی ہو گیا تھا۔
سید حمیری نے اپنے اشعار میں اس واقعہ کی طرف یوں اشارہ کیا ہے: فصّدہ ذو العرش عن رشدہ وشانہ بالبرص الأنکل ،
.
2- حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی گواہی اور استدلال:
شمس الدین جزری مقری نے کتاب اسنی المطالب میں اپنے اسناد سے حلوانی سے علی ابن محمد اہوازی رشید کے غلام سے، اس نے ابوبکر بن احمد قصری سے نقل کیا ہے کہ:
حضرت موسی بن جعفر (ع) کی بیٹیوں: فاطمہ، زینب اور ام کلثوم نے ہم سے حدیث نقل کی اور انھوں نے فاطمہ بنت جعفر (ع) بن محمد سے انھوں نے فاطمہ بنت محمد (ع) ابن علی (ع) سے اور انھوں نے فاطمہ بنت علی (ع) بن حسین (ع) سے اور انھوں نے فاطمہ (ع) و سکینہ (ع) دختران حسین (ع) بن علی (ع) سے اور انھوں نے ام کلثوم بنت فاطمہ زہرا (ع) بنت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا:
کیا تم لوگ غدیر خم کے دن رسول خدا کے فرمائے گئے اس قول کو بھول گئے ہو:
من کنت مولاہ فعلی مولاہ ، نیز وانت منّی بمنزلۃ ھارون من موسیٰ ،
.
3- سبط پیغمبر حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کا استدلال:
ابو العباس ابن عقدہ لکھتے ہیں کہ:
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے معاویہ کے ساتھ صلح کے بعد لوگوں کے درمیان ایک خطبہ پڑھا۔ اس خطبہ میں خدا کی حمد و ستائش اور اپنے جد بزرگوار حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت و نبوت کی گواہی دینے کے بعد فرمایا:
ہم اہل بیت (ع) ہیں کہ خداوند نے ہمیں اسلام کے ساتھ کرامت بخشی، ہمیں عظمت بخشی اور ہم سے ہر قسم کی پلیدی کو دور فرمایا اور ہمیں بہترین خلقت قرار دیا اور جب میرے جد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بعنوان نبی و رسول مبعوث فرمایا تو قرآن مجید کو ان پر نازل فرمایا اور سب سے پہلے جس نے خدا و رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی وہ میرے والد حضرت علی علیہ السلام تھے کہ جنہوں نے خدا اور رسول خدا پر ایمان لا کر شہادت و گواہی دی…
اس امت نے میرے جد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا کہ:
اگر کوئی امت، اعلم اور لائق تر کو چھوڑ کر اس سے پست شخص کی ولایت کے تابع ہو جائے، تو اس کے امور پست و باطل ہو جائیں گے، مگر یہ کہ اعلم و صالح کی قیادت کا انتخاب کریں اور اس کی اطاعت کریں۔
نیز آنحضرت (ص) سے سنا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:
اے علی علیہ السلام ! تم میرے لیے ایسے ہی ہو جیسے موسیٰ کے لیے ہارون، لیکن میرے بعد پیغمبری نہیں ہے۔
اس کے علاوہ اس امت نے میرے جد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے۔ جب آپ (ع) نے میرے بابا حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ کو غدیر خم میں پکڑ کر بلند کیا اور فرمایا: من کنت مولاہ فعلی مولاہ۔
قندوزی نے اس خطبہ کے ایک حصہ کو ینابیع المودة کے صفحہ 482 پر بیان کیا ہے۔
.
4- سبط پیغمبر، حضرت امام حسین علیہ السلام کا استدلال:
معاویہ کے مرنے سے دو سال قبل، حضرت امام حسین علیہ السلام، عبد اللہ ابن عباس، عبد اللہ ابن جعفر اور چند دیگر لوگوں کے ہمراہ حج پر چلے گئے۔ منیٰ میں تقریباً دو سو اصحاب اور پانچ سو تابعین مجموعی طور پر سات سو انصار بنی ہاشم کے اہل عبادت و شائستہ شخصیتیں جمع تھے۔ امام حسین علیہ السلام نے اس اجتماع میں ایک خطبہ دیا اور اس طرح فرمایا:
اما بعد، تم لوگوں نے اس طاغوت اور ظالم کو دیکھا کہ ہمارے، شیعوں اور ہمارے پیروؤں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتا ہے ؟! تم لوگ ہر خبر سے مطلع ہو چکے ہو۔
میں اس وقت تم لوگوں سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں۔ ان مطالب کو سنو اور حفظ کرو۔ جب واپس اپنے شہروں میں پہنچو تو یہ مطالب اپنے مورد اطمینان و اعتماد افراد سے بیان کرو اور انہیں ہمارے حق کی طرف دعوت دو۔ مجھے اس بات کا خوف ہے کہ دین حق نابود و مغلوب ہو جائے۔ البتہ خداوند اپنے وعدے پر عمل کرے گا اور اپنے نور کو روشن رکھے گا اگرچہ کافر اس سے خوش نہ ہوں۔
اس وقت آپ قرآن و رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل بیت علیہم السلام اور علی علیہ السلام اور اپنی والدہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اور اپنے بارے میں جو کچھ بیان فرماتے تھے، حاضرین اس کا اقرار کرتے جاتے تھے اور کہتے تھے، جی ہاں ! ہم نے سنا ہے اور گواہی دیتے ہیں……
اس کے بعد آپ (ع) نے فرمایا: تمہیں، خدا کی قسم دیتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے دن میرے بابا علی علیہ السلام کو امامت و ولایت پر منصوب کر کے فرمایا: حاضرین یہ خبر غائب لوگوں تک پہنچا دیں ؟! سب نے جواب میں اقرار کرتے ہوئے کہا: ہاں…
.
5- عبد اللہ ابن جعفر کا استدلال:
عبد اللہ ابن جعفر کہتے ہیں کہ میں، حسن (ع) و حسین علیہ السلام معاویہ کے پاس تھے۔ عبد اللہ ابن عباس اور فضل بن عباس بھی وہاں موجود تھے۔ معاویہ نے میری طرف مخاطب ہو کر کہا: اے عبد اللہ ! حسن (ع) و حسین (ع) کا اس قدر احترام کیوں کرتے ہو ؟جب کہ وہ تم سے بہتر نہیں ہیں اور ان کے باپ بھی تمہارے باپ سے بہتر نہ تھے۔ اور اگر فاطمہ سلام اللہ علیہا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی نہ ہوتیں تو میں کہتا کہ تیری والدہ اسماء بنت عمیس بھی ان کی والدہ سے کمتر نہ تھیں۔
عبد اللہ کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ کو جواب دیا:
خدا کی قسم حسن (ع) و حسین (ع) اور ان کے ماں باپ کے بارے میں تیرا ادراک پست ہے۔ خدا کی قسم وہ مجھ سے، ان کے والد میرے والد اور اُن کی والدہ میری والدہ سے بہتر ہیں۔ اے معاویہ ! تم اس چیز سے، جو کچھ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اُن کے اور ان کے ماں باپ کے بارے میں سنا ہے، مجھے یاد ہے اور اس کی روایت بھی کر چکا ہوں، غافل و بے خبر ہو۔
معاویہ نے کہا: اے جعفر کے بیٹے: مجھ سے بیان کرو، خدا کی قسم تم جھوٹے نہیں ہو۔ عبد اللہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے کہا:
جو کچھ تم خیال کرتے ہو اور تمہارے ذہن میں ہے، حقیقت اس سے کہیں بلند و بالاتر ہے۔
معاویہ نے کہا: کہو، اگرچہ کوہ احد و حِرا سے بھی بلند ہو، کیونکہ تمہارے آقا (علی(ع)) کو خدا نے قتل کیا ہے اور تمہارے گروہ کو متفرق کر دیا ہے اور خلافت اس کے حقدار کو مل گئی ہے۔ اس لیے مجھے اس حدیث کی کوئی پروا نہیں ہے کیونکہ مجھے اس سے کوئی نقصان پہنچنے والا نہیں ہے۔
عبد اللہ نے کہا: پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آیہ شریفہ
(وما جعلنا الرؤیا الّتی أریناک الّا فتنۃ للناس و الشجرة الملعونۃ فی القرآن) کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ (ص) نے فرمایا: میں نے دیکھا کہ گمراہی کے بارہ پیشوا میرے منبر پر اوپر نیچے جا رہے ہیں اور میری امت کو پستی کی طرف لے جا رہے ہیں… اس کے بعد فرمایا:
بلا شبہ جب ابی العباس کی اولاد کی تعداد پندرہ تک پہنچ جائے گی، تو وہ کتاب خدا کی بے حرمتی اور تحریف کریں گے اور خدا کے بندوں کو غلام بنائیں گے اور بیت المال کو ذاتی ثروت میں تبدیل کر دیں گے۔
اے معاویہ ! جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تھے، میں، عمر ابن ابی سلمہ، اسامہ بن زید، سعد بن ابی وقاص، سلمان فارسی، ابوذر، مقداد اور زبیر بن عوام آپ (ص) کے روبرو بیٹھے تھے۔ آپ (ص) نے فرمایا:
الست اولی بکم من انفسکم ؟
ہم نے کہا: جی ہاں، یا رسول اللہ……
تو آپ (ص) نے فرمایا: من کنت مولاہ فعلی مولاہ……
عبد اللہ ابن جعفر نے اپنے کلام کو جاری رکھتے ہوئے کہا: ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے، حضرت علی علیہ السلام کو، جو سب سے افضل و بہتر تھے، غدیر خم کے دن لوگوں کا امام مقرر فرمایا اور حکم دیا کہ ان کی اطاعت کریں…
معاویہ نے عبد اللہ بن جعفر کے ضمن میں کہا: تم نے ایک بڑی چیز بیان کی۔ اگر جو کچھ کہا حق ہو تو اہل بیت علیہم السلام اور ان کے دوستوں کے علاوہ تمام کے تمام مہاجر و انصار ہلاک ہو گئے۔ میں نے معاویہ سے کہا: خدا کی قسم، جو کچھ میں نے بیان کیا وہ حقیقت ہے اور یہ سب میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے۔
معاویہ نے حسن (ع) و حسین (ع) اور ابن عباس کی طرف مخاطب ہو کر کہا: ابن جعفر کیا کہہ رہے ہیں ؟ ابن عباس نے جواب میں کہا: اگر نہیں مانتے ہو تو ان افراد کو بلا لو جو وہاں پر موجود تھے اور جنہوں نے عبد اللہ کی طرح اس خبر کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے۔ معاویہ نے عمر ابن ابی اسلمہ اور اسامہ بن زید کو بلا بھیجا اور ان سے بھی سوال کیا۔ انھوں نے عبد اللہ بن جعفر کے بیان کی تائید کرتے ہوئے شہادت دی اور تصدیق کی۔
.
6- برد کا عمر و عاص پر استدلال:
ابن قتیبہ دینوری نے کتاب الامامۃ و السیاسۃ کے صفحہ 93 پر لکھا ہے کہ:
تاریخ نویسوں نے لکھا ہے کہ:
طائفہ ہمدان سے ایک شخص بنام برد، معاویہ کے پاس آیا، اس نے دیکھا کہ عمرو عاص حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں ناشائستہ باتیں کہہ رہا ہے۔
برد نے اس سے کہا کہ ہمارے مشائخ اور بزرگوں نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر خدا (ص) نے فرمایا:
من کنت مولاہ فعلی مولاہ، کیا یہ نقل صحیح ہے ؟
عمرو عاص نے کہا: حق اور صحیح ہے۔ میں اس سے زیادہ کہوں گا جو تم نے کہا ہے: اصحاب پیغمبر (ص) سے کوئی ایک علی علیہ السلام کے فضائل کو نہیں پہچانتا۔ برد نے کہا: میں لرز اٹھا۔
عمرو عاص نے کہا: لیکن علی علیہ السلام نے ان تمام فضائل کو عثمان کے ساتھ بدسلوکی کر کے خراب کر دیا ہے۔
برد کہتا ہے: کیا علی علیہ السلام نے عثمان کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا یا خود عثمان کو قتل کیا تھا ؟
عمر عاص نے کہا: نہیں، بلکہ اس کے قاتل کو پناہ دی تھی۔
برد نے کہا: کیا اس کے باوجود بھی مسلمانوں نے ان کی بیعت کر لی ؟
عمرو عاص نے کہا: ہاں، لوگوں نے ان کی بیعت کی۔
برد نے سوال کیا: پھر کس چیز نے تم کو علی علیہ السلام کی بیعت کرنے سے روکا تھا ؟
عمرو عاص نے کہا: اس لیے کہ میں اسے قتل عثمان میں متہم جانتا ہوں۔
برد نے کہا: تم خود قتل عثمان میں متہم ہو !!
عمرو عاص نے کہا: صحیح کہتے ہو اسی لیے میں فلسطین چلا گیا تھا۔
برد نے کہا : جب میں اپنے قبیلہ میں واپس پہنچا تو میں نے ان سے کہا کہ: ہم ایک شخص کے پاس گئے تھے کہ اس کے کلام سے ہی ہم نے اس کے خلاف برہان و استدلال کیا جان لو کہ علی علیہ السلام حق پر ہیں۔ ان کی پیروی کرو۔
.
7- عمرو عاص کا معاویہ پر استدلال:
خوارزمی نے کتاب مناقب کے صفحہ 124 پر ایک خط کا ذکر کیا ہے کہ جو معاویہ نے جنگ صفین میں مدد کی غرض سے عمرو عاص کو لکھا اور عمرو عاص کے جواب کا بھی ذکر کیا ہے جو مطالب عمرو عاص نے اپنے خط میں معاویہ کو لکھے ہیں ان میں یہ بھی تھا:
جو کچھ تم نے ابو الحسن، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھائی اور ان کے وصی پر ظلم کیا اور ان پر عثمان سے حسد کی تہمت لگائی ہے اور یہ کہ انھوں نے لوگوں کو عثمان کے خلاف اکسایا، یہ جھوٹ اور گمراہی ہے۔ افسوس ہو تم پر اے معاویہ ! کیا تم نہیں جانتے کہ ابو الحسن (علی(ع)) نے اپنے آپ کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان کیا اور لیلۃ المبیت کو آپ (ص) کے بستر پر سوئے اور وہ (علی علیہ السلام) اسلام اور ہجرت میں سب سے مقدم ہیں۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا ہے:
ھو منی و انا منہ و ھو منی بمنزلۃ ھارون من موسی الا انہ لا نبی بعدی”
اور اس کے علاوہ غدیر خم کے دن علی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
الا من کنت مولاہ فعلی مولاہ……
.
8- عمار بن یاسر کا عمرو عاص کے سامنے استدلال:
نصر بن مزاحم کوفی نے کتاب صفین کے صفحہ 174 پر عمار بن یاسر سے روایت کی ہے کہ انھوں (عمار) نے جنگ صفین میں عمرو عاص سے مخاطب ہو کر یوں کہا:
پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ناکثین سے جنگ کریں اور ہم نے جنگ کی۔ آپ (ص) نے حکم دیا کہ قاسطین سے جنگ کریں کہ تم قاسطین ہو۔ اب معلوم نہیں کہ مارقین کو بھی درک کر سکوں یا نہیں ؟ اے ابتر ! کیا تو نہیں جانتا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام کے بارے میں کہا ہے: من کنت مولاہ فعلی مولاہ ،
.
9- اصبغ بن نباتہ کا استدلال:
امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے جنگ صفین میں اصبغ ابن نباتہ کے ذریعہ معاویہ کو ایک خط بھیجا اصبغ کہتے ہیں کہ:
میں معاویہ کے پاس پہنچا وہ چمڑے کے فرش پر دو سبز تکیوں سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ اس کے دائیں طرف عمرو عاص، اور بائیں طرف اس کا بھائی عتبہ، ابن عامر، ولید، عبد الرحمٰن بن خالد و شرحبیل اور سامنے ابوہریرہ ابو درداء، نعمان و ابو امامۃ باہلی بیٹھے ہوئے تھے۔
اس نے حضرت علی علیہ السلام کا خط پڑھ کر کہا: علی علیہ السلام عثمان کے قاتلوں کو ہمارے حوالے نہیں کرتے۔ اصبغ کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ سے کہا: اے معاویہ بہانہ اور حیلہ سے کام نہ لو، کیونکہ تم حکومت اور سلطنت چاہتے ہو۔ اگر تم حقیقتاً عثمان کی مدد کرنا چاہتے ہو تو، جب وہ زندہ تھا اس کی مدد کرتے لیکن تم نے ایسا نہیں کیا بلکہ منتظر تھے تا کہ وہ قتل ہو جائے، تب تم اس کے قتل کو اپنے مقاصد کے لیے سند کے طور پر استعمال کرو۔
معاویہ میری باتوں سے آگ بگولا ہو گیا، میں چاہتا تھا اس کے غصہ کو اور مشتعل کروں اس لیے میں نے ابوہریرہ سے مخاطب ہو کر کہا: اے صحابی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! تجھے لا شریک اور غیب و شہود کے عالم خدا کی قسم، اور تجھے خدا کے حبیب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم دیتا ہوں، مجھے بتا دے کہ کیا تم غدیر خم کے دن حاضر و شاہد تھے ؟
ابو ہریرہ نے کہا: ہاں۔
میں نے اس سے کہا: تو نے علی علیہ السلام کے بارے میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا سنا ہے ؟
ابو ہریرہ نے کہا: میں نے سنا پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
من کنت مولاہ فعلی مولاہ، اللھم و آل من والاہ و عاد من عاداہ……
میں نے کہا: اے ابو ہریرہ ! اس کے باوجود تم اس کے دشمن کے ساتھ دوست بن گئے ہو (یعنی معاویہ کے دوست ہو) اور ان (علی علیہ السلام) کے دوستوں کے دشمن بن گئے ہو ؟!
یہ سن کر ابو ہریرہ نے ایک لمبی آہ بھری اور کہا:
( انّا للہ و انا الیہ راجعون )
حنفی نے کتاب مناقب کے صفحہ 130 پر اور ابن جوزی نے کتاب تذکرہ کے صفحہ 48 پر اس حدیث کو نقل کیا ہے۔
.
10- ایک جوان کا ابو ہریرہ کے لیے استدلال:
ابو یعلی موصلی نے روایت کی ہے کہ ابو ہریرہ مسجد کوفہ میں داخل ہوا۔ کچھ لوگوں نے من جملہ ایک جوان نے اس کو گھیر لیا۔
اس جوان نے پوچھا: تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں بتاؤ کیا تم نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ:
من کنت مولاہ فعلی مولاہ اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ ؟
ابو ہریرہ نے کہا: ہاں میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے۔
تتمۂ حدیث کو ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ کی ج 1 ص 360 پر یوں نقل کیا ہے:
اس جوان نے کہا: اب جب کہ تم نے اسے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے تو میں شہادت دیتا ہوں کہ تم نے اس کے دشمن کے ساتھ دوستی کی ہے۔ (معاویہ کے ساتھ دوستی کی ہے) یہ کہہ کر وہ جوان چلا گیا۔
.
11- غدیر کے سلسلے میں ایک آدمی کا زید بن ارقم سے استدلال:
راوی کہتا ہے: میں زید بن ارقم کے پاس بیٹھا تھا۔ میں نے دیکھا ایک شخص آیا اور اس نے سوال کیا: تم میں سے کون زید بن ارقم ہے ؟ اس سے کہا گیا: زید یہ ہے۔
اس پر اس شخص نے کہا: تمہیں خدائے وحدۂ لاشریک کی قسم دیتا ہوں کہ کیا تم نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے من کنت مولاہ فعلی مولاہ……؟
زید نے کہا: ہاں سنا ہے۔
.
12- معاویہ کے سامنے قیس بن سعد کا استدلال:
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی شہادت کے بعد معاویہ مراسم حج انجام دینے کے بعد مدینہ منورہ میں داخل ہوا۔ اہل مدینہ نے معاویہ کا استقبال کیا۔ معاویہ اور قیس بن سعد کے درمیان ایک بحث ہوئی۔ قیس نے معاویہ سے کہا: اپنی جان کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ علی علیہ السلام یا ان کی اولاد (علی (ع) کے بعد) کے ہوتے ہوئے قریش و انصار اور عرب و عجم میں سے کسی کو خلافت پر حق نہیں ہے۔
معاویہ نے طیش میں آ کر کہا: اے قیس اس بات کو تم نے کس سے نقل کیا ہے ؟ کیا تمہارے باپ نے تمہیں یہ خبر دی ہے ؟
قیس نے کہا: اسے میں نے ایسے شخص سے سنا ہے کہ اس کا حق مجھ پر اپنے باپ سے زیادہ ہے۔
معاویہ نے پوچھا: وہ شخص کون ہے ؟
قیس نے کہا: علی بن ابی طالب، اس امت کے عالم و صدیق نے جن کے بارے میں خدائے تعالیٰ نے آیۂ شریفہ
(قل کفی باللہ شھیداً بینی و بینکم و من عندہ علم الکتاب) نازل فرمائی ہے۔
معاویہ نے کہا: امت کے صدیق ابوبکر اور فاروق، عمر ہے اور (الذی عندہ علم الکتاب) کا مقصد ابن سلام ہے۔
قیس نے کہا: ان اوصاف کے لیے سزاوار ترین فرد وہ ہے، جس کے بارے میں خداوند نے فرمایا ہے کہ:
( افمن کان علی بینۃ من ربہ و یتلوہ شاھد منہ )
اور جسے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے دن امت کی امامت پر منصوب کر کے فرمایا تھا:
من کنت مولاہ فعلی اولی بہ من نفسہ ،
اور غزوہ تبوک میں ان کے بارے میں فرمایا:
انت منی بمنزلۃ ھارون من موسی الاّ انہ لا نبی بعدی ،
.
13- عمرو اودی کا حدیث غدیر پر استدلال:
مفتی کوفہ شیخ بن عبد اللہ نخعی نے عمرو اودی سے نقل کیا ہے کہ:
اس کے سامنے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا ذکر ہوا۔ اس نے کہا: بعض لوگ علی علیہ السلام کی توہین کرتے ہیں اور ان کے بارے میں ناشائستہ باتیں کرتے ہیں، یہ سب جہنم کے ایندھن ہیں، کیونکہ میں نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک جماعت سے کہ من جملہ حزیفہ بن یمان و کعب بن عجزہ سے سنا ہے کہ وہ کہتے تھے کہ:
علی علیہ السلام کو ایک ایسی چیز عطا کی گئی ہے کہ کسی ایک کو بھی وہ چیز نہیں ملی ہے۔ وہ دنیا میں اولین و آخرین کی عورتوں کی سردار، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے شوہر ہیں۔ کیا کسی بشر کو ان جیسی زوجہ ملی ہے ؟ انہیں حسن و حسین علیہ السلام دو سرداران جوانان جنت عطا کیے گئے اور کس کو حسن و حسین علیہ السلام جیسی اولاد عطا کی گئی ہے ؟
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی زوجہ کے باپ اور وہ خود اہل بیت علیہم السلام میں سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصی ہیں، تمام دروازے جو مسجد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کھلتے تھے، بند کیے گئے صرف علی علیہ السلام کا دروازہ کھلا رہا۔ وہ جنگ خیبر کے علمدار ہیں… وہ صاحب روز غدیر ہیں کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا ہے کہ:
ایھا الناس من اولی بکم من انفسکم؟ قالوا اللہ و رسولہ اعلم، قال من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ ،
.
14- دارمیّہ حجونیہ کا استدلال:
زمخشری نے کتاب ربیع الابرار میں لکھا ہے کہ:
معاویہ حج کو گیا تھا، اس نے مکہ میں دارمیہ حجونیہ نام کی ایک خاتون کو بلوا بھیجا کہ جو شیعیان علی علیہ السلام میں سے تھی۔ یہ ایک سیاہ رنگ اور تنو مند خاتون تھی۔ جب وہ معاویہ کے پاس پہنچی تو معاویہ نے اس سے کہا: کیسی ہو اے حام کی بیٹی ؟
درامیہ نے کہا: میں خیریت سے ہوں لیکن حام سے نہیں ہوں بلکہ بنی کنانہ سے ہوں۔
معاویہ نے کہا: ٹھیک ہے، جانتی ہو کہ میں نے تمہیں کیوں بلایا ہے ؟
دارمیہ نے کہا: سبحان اللہ ! کیا میں علم غیب رکھتی ہوں !
معاویہ نے کہا تم کیوں علی علیہ السلام کو دوست رکھتی ہو اور مجھ سے دشمنی کرتی ہو ؟
دارمیہ نے کہا: مجھے چھوڑ دو۔
معاویہ نے کہا: کہنا نہیں چاہتی ہو… ؟
دارمیہ نے کہا: میں جو علی علیہ السلام کو دوست رکھتی ہوں، تو یہ اس لیے ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان عدالت کی رعایت کرتے ہیں اور بیت المال کو مساوی تقسیم کرتے ہیں اور جو تم سے متنفر ہوں، اس لیے ہے کہ تم ایک ایسے شخص سے نبرد آزما ہو کہ جو خلافت کے لیے تم سے زیادہ سزاوار ہے، اور جس چیز کا مطالبہ کرتے ہو اس کے حقدار نہیں ہو، اور علی علیہ السلام کو اس لیے دوست رکھتی ہوں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم میں ان کی ولایت کا اعلان کیا اور تم بھی وہاں حاضر تھے۔ وہ مفلس و ناداروں اور دیانتداروں کو دوست رکھتے ہیں، لیکن تم معاویہ ! خونریزی کرتے ہو اور تفرقہ پھیلاتے ہو۔ فیصلہ سنانے میں ظلم کرتے ہو اور ہوا و ہوس کی بنیادوں پر فیصلہ کرتے ہو !!!
.
15- اموی خلیفہ عمر ابن عبد العزیز کا استدلال:
ابو نعیم اصفہانی نے کتاب حلیۃ الاولیاء ج 5 صفحہ 364 پر راوی سے نقل کیا ہے کہ:
جس وقت خلیفہ بخشش و عطا کر رہا تھا، میں شام میں تھا۔ آگے بڑھا۔ عمر بن عبد العزیز نے مجھ سے پوچھا: تم کون ہو ؟
میں نے کہا: قریش سے ہوں۔
اس نے کہا: کس خاندان سے ہو ؟
میں نے کہا: بنی ہاشم سے ہوں۔
تھوڑا سوچنے کے بعد اس نے پوچھا: بنی ہاشم کے کن افراد میں سے ہو ؟
میں نے کہا، دوستان و غلامان علی علیہ السلام سے ہوں۔
سوال کیا: کون علی علیہ السلام ؟ تھوڑا خاموش رہنے کے بعد اس نے ہاتھ کو اپنے سینے پر مار کر کہا: خدا کی قسم میں بھی علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ کا غلام ہوں۔ اس کے بعد کہا، بعض لوگوں نے میرے پاس یہ حدیث نقل کی ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے:
من کنت مولاہ فعلی مولاہ ،
اس کے بعد اپنے غلام مزاحم کی طرف مخاطب ہو کر پوچھا، ان جیسے افراد کو کتنی بخشش دیتے ہو ؟ اس نے جواب دیا: ایک سو یا دو سو درہم۔
خلیفہ نے کہا: اسے پچاس دینار دے دو۔
ابن داؤد کہتا ہے: خلیفہ نے حکم دیا کہ علی علیہ السلام کی دوستی کی وجہ سے اسے ساٹھ دینار عطا کیے جائیں۔
نتیجہ:
تاریخ کی ورق گردانی سے ایسے دلائل و شواہد اس سے کہیں زیادہ ملتے ہیں کہ جو ہم نے ابھی ذکر کیے ہیں۔ ان واقعات سے اس طرح استفادہ کیا جا سکتا ہے کہ:
غدیر خم کا واقعہ مسلمانوں کی تاریخ و زندگی سے مربوط ایک اہم اور معروف واقعہ ہے۔ جو لوگ اس واقعہ سے باخبر تھے اسے آنے والی نسلوں کے لیے دست بہ دست اور سینہ بہ سینہ منتقل کرتے تھے اور جب کبھی مناسب موقع ملتا یا حالات مناسب ہوتے، تو اس کا ذکر کرتے تھے اور استدلال و احتجاج کرتے تھے۔
ان نمونوں کے ذکر کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غدیر کے واقعہ کی شہرت کسی خاص گروہ یا کسی خاص علاقے تک محدود نہ تھی، بلکہ مختلف اقوام اور مختلف علاقوں کے مسلمان اس سے آگاہ تھے اور تمام لوگوں کے ہاں یہ واقعہ مشہور اور معروف تھا۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ معاویہ کے دربار شام میں، کوفہ کے رحبہ میں، اموی خلیفہ کے پاس، حج میں بنی کنانہ کی ایک خاتون، کوفہ کا ایک جوان، مسافروں میں سے کئی سوار، مہاجرین و انصار وغیرہ کے ذریعہ اس واقعہ کا بیان اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ واقعہ غدیر ایک وسیع اور شہرہ آفاق واقعہ ہے کہ جو اس وقت کے مسلمانوں کی زندگی میں رچ گیا ہے