حدیث غدیر کے پس منظر میں کیا لونڈیوں کی شکایات کا معاملہ تھا ؟

*حدیث غدیر کا پس منظر؟*
اکثر ناص بیوں کے جانب سے حدیث غدیر کے پس منظر کا ذکر کیا جاتا ہے۔
کبھی عرفان شاہ ناص بی کہتا ہے کہ
*حضرت علیؑ کی شکایات لگی ہوئی تھیں جن کی صفائی کیلئے رسول اللّه نے حدیث غدیر بیان فرمائی*
تو
کبھی طارق جمیل صاحب حدیث غدیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
*” اس کے پیچھے کافی پس منظر میں بہت ہی چیزیں ہیں جنکی صفائی کیلئے رسول اللّه نے فرمایا جس کا مولا اسکا علی مولا”*
تو کبھی
سوشل میڈیا پر حدیث غدیر کے پس منظر میں مولا علیؑ کی شکایات کا معاملہ زیر بحث دیکھا گیا۔ کہ جسے کلئیر کرنے کیلئے رسول اللّه نے حدیث غدیر بیان فرمائی۔
*جس پس منظر سے یہ ناصبی حضرات یہ نتیجہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ*
حدیث غدیر کا مقصد صرف یہ تھا کہ علیؑ سے محبت کی جائے ۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں جو شیعہ لوگ کہتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ
*آخر حدیث غدیر کا پس منظر ہے کیا ؟*
پوسٹ تھوڑی لمبی ہونے پر معذرت چاہتا ہوں 🙏
ناص بیوں کی جانب سے دلیل پیش کی جاتی ہے کہ
بخاری میں باب باندھا گیا ہے کہ
*”حضرت علی اور خالد بن ولید کو حج الوداع سے پہلے یمن بھیجنا”*
*اب یمن میں کیا ہوا ؟ جسکے حوالے سے ناص بی کچھ روایات تفسیر و تاریخ سے پیش کرتے ہیں۔*
روایات بہت سی ہیں مگر میں صرف 2 روایات کا ترجمہ پوسٹ کروں گا۔
1️⃣ عن ابی بريدة قال: أبغضت عليا بغضا لم أبغضه أحدا قط، قال: وأحببت :1 رجلا من قريش لم أحبه إلا على بغضه عليا قال فبعث ذلك الرجل على خيل فصحبته ما أصحبه إلا على بغضه عليا قال فأصبنا سبيا قال فكتب )ای حاکم الیمن خالد بن الولید( إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم أبعث إلينا من
يخمسه قال فبعث إلينا عليا وفي السبي وصيفة من أفضل السبي. قال:
فخمس وقسم فخرج ورأسه يقطر فقلنا: يا أبا الحسن ما هذا ؟ فقال ألم تروا إلى الوصيفة التي كانت في السبي، فإني قسمت، وخمست فصارت في
الخمس، ثم صارت في أهل بيت النبي صلى الله عليه وسلم ثم صارت في آل علي ووقعت بها، قال، فكتب الرجل إلى نبي الله صلى الله عليه وسلم فقلت
أبعثني فبعثني مصدقا فجعلت أقرأ الكتاب وأقوله صدق قال: فأمسك يدي والكتاب فقال: ” أتبغض عليا ” قال: قلت نعم ؟ قال ” فلا تبغضه وإن كنت تحبه فازدد له حبا فوالذي نفس محمد بيده لنصيب آل علي في الخمس أفضل من وصيفة ” قال: فما كان من الناس أحد بعد قول النبي صلى الله عليه وسلم .أحب إلي من علي
(البدایۃ والنہایۃ: ج5 ص121)۔
2️⃣ عن أبي سعيد الخدري. أنه قال: بعث رسول الله علي بن أبي طالب إلى :3 اليمن. قال أبو سعيد، فكنت فيمن خرج معه، فلما أخذ من إبل الصدقة، سألناه أن نركب منها ونريح إبلنا – وكنا قد رأينا في إبلنا خللا – فأبى علينا، وقال: إنما لكم فيها سهم كما للمسلمين. قال، فلما فرغ علي وانطفق من اليمن راجعا، أمر علينا إنسانا وأسرع هو وأدرك الحج، فلما قضى حجته، قال له النبي صلى الله عليه وسلم. ” ارجع إلى أصحابك حتى تقدم عليهم ” قال أبو سعيد: وقد كنا سألنا الذي استخلفه ما كان علي منعنا إياه ففعل، فلما عرف في إبل الصدقة أنها قد ركبت، ورأى أثر الركب، قدم الذي أمره ولامه. فقلت: أما أن الله علي لئن قدمت المدينة لاذكرن لرسول الله، ولاخبرنه ما لقينا من الغلظة والتضييق. قال: فلما قدمنا المدينة غدوت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم أريد أن أفعل ما كنت حلفت عليه، فلقيت أبا بكر خارجا من عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما رآني وقف معي، ورحب بي وساءلني وساءلته. وقال متى قدمت ؟ فقلت: قدمت البارحة، فرجع معي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فدخل، وقال هذا سعد بن مالك بن الشهيد. فقال: ائذن له فدخلت، فحييت رسول الله وحياني،
وأقبل علي وسألني عن نفسي وأهلي وأحفى المسألة، فقلت: يا رسول الله ما لقينا من علي من الغلظة وسوء الصحبة والتضييق، فاتئد رسول الله وجعلت أنا أعدد ما لقينا منه، حتى إذا كنت في وسط كلامي، ضرب رسول الله على
فخذي، وكنت منه قريبا وقال: ” يا سعد بن مالك ابن الشهيد: مه، بعض قولك .” لاخيك علي، فوالله لقد علمت أنه أحسن في سبيل الله
قال: فقلت في نفسي ثكلتك أمك سعد بن مالك – ألا أراني كنت فيما يكره منذ .اليوم، ولا أدري لا جرم والله لا أذكره بسوء أبدا سرا ولا علانية
(البدایۃ والنہایۃ: ج5 ص122)
3️⃣ عن يزيد بن طلحة بن يزيد بن ركانة قال إنما وجد جيش علي بن ] أبي
طالب الذين كانوا معه باليمن، لانهم حين أقبلوا خلف عليهم رجلا، وتعجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: فعمد الرجل فكسى كل رجل حلة، فلما دنوا خرج عليهم علي يستلقيهم فإذا عليهم الحلل. قال علي: ما هذا ؟ قالوا: كسانا فلان: قال: فما دعاك إلى هذا قبل أن تقدم على رسول الله فيصنع ما شاء فنزع الحلل منهم، فلما قدموا على رسول الله اشتكوه لذلك، وكانوا قد صالحوا رسول .الله، وإنما بعث عليا إلى جزية موضوعة
(البدایۃ والنہایۃ: ج5 ص123)
4️⃣ عن عمران بن حصين قال : بعث رسول الله صلى الله عليه و سلم جيشا :5 واستعمل عليهم علي بن أبي طالب فمضى في السرية فأصاب جارية فأنكروا عليه وتعاقد أربعة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه و سلم فقالوا إذا لقينا رسول الله صلى الله عليه و سلم أخبرناه بما صنع علي وكان المسلمون إذا
رجعوا من السفر بدءوا برسول الله صلى الله عليه و سلم فسلموا عليه ثم
أنصرفوا إلى رحالهم فلما قدمت السرية سلموا على النبي صلى الله عليه و سلم فقام أحد الأربعة فقال يا رسول الله ألم تر إلى علي بن أبي طالب صنع كذا وكذا فأعرض عنه رسول الله صلى الله عليه و سلم ثم قام الثاني فقال مثل مقالته فأعرض عنه ثم قام الثالث فقال مثل مقالته فأعرض عنه ثم قام الرابع فقال مثل ما قالوا فأقبل رسول الله صلى الله عليه و سلم والغضب يعرف في وجهه فقال ما تريدون من علي ؟ ما تريدون من علي إن عليا مني وأنا منه وهو .ولي كل مؤمن بعدي
(جامع الترمذی: باب مناقب علي بن أبي طالب رضي الله عنه)
5⃣ عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَنَزَلْنَا بِغَدِيرِ خُمٍّ فَنُودِيَ فِينَا الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ وَكُسِحَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحْتَ شَجَرَتَيْنِ فَصَلَّى الظُّهْرَ وَأَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ فَقَالَ أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ قَالُوا بَلَى قَالَ أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ قَالُوا بَلَى قَالَ فَأَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ فَقَالَ
مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ قَالَ فَلَقِيَهُ عُمَرُ بَعْدَ ذَلِكَ فَقَالَ هَنِي ً̈ا يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ أَصْبَحْتَ .وَأَمْسَيْتَ مَوْلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ
(مسند احمد: رقم الحدیث 18479)
یہ 5 عدد روایات پیش خدمت ہیں۔
مگر میں ترجمہ مسند احمد بن حمبل کی روایات کا پیش کر رہا ہوں
*کیوں کہ مسند احمد بن حنبل کی روایت پیش کی گیئی تقریباً تمام روایات کی جامع ہے،*
*پہلی روایت ملاحظہ کریں*
Musnad Ahmed – 7255
کتاب:عدتوں کا بیان
باب:لونڈی کے رحم کی برأت کا بیان
TRANSLATION:
۔ عبد اللہ بن بریدہ بیان سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: مجھ سے میرے باپ سیدنا بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: *مجھے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے سخت بغض تھا، اتنا کسی بھی دوسرے سے نہ تھا حتیٰ کہ مجھے قریش کے ایک آدمی سے بہت زیادہ محبت صرف اس لیے تھی کہ وہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بغض رکھتا تھا،* اس آدمی کو امیر لشکر بنا کر بھیجا گیا،میں صرف اس لیے اس کا ہمرکاب ہوا کہ اسے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بغض تھا، ہم نے لونڈیاں حاصل کیں، امیر لشکر نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پیغام بھیجا کہ ہمارے پاس وہ آدمی بھیج دیں، جو مال غنیمت کے پانچ حصے کرے اور اسے تقسیم کرے، آپ نے ہمارے پاس سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بھیج دیا، انہوں نے مال تقسیم کیا، قیدی عورتوں میں ایک ایسی لونڈی تھی، جو کہ سب قیدیوں میں سے بہتر تھی، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مال غنیمت کے پانچ حصے کئے اور پھر اسے تقسیم کر دیا۔
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جب باہر آئے تھے تو ان کے سر سے پانی کے قطرے گر رہے تھے اور سر ڈھانپا ہوا تھا۔ ہم نے کہا: اے ابو حسن! یہ کیا ماجرا ہے؟ انہوں نے کہا: کیا تم نے دیکھا نہیں کہ قیدیوں میں یہ لونڈی میرے حصہ میں آئی ہے، میں نے مال غنیمت کے پانچ حصے کرکے تقسیم کر دیا ہے، یہ پانچویں حصہ میں آئی ہے جو کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ کے اہل بیت کے لیے ہے اور پھر اہل بیت میں سے ایک حصہ آل علی کا ہے اور یہ لونڈی اس میں سے میرے حصہ میں آئی ہے اور میں نے اس سے جماع کیا ہے،
اس آدمی نے جو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بغض رکھتا تھا، اس نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جانب خط لکھا، سیدنا بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے اس سے کہا: یہ خط مجھے دے کر بھیجو، اس نے مجھے ہی بھیج دیا تاکہ اس خط کی تصدیق و تائید کروں، سیدنا بریدہ کہتے ہیں: میں نے وہ خط نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر پڑھنا شروع کر دیا اور میں نے کہا: اس میں جو بھی درج ہے وہ صحیح ہے۔
*نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے ہاتھ سے خط پکڑ لیا اور میرا ہاتھ پکڑ کر کہا: کیا تم علی سے بغض رکھتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں!*
آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: علی سے بغض نہ رکھو اور اگر تم اس سے محبت رکھتے ہو تو اس میں اور اضافہ کرو،اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کی جان ہے؟ *خمس میں آل علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا حصہ تو اس افضل لونڈی سے بھی زیادہ بہتر بنتا ہے۔*
سیدنا بریدہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اس فرمان کے بعد لوگوں میں سے ان سے بڑھ کر مجھے کوئی اور محبوب نہ تھا۔عبد اللہ بن بریدہ کہتے ہیں: اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں! اس حدیث کے بیان کرنے میں اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے درمیان صرف میرے باپ سیدنا بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا واسطہ ہے۔
*دوسری روایت ملاحظہ کریں*
Musnad Ahmed – 10959
کتاب:سنہ (۱) ہجری کے اہم واقعات
باب:سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی یمن کی طرف مہم کا بیان
۔ (۱۰۹۵۹)۔ فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بُرَیْدَۃَ حَدَّثَنِی أَبِی بُرَیْدَۃُ قَالَ أَبْغَضْتُ عَلِیًّا بُغْضًا لَمْ یُبْغِضْہُ أَحَدٌ قَطُّ قَالَ وَأَحْبَبْتُ رَجُلًا مِنْ
قُرَیْشٍ لَمْ أُحِبَّہُ إِلَّا عَلٰی بُغْضِہِ عَلِیًّا قَالَ فَبُعِثَ ذٰلِکَ الرَّجُلُ عَلٰی خَیْلٍ فَصَحِبْتُہُ مَا أَصْحَبُہُ إِلَّا عَلٰی بُغْضِہِ عَلِیًّا قَالَ فَأَصَبْنَا سَبْیًا، قَالَ فَکَتَبَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ابْعَثْ إِلَیْنَا مَنْ یُخَمِّسُہُ قَالَ فَبَعَثَ إِلَیْنَا عَلِیًّا وَفِی السَّبْیِ وَصِیفَۃٌ ہِیَ أَفْضَلُ مِنَ السَّبْیِ فَخَمَّسَ وَقَسَمَ فَخَرَجَ رَأْسُہُ مُغَطًّی فَقُلْنَا: یَا أَبَا الْحَسَنِ! مَا ہٰذَا؟ قَالَ: أَلَمْ تَرَوْا إِلَی الْوَصِیفَۃِ الَّتِی کَانَتْ فِی السَّبْیِ؟ فَإِنِّی قَسَمْتُ وَخَمَّسْتُ فَصَارَتْ فِی الْخُمُسِ ثُمَّ صَارَتْ فِی أَہْلِ بَیْتِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ صَارَتْ فِی آلِ عَلِیٍّ وَوَقَعْتُ بِہَا، قَالَ فَکَتَبَ الرَّجُلُ إِلٰی نَبِیِّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ ابْعَثْنِی فَبَعَثَنِی مُصَدِّقًا قَالَ فَجَعَلْتُ أَقْرَأُ الْکِتَابَ وَأَقُولُ صَدَقَ قَالَ فَأَمْسَکَ یَدِی وَالْکِتَابَ وَقَالَ أَتُبْغِضُ عَلِیًّا قَالَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَلَا تُبْغِضْہُ وَإِنْ کُنْتَ تُحِبُّہُ فَازْدَدْ لَہُ حُبًّا فَوَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَنَصِیبُ آلِ عَلِیٍّ فِی الْخُمُسِ أَفْضَلُ مِنْ وَصِیفَۃٍ قَالَ فَمَا کَانَ مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ بَعْدَ قَوْلِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَحَبَّ إِلَیَّ مِنْ عَلِیٍّ قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ فَوَالَّذِی لَا إِلٰہَ غَیْرُہُ مَا بَیْنِی وَبَیْنَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی ہٰذَا الْحَدِیثِ غَیْرُأَبِی بُرَیْدَۃَ۔ (مسند احمد: ۲۳۳۵۵)
TRANSLATION:
سیدنا عبد اللہ بن بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: مجھ سے میرے باپ سیدنا بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: *مجھے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے سخت بغض تھا، اتنا کسی بھی دوسرے سے نہیں تھا حتیٰ کہ مجھے قریش کے ایک آدمی سے بہت زیادہ محبت صرف اس لیے تھی کہ وہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بغض رکھتا تھا،* اس آدمی کو امیر کا لشکر بنا کر بھیجا گیا،میں صرف اس لیے اس کا ہمرکاب ہوا کہ اسے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بغض تھا، ہم نے لونڈیاں حاصل کیں، امیر لشکر نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پیغام بھیجا کہ ہمارے پاس وہ آدمی بھیج دیں، جو مال غنیمت کے پانچ حصے کرے اور اسے تقسیم کرے، آپ نے ہمارے پاس سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بھیج دیا، انہوں نے مال تقسیم کیا، قیدی عورتوں میں ایک ایسی لونڈی تھی، جو کہ سب قیدیوں میں سے بہتر تھی، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مال غنیمت کے پانچ حصے کئے اور پھر اسے تقسیم کر دیا۔
*سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جب باہر آئے تھے تو ان کے سر سے پانی کے قطرے گر رہے تھے اور سر ڈھانپا ہوا تھا۔ ہم نے کہا: اے ابو حسن! یہ کیا ماجرا ہے؟ انہوں نے کہا: کیا تم نے دیکھا نہیں کہ قیدیوں میں یہ لونڈی میرے حصہ میں آئی ہے،* میںنے مال غنیمت پانچ حصے کرکے تقسیم کر دیا ہے، یہ پانچویں حصہ میں آئی ہے جو کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اہل بیت کے لیے ہے اور پھر اہل بیت میں سے ایک حصہ آل علی کا ہے اور یہ لونڈی اس میں سے میرے حصہ میں آئی ہے اور *میں نے اس سے جماع کیا ہے،*
اس آدمی نے جو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بغض رکھتا تھا، اس نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جانب خط لکھا، سیدنا بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے اس سے کہا: یہ خط مجھے دے کر بھیجو، اس نے مجھے ہی بھیج دیا تاکہ اس خط کی تصدیق و تائید کروں،
سیدنا بریدہ کہتے ہیں: میں نے وہ خط نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر پڑھنا شروع کر دیا اور میں نے کہا: اس میں جو بھی درج ہے وہ صحیح ہے۔
*نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے ہاتھ سے خط پکڑ لیا اور میرا ہاتھ پکڑ کر کہا: کیا تم علی سے بغض رکھتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں،*
آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: علی سے بغض نہ رکھو اور اگر تم اس سے محبت رکھتے ہو تو اس میں اور اضافہ کرو،اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کی جان ہے؟ *خمس میں آل علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا حصہ تو اس افضل لونڈی سے بھی زیادہ بنتا ہے۔*
سیدنا بریدہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اس فرمان کے بعد لوگوں م یں سے ان سے بڑھ کر مجھے کوئی اور محبوب نہیں تھا۔
عبد اللہ بن بریدہ کہتے ہیں: اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں! اس حدیث کے بیان کرنے میں اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے درمیان صرف میرے باپ سیدنا بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا واسطہ ہے۔
*تو یہاں نتیجہ یہ نکالنے کی کوشش کی گیئی کہ*
غدیر خم میں حجۃ الوداع سے واپسی پر حضرت علیؓ کے خلاف ایک مقدمہ نبی کریمﷺ کی عدالت میں پیش کیا گیا، جس میں الزام حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر ھے !
واقعہ کچھ یوں ھے کہ حضرت علیؓ کو خمس لینے کو بھیجا گیا،خمس کی وصولی کے بعد حضرت علیؓ نے ایک لونڈی الگ کر لی اور اسے اپنا بنا لیا،،اس پر باقی ساتھیوں نے اعتراض کیا کہ جب تک لونڈیوں کی تقسیم نبی کریمﷺ کی طرف سے نہ ھو جائے، اس لونڈی پر ھم سے ھر ایک برابر کا حق رکھتا ھے، اگر ھم میں سے ھر ایک اس کا دعویدار بن جائے تو آپس میں ھی قتال بھی ھو سکتا ھے !
خیر جب یہ لوگ حجتہ الوداع کے موقعے پر خمس جمع کرانے حضورﷺ کے سامنے حاضر ھوئے تو حضرت علیؓ والا واقعہ بیان کر کے شکایت کی کہ انہوں نے ناجائز تصرف کیا ھے !
حضرت بریدہ نے اقرار کیا کہ وہ اس حرکت کی وجہ سے علیؓ سے بغض رکھتے ھیں !
جس پر نبی کریمﷺ نے حضرت بریدہ سے فرمایا کہ تو اس سے بغض نہ رکھ کیونکہ خمس میں اس کا بھی حصہ تھا !
نبی کریمﷺ نے صحابہ کرام کے درمیان یہ معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش فرمائی !
اور دوران خطاب یہ مشہور جملہ بھی فرمایا
من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ
جس جس کا میں مولی ہوں علی بھی اس اس کا مولی ہے۔
یہ بھی فرمایا کہ تم علی سے بغض مت رکھو!
⬇⬇⬇⬇⬇⬇⬇⬇⬇⬇⬇⬇⬇⬇⬇
*حدیث غدیر کا پس منظر اور اسکا جواب*
*جواب*
جواب پڑھنے سے پہلے گزارش ہے کہ ایک بار اعتراضات کو بغور پڑھ لیں۔
تا کہ جواب سمجھنے میں آسانی ہو۔
ایک تو آپ نے یہ بھی دیکھ لیا *ابن کثیر و مسند احمد* کی روایات سے کہ
*کچھ صحابہ کس قدر بغض رکھتے تھے مولا علیؑ سے،*
کیا اسے ناص بی افراد کی شکایات والی روایت قابل قبول ہو سکتی ہے۔؟
*جو رسول اللّه کے سامنے بھی مولا علیؑ سے اپنے بغض کا اظہار کر رہے تھے۔۔اور مولا علیؑ پر بہتان باندھ رہے تھے*، افسوس
میں انشاء اللّه ثابت کروں گا کہ
*شکایات والا معاملہ الگ ہے*
اور
*حدیث غدیر الگ۔*
شکایات کا دور دور تک حدیث غدیر سے تعلق نہیں۔
اور خطبہ غدیر صرف شکایات لگانے والوں کو نہیں دیا گیا۔ بلکہ کم و پیش ایک لکھ افراد کو خطبہ دیا گیا۔
اور اگر حدیث غدیر کا تعلق شکایات سے تھا تو ایک گھنٹے سے طویل خطبہ میں کم سے کم ایک جملہ تو شکایات سے متعلق ہوتا۔
لیکن حقیقت میں ایسا بلکل بھی نہیں تھا۔ جو کہ ایک دلیل ہے کہ خطبہ غدیر کا تعلق شکایات سے تھا ہی نہیں۔
*تفصیلی جواب سے پہلے یہ واضح کر دوں کہ*
*مولا علیؑ یمن 2 بار گیے تھے۔*
لیکن ان ناصبیوں نے 2 الگ الگ واقعیات کو مکس کر کے سادہ لوح شیعہ حضرات کو گمراہ کرتے ہیں اور یہ کام آج نہیں ہوا بہت پرانا ہے۔
جس خیانت کو انشاء اللّه بہت آرام سے واضح کیا جائے گا ، اہل سنت کی ہی کتب سے۔
*تفصیلی جواب*
*مولا علیؑ کا سفر یمن کے قبیلہ ہمدان کی طرف*
👈🏻 مولا علیؑ پہلی بار فتح مکہ کے بعد یمن کے قبیلہ بنی ہمدان کی طرف گیے۔
👈🏻 شکایات بھی اسی سفرِ یمن کے قبیلہ ہمدان سے واپسی پر پیدا ہوئیں۔
*قابل غور نقطہ یہ ہے کہ*
*مولا علی کے اس قافلے کی ہمدان سے واپسی مدینہ میں ہوئی تھی۔*
*جہاں رسول اللّه کو شکایات لگائی گیئیں تھیں۔*
جیسا کہ ناص بیوں کے اپنے ہی سینڈ کیے گئے حوالہ میں اسکا ذکر موجود ہے
2️⃣ عن أبي سعيد الخدري. أنه قال: بعث رسول الله علي بن أبي طالب إلى :3 اليمن. قال أبو سعيد، فكنت فيمن خرج معه، فلما أخذ من إبل الصدقة، سألناه أن نركب منها ونريح إبلنا – وكنا قد رأينا في إبلنا خللا – فأبى علينا، وقال: إنما لكم فيها سهم كما للمسلمين. قال، فلما فرغ علي وانطفق من اليمن راجعا، أمر علينا إنسانا وأسرع هو وأدرك الحج، فلما قضى حجته، قال له النبي صلى الله عليه وسلم. ” ارجع إلى أصحابك حتى تقدم عليهم ” قال أبو سعيد: وقد كنا سألنا الذي استخلفه ما كان علي منعنا إياه ففعل، فلما عرف في إبل الصدقة أنها قد ركبت، ورأى أثر الركب، قدم الذي أمره ولامه. فقلت: أما أن الله علي لئن *قدمت المدينة لاذكرن لرسول الله،* ولاخبرنه ما لقينا من الغلظة والتضييق. قال: فلما قدمنا المدينة غدوت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم أريد أن أفعل ما كنت حلفت عليه، فلقيت أبا بكر خارجا من عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما رآني وقف معي، ورحب بي وساءلني وساءلته. وقال متى قدمت ؟ فقلت: قدمت البارحة، فرجع معي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فدخل، وقال هذا سعد بن مالك بن الشهيد. فقال: ائذن له فدخلت، فحييت رسول الله وحياني،
وأقبل علي وسألني عن نفسي وأهلي وأحفى المسألة، فقلت: يا رسول الله ما لقينا من علي من الغلظة وسوء الصحبة والتضييق، فاتئد رسول الله وجعلت أنا أعدد ما لقينا منه، حتى إذا كنت في وسط كلامي، ضرب رسول الله على
فخذي، وكنت منه قريبا وقال: ” يا سعد بن مالك ابن الشهيد: مه، بعض قولك .” لاخيك علي، فوالله لقد علمت أنه أحسن في سبيل الله
قال: فقلت في نفسي ثكلتك أمك سعد بن مالك – ألا أراني كنت فيما يكره منذ .اليوم، ولا أدري لا جرم والله لا أذكره بسوء أبدا سرا ولا علانية
(البدایۃ والنہایۃ: ج5 ص122)
*لہذا ایک تو انکے اپنے سینڈ کیے گئے حوالہ سے یہ ثابت ہو گیا کہ*
*رسول اللّه شکایات مدینہ میں لگائی گیئیں۔*
دوسرا انکی اپنی ہی سینڈ کی گیئی ترمذی کی روایت میں موجود ہے کہ
*رسول اللّه نے شکایات لگانے والوں کو ادھر ہی ڈانٹ دیا تھا*
4⃣ عن عمران بن حصين قال : بعث رسول الله صلى الله عليه و سلم جيشا :5 واستعمل عليهم علي بن أبي طالب فمضى في السرية فأصاب جارية فأنكروا عليه وتعاقد أربعة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه و سلم فقالوا إذا لقينا رسول الله صلى الله عليه و سلم أخبرناه بما صنع علي وكان المسلمون إذا
رجعوا من السفر بدءوا برسول الله صلى الله عليه و سلم فسلموا عليه ثمأنصرفوا إلى رحالهم فلما قدمت السرية سلموا على النبي صلى الله عليه و سلم فقام أحد الأربعة فقال يا رسول الله ألم تر إلى علي بن أبي طالب صنع كذا وكذا فأعرض عنه رسول الله صلى الله عليه و سلم ثم قام الثاني فقال مثل مقالته فأعرض عنه ثم قام الثالث فقال مثل مقالته فأعرض عنه ثم قام الرابع فقال مثل ما قالوا فأقبل رسول الله صلى الله عليه و سلم والغضب يعرف في وجهه *فقال ما تريدون من علي ؟ ما تريدون من علي إن عليا مني وأنا منه وهو .ولي كل مؤمن بعدي*
(جامع الترمذی: باب مناقب علي بن أبي طالب رضي الله عنه)
مولا علیؑ کی شکایات لگانے والوں کو رسول اللّه نے غصہ سے کہا،
*تم کیا چاہتے ہو ؟ تم کیا چاہتے ہو ؟ تم کیا چاہتے ہوا؟*
*علیؑ مجھ سے ہے اور میں علیؑ سے، اور علیؑ تمام مومنوں کا والی ہے میرے بعد۔*
لہذا
انکی پیش کردہ روایات سے یہ بات ثابت ہو گیئی کہ
– رسول اللّه نے علی کو یمن کے قبیلہ ہمدان بھیجا
– یمن کے قبیلہ ہمدان فتح مکہ کے بعد بھیجا
– یمن کے قبیلہ ہمدان سے میں خمس پر بدگمانی ہوئی
– یمن کے قبیلہ ہمدان سے واپسی مدینہ ہوئی
– مدینہ میں ہی شکایات لگائی گئی
– رسول اللّه نے انکو وہاں ہی ڈانٹ دیا۔
*یہاں کوئی ناص بی اگر یہ اعتراض کرے کہ یہاں تو ہمدان کا ذکر ہی نہیں ہے*
تو
*وہ نیچے دئے گئے حوالہ جات کے سکین پڑھے۔ جہاں مولا علی کا ہمدان جانا ثابت ہے اور مدینہ میں شکایت لگنا بھی ثابت ہے۔*
*مزید حوالہ جات:*
1: السيرة النبوية جلد ٢ ص ٣٧١ از شیخ دحلان
2: سیرت حلبیہ جلد ٣
3: تاریخ طبری
4: تاریخ ابن کثیر
5: معجم الاوسط الطبرانی حدیث ٦٠٨۵
———————————————
*مولا علیؑ کا سفر یمن کے قبیلہ مزحج کی طرف*
👈🏻 مولا علیؑ دوسری بار یمن حج الوداع سے پہلے یمن کہ قبیلہ مزحج کی طرف گیے۔
👈🏻 مولا علیؑ مزحج میں ہی مال غنیمت پر اپنا نائب مقرر کر کے مکہ چلے آئے
👈🏻 مزحج سے واپسی پر مولا علیؑ مکہ میں رسول اللّه کو ملے حالت احرام میں۔
👈🏻 یہاں مولا علیؑ کے یمن کے قبیلہ مزحج سے واپسی پر خطبہ غدیر دیا گیا۔
حوالہ جات:
1: السيرة النبوية جلد ٢ ص ٣٧١ از شیخ دحلان
2: سیرت حلبیہ جلد ٣
3: بخاری شریف
*اب جب کہ*
👈 اہل سنت کی کتاب بخاری شریف میں باب موجود ہے کہ
علیؑ کو یمن بھیجنا حج الوداع سے پہلے
*(ہمدان یا مزحج کا زکر نہیں اور دنوں ہی سفر حج الوداع سے پہلے ہیں)*
تو
*ہمدان سے مکہ واپسی پر شکایات والی باتیں اسلئے قبول نہیں*
کیوں کے
👈 ایک تو یہ کہ اہل سنت کی اول درجہ کی کسی کتاب نے اسے نقل نہیں کیا،
اور
*یہ کہ انکی سینڈ کی ہوئی روایات میں ذکر نہیں کہ واپسی ہمدان سے مکہ ہے۔*
بلکہ
*انہی روایات کی ذیل میں ہے کہ وفد کے چند لوگوں نے لونڈی اور خمس کی شکایات مدینہ میں لگی۔*
👈 دوسرا یہ کہ
*شکایات والے حضرات کو مولا علیؑ سے شکایات ہمدان سے واپسی کے سفر میں ہوئی۔ وہ مولا علیؑ کے ساتھ مدینہ واپس آئے*
(تب ہی تو مدینہ میں شکایات لگی)
*اب جبکہ*
▪ *مولا علیؑ مزحج میں ہی وفد کو چھوڑ کر وہاں سے واپس مکہ میں رسول اللّه کو ملے وہ بھی احرام کی حالت میں* جس کے بعد خطبہ غدیر دیا گیا ۔
تو
*شکایات والے صحابہ نے مدینہ میں شکایات کیسے اور کسے لگائی۔؟ وہ تو اس وقت مزحج تھے جب رسول اللہ مکہ تھے*
ظاہر ہوا وہ واقعہ الگ تھا۔
کیوں کہ مولا علیؑ مزحج میں اپنے وفد پر کسی اور کو امیر بنا کر ، وہاں سے تنہا سیدھا مکہ میں رسول اللّه کو ملے۔
(لہذا مکہ میں واپسی مزحج سے ہوئی)
▫ *لہذا یہاں 2 باتیں لازم آتی ہیں اب*
1: یاں تو ناصبی یہ مان لیں کہ
شکایات خطبہ غدیر کے بعد جب رسول اللّه مکہ سے واپس مدینہ پھنچے اس وقت لگی۔
2: تو یاں پھر یہ مان لیں کہ
مدینہ میں جو شکایات لگائی گئی وہ الگ سفر تھا ، جو حمدان سے مدینہ واپس آیا تھا، جسکا تعلق غدیر سے نہیں
لیکن دوسری بات ہی درست ہے۔
کیوں کہ
پہلی بات مان لینے سے انکا یہ عقیدہ باطل ہو جائے گا کہ شکایات کی وجہ سے حدیث غدیر بیان ہوئی۔
👈 لہذا صاف ظاہر ہو گیا کہ
اگر مولا علیؑ کے ساتھ شکایات لگانے والے صحابہ اگر ہمدان سے براہ راست مکہ مکرمہ حج کے لئے پوھنچے۔
تو وہ مدینہ میں شکایات کیسے لگا سکتے ہیں۔؟ جب کہ رسول اللّه تو مکہ میں ہیں۔
*لہذا ثابت ہوا ہمدان سے وفد مدینہ واپس آیا*
اور
*مزحج سے وفد مکہ واپس آیا جہاں خطبہ غدیر دیا گیا۔*
۔
۔
۔
اور ایک بات یہ کہ آپکی کتب میں باب باندھا گیا کہ
” *حج الوداع سے پہلے خالد بن ولید اور مولا علی کو یمن بھیجنا”*
ہو سکتا ہے باب باندھنے والے نے یمن کے مکمل سفر ہمدان و مزحج کیلئے ایک ہی باب باندھا ہو۔ کیوں کہ دونوں سفر حج الوداع سے پہلے ہویے تھے۔
اس لنک میں آپ یہ اقرار دیکھ سکتے ہیں امام بخاری باب کے زیل میں روایت نقل کرنے کے بعد کہتا ہے کہ
*”ان جملہ روایات نہیں حضرت علی کا کسی ناں کسی پہلو سے یمن جانا مذکور ہے ، باب سے یہی وجہ مطابقت ہے اور اسی لئے ان روایات کو یہاں لایا گیا”*
لہذا باب باندھنے والے نے صرف یمن کو مد نظر رکھا نہ کہ یمن کے قبائل ہمدان و مزحج کو۔
*تبصرہ*
*لہذا نتیجہ یہ نکلا کہ*
ہم نے انکی کتب سے ثابت کر دیا کہ
*مولا علیؑ یمن 2 بار گیے۔*
👈🏻 یمن کے قبیلہ ہمدان کی طرف حج الوداع سے پہلے
👈🏻 یمن کے قبیلہ مزحج کی طرف حج الوداع سے پہلے
👈🏻 ناص بی ہمیشہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ مولا علی صرف ایک بار یمن گیے
👈 مدینہ میں شکایات والا معاملہ ہمدان سے واپسی پر تھا۔ (یا پھر یمن کے پہلے سفر میں)
👈 علیؑ اگر یمن سے واپس مکہ میں رسول اللّه کو ملے تھے وہ بھی احرام کی حالت میں۔۔ تو مدینہ میں کیسے اور کس کو شکایات لگی۔؟
(جبکہ رسول اللّه تو مکہ میں تھے)
▫ یہ ناص بی بلکل بھی نہیں ثابت کر سکتے کے ہمدان سے واپسی مکہ ہوئی
▫ انکی پیش کردہ روایات میں ہمدان کے واقعہ میں کہی پر یہ نہیں لکھا کے واپسی ہمدان سے مکہ ہوئی
▫ان ناص بیوں کے تمام تر حوالہ جات سے ثابت ہے کہ ہمدان سے واپسی پر لونڈی اور خمس کی شکایات مدینہ میں لگی۔
▫ جب کہ میں دھکا چکا مزحج سے واپسی مکہ ہوئی۔
👈 انکو انکی کتاب کا حوالہ بھی دکھایا گیا 10ہجری کو بنی مزحج گئے مولا علیؑ۔
👈 یہ صرف بخاری کے باندھے گیے باب پر اُچھلتے ہیں۔
▫جو ایک تو کسی بھی طرح حجت نہیں اور ناں دلیل
▫ انکو بخاری کا ہی حوالہ دکھا کر ثابت کیا گیا کے باب باندھنے والے نے یمن کے تمام سفروں کو یکجا کر کے باب باندھا۔
*لہذا جو ظاہر کرتا ہے کہ خمس کی شکایات والا معاملہ الگ تھا اسے خطبہ غدیر سے جوڑنا انتہائی نا مناسب اور بےشرمی ہے انکی اور کچھ نہیں۔*
❌ ہو سکتا ہے یہاں کوئی ناص بی یہ اعتراض کرے کہ
مولا علیؑ کی شکایات پہلے سفر سے واپسی میں لگی تھی تو دوسرے سفر سے واپسی پر دوبارہ رسول اللّه نے علی کی صفائی بیان کر دی ہو۔
جواب
انکا یہ اعتراض اسلئے قابل قبول نہیں کیوں کہ شکایات لگانے والے افراد 3 یا 4 تھے جنہیں وہاں ہی رسول اللّه نے ڈانٹ کر بات ختم کر دی تھی۔
اور
اگر حدیث غدیر کا مقصود مولا علیؑ کی شکایات کی صفائی ہوتا تو ، یہ صفائی میدان خم میں اہل شام و عراق وغیرہ کو پیش کرنے کا کیا مطلب بنتا ہے۔ ؟
لہذا
اعتراض باطل ہے۔
اب جب ہم نے انکو انکی کتب سے 2 الگ الگ سفر دکھا کر حجت قائم کر دی ہے تو ہو سکتا ہے کہ
❌ یہاں ناص بی اب کوئی اعتراض کرے کہ
ہمدان والے سفر میں مال غنیمت کا معاملہ نہیں ہوا
مزحج والے سفر پر ہی مال غنیمت کا معاملہ ہوا تھا
تو ایسے ناص بیوں کے لئے عرض ہے کہ
جناب اس سے بھی ہمارا ہی مسلہ حل ہوگا ، کیوں کہ
مزحج پر مولا علیؑ اپنے قافلے کے وفد کو مال غنیمت پر ہی چھوڑ کر مکہ میں رسول اللّه کے پاس چلے آئے اور حالات احرام میں ملاقات کی۔
پھر جہاں حدیث غدیر و خطبہ بیان کیا گیا ، پھر وہاں سے مدینہ پہنچے واپس۔
تو پھر یہ ثابت ہوا کہ شکایات غدیر کے خطبہ کے بعد لگائی گئی ۔ لہذا اپکا استدلال پھر بھی باطل ثابت ہوا ۔
یہی تو انکی کتب کی ناص بیت ہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر دو الگ واقعیات کو ایک ظاہر کر کے مولا علیؑ کی کردار کشی کرنے کی ناجائز کوشش کی۔
لیکن حق سامنے آ ہی جاتا ہے۔
اور
خطبہ غدیر کے یہ الفاظ بتا رہے ہیں کہ معاملہ خلافتِ امیر المومنین کا تھا ، اہل حدیث عالِم نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔
قال رسول الله *إني تارك فيكم الخليفتين* من بعدي كتاب الله و عترتي أهل بيتي و إنهما لن يتفرقا حتى يردا على الحوض
ترجمہ:
*رسول اللّه نے فرمایا : میں تمھارے درمیان اپنے 2 خلیفہ چھوڑ کر جا رہا ہوں۔*
الراوي: زيد بن ثابت المحدث: الألباني – المصدر: تخريج كتاب السنة – الصفحة أو الرقم: 754
خلاصة حكم المحدث: صحيح
طالب دعا :
تعلیمات اہلبیتؑ