غدیر کے دن حضرت علی (ع) کے بارے میں نازل ہونے والی آیات میں سے آیت میں اللہ تعالی ٰٰ کا ارشاد ہے
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً
(سورہ مائدہ : 3)
(ترجمہ)
آج میں نے تمھارے دین کو کامل کرد یا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمھارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنا دیا ہے

اس حدیث کو حافظ بغدادی نے ایک اور سند کے ساتھ علی بن سعید رملی سے بھی نقل کیا ہے

*سند حدیث کے رجال پر بحث*

اہل سنت جمہور نے اس کی عدالت اور وثاقت پر اجماع و اتفاق کیا ہے لہذا اس کے بارے میں ہمیں بات بڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں

ایک جماعت نے ان پر جرح کی ہے لیکن جمہور نے ان کو ثقہ کہا ہے

حافظ ابن حجر نے کہا ہے کہ یہ جمہور کے نزدیک مقبول ہیں

ارباب صحاح نے ان سے روایات لیں ہیں اور ان روایات کو صحیح اورحسن کا ردجہ دیا ہے

بخاری مسلم اور دوسرے تمام ارباب صحاح نے ان سے روایتیں نقل کی ہیں. ابن حجر نے ان کے حالات لکھے ہیں ،کسی نے ان کی نقل شدہ حدیث رد نہیں کی .ان کی صداقت اور ان کا بےلوث ہونا منقول ہے علمائے رجال سے


کثیر بن ولید سے مروی ہے کہ جب میں ابن شوذب کو دیکھتا تھا تو مجھے فرشتے یاد آجاتے تھے.احمد بن حنبل، ابن معین، نسائی ،،عجلی ، ابن عمار نے ان کو ثقہ کہا ہے. مسلم کے علاوہ کل صحاح ستہ میں ان کی روایات ہیں .ذہبی نے ان کی حدیث کو تلخیص میں صحیح کہا ہے


ابن حجر نے صدوق کہا ہےاور مسلم کے علاوہ دیگر صحاح ستہ میں ان کی روایات موجود ہیں


ذہبی ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ اپنے امر میں ایسے پختہ ہیں کہ گویا وہ سچے ہیں


حافظ خطیب نے ان کے حالات قلم بند کئے ہیں اور کہا ہے کہ ووہ ثقہ تھے،بصرہ میں رہتے تھے اور دارقطنی سے نقل کیا ہے کہ وہ سچے ہیں


حافظ خطیب بغدادی نے کہا ہے کہ وہ اپنے زمانے کے وحید و فرید اور امام وقت تھے ، علم علل حدیث اور اسماء رجال و روایت کی ان پر انتہا ہوگئی


خطیب بغدادی نے ان کے حالات قلم بند کئے ہیں اور کہا ہے کہ ان کا سماعت صحیح ہے

*تنیجہ:*
سند کے لحاظ سے اس روایت کے تمام رواۃ ثقہ ہیں اور یہ حدیث صحیح یا حسن کے درجہ سے کم نہیں ہے
*اسی طرح درج زیل دیگر کتب اھل سنت میں آیت اکمال کا شان نزول مروی ہے کہ یہ اعلان ولایت علی (ع) کے بعد رسول (ص) پر اتری*


*آج کے دن میں نے تمھارے لئے تمھارے دین کو مکمل کیا ھے اور تم پر میں نے اپنی نعمت تمام کی ھے اور تمھارے لئے دین اسلام کو پسند کیا ھے*
تمام شیعہ محدثین و مفسرین کا اجماع ھے کہ یہ آیت (غدیر خم) کے مقام پر حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کے بعد نازل ھوئی
1 :- محمد بن جریر طبری (کتاب الولایہ)
2 :- تفسیر ابن کثیر میں ابن مردویہ کے حوالے سے یہی لکھا ہوا ھے ،
3 :- حافظ ابونعیم اصفہانی (مانزل من القرآن فی علی)
4 :- ابوبکر خطیب بغدادی (تاریخ بغداد ، ج ٨)
5 :- ابوسعید سجستانی (کتاب الولایۃ)
6 :- حافظ ابوالقاسم حاکم حسکانی (دعاۃ الھداۃ الی اداء حق الموالاۃ) شواهد التنزيل للحاكم الحسكاني ج 1 ص 203
خ
7 :- حافظ ابوالقاسم بن عساکر
8 :- ابوالحسن بن مغازلی (مناقب مغازلی)
9 :- اخطب خوارزمی (خوارزمی ،مناقب ،س 94)
10 :- ابوالفتح نطنزی (الخصائص العلویہ)
11 :- ابو حامد سعد الدین صالحانی سے شہاب الدین احمد نے کتاب توضیح الدلائل علی ترجیح الفضائل میں نقل کیا ھے ،
12 :- سبط ابن جوزی (تذکرۃ الخواص الامتہ ، ص 18)
13 :- شیخ الاسلام حموینی (فرائد السمطین)
14 :- عماد الدین بن کثیر قرشی نے اپنی تفسیر میں لکھا ھے ،
15 :- جلال الدین سیوطی نے تفسیر درمنشور اور اتقان میں لکھا ھے ،
16 :- منیر محمد بدخشی (مفتاح النجاۃ)
17 :- تاريخ مدينة دمشق – ابن عساكر ج 42 ص 232
.
.
.
آیت اکمال؛ سورہ مائدہ کی تیسری آیت ہے جو واقعۂ غدیر کے سلسلے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ پر نازل ہوئی ہے۔
آیت کا متن
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً [1]
آج میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بحیثیت دین کے پسند کر لیا
شأن نزول
شیعہ علماء و مفسرین اس آیت کریمہ کی شان نزول کے حوالے سے اجماع کے قائل ہیں کہ یہ غدیر خم کے مقام پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ پر نازل ہوئی ہے اور محدثین اور مفسرین کی ایک بڑی جماعت نے اعتراف کیا ہے کہ یہ آیت بلا شک امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب(ع) کی خلافت بلافصل کی دلیل ہے؛ منجملہ:
طبری کتاب “الولایہ”، ابن مردویه اصفہانی کتاب “مناقب علی بن ابی طالب”، سیوطی “الدرالمنثور” میں[2]، حافظ ابونعیم اصفہانی اپنی کتاب “ما نزل فی علي” میں، حافظ ابوبکر خطیب بغدادی “تاریخ بغداد” میں، حافظ ابوسعید سجستانی “کتاب الولایہ” میں، ابوالحسن بن مغازلی شافعی مناقب، میں اور۔۔۔[3]
آیت کا تجزیہ
جو کچھ مذکورہ بالا مفسرین اور محدثین نے مذکورہ آیت کریمہ میں کہا ہے اس کا مضمون یہ ہے کہ جب آیت تبلیغ [4] غدیر خم ک مقام پر رسول خدا(ص) پر نازل ہوئی تو آپ(ص) نے امیرالمؤمنین(ع) کو ولایت اور خلافت کا عہدہ سونپ دیا اور آیت اکمال نازل ہوئی جس پر پیغمبر(ص) نے فرمایا:
“الله اكبر علی اكمال الدین واتمام النعمة ورِضی الرب برسالتي وولاية علي بن ابيطالب من بعدي”۔[5]
ترجمہ:”الله اکبر دین کے کامل ہونے اور نعمت کے مکمل ہونے اور میری رسالت پر اور میرے بعد علی(ع) کی ولایت پر اللہ کی رضا اور پسندیدگی، پر”
چنانچہ حضرت علی بن ابی طالب(ع) کی ولایت کا مسئلۂ آخری فریضہ تھا جو نازل ہوا اور اس کے بعد آیت اکمال کے سوا کچھ بھی نازل نہيں ہوا۔[6]
حوالہ جات
1: سورہ مائدہ آیت 3۔
2: الدر المنثور، ج2، ص259.
3: بحوالہ: سید جوادی و دیگران، دایرة المعارف تشیع، ج1، ص245-244۔
4: سورہ مائدہ آیت 67: “يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ”۔ ترجمہ: اے پیغمبرۖ جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل ہوا ہے اسے کامل طور سے (لوگوں تک) پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے (ایسا) نہ کیا تو گویا آپ نے کار رسالت سر انجام ہی نہیں دیا اور خداوند تعالیٰ لوگوں (کے ممکنہ خطرات) سے آپ کو محفوظ رکھے گا)۔
5: طبری، بشارة المصطفی، ص211؛ حسنی استرآبادی، تأویل الایات الظاہرة، ص152؛ حسکانی، شواہد التنزیل، ج1، ص201؛ ابن طاؤوس، الطرائف، ج1، ص146.
6: بحرانی، البرہان، ج1، ص 424۔



آیت الیوم اکملت کا امیر المومنین ع کے حق میں نازل ہونا اہل سنت معتبر روایت کی روشنی میں
(1)أخبرنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ بِشْرَانَ، قَالَ: أخبرنا عَلِيُّ بْنُ عُمَرَ الْحَافِظُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نَصْرٍ حَبْشُونُ بْنُ مُوسَى بْنِ أَيُّوبَ الْخَلالُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الرَّمْلِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ بْنُ رَبِيعَةَ الْقُرَشِيُّ، عَنِ ابْنِ شَوْذَبٍ، عَنْ مَطَرٍ الْوَرَّاقِ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: مَنْ صَامَ يَوْمَ ثَمَانِ عَشْرَةَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ كُتِبَ لَهُ صِيَامُ سِتِّينَ شَهْرًا، وَهُوَ يَوْمُ غَدِيرِ خُمٍّ لَمَّا أَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، فَقَالَ: ” أَلَسْتُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ؟ “، قَالُوا: بَلَى يا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: ” مَنْ كُنْتُ مَولاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاهُ “، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: بَخٍ بَخٍ لَكَ يَابْنَ أَبِي طَالِبٍ أَصْبَحْتَ مَوْلايَ وَمَوْلَى كُلِّ مُسْلِمٍ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ}
بسند حسن حضرت ابوہریرہ رض بیان کیا ہے کہ آپ نے فرمایا جو شخص 18ذوالحجہ کا رکھے اس کے لیے ساٹھ ماہ کے روزے لکھے جاتے ہیں اور وہ غدیرخم کا روزہ ہے-جب رسول ص نے حضرت علی بن ابی طالب ع کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:کیا میں مومنین کا آقا ہوں ؟سب نے کہا بے بیشک رسول اللہ ص پھر آپ ص نے فرمایا جس کا میں آقا ہوں علی ع بھی اسکا آقا ہے حضرت عمر نے کہا اے ابن ابی طالب مبارک ہو آپ میرے اور مومنین کے آقا بن گئے تو اللہ تعالیٰ یہ آیت نازل کی(الیوم اکملت لکم دینکم)
(تاریخ بغداد ج8ص284 دوسرا نسخہ ج9ص221 الرقم2777؛تاریخ دمشق ج42 ص233 الرقم 4933)
اس روایت کے راویوں کی توثیق وتصدیق نہایت اختصار کے ساتھ ہدیہ قارئین کی جاتی ہے اہلسنت ویب سائٹ کے مطابق
پہلا راوی
الأسم : عبد الله بن علي بن محمد بن عبد الله بن بشران
الشهرة : عبد الله بن علي الشاهد , الكنيه: أبو محمد
الرتبة : ثقة
دوسرا راوی
الأسم : علي بن عمر بن أحمد بن مهدي بن مسعود بن النعمان بن دينار بن عبد الله
الشهرة : الدارقطني , الكنيه: أبو الحسن
النسب : الدارقطني, البغدادي
الرتبة : ثقة حافظ حجة
تیسرا راوی
الأسم : حبشون بن موسى بن أيوب
الشهرة : حبشون بن موسى البغدادي , الكنيه: أبو نصر
النسب : البغدادي
الرتبة : صدوق حسن الحديث
چوتھا راوی
الأسم : علي بن سعيد
الشهرة : علي بن سعيد الرملي
النسب : الرملي
الرتبة : صدوق حسن الحديث
پانچواں راوی
الأسم : ضمرة بن ربيعة
الشهرة : ضمرة بن ربيعة الفلسطيني , الكنيه: أبو عبد الله
النسب : الرملي, الدمشقي, الفلسطيني
الرتبة : ثقة
چھٹا راوی
الأسم : عبد الله بن شوذب
الشهرة : عبد الله بن شوذب الخراساني , الكنيه: أبو عبد الرحمن
النسب : البلخي, المقدسي, الخراساني
الرتبة : ثقة
ساتواں راوی
الأسم : مطر بن طهمان الوراق
مطر الوراق ١: “م، ٤”
الإِمَامُ, الزَّاهِدُ, الصَّادِقُ, أَبُو رَجَاءٍ بنُ طَهْمَانَ الخُرَاسَانِيُّ, نَزِيلُ البَصْرَةِ, مَوْلَى عِلْبَاءَ بنِ أَحْمَرَ اليَشْكُرِيِّ كَانَ مِنَ العُلَمَاءِ العَامِلِيْنَ, وَكَانَ يكتب المصاحف ويتقن ذلك
(سير اعلام النبلاء ج6ص166 الرقم 817)
یہ ثقہ راوی ہے
الثقات ابن حبان ج5ص435 الرقم:5583؛الثقات عجلی ج1ص430 الرقم:1584؛الثقات ابن شاہین ج1ص229 الرقم:1397؛)
یہ مسلم کا راوی ہے
(رجال صحیح مسلم ج2ص278 الرقم:1690)
علامہ ذہبی کی تحقیق کے مطابق یہ راوی صدوق(حسن الحدیث ہے)
اس صفحہ پر کتاب کے محقق عبد اللہ بن ضیف الرحیلی لکھتے ہیں
الحاصل أنه حسن الحديث الحاصل یہ راوی حسن الحدیث ہے
(ومن تکلم فیہ وهو موثق ج1ص485 الرقم329)
آٹھواں راوی
شہر بن حوشب
یہ مسلم کا راوی ہے
(رجال صحیح مسلم ج1ص312الرقم:677)
اس راوی کے بارے ہم فقط ذہبی کی تحقیق پر اکتفا کرتے ہیں
علامہ ذہبی اس راوی کے بارے لکھتے ہیں
شهر بن حوشب، من علماء التابعين
(ومن تكلم فيه وهو موثق ج1ص265 الرقم:162)
نواں راوی
ابوہریرہ رض صحابی رسول ص ہیں
نتجہ:اس روایت کے تمام راوی ثقہ صدوق صحیح و حسن الحدیث ہیں چونکہ اس سند میں دو راوی اہل سنت ویب سائٹ کے مطابق صدوق وحسن الحدیث ہیں تو اس راویت کی سند حسن ہے تمام راوی قابل وثوق ہیں
(نوٹ)اس آیت کا شان نزول بحق امیر المومنین ع اس روایت کی شاہد روایت بھی موجود ہے ملاحظہ ہوں
(2)أنبانا أبو عبد الله محمد بن علي بن أبي العلاء أنا أبي أبو القاسم أنا أبو محمد بن أبي نصر أنا خيثمة نا جعفر بن محمد بن عنبسة اليشكري نا يحيى بن عبد الحميد الحماني نا قيس بن الربيع عن أبي هارون العبدي عن أبي سعيد الخدري قال لما نصب رسول الله (صلى الله عليه وسلم) عليا بغدير خم فنادى له بالولاية هبط جبريل عليه السلام عليه بهذه الاية ” أليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكمم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا-
حضرت ابو سعید خدری رض فرماتے ہیں رسول ص علی ع کو نصب کیا(یعنی امامت کے لیے)غدیر خم پر اور ولایت کا اعلان کیا تو جبرائیل ع یہ آیت لے کر نازل ہوئے
أليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكمم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا
(تاریخ دمشق ج42 237 الرقم:4933)
.
.
.
.
.
خطیب بغدادی نے اپنی دند سے اد طرح نقل کیا ہے :
انبانا عبدالله بن علي بن محمد بن بشران، قال: أخبرنا علي بن عمر الحافظ، قال: حدثنا أبو نصر حبشون بن موسى بن أيوب الخلال، قال: حدثنا علي بن سعيد الرملي، قال: حدثنا ضمرة بن ربيعة القرشي، عن ابن شوذب، عن مطر الوراق، عن شهر بن حوشب، عن أبي هريرة، قال: من صام يوم ثمان عشرة من ذي الحجة كتب له صيام ستين شهرا، وهو يوم غدير خم لما أخذ النبي صلى الله عليه وسلم بيد علي بن أبي طالب، فقال: ” ألست ولي المؤمنين؟ “، قالوا: بلى يا رسول الله، قال: ” من كنت مولاه فعلي مولاه “، فقال عمر بن الخطاب: بخ بخ لك يابن أبي طالب أصبحت مولاي ومولى كل مسلم، فأنزل الله: {اليوم أكملت لكم دينكم} ، ومن صام يوم سبعة وعشرين من رجب كتب له صيام ستين شهرا، وهو أول يوم نزل جبريل عليه السلام على محمد صلى الله عليه وسلم بالرسالة،
ابوھریرہ سے روایت ہے کہ جو اٹھارہ ذی الحجہ کو روزہ رکھے گا اسکے لئے ساٹھ مہینوں کے روزوں کا ثواب لکھا جائے گا۔ یہ روز غدیر خم کا ہے جب رسول اللہ ﷺ نے علی بن ابی طالب ﷺ کا پکڑا اور فرمایا : کیا میں مومنین کا ولی نہیں۔ انہوں نے جواب دیا : ہاں یا رسول اللہ ﷺ۔ پھر انہوں نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اسکا علیؑ بھی مولا ہے۔ پھر عمر بن خطاب نے کہا : مبارک ہو، اے ابوطالب کے بیٹے۔ آج تو آپ نے اس حال میں صبح کہ میرے اور ہر مسلمان کے مولا قرار پائے۔ اسکے بعد ﴿ اليوم أكملت لكم دينكم : آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کیا﴾ نازل ہوئی۔۔۔۔۔

اسکی سند بلکل صحیح ہے لیکن پھر بھی بعض نوا صب اس پر دو راویوں کی وجہ سے اعتراض کرتے ہیں کہ ان پر جرح کی گئ ہے۔

یہ ثقہ راوی ہے اور اسکی روایت صحیح مسلم میں بھی موجود ہے۔
ابن حجر عسقلانی نے مطر الوراق کے بارے میں یوں لکھا ہے :
مطر الوراق، دو فتحوں کے ساتھ۔ ابن طھمان الوراق۔ ابو رجاء سلمی،انکا مولی۔ خراسانی، بصرہ میں سکونت اختیار کی۔ یہ سچا تھا۔ کثرت سے غلطیان کرتا تھا اسکی احادیث جو اس نے عطاء سے بیان کی ہے ضعیف ہے۔

شمس الدین ذھبی نے اسکے بارے میں یوں لکھا :
مطر بن طھمان الوراق، ثقہ تابعی، یہ عطا سے روایت کرتا ہے۔ ابن سعد نے کہا : اسکی احادیث میں ضعف ہے۔ احمد بن حنبل و ابن معین نے اسکی عطاء سے روایات کو خاص طور پر ضعیف قرار دیا۔

یہی وجہ ہے ابن رجب الجبنلی نے اپنی کتاب میں مطر الوراق کو ان رواہ میں شامل کیا جو کسی خاص استاد سے روایت کرنے میں ضعیف ہوتے ہی :
مطر بن طھمان الوراق۔
احمد بن حنبل و یحیی بن معین نے خاص اسکی عطاء سے روایات کو ضعیف قرار دیا ہے۔
احمد بن حنبل نے کہا : یہ مضطرب الحدیث ہے عطا سے نقل کرنے میں۔

لہذا یہ راوہ بذات خود ثقہ ہے اسکی صرف وہی روایات ضعیف ہے جو یہ عطاء سے نقل کرتا ہے اور اوپر والی سند میں اسکا استاد عطا نہیں ہے۔

یہ بھی ثقہ ہے اور صحیح مسلم کا راوی ہے۔ پاکستان کے محقق زبیر علی زائی نے انکے بارے میں یوں نقل کیا :
شھر بن حوشب :
النووی نے کہا : اسکو پر ایک جماعت نے جرح کی ہے لیکن اکثر نے توثیق کی ہے (المجموع شرح مھذب ۱ /۳۷۰)۔
حافظ ابن حجر نے کہا : یہ مقبول ہے جمہور کے نزدیک (الامالی مطلقہ ۱/۷۵)۔
عراقی نے کہا : اسکو جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے (التقید و الایضاح صفحہ ۵۱)
زبیر علی زائی پھر کہا ہے : حق النووی کے ساتھ ہے شھر بن حوشب کے متعلق کہ اسکو اکثر یا جمہور نے ثقہ قرار دیا ہے۔

لہذا اس پر بھی جرح مردود ہے۔
لہذا الحمدللہ ثابت ہوا کہ یہ روایت بلکل صحیح یا حسن لذاۃ ہے۔
اس روایت کو محقق ملت علامہ عبدالحسین الامینی نے اپنی کتاب الغدیر میں بھی نقل کیا ہے اور اسکے تمام رجال کی توثیق کی ہے۔




الجزء : ( 1 ) – رقم الصفحة : ( 202 )
212 – حدثني : أبو زكريا ابن أبي إسحاق ، قال : أخبرنا : عبد الله بن اسحاق ، قال : حدثنا : الحسن بن علي العنزي ، قال : حدثني : محمد بن عبد الرحمن الذارع ، قال : حدثنا : قيس بن حفص الدارمي ، قال : حدثني : علي بن الحسين أبو الحسن العبدي ، عن أبي هارون العبدي ، عن أبي سعيد الخدري : أن النبي (ص) دعا الناس إلى علي فأخذ بضبعيه فرفعهما ثم لم يتفرقا *حتى نزلت هذه الآية : { الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ( المائدة : 3 ) }* فقال رسول الله (ص) : الله أكبر على اكمال الدين واتمام النعمة ورضا الرب برسالتي والولاية لعلي ، ثم قال : للقوم : من كنت مولاه فعلي مولاه ، والحديث اختصرته

ايراد الحديث الدال على أنه عليه الصلاة والسلام خطب بمكان بين مكة والمدينة مرجعه من حجة الوداع
الجزء : ( 5 ) – رقم الصفحة : ( 232 )
[ النص طويل لذا استقطع منه موضع الشاهد ]
– …. فأما الحديث الذي رواه ضمرة ، عن ابن شوذب ، عن مطر الوراق ، عن شهر بن حوشب ، عن أبي هريرة ، قال : *لما أخذ رسول الله (ص) بيد علي ، قال : من كنت مولاه فعلي مولاه ، فأنزل الله عز وجل : { الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ ( المائدة : 3 ) }.*

قال : وأخرج ابن مردويه ، والخطيب ، وابن عساكر ، عن أبي هريرة ، قال : لما كان يوم غدير خم وهو يوم ثماني عشرة من ذي الحجة ، *قال النبي (ص) : من كنت مولاه فعلي مولاه ، فأنزل الله : { الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ ( المائدة : 3 ) }*