اہلسنت علما کا حدیث غدیر کے معنی چھپانا اور چھپانے کی سزا

*احمد بن حنبل: حدیثِ غدیر کے معنی سے تجھے کیا کام !!!*
◼ حدیث غدیر اهل سنت کے گلے میں لٹکی ہوئی ایسی حدیث ہے جو اھل بیت کے مکتب کی حق ہونے کے لئے یہی کافی ہے۔ اور اہل سقیفہ کی آنکھوں میں کانٹے کی حیثیت رکھتی ہے۔
احمد بن حنبل اهل سنت کے چار اماموں میں سے ایک حدیث غدیر کا انکار نہیں کرسکتا البتہ اس حدیث کے معنی سے انتہائی حوفزدہ ہے۔ !!!
🔹 ابی بکر الخلال اهل سنت عالم نقل کرتے ہیں کہ:
✍ وأخبرنی زکریا بن یحیى أن أبا طالب حدثهم أنه سأل أبا عبد الله عن قول النبی لعلی من کنت مولاه فعلی مولاه ما وجهه قال لا تکلم فی هذا دع الحدیث کما جاء.
🔸 احمد بن حنبل سے سوال پوچھا گیا که پیغمبر صلی الله علیه و آله نے حضرت علی علیه السلام کو فرمایا :
من کنت مولاه فعلی مولاه،
کیوں ایسا فرمایا ہے؟
احمد بن حنبل نے کہا: *بات مت کرو، روایت کو نقل کرو اور اس کے معنی سے کام مت رکھو۔*
✅ دکتر عطیة الزهرانی محقق کتاب تصریح کرتے ہیں که سند روایت صحیح ہے.
📚 السنة، تألیف ابی بکر الخلال، جلد ۲، صفحه ۳۴۶-۳۴۷، چاپ دار الرایة
📝 سوال از اهل سنت :
واقعا اگر مولا کا معنی دوست ہے تو احمد بن حنبل کس چیز سے ڈرتے تھے کہ لوگوں کو کہا کرتے تھے کہ حدیث غدیر کے معنی سے کام مت رکھو؟
جن لوگوں نے من کنت مولا فعلی مولا والی حدیث غدیر چھپائ وہ اندھے ھو کریا برص کی حالت میں مرے۔
مولا علی علیہ السلام کی شان چھپانے کی یہ سزا ھے
تو انکار کی کیا سزا ھوگی؟
ایک ایسی حدیث جو بھت کم لوگ جانے ھیں۔
📜 عن عبد الرحمن بن أبي ليلٰي، قبال:خطب علي رضي الله عنه فقال: أنشد اﷲ امرء نشدة الإسلام سمع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يوم غدير خم أخذ بيدي، يقول: ألستُ أولي بکم يا معشرَ المسلمين مِن أنفسکم! قالوا : بلي، يارسول اﷲ، قال: مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! والِ من والاه، وعادِ مَن عاداه، وانصُر مَن نصره، واخُذل مَن خذله، إلا قام فشهد، فقام بضعة عشر رجلاً فشهدوا، وکتم فما فنوا من الدنيا إلا عموا و برصوا.
📝 عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت ھے کہ حضرت امیرالمومنین علی کرم اللہ وجہ الکریم نے لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا:
میں اس آدمی کو اللہ اور اسلام کی قسم دیتا ھوں، جس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن میرا ہاتھ پکڑے ھوئے یہ فرماتے سنا ھو:
“اے مسلمانو! کیا میں تمہاری جانوں سے قریب تر نہیں ھوں؟‘‘ سب نے جواب دیا : کیوں نہیں، یا رسول اللہ۔صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بالکل۔،
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا:
*’’جس کا میں مولا ھوں اُس کا علی مولا ھے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جو اِس(علی) سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، جو اِس(علی) کی مدد کرے تو اُس کی مدد فرما، جو اِس کی رسوائی چاھے تو اُسے رسوا کر؟‘‘ اس پر تیرہ (13) سے زائد افراد(اصحاب رسول) نے کھڑے ھو کر گواھی دی،،*
*اور جن لوگوں نے یہ باتیں چھپائیں وہ دُنیا میں اندھے ھو کر یا برص کی حالت میں مر گئے۔”*
📚 1.حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 131، رقم : 36417
📚 2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 158
📚 3. ابن اثیر کی ’اسد الغابہ (3 : 487)‘
*ان میں ابو اسحاق سے لی گئی روایت میں بھی ھے : یزید بن ودیعہ اور عبدالرحمن بن مدلج گواہی چھپانے کے سبب بیماری میں مبتلا ھوئے۔*
مولا علی عیلہ السلام نے کوفہ کے میدان میں قسم دے کرپوچھا کہ کن لوگوں نے رسول
اللہ ﷺ کے قول مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ کو سنا ، کچھ لوگ کھڑے ھوگئے اور گواھی دی کہ اس کو رسول اللہ ﷺ سے سنا اور کچھ آدمیوں نے اس کو چھپایا اور دنیا میں اندھے ھوگئے اور ان کو کوئی آفت پہنچی ان میں سے یزید بن ودیعہ اور عبدالرحمن بن مدلچ جو کے صحابی رسول تھے
اسدالغابہ جلد ششم ص ۴۴۵ نمب ۳۳۸۲
.
.
حدیث غدیر کا انکار کرنے والے منافق صحابہ پر اللہ کی پَھٹکار
حدثنا عبد الله، حدثنا احمد بن عمر الوكيعي ، حدثنا زيد بن الحباب ، حدثنا الوليد بن عقبة بن نزار العنسي ، حدثني سماك بن عبيد بن الوليد العبسي ، قال: دخلت على عبد الرحمن بن ابي ليلى فحدثني انه شهد عليا رضي الله عنه في الرحبة قال: انشد الله رجلا سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم وشهده يوم غدير خم إلا قام، ولا يقوم إلا من قد رآه، فقام اثنا عشر رجلا، فقالوا: قد رايناه وسمعناه حيث اخذ بيده يقول:” اللهم وال من والاه، وعاد من عاداه، وانصر من نصره، واخذل من خذله”، فقام إلا ثلاثة لم يقوموا، فدعا عليهم، فاصابتهم دعوته
عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رحبہ میں امام علی ؑ کے پاس موجود تھا، انھوں نے کہا: میں اس آدمی کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں جو غدیر خم والے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس موجود تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، وہ کھڑا ہو جائے، یہ بات سن کر بارہ آدمی کھڑے ہو گئے، سب نے کہا:ہم نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کا ہاتھ بھی پکڑا ہوا تھا: یا اللہ! جو اس علی سے دوستی رکھے تو بھی اسے اپنا دوست رکھ، جو اس سے عداوت رکھے تو بھی ا س سے عداوت رکھ، جو اس کی مدد کرے تو بھی ا س کی مدد کر اور جو اسے چھوڑ جائے تو بھی اسے چھوڑ دے۔ صرف تین آدمی نہیں اٹھے تھے، امام علی ؑ نے ان پر بددعا کی اور ان کی بددعاان کو لگ گئی تھی۔
مسند احمد حدیث نمبر: 964
حسن لغيره
عن عبد الرحمن بن أبي ليلى قال خطب الناس أمير المؤمنين علي بن أبي طالب في الرحبة قال أنشد الله امرأ نشدة الإسلام سمع رسول الله (صلى الله عليه وسلم) يوم غدير خم اخذ بيدي يقول ألست أولى بكم يا معشر المسلمين من أنفسكم قالوا بلى يا رسول الله قال من كنت مولاه فعلي مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه وانصر من نصره واخذل من خذله إلا قام فقام بضعة عشر رجلا فشهدوا وكتم قوم فما فنوا من الدنيا حتى عموا
عبدالرحمن بن ابی لیلی سے روایت ہے کہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب ؑ نے رحبہ کے مقام پر لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا
میں اس شخص کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے غدیر خم والے دن رسول اللہ ﷺ کو میرا ہاتھ پکڑ کر یہ فرماتے ہو ئے سنا ہو
اے مسلمانوں کے گروہ کیا میں تمہیں تمھاری جانوں سے بڑھ کر عزیز نہیں
سب نے عرض کیوں نہیں یا رسول اللہ ۔۔
آپ نے فرمایا جس میں مولا علی ؑ بھی اس کے مولا ہے اے اللہ اس سے دوستی رکھ جو علی سے دوستی رکھے اور اس سے دشمنی رکھ جو علی سے دشمنی رکھے اس کی مدد کر جو علی کی مدد کرے اور اسے رسوا کر جو علی کو رسوا کرے
وہ کھڑا ہو جائے جواب میں دس سے زائد صحابہ کھڑے ہوئے اور گواہی دی
کچھ لوگوں نے یہ گواہی چھپالی وہ دنیا سے اندھے اور برص زدہ ہوکر دنیا سے چلے گئے
تاريخ مدينة دمشق – ابن عساكر – ج ٤٢ – الصفحة ٢٠٨
حدثني عباس بن هشام الكلبي، عن أبيه، عن غياث بن إبراهيم، عن المعلى بن عرفان الأسدي، عن أبي وائل شقيق بن سلمة، قال:
قال علي على المنبر: نشدت الله رجلا سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول يوم غدير خم: اللهم وال من والاه وعاد من عاداه. إلا قام فشهد. – وتحت المنبر أنس بن مالك والبراء بن عازب، وجرير بن عبد الله – فأعادها فلم يجبه أحد [منهم] فقال: اللهم من كتم هذه الشهادة وهو يعرفها فلا تخرجه من الدنيا حتى تجعل به آية يعرف بها.
قال [أبو وائل]: فبرص أنس، وعمي البراء، ورجع جرير أعرابيا بعد هجرته، فأتى السراة فمات في بيت أمه بالسراة.
امام علی ؑ منبر پر فرمایا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہو کہ جس شخص نے رسول اللہ ﷺ سے یوم غدیر یہ فرماتے ہوئے سنا ہے
اے اللہ اس سے دشمنی رکھ جو علی سے دشمنی رکھ وہ اٹھ کر گواہی دے
انس بن مالک ،براء بن عازب ،جریر بن عبداللہ منبر کے نیچے تھے
ان میں کسی نے بھی جواب نہیں دیا تو امام علی ؑ نے ان کو بدعا دی
خدایا جو بھی اس گواہی کو جان بوجھ کر چھپائے اسے دنیا سے اس وقت تک نہ اٹھانا جب تک کوئی علامت قرار نہ دیں
ابووائل فرماتے ہے انس بن مالک مبروص ہوگئے
براء اندھا ہو گیا اور جریر صحرا جاہلیت میں سرگشتہ رہے بعد میں ماں کے مکان میں ہلاک ہوا
انساب الأشراف – البلاذري – الصفحة ١٥٧
وقال ابن أبي الحديد في شرح نهج البلاغة 4 ص 488: المشهور أن عليا عليه السلام ناشد الناس في الرحبة بالكوفة فقال: أنشدكم الله رجلا سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لي و هو منصرف من حجة الوداع: من كنت مولاه فعلي مولاه، اللهم وال من والاه، وعاد من عاداه؟ فقام رجال فشهدوا بذلك. فقال عليه السلام لأنس بن مالك: ولقد حضرتها فمالك؟ فقال: يا أمير المؤمنين؟ كبرت سني وصار ما أنساه أكثر مما أذكره فقال له: إن كنت كاذبا فضربك الله بها بيضاء لا تواريها العمامة. فما مات حتى أصابه البرص
ابن ابی الحدید لکھتے ہے کہ مشہور ہے کہ امام علی ؑ نے مقام رحبہ کوفہ میں لوگوں کو قسم دی تھی کہ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد: ’’اے اللہ! جو علیؑ کو دوست رکھے تو بھی اسے دوست رکھ اور جو انہیں دشمن رکھے تو بھی اسے دشمن رکھ جس نے سنا گواہی دے کچھ لوگوں نے گواہی دی
امام نے انس بن مالک سے پوچھا تم بھی تو اس دن موجود تھے تمہیں کیا ہوا ہے تو انہوں نے کہا کہ میں بوڑھا ہو چکا ہوں اور کم ہی باتیں یاد ہے تو آپؑ نے فرمایا کہ: ’’اگر تم جھوٹ کہتے ہو تو خدا تمہیں ایسے برص میں مبتلا کرے جسے عمامہ بھی نہ چھپا سکے اس طرح انس بن مالک قبل مرگ مبروص ہو گئے
شرح نهج البلاغة 4 ص 488: