تاریخ رسالت میں سوائے حکم ولایت کے کوئی ایک بھی ایسا حکم یا الہی دستور نہیں ملتا، جو اتنے تفصیلی مقدمات اور اہتمام کے ساتھ بیان کیا گیا ہو۔ تپتے صحراء میں دھوپ کی شدید طمازت کے باوجود حاجیوں کے سوا لاکھ کے مجمع کو یکجا جمع کرنا اور رسول اسلام (ص) کا ایک طولانی خطبہ بیان کرنا صرف ایک حکم کے لیے، یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اسلام کا یہ الہی حکم دیگر تمام احکامات سے ممتاز اور انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
غدیر کے دن ولایت کے مانند کسی حکم کا اعلان نہیں ہوا۔
یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کے اکثر بزرگ علماء نے مسئلہ غدیر اور حدیث غدیر سے متعلق گفتگو کی ہے، لیکن حدیث کی صحت کا اقرار کرنے کے باوجود مختلف غلط توجیہات کی بناء پر انہوں نے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی امامت اور بلافصل خلافت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ہم اس مختصر تحریر میں اہل سنت کے چند ایک علماء کا ذکر کرتے ہیں کہ جنہوں نے اپنی کتابوں میں اس حدیث کو جگہ دی ہے اور اس کے بارے میں اپنے نظریات قائم کیے ہیں نیز ان کے نظریات اور اشکال کا جواب دینے کی بھی کوشش کرتے ہیں:
حدیث غدیر امام احمد ابن حنبل کی نگاہ میں:
امام احمد حنبل نے اپنی کتاب مسند میں یوں بیان کیا ہے کہ:
حدثنا عبد اللہ، حدثنی ابی، ثنا عفان، ثنا حماد بن سلمہ، انا علی بن زید، عن عدی بن ثابت ، عن البراء بن عازب، قال: کنا مع رسول اللہ[ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم] فی سفر فنزلنا بغدیر خم فنودی فینا: الصلاۃ جامعۃ، و کسح لرسول اللہ[ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم] تحت شجرتین فصلی الظھر و اخذ بید علی [رضی اللہ عنہ] فقال: الستم تعلمون انی اولی بکل مومن من نفسہ؟ قالوا: بلی ، قال فاخذ بید علی فقال: من کنت مولاہ فعلی مولاہ اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ۔ قال فلقیہ عمر بعد ذلک فقال لہ: ھنیئا یابن ابی طالب اصبحت و امسیت مولی کل مومن و مومنۃ۔ [1]
براء ابن عازب کا کہنا ہے کہ: ایک سفر میں ہم رسول خدا (ص) کے ہمراہ تھے، غدیر خم کے مقام پر پہنچے ایک آواز دی گئی: الصلاۃ جامعۃ،(یعنی نماز جماعت کے لیے تیار ہو جاؤ) دو درختوں کے نیچے رسول خدا (ص) کے لیے انتظام کیا گیا، رسول خدا نماز بجا لائے اور پھر حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کیا میں سب کی جان و مال کا مالک نہیں ہوں ؟ سب نے کہا ہاں آپ ہماری جان و مال کے مالک ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں، خدایا اس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور اس سے دشمنی رکھ جو علی سے دشمنی رکھے۔ پھر عمر آپ کے گلے ملا اور کہا مبارک ہو اے ابو طالب کے بیٹے آپ نے صبح و شام کی ہے، اس حالت میں کہ آپ ہر مؤمن مرد و عورت کے مولا ہیں۔
یہ روایت (مسند احمد) میں مختلف مقامات پر بہت زیادہ سندوں کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔[2]
حافظ ابن عبد اللہ نیشاپوری نے بھی مستدرک میں مختلف الفاظ میں مختلف مقامات پر حدیث غدیر کو نقل کیا ہے۔ منجملہ:
حدثنا ابوالحسین محمد بن احمد بن تمیم الحنظلى ببغداد، ثنا ابوقلابة عبدالملک بن محمد الرقاشى، ثنا یحیى بن حماد، وحدثنى ابوبکر محمد بن احمد بن بالویه وابوبکر احمد بن جعفر البزاز، قالا ثنا عبدالله بن احمد بن حنبل، حدثنى ابى، ثنا یحیى بن حماد و ثنا ابونصر احمد بن سهل الفقیه ببخارى، ثنا صالح بن محمد الحافظ البغدادى، ثنا خلف بن سالم المخرمى، ثنا یحیى بن حماد، ثنا ابوعوانة، عن سلیمان الاعمش، قال ثنا حبیب بن ابى ثابت عن ابى الطفیل، عن زید بن ارقم ـ رضى اللّه عنه ـ قال: لمّا رجع رسول اللّه ـ صلى اللّه علیه وآله وسلم ـ من حجة الوداع ونزل غدیرخم امر بدوحات فقممن فقال: کانّى قد دعیت فاجبت. انى قد ترکت فیکم الثقلین احدهما اکبر من الآخر: کتاب اللّه تعالى وعترتى فانظروا کیف تخلفونى فیهما فانّهما لن یفترقا حتى یردا علىّ الحوض. ثم قال: ان اللّه ـ عزّ وجلّ ـ مولاى وانا مولى کل مؤمن. ثم اخذ بید علی ـ رضى اللّه عنه ـ فقال: من کنت مولاه فهذا ولیّه، اللهم وال من والاه وعاد من عاداه. و ذکر الحدیث بطوله. هذا حدیث صحیح على شرط الشیخین ولم یخرجاه بطوله.[3]
اسی کتاب میں اس حدیث کے نقل کرنے کے بعد دوسری سندوں کے ساتھ اسی روایت کو تکرار کیا ہے، دونوں میں صرف اتنا فرق ہے کہ جملہ من کنت مولاہ سے پہلے کہتے ہیں:
ثم قال: أن تعلمون انى اولى بالمؤمنین من انفسهم ثلاث مرات قالوا: نعم فقال: رسول اللّه ـ صلى اللّه علیه وآله ـ من کنت مولاه فعلى مولاه.[4]
حدیث غدیر سنن ابن ماجہ اور ترمذی میں:
ابن ماجہ نے لکھا ہے کہ:
حدثنا على بن محمد، ثنا ابوالحسین، اخبرنى حماد بن سلمه، عن على ابن زید بن جدعان، عن عدىّ بن ثابت، عن البراء بن عازب، قال: اقبلنا مع رسول اللّه ـ صلى اللّه علیه وآله ـ فى حجّته التى حجّ فنزل فى بعض الطریق فامر الصلاة جامعة فأخذ بید علی فقال: ألست اولى بالمؤمنین من انفسهم؟ قالوا: بلى قال: الست اولى بکل مؤمن من نفسه؟ قالوا: بلى. قال: فهذا ولىّ من أنا مولاه، اللهم وال من والاه اللهم عاد من عاداه۔[5]
ترمذی نے بھی ” سنن ” میں اسی مضمون کے ساتھ اس حدیث کو نقل کیا ہے۔[6]
حدیث غدیر کے بارے میں اسلامی فرقوں کے نظریات:
شیعہ امامیہ کا نظریہ:
شیعہ معتقد ہیں کہ پیغمبر اسلام (ص) کی رحلت کے بعد لوگوں کی دنیاؤی اور دینی راہنمائی کا اہم مسئلہ خود لوگوں کے انتخاب پر نہیں چھوڑ دیا گیا۔ بلکہ رسول اکرم نے اسلام کی پہلی دعوت ( دعوت ذو العشیرہ) سے لے کر اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک جگہ جگہ اس مسئلہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو اپنا بلافصل خلیفہ اور جانشین مقرر فرمایا ہے۔ حدیث غدیر انہیں روایات میں سے ایک ہے جو اس امر پر دلالت کرتی ہے۔
اہل سنت کا نظریہ:
اہل سنت شیعوں کے نظریہ کے مقابلے میں استدلال لاتے ہیں اور معتقد ہیں کہ یہ روایت حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کو ثابت نہیں کر سکتی صرف ان کی فضیلت کو بیان کرتی ہے۔ ہم یہاں پر ان کے نظریات کے بارے میں بحث و تحقیق کرتے ہیں۔
1- ایک روایت سے استدلال کرنے کے لیے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ اس کی سند صحیح ہو، دوسرے الفاظ میں، صرف اس روایت کو اس مسئلہ میں دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے کہ جس کا پیغمبر اسلام (ص) سے صادر ہونا یقینی ہو۔ خاص طور پر شیعہ عقیدے کے مطابق جو مدعی ہیں کہ امامت کے مسئلہ میں ایک شخص کی روایت پر عمل کرنا کافی نہیں ہے۔ بلکہ اس اہم مسئلہ پر دلالت کرنے والی دلیل کو متواتر ہونا چاہیے۔ اس اعتبار سے بعض اہل سنت کے علماء نے حدیث غدیر کو غیر متواتر سمجھتے ہوئے، اسے استدلال کے قابل نہیں سمجھا۔ جیسے قاضی عضد الدین ایجی مواقف میں کہتا ہے کہ:
ہم اس روایت کی صحت کا انکار کرتے ہیں اور اس کے متواتر ہونے کا دعوی، بے دلیل ہے۔ کیسے یہ روایت متواتر ہے جبکہ اکثر اصحاب نے اسے نقل نہیں کیا ہے۔[7]
ابن حجر ہیثمی کا کہنا ہے کہ: شیعہ فرقے اس بات پر متفق ہیں کہ جس چیز کو امامت پر دلیل کے عنوان سے پیش ہونا چاہیے، اسے متواتر ہونا چاہیے۔ حالانکہ اس حدیث کا متواتر نہ ہونا، معلوم ہے۔ جیسا کہ اس حدیث کی صحت کے بارے میں اختلاف پہلے گزر چکا ہے، بلکہ وہ جنہوں نے اس حدیث کی صحت میں اشکال کیا ہے علماء حدیث میں سے ابو داود سجستانی، ابو حاتم رازی اور دوسرے لوگ ہیں پس یہ ” خبر واحد ” ہے جس کی صحت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[8]
ابن حزم اور تفتازانی نے بھی یہی بات کہی ہے۔[9]
جواب:
یہ اشکال ہر اس شخص کی نظر میں جو تھوڑی بہت تاریخ اسلام اور احادیث سے آشنائی رکھتا ہے، واضح ہے کہ تعصب اور بغض کی وجہ سے ہے۔ ورنہ حدیث غدیر کا انکار کرنا ان سوفسطائیوں کی طرح ہے جنہوں نے واقعیت کے موجود ہونے کا انکار کیا ہے، یا ان لوگوں کی طرح ہے جنہوں نے جنگ بدر اور احد کا انکار کیا ہے۔ جو اسلام کے مسلّمات میں سے ہیں۔
ہم مختصرا یہاں پر اس روایت کے مصادر اور اس کی صحت کے اصولوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اس کی تفصیل کو جاننے کے لیے تین تحقیقی کتابوں ” الغدیر ” علامہ امینی، ” عبقات الانوار، علامہ میر حامد حسین اور ” احقاق الحق و ملحقاتہ ” شہید قاضی نور اللہ شوشتری کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔
کتاب احقاق الحق میں علماء اہل سنت کے چودہ افراد پر مشتمل ایک فہرست نقل ہوئی ہے جن میں علامہ سیوطی، جزری، جلال الدین نیشاپوری، ترکمانی ذہبی شامل ہیں کہ ان سب نے حدیث غدیر کے تواتر ہونے کا اعتراف کیا ہے۔[10]
ابن حزم نے بھی منہاج السنہ میں یہی کہا ہے۔[11]
علامہ امینی ” الغدیر” میں اہل سنت کے 43 بڑے اور بزرگ علماء ( منجملہ: ثعلبی، واحدی، فخر رازی، سیوطی، قاضی شوکانی) کی عبارتوں کو نقل کرتے ہیں کہ جو حدیث غدیر کے صحیح السند ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ [12]
نیز اہل سنت کے 30 بڑے مفسرین ( منجملہ: ترمذی، طحاوی، حاکم نیشاپوری، قرطبی، ابن حجر عسقلانی، ابن کثیر، ترکمانی) کی عبارتوں کو ان کے ناموں کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ ان سب نے اس آیت ” یا ایھا الرسول بلّغ ما انزل الیک و ان لم تفعل۔۔۔” کے ذیل میں حدیث غدیر کو ذکر کرتے ہوئے اس آیت کو اس حدیث سے مربوط قرار دیا ہے۔ [13]
کتاب ” احقاق الحق” میں حدیث غدیر کو اہلسنت کے 50 معتبر مصادر اور منابع سے نقل کیا ہے۔جیسے سسن المصطفی، مسند احمد، خصائص نسائی، عقد الفرید، حلیۃ الاولیاء وغیرہ۔[14]
یہاں پر ہم حدیث غدیر کے بارے میں اہل سنت کے بعض بزرگان کے اقوال کو کتاب الغدیر سے نقل کرتے ہیں:
ضیاء الدین مقبلی کا کہنا ہے کہ: اگر حدیث غدیر قطعی اور یقینی نہیں ہے تو کچھ بھی دین اسلام میں قطعی اور یقینی نہیں ہے۔
غزالی نے لکھا ہے کہ: حدیث غدیر کے متن پر اکثر مسلمین کا اجماع ہے۔
بدخشی نے کہا ہے کہ: حدیث غدیر صحیح حدیث ہے، کوئی اس کی صحت پر شک نہیں کرتا مگر یہ کہ اس کے اندر تعصب کی آگ بھڑک رہی ہو کہ ایسے شخص کی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔
آلوسی کا کہنا ہے کہ: حدیث غدیر، صحیح حدیث ہے جس کی سند میں کوئی مشکل نہیں ہے اور ہمارے نزدیک اس کی صحت ثابت ہے۔ رسول خدا (ص) سے بھی اور حضرت علی (ع) سے بھی تواتر کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔
حافظ اصفہانی کہتے ہیں کہ: حدیث غدیر صحیح حدیث ہے کہ صحابہ میں سے 100 افراد نے اسے نقل کیا ہے اور ” عشرہ مبشرہ ” بھی انہی سو آدمیوں میں سے ہیں۔ [15]
حافظ سجستانی کا کہنا ہے کہ: حدیث غدیر 120 صحابیوں کے ذریعے نقل ہوئی ہے اور حافظ ابو العلاء ہمدانی نے ایک 150 افراد کو بیان کیا ہے۔[16]
حافظ ابن حجر عسقلانی ” تہذیب التہذیب ” میں حدیث غدیر کے بعض راویوں کو بیان کرنے کے ضمن میں اس کے طرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ابن جریر طبری نے حدیث غدیر کی اسناد کو ایک کتاب کے اندر جمع کیا ہے اور اسے صحیح السند حدیث شمار کیا ہے اور ابو العباس ابن عقدہ نے بھی اسے صحابہ میں سے 70 افراد کے ذریعے سے نقل کیا ہے۔ [17]
نیز کتاب ” فتح الباری بشرح صحیح البخاری ” میں آیا ہے کہ:
حدیث ” من کنت مولاہ فعلی مولاہ ” کو ترمذی اور نسائی نے نقل کیا ہے اور اس کے نقل کے راستے (راویوں کے واسطے) اور سندیں بہت زیادہ ہیں کہ ان سب کو ابن عقدہ نے ایک مستقل کتاب میں ذکر کیا ہے اور اس کی بہت ساری سندیں صحیح اور حسن ہیں اور ہمارے لیے امام احمد حنبل سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:
جو کچھ علی (ع) کے فضائل کے سلسلے میں مجھ تک پہنچا ہے صحابہ میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی نہیں ملتا۔ [18]
قندوزی حنفی حدیث غدیر کو مختلف اسناد سے نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ:
محمد بن جریر الطبری نے حدیث غدیر کو 75 طریقوں سے نقل کیا ہے اور ایک مستقل کتاب بنام ” الولایۃ ” اس کے بارے میں تالیف کی ہے۔ نیز ابو العباس احمد بن محمد بن سعید بن عقدہ نے ایک کتاب تالیف کی جس میں 150 طریقوں سے حدیث غدیر کو نقل کیا ہے۔ [19]
حافظ محمد بن محمد الجزری الدمشقی نے امیر المؤمنین (ع) کے حدیث غدیر سے احتجاج کرنے کو نقل کرتے ہوئے یوں لکھا ہے کہ:
یہ حدیث حسن ہے اور یہ روایت تواتر کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے جیسا کہ رسول اسلام سے بھی تواتر کے ساتھ نقل ہوئی ہے کہ بہت سارے راویوں کے گروہ نے بہت سارے دوسرے راویوں کے گروہوں سے اس حدیث کو نقل کیا ہے، پس جو لوگ اس حدیث کی سند کو ضعیف کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کی باتوں کی طرف توجہ دینا فضول ہے۔ اس لیے کہ وہ علم حدیث سے بے خبر ہیں۔ [20]
حدیث غدیر کو بخاری اور مسلم نے اپنی اپنی کتاب صحیح میں نقل نہیں کیا، لیکن یہ چیز یعنی ان کا اپنی کتابوں میں نقل نہ کرنا ہرگز حدیث غدیر کی سند کے ضعیف ہونے پر دلالت نہیں کرتا۔ اس لیے کہ بہت ساری روایتیں جو خود بخاری اور مسلم کی نظر میں صحیح ہیں اور ان کی سندوں میں کوئی مشکل نہیں ہے، انہوں نے اپنی صحیحوں میں نقل نہیں کیا۔ اسی وجہ سے ان کی کتابوں کے بعد کئی مستدرک لکھی گئیں۔ اگر تمام صحیح روایات صحیح بخاری یا صحیح مسلم میں نقل ہو جاتی تو صحاح ستہ کی ضرورت نہ تھی۔ حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ کوئی عالم اور دانشمند اپنے پاس صحیح بخاری اور صحیح مسلم رکھنے کے بعد دوسری صحاح سے بے نیاز نہیں ہو جاتا۔
دوسری طرف سے خود بخاری اور مسلم نے بیان کیا ہے کہ جو کچھ ہم ان کتابوں میں لائے ہیں وہ صحیح ہے، نہ یہ کہ جو کچھ صحیح تھا ہم نے ذکر کر دیا۔ بلکہ بہت ساری صحیح احادیث کو دوسری وجوہات کی بنا پر ذکر نہیں کیا۔ [21]
مذکورہ مطالب کے علاوہ، علامہ امینی حدیث غدیر کو بخاری اور مسلم کے اساتید اور بزرگان میں سے 29 افراد سے نقل کرتے ہیں۔ [22]
1- پہلا اشکال :
ابن حجر نے لکھا ہے کہ:
حدیث غدیر، صحیح حدیث ہے کہ جس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں پائی جاتی اور اسے ترمذی، نسائی اور احمد حنبل جیسوں نے نقل کیا ہے اور بہت سارے طریقوں سے یہ حدیث نقل ہوئی ہے۔ منجملہ اصحاب میں سے 16 افراد نے اسے نقل کیا ہے اور احمد بن حنبل کی روایت میں آیا ہے کہ اسے 30 صحابہ نے رسول اسلام (ص) سے سنا اور جب امیر المؤمنین کی خلافت پر جھگڑا ہوا تو انہوں نے گواہی دی۔ [23]
پھر دوسری جگہ تکرار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
حدیث غدیر کو 30 صحابہ نے رسول خدا (ص) سے نقل کیا ہے اور بہت سارے اس کے نقل کے طریقے صحیح یا حسن ہیں۔ [24]
پس خود اشکال کرنے والوں کی نظر میں جیسے ابن حجر وغیرہ کہ جنہوں نے اس حدیث کی صحت پر اشکال کیا ہے توجہ نہیں کرنا چاہیے، اس لیے کہ ابن حجر خود دوسری جگہ کہتے ہیں:
ولا التفات لمن قدح فی صحتہ۔
اس شخص کی بات پر کوئی توجہ نہیں کی جائے گی جو حدیث غدیر کے صحت پر شک کرے۔ [25]
استاد محمد رضا حکیمی اپنی کتاب ” حماسہ غدیر ” میں اہل سنت کے 15 معاصر علماء کے نام بیان کرتے ہیں کہ جنہوں نے حدیث غدیر کو اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے۔ ان میں سے بعض یہ ہیں:
احمد زینی دحلان، محمد عبدہ مصری، عبد الحمید آلوسی، احمد فرید رفاعی، عمر فروخ۔ [26]
قابل توجہ ہے کہ شیعہ امامت سے مربوط روایات میں تواتر اور یقینی ہونے کو شرط سمجھتے ہیں اور حدیث غدیر شیعہ کتب روائی میں متواتر اور قطعی ہے۔ جیسا کہ بہت سارے سنی مصادر میں بھی اس کا قطعی الصدور ہونا ثابت ہے اور سنی علماء کے عقیدہ کے مطابق کسی حدیث سے امامت کو ثابت کرنے کے لیے دوسرے فروع دین کی طرح اس کا صحیح السند ہونا کافی ہے، اس کے تواتر کو ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لہذا یہ اشکال خود بخود دفع ہو جاتا ہے۔
2- دوسرا اشکال :
جو قاضی عضد الدین ایجی نے اپنی کتاب ” مواقف ” میں بیان کیا ہے یہ ہے کہ:
حضرت علی علیہ السلام غدیر کے دن پیغمبر کے ساتھ نہیں تھے، لکھتے ہیں کہ:
علی (ع) حجۃ الوداع میں غدیر کے دن پیغمبر اسلام کے ہمراہ نہیں تھے، بلکہ وہ یمن میں تھے۔ [27]
بہتر ہے اس اشکال کو بیان کرنے سے پہلے ” مواقف ” کی شرح لکھنے والے کی بات کو بیان کریں۔ سید شریف جرجانی نے مواقف پر شرح لکھتے ہوئے اس مقام پر بیان کیا ہے کہ:
یہ اشکال مردود ہے اس لیے کہ حضرت علی (ع) کا غائب ہونا حدیث کے صحیح ہونے کے ساتھ منافات نہیں رکھتا۔ مگر یہ کہ روایت میں یہ آیا ہو کہ پیغمبر اسلام نے علی کو اپنے پاس بلایا یا ان کا ہاتھ پکڑا۔ بہت ساری روایات میں یہ جملہ نقل نہیں ہوا ہے۔ [28]
ابن حجر ہیثمی نے اس شبہ کے جواب میں لکھا ہے کہ:
وہ شخص جو یہ کہتا ہے کہ حدیث غدیر صحیح نہیں ہے یا یہ اشکال کرتا ہے کہ حضرت علی یمن میں تھے، اس کی بات غلط ہے اس لیے کہ حضرت علی یمن سے واپس آ چکے تھے اور حج کو انہوں نے پیغمبر اسلام کے ساتھ بجا لایا تھا۔ [29]
اگرچہ تاریخی اعتبار سے امیر المؤمنین کا یمن سے واپس لوٹنا اور پیغمبر اسلام کے ہمراہ حج کے ارکان کا بجا لانا مسلم ہے، لیکن پھر بھی نمونہ کے طور پر چند ایک نکات کو ان لوگوں کے حوالے سے جنہوں نے اس مسئلہ کو چھیڑا ہے بیان کرتے ہیں:
طبری ( تاریخ طبری، ج 2، ص 205) ابن کثیر ( البدایہ و النھایۃ ، ج2 ص 184 اور نیز اسی جلد کے صفحہ 132 پر مفصل طور پر امیر المؤمنین کے یمن سے واپس پلٹنے کی بحث کو بیان کرتے ہیں اور آپ کی واپسی کو ثابت کرتے ہیں۔
ابن اثیر ( الکامل ، ج 2 ص 302)
3- تیسرا اشکال :
جو زیادہ اہم اور مضبوط ہے وہ ہے کلمہ ” مولا ” کے بارے میں کہ یہ کلمہ مختلف معنی پر دلالت کرتا ہے جیسے چچا کا بیٹا، ” غلام کو آزاد کرنے والا “، ” پڑوسی” ” دوست ” ، ” اولی بالتصرف ” ” ولی اور سرپرست ” وغیرہ۔ شیعہ حدیث غدیر کے شواہد و قرائن کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ثابت کرتے ہیں کہ اس حدیث میں لفظ مولا ولی، سرپرست اور اولی بالتصرف کے معنی میں ہے، لیکن بعض سنی علماء کلمہ مولا میں شبہہ ایجاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہاں پر مولا دوست وغیرہ کے معنی میں ہے۔ بظاہر یہ شبہہ فخر الدین رازی نے کتاب ” نھایۃ العقول ” میں ایجاد کیا اور دوسروں جیسے قاضی عضد الدین ایجی، [30]
ابن حجر[31]
اور فضل بن روزبھان[32]
نے فخر رازی سے اسے نقل کیا ہے۔
قاضی عضد الدین ایجی کتاب مواقف میں لکھتے ہیں کہ:
کلمہ ” مولا ” سے مراد ” ناصر ” ہے اس لیے کہ حدیث کے بعد پیغمبر اسلام کے دعائیہ جملہ سے یہی معنی سمجھ میں آتا ہے اور مولا سے مراد ” اولی” نہیں ہے، اس لیے کہ کبھی بھی مفعل کا وزن افعل کے معنی میں نہیں آتا ہے۔ [33]
ابن حجر ہیثمی نیز کہتے ہیں کہ:
ہم اس چیز کو قبول نہیں کرتے کہ ” مولا ” کے معنی وہی ہوں، جو شیعہ کہتے ہیں بلکہ اس کے معنی ” ناصر ” کے ہیں اس لیے کہ مولا کے معنی متعدد ہیں جیسے ” آزاد کرنے والا “، ” امور میں تصرف کرنے والا “، ” ناصر” ” محبوب ” ۔ ہم اور شیعہ دونوں اعتراف کرتے ہیں کہ اگر اس روایت میں مراد ” محبوب ” ہو اس کے معنی صحیح نکلیں گے، اس لیے کہ علی (ع) ہمارے اور ان کے محبوب ہیں ، لیکن یہ کہ مولا کے معنی ” امام ” ہوں، نہ شریعت میں یہ معنی ہیں اور نہ ہی لغت میں۔ شریعت میں یہ معنی بیان نہیں ہوئے، اس کے بارے میں بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے یہ واضح ہے، لیکن لغت میں بھی یہ معنی نہیں آئے ہیں یہ بھی لغت کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی عرب لغت دان نے “مفعل” کے معنی افعل” بیان نہیں کیے ہیں۔ [34]
اشکال کا جواب:
اس اشکال کے جواب میں ہم یہ کہتے ہیں کہ:
شیعہ معتقد ہیں کہ اگر فرض کریں یہ قبول کر لیتے ہیں کہ کلمہ “مولا” چند معنی میں مشترک ہے اور عربی لغت دانوں نے بعد والے زمانے میں مولا کے معنی اولی نہیں کئے لیکن رسول اسلام کے زمانے میں اور اس حدیث کو بیان کرتے وقت مخاطبین نے ان معنی کو اس کلمہ سے سمجھا ہے۔ اس مدعی پر ہمارے پاس کئی دلیلیں ہیں:
1- حسان بن ثابت کہ جو صدور حدیث کے وقت موجود تھے کہ جن کے ادبی مقام کا انکار کرنے والا کوئی نہیں ملتا، [35]
انہوں نے رسول خدا (ص) سے اجازت چاہی تا کہ اس واقعہ کو اپنے منظوم کلام میں بند کرے، ان کے منجملہ اشعار میں سے ایک شعر یہ ہے:
فقال لہ قم یا علی فاننی
رضیتک من بعدی اماما و ھادیا
رسول خدا نے علی سے فرمایا کہ اے علی کھڑے ہو جائیں کہ میں اپنے بعد آپکو امام اور اس امت کا ہادی بنانے پر راضی ہو گیا ہوں۔۔۔۔۔
علامہ امینی نے ان اشعار کو اہل سنت کے 12 مآخذ و کتب اور اہل تشیع کے 26 مآخذ سے نقل کیا ہے۔ [36]
قیس بن سعد بن عبادہ نے بھی اپنے اشعار میں یوں کہا ہے کہ:
و علی امامنا و امام
لسوانا اتی بہ التنزیل
یوم قال النبی من کنت مولاہ
فھذا مولاہ خطب جلیل
علامہ امینی نے ان اشعار کو 12 مآخذ و کتب سے نقل کیا ہے۔[37]
عمرو ابن عاص نے بھی اپنے اشعار میں کہا ہے کہ:
و فی یوم خم رقی منیرا
یبلغ و الرکب لم یرحل
الست بکم منکم فی النفوس
باولی؟ فقالوا: بلی فافعل
فانحلہ امرۃ المومنین
من اللہ مستخلف المنحل
و قال فمن کنت مولا لہ
فھذا لہ الیوم نعم الولی
ان اشعار کو بھی علامہ امینی نے شیعہ سنی 8 مصادر سے نقل کیا ہے۔ [38]
اس کے علاوہ علامہ امینی الغدیر میں بہت سارے شعراء اور عرب ادبا کے کلمات کو بیان کرتے ہیں کہ جو کلمہ مولا سے امامت اور ولایت کے معنی کو سمجھے ہیں۔ [39]
خود مولا علی (ع) نے ایک شعر میں جو معاویہ کو لکھا ہے، اس بات کی تائید کے طور پر لکھا ہے:
و اوجب لی ولایتہ علیکم
رسول اللہ یوم غدیر خم
علامہ امینی نے اسے شیعوں کے 11 منابع اور اہل سنت کے 26 منابع سے نقل کیا ہے۔ [40]
نیز اس حدیث سے ولی کے معنی سمجھنے پر بہترین دلیل، ابوبکر اور عمر کا مبارک باد دینا ہے کہ جو رسول خدا (ص) کے خطبہ کے تمام ہونے کے بعد انہوں نے علی علیہ السلام کو مخاطب کر کے مبارک باد دی:
بخ بخ لک یا بن ابی طالب اصبحت مولای و مولی کل مؤمن و مؤمنۃ۔
علامہ امینی نے ابوبکر و عمر کی تبریک کو 60 سنی مصادر سے نقل کیا ہے، منجملہ: مسند احمد، تاریخ الامم و الملوک، تاریخ بغداد، مصنف ابن ابی شیبہ ہیں۔ [41]
انصاف سے سوچ کر بتائیں کہ اگر پیغمبر اسلام (ص) کی مولا سے مراد ناصر اور محبوب ہوتی تو علی علیہ السلام کو مبارک باد دینے کی کون سی جگہ تھی ؟
اس کے علاوہ بعض لوگوں کا غدیر خم کے مقام پر شدید اعتراض کرنا جیسے حارث بن نعمان فہری اور خدا سے عذاب کی درخواست کرنا اور اللہ کی طرف سے اس پر عذاب کا نازل ہونا، یہ سب کس لیے تھا ؟ صرف اس لیے کہ علی پیغمبر اسلام کے ناصر اور محبوب ہو گئے ؟ وہ تو پہلے بھی تھے، بغیر کہے انہوں نے اپنی زندگی نصرت اسلام اور رسالت کے لیے وقف کر رکھی تھی۔
علامہ امینی نے اس واقعہ کو اہل سنت کے 30 منابع سے نقل کیا ہے کہ جن میں الکشف و البیان، دعاۃ الھداۃ اور احکام القرآن شامل ہیں۔ [42]
انصاف سے بتائیں کہ کیا اگر حدیث غدیر میں مولا کے معنی ناصر اور محبوب کے ہوتے تو کیا یہ اتنے غضب اور انکار کی جگہ تھی حارث بن نعمان فھری جیسوں کو آتش غضب میں جلایا جاتا ؟
اس حدیث کے علاوہ بہت ساری دوسری احادیث حتی قرآن کی آیات موجود ہیں کہ جو صریحا امیر المؤمنین کی محبت اور نصرت پر دلالت کرتی ہیں، کیوںکہ جب وہ صادر ہوئیں تو کسی نے اعتراض نہیں کیا تھا ؟
یہ چیز بھی ہمارے دعوے پر دلیل ہے کہ پیغمبر اسلام حدیث غدیر کو بیان کرنے سے خوف کھا رہے تھے اور اس مسئلہ کو تاخیر میں ڈال رہے تھے، یہاں تک کہ آیہ کریمہ نازل ہوئی اور کھلے الفاظ میں پیغمبر اسلام کی حفاظت کا وعدہ دیا ” واللہ یعصمک من الناس ” خدا آپ کو لوگوں کے شر سے بچائے گا۔ آپ کو جو حکم دیا گیا ہے، اسے بے فکر ہو کر انجام دیں۔
تو کیا یہ علی علیہ السلام کی محبوبیت اور ناصریت کا اعلان تھا کہ جو منافقین کے مزاج سے سازگار نہیں تھا اور پیغمبر اسلام جن سے خوف کھا رہے تھے۔ واضح اور آشکار ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی محبوب یا ناصر ہونے کے اعلان سے منافقین کی صحت پر کوئی اثر پڑنے والا نہیں تھا، اس لیے کہ روز اول سے وہ اس اعلان سے واقف تھے اور جگہ جگہ آپ کی مدد اور نصرت کے کرشمے ملاحظہ کر چکے تھے۔ لہذا اگر دسیوں بار پیغمبر (ص) علی (ع) کے ناصر ہونے کا اعلان کر دیں تو ان کی پیشانی پر کوئی بل نہ نہیں آئے گا۔ لہذا اتنے سارے شواہد و قرائن ملاحظہ کرنے کے بعد یہ کہنا کہ مولا سے مراد ناصر اور محبوب ہے، تو بات انصاف سے بہت دور اور تعصب کے بہت ہی نزدیک ہے۔
غدیر خم میں رسول اسلام (ص) کا عظیم انتظام یہ بتا رہا ہے کہ مسئلہ بہت حساس موڑ پر ہے اور جو بات وہ کہنے جا رہے ہیں، وہ معمولی سی بات نہیں ہے وہ اسلام کے مستقبل کی تقدیر ہے۔ لہذا حدیث غدیر میں مولا سے مراد صرف اور صرف اولی بالتصرف ، ولی و سرپرست ہے۔
یہاں پر اس نکتہ کی طرف متوجہ کرنا بہت ضروری ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) کو اپنی جان کا خطرہ اور خوف نہیں تھا، کہ منافق ان کی جان لے لیں گے، بلکہ آپ (ص) دین میں اختلاف اور امت میں پراکندگی سے خوف کھا رہے تھے، لیکن پرورگار عالم نے انہیں اطمینان دلایا کہ اعلان ولایت اختلاف سے بڑھ کر ہے، اگر سلسلہ ولایت کا اعلان نہیں ہو گا تو دین خطرے میں پڑ جائے گا اس لیے کہ اس کا محافظ نہیں رہے گا۔ اور ایسا خوف کھانا کوئی عیب بھی نہیں ہے، حضرت موسی کے بارے میں بھی خدا فرماتا ہے:
فاوجس فی نفسہ خیفۃ موسی۔[43]
اور مزید یہ کہ علامہ میر حامد حسین نے حدیث غدیر کو مختلف طریقوں سے نقل کیا ہے کہ:
بعض جگہوں میں بجائے ” من کنت مولاہ ” کے حدیث ” من کنت اولی بہ من نفسہ فعلی ولیہ ” کے الفاظ میں نقل ہوئی ہے۔[44]
ان الفاظ کے بعد یہ بحث کہ مولا کے معنی کیا ہیں، خود بخود ختم ہو جاتی ہے، اس لیے کہ حدیث نے خود واضح طور پر بیان کر دیا ہے کہ جس طریقے سے رسول اسلام (ع) مسلمانوں کے نفوس پر اولویت اور حاکمیت رکھتے ہیں، علی بھی ویسے ہی تصرف اور حاکمیت کا حق رکھتے ہیں۔
حموینی نے بھی اپنی کتاب ” فرائد السمطین ” میں انہیں کلمات کے ساتھ حدیث غدیر کو نقل کیا ہے:
من کنت اولی بہ من نفسہ فعلی اولی بہ من نفسہ۔ فانزل اللہ تعالی ذکرہ: الیوم اکملت لکم دینکم۔ [45]
اس بات پر بھی ایک نگاہ کرنا ضروری ہے کہ آیا لغت میں کلمہ مولا اولی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے یا نہیں ؟ چلبی مواقف پر حاشیہ کے دوران قاضی عضد الدین سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
اس اشکال کا جواب دیا جا چکا ہے کہ مولا کا ” متولی “، ” صاحب امر “، ” اولی بالتصرف کے معنی میں استعمال کرنا عربی لغت میں بہت زیادہ رائج ہے اور عربی لغت دانوں کے ذریعے یہ استعمال نقل ہوا ہے۔ ابو عبیدہ کا کہنا ہےکہ:
ھی مولاکم ای اولی بکم ” اور پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا ہے:
ایما امراۃ نکحت بغیر اذن مولاھا، یعنی اس شخص کی اجازت کے بغیر جو اس پر اولی بالتصرف ہے۔ پس یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ مولا کے معنی اولی کے نہیں ہو سکتے، اس لیے کہ مولا بر وزن مفعل ہے اور ولی فعیل کے وزن پر ہے۔ مولا اسم ہے جو اولی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، نہ اولی کی جگہ استعمال ہوتا ہے۔ [46]
علامہ میر حامد حسین نے ایک مکمل جلد کو اس بات سے مخصوص کیا ہے کہ مولا اولی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے یا نہیں، وہ لوگ جنہوں نے یہ دعوی کیا ہے مولا ” اولی ” کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا، ان کے بارے میں تفصیل سے انہوں نے اس کتاب کے اندر بیان کیا ہے۔ [47]
مزید مطالعے و تحقیق کے لیے ان کی کتاب عبقات الانوار کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔
حوالہ جات
[1] امدي، علي بن محمد؛ الاحكام؛ بيروت: مؤسسه النور، 1387ق.
[2] ابن ابي الحديد؛ شرح نهجالبلاغه؛ بيروت: داراحياء الكتب العربيه،
[3] ابن ابي شيبه كوفي؛ لامصنف؛ بيروت: دارالفكر،
[4] ابن اثير، علي؛ اسدالغابه؛ تهران: اسماعيليان،
[5] ابن الجارود نيشابوري؛ المنتقي؛ بيروت: مؤسسه الكتب الثقافيه،
[6] ابن الدمياطي، المستفاد؛ بيروت: دارالكتب العلميه،
[7] ابن حبان، عبدالله؛ البداية و النهاية؛بيروت: دارالحياء التراث العربي،
[8] ، تقريب التهذيب؛ بيروت، دارالمكتبة العلميه، 1995م.
[9] ، تهذيب التهذيب؛ بيروت: دارالفكر، 1984م.
[10] ، طبقات المحدثين؛ بيروت: مؤسسه الرساله، 1992م.
[11] ، غريب الحديث؛ بيروت: دارالكتب العلميه،
[12] ابن حبان، علي بن بلياني؛ صحيح ابن حبان؛ الطبعة الثانيه، 1993م.
[13] ابن حجر عسقلاني، شهابالدين؛ فتح الباري؛ بيروت: دارالمعرفة،
[14] ابن حزم، ابومحمد علي؛ الفصل في الملل والاهواء؛ بيروت:
[15] ابنخلدون؛ تاريخ ابن خلدون؛ بيروت: مؤسسه الاعلمي،
[16] ابن خلكان، احمد بن محمد؛ وفيات الاعيان؛ بيروت: داراحياء التراث العربي، 1397م.
[17] ابن سعد، محمد؛ الطبقات الكبري؛ بيروت: دار صادر،
[18] ابن عساكر، ابوالقاسم؛ تاريخ مدينه دمشق؛ بيروت: دارالفكر، 1995م.
[19] ابن قتيبه دينوري؛ الامامة والسياسة؛ قم: شريف رضي،
[20] ابن كثير، اسماعيل؛ تفسير القرآن الكبير؛ بيروت: دارالمعرفة، 1992م
[21] ابن ماجه، محمد بن يزيد قزويني؛ سنن ابن ماجه؛ بيروت: دارالفكر،
[22] ابن نجار، محمد؛ ذيل تاريخ بغداد؛ بيروت: دارالكتب العلميه،
[23] ابن هشام، محمد؛ سيرة النبي؛ مصر: مكتبة محمد،
[24] ابن مزاحم منقري، نصر؛ واقعة الصفين؛ قاهر: مدني،
[25] ابي داوود، ابن اشعث؛ سنن ابي داوود؛ بيروت: دارالفكر،
[26] احمد بن حنبل؛ فضائل الصحابه؛ بيروت: دارالكتب العلميه
[27] ، مسند احمد؛ بيروت: دار صادر
[28] اسكافي، ابوجعفر؛ المعيار والموازنه؛ قم: تحقيق محمدباقر محمودي،
[29] اصفهاني، ابينعيم؛ ذكر اخبار اصبهان؛ ليدن: بريل، 1934م.
[30] الباني، محمدناصر؛ ارواء الغليل؛ بيروت: مكتبالاسلامي
[31] اميني، عبدالحسين(علامه)؛ الغدير؛ بيروت: دارالكتاب العربي، 1379ق.
[32] بخاري، محمد بن اسماعيل؛ تاريخ الكبير؛ دياربكر: مكتبةالاسلاميه
[33] بلاذري، احمد؛انساب الاشراف؛ بيروت: مؤسسه الاعلمي،
[34] ، فتوح البلدان؛ مصر: لجنة البيان العربي،
[35] بيهقي، ابوبكر؛ سنن الكبري؛ بيروت: دارالفكر،
[36] ترمذي، محمد بي عيسي؛ سنن ترمذي؛ بيروت: دارالفكر،
[37] حاجي خليفه؛ كشف الظنون؛ بيروت: دار احياءالتراث العربي،
[38] حاكم حسكاني، عبيدالله بن احمد؛ شواهد التنزيل؛ ايران: مجمع احياء الثقافة الاسلاميه، 1411ق.
[39] حاكم نيشابوري، محمد بن عبدالله؛ المستدرك؛ بيروت: دارالمعرفه،
[40] ، معرفة علوم الحديث؛ بيروت: دار الافاق الجديد،
[41] حموي، ياقوت؛ معجم البلدان؛ بيروت: داراحياء التراث العربي، 1979م.
[42] خطيب بغدادي، احمد بن علي؛ تاريخ بغداد؛ بيروت: دارالكتب العلميه،
[43] سورہ طہ آیت 67
[44] دينوري، ابن قتيبه؛ تأويل مختلف الحديث؛ بيروت: دارالكتب العلميه،
[45] ذهبي، ابوعبدالله؛ تذكرة الحفاظ؛ بيروت: داراحياء التراث العربي،
[46] ، سير اعلام النبلاء؛ بيروت: مؤسسه الرساله،
[47] رازي، محمد بن عمر؛ المحصول؛مؤسسه الرساله