ایک دلچسپ مناظرہ؛-
شیخ مفید کے زمانہ میں اہل سنت کا ایک بہت ہی عظیم عالم دین جسے لوگ قاضی ”عبد الجبار“ کے نام سے جانتے تھے جو بغداد میں در س دیا کرتے تھے، ایک روز قاضی عبد الجبار در س کے لئے بیٹھے تھے اور تمام شیعہ سنی شاگرد بھی اس کے اس درس میں موجود تھے اس دن شیخ مفید بھی درس میں حاضر ہوئے اور آکر چوکھٹ پر بیٹھ گئے۔
قاضی نے شیخ مفید کو اب تک نہیں دیکھا تھا لیکن انھوں نے ان کے اوصاف سن رکھے تھے۔کچھ وقت گزرنے کے بعد شیخ مفید نے قاضی کی طرف دیکھ کر کہا:
”آیا مجھے ان دانشوروں کے سامنے اجازت دیتے ہو کہ میں آپ سے ایک سوال کروں؟“
شیخ مفید: یہ حدیث جس کے بارے میں شیعہ حضرات روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر نے صحرائے عرب غدیر میں علی علیہ السلام کے لئے فرمایا:
”من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ“۔
جس کا میں مولا ہوں پس اس کے علی مولا ہیں“۔
کیا یہ صحیح ہے یاشیعوں نے گڑھ لی ہے؟
قاضی: ”یہ روایت صحیح ہے“۔
شیخ مفید :اس روایت میں کلمہ مولا سے کیا مراد ہے ؟“
قاضی: ”مولا سے مطلب سر پرست اور اولویت ہے“۔
شیخ مفید: اگر اسی طرح ہے تو پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم کے فرمان کے مطابق علی علیہ السلام دوسرے لوگوں کے سرپرست اور سب پر اولویت رکھتے ہیں“۔
اب اس حدیث کے بعد شیعہ اور سنی کے درمیا ن اختلاف اور دشمنی کیوں ہے ؟“
قاضی: ”اے بھائی ! یہ حدیث” غدیر“ روایت ہے لیکن خلافت ابو بکر ”درایت“اور امر مسلم ہے اور عاقل شخص روایت کی خاطر درایت کو ترک نہیں کرتا“۔
شیخ مفید: تمام حدیث کے بارے میں کہتے ہو کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
”یا علی حربک حربی وسلمک سلمی“۔
”اے علی علیہ السلام ! تمہاری جنگ میری جنگ اور تمہاری صلح میری صلح ہے“۔
قاضی: ”یہ حدیث صحیح ہے“۔
شیخ مفید:اس حدیث کی بنیاد پر جن لوگوں نے جنگ جمل شروع کی جیسے ،طلحہ،زبیر ،عائشہ وغیرہ علی علیہ السلام سے جنگ کی اس حدیث کی رو سے (جب کہ تمہارا یہ بھی اعتراف ہے کہ حدیث صحیح ہے) تو ان لوگوں نے گویا رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم سے جنگ کی اور یہ لوگ کافر ہوئے“۔
قاضی: ”اے بھائی!طلحہ وزبیر وغیرہ نے توبہ کر لی تھی“۔
شیخ مفید:جنگ جمل درایت اور قطعی ہے لیکن یہ جنگ کرنے والوں نے توبہ کی یہ روایت اور ایک سنا ہوا قول ہے اور تم نے خود ہی کہا ہے کہ درایت کو روایت پر قربان نہیں کرنا چاہئے او ر عاقل شخص درایت کو روایت کی وجہ سے ترک نہیں کرتا ہے“۔
قاضی: ”اس سوال کا جواب دینے سے بے بس ہو گیا اور ایک لمحہ بعد اس نے چونک کر اپنا سر اٹھا یا اور کہا ”تم کون ہو“
شیخ مفید : ”میں آپ کا خادم محمد بن محمد نعمان ہوں“۔
قاضی ، اس وقت اپنی جگہ سے اٹھے اور شیخ مفید کا ہاتھ پکڑ کر اس نے اپنی جگہ بٹھا کر ان سے کہا:
”انت المفید حقاً “تم حقیقت میں مفید ہو“۔
بزم کے تمام علماء قاضی کی اس بات سے رنجیدہ ہوئے اور کافی شور وغل مچایا ،قاضی نے ان لوگوں سے کہا: ”میں اس شیخ مفید کا جواب دینے میں بے بس ہو گیا تم میں سے جو بھی ان کا جواب دے سکے وہ اٹھے اور بیان کرے“۔
ایک آدمی بھی نہیں اٹھا اس طرح شیخ مفید کامیاب ہوگئے اور اسی بزم سے ان کا لقب مفید ہوگیا جو تمام لوگوں کی زبان پر آج تک جاری ہے۔
(مجالس الموٴمنین ،ج۱ ،ص۲۰۰و ۲۰۱، پانچویں مجلس)۔