تاریخ اسلام میں رسول خدا(ص) اور اھل بیت(ع) کے لیے تلخ حوادث پیش آئے ہیں۔ تمام مؤرخان کے اقوال کے مطابق ان تمام تلخ حوادث میں رسول خدا کے خاندان نے شھداء اور بزرگان کے غم میں کالا لباس پہنا ہے۔
چند نمونوں کی طرف توجہ فرمائیں:
1- حضرت حمزہ کی شھادت پر عورتوں کا کالا لباس پہننا:
تاریخ اسلام کی جنگوں میں سے سب سے زیادہ تلخ ترین جنگ،جنگ احد ہے کہ جس میں تقریبا 70 مسلمان لشکر اسلام سے شھید ہوئے۔ ان شھیدوں میں سے رسول خدا کے چچا حضرت حمزہ بھی ہیں۔ رسول خدا بھی اس جنگ میں زخمی ہونے کے بعد جب واپس مدینے آئے تو مدینے کی عورتیں اپنے شھداء کے لیے گریہ و نوحہ خوانی کرتی تھیں۔ رسول خدا کے حکم کے مطابق مدینے کی عورتوں نے حضرت حمزہ کی شھادت پر کالے لباس پہنے۔
ازہری معروف لغت شناس نے ام سلمہ کی بیٹی کے کالے لباس پہننے کو بیان کیا ہے:
وفي الحديث: (أنَّ بنت أبي سَلَمة تَسَلَّبتْ على حمزة ثلاثةَ أيام، فدعاها رسولُ الله صلى الله عليه وسلم وأمَرَها أن تَنصَّى وتَكتَحِل.
زینب ام سلمہ کی بیٹی نے حضرت حمزہ پر تین دن گریہ کیا اور کالا لباس پہنا۔ پھر رسول خدا نے اسے اپنے پاس بلایا اور اسے کہا کہ اب اپنے بالوں میں کنگھی کرے اور آنکھوں میں سرمہ ڈالے۔
الأزهري، أبو منصور محمد بن أحمد، الوفاة: 370هـ، تهذيب اللغة ، ج 12 ص 171،تحقيق: محمد عوض مرعب، دار النشر : دار إحياء التراث العربي – بيروت، الطبعة : الأولى- 2001م
معنی «سلاب» اهل سنت کی کتب میں:
اوپر والی روایت میں لفظ تسلّبت کا معنی مخصوص کالا لباس ہے جو عورتیں غم کے مواقع پر پہنتی ہیں۔
ابن سلام ہروی، صاحب غريب الحديث بھی لکھتا ہے کہ:
سلاب، يريد الثياب السود التي تلبسها النساء في المأتم.
سلاب سے مراد مخصوص کالا لباس ہے جو عورتیں غم کے مواقع پر پہنتی تھیں۔
الهروي ، أبي عبيد القاسم بن سلام ، متوفاي(224)، غريب الحديث، ج 1 ص 190، تحقيق : محمد عبد المعيد خان، ناشر: دار الكتاب العربي – بيروت ، چاپخانه : مجلس دائرة المعارف العثمانية- حيدر آباد الدكن الهند، طبع الأولى1384
ابن سيده مرسی، کہتا ہے کہ:
والسِّلابُ والسُّلُبُ ثيابٌ سُودٌ يلْبَسُها النِّساءُ للإِحدادِ۔
سلاب و سلب کالا لباس ہے جو عورتیں غم میں پہنتی ہیں۔
المرسي، ابوالحسن علي بن إسماعيل بن سيده (متوفاي458هـ)، المحكم والمحيط الأعظم، ج 8 ص 505، تحقيق: عبد الحميد هنداوي، ناشر: دار الكتب العلمية بيروت، الطبعة: الأولى، 2000م.
زمخشرى ـ اديب و مفسّر مشهور قرن 5 و 6 هجرى- اوپر والی روایت کو تھوڑے فرق کے ساتھ نقل کرتا ہے:
بكت بنت امّ سلمة على حمزة (رضى اللّه عنهما) ثلاثة ايام وتسلّبت، فدعاها رسول اللّه (صلى الله عليه وآله) فأمرها أن تَنَصّى وتكتحل.
اور بعد میں کہتا ہے کہ:
تسلّبت: لبست السِلاب و هو سوادُ المُحِدّ. وقيل: خرقة سوداء كانت تُغَطّى رأسَها بها.
سلاب کالا لباس ہے جو صاحب عزا عورت پہنتی تھی۔ یا ایک قول کے مطابق کالا کپڑا ہے جس سے وہ اپنےسر کو ڈھانپتی تھی۔
الزمخشري الخوارزمي، ابوالقاسم محمود بن عمرو بن أحمد جار الله (متوفاى538هـ)، الفائق فى غريب الحديث، تحقيق: على محمد بجاوى و محمد ابوالفضل ابراهيم ، ناشر: دارالفكر للطباعة و النشر و التوزيع، طبع الثالثه 1399 ـ 1979).
ابن منظور نے لسان العرب میں«سلاب» کا معنی « کالا لباس» کیا ہے اور پھر اسماء بنت عميس کا جعفر بن أبيطالب کی مصيبت میں کالا لباس پہننے اور ام سلمه کا شهادت حضرت حمزه سيد الشهداء میں کالا لباس پہننے کو نقل کر رہا ہے:
السلاب السلب ثياب سود تلبسها النساء في المأتم واحدتها سلبة سلبت المرأة وهي مسلب إذا كانت محدا تلبس الثياب السود للحداد تسلبت لبست السلاب وهي ثياب المأتم السود.
وفي الحديث عن أسماء بنت عميس أنها قالت لما أصيب جعفر أمرني رسول الله فقال تسلبي ثلاثا ثم اصنعي بعد ما شئت.
وفي حديث أم سلمة أنها بكت على حمزة ثلاثة أيام وتسلبت.
وقال اللحياني المسلب السليب السلوب التي يموت زوجها أو حميمها فتسلب عليه تسلبت المرأة.
سلاب و سلب کالا لباس ہے جو عورتیں غم میں پہنتی تھیں۔
تسلبت لبست السلاب وہی غم کا کالا لباس ہے۔
روایت میں ہے کہ اسماء بنت عميس کہتی ہے کہ جب جعفر طیار شھید ہوئے تو رسول خدا نے مجھے فرمایا کہ تین دن کالا لباس پہنوں اور اس کے بعد جو دل ہے کروں۔
روایت میں ہے کہ ام سلمہ نے حضرت حمزہ کی شھادت پر تین دن گریہ کیا اور کالا لباس پہنا۔
الأفريقي المصري، محمد بن مكرم بن منظور (متوفاي711هـ)، لسان العرب،ج 1 ص 472 ـ 473، ناشر: دار صادر – بيروت، الطبعة: الأولى.
حضرت جعفر طیار کی شھادت پر رسول خدا کا عورتوں کو کالا لباس پہننے کا حکم دینا:
جعفر طیار رسول خدا کے با وفا ساتھی اور لشکر اسلام کے طاقت ور بازو تھے جو جنگ موتہ میں شھید ہوئے۔ رسول خدا انکی شھادت کے بعد ان کے گھر گئے جا کر ان کے بیوی بچوں کو تسلی دی اور اسماء بنت عمیس کو حکم دیا کہ اس غم میں کالا لباس پہنے۔
یہ روایت بھی دو معنی و مفھوم کے ساتھ اہل سنت کی مھم کتب میں ذکر ہوئی ہے۔
مضمون اول : «البسی ثوب الحداد»
احمد حنبل اپنی مسند میں لکھتا ہے کہ:
عن أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ قالت لَمَّا اصيب جَعْفَرٌ أَتَانَا النبي صلى الله عليه وسلم فقال أمى البسي ثَوْبَ الْحِدَادِ ثَلاَثاً ثُمَّ اصنعي ما شِئْتِ.
اسماء بنت عميس کہتی ہے کہ جب جعفر طیار شھید ہوئے تو رسول خدا نے مجھے فرمایا کہ تین دن کالا لباس پہنوں اور اس کے بعد جو دل ہے کروں۔
أحمد بن حنبل أبو عبدالله الشيباني، (متوفاي241) مسند، ج 6 ص 438 ح 27508 ، ناشر: مؤسسة قرطبة مصر.
معنی حداد :
ابن منظور اس بارے میں کہتا ہے کہ:
والحِدادُ: ثياب المآتم السُّود. والحادُّ والمُحِدُّ من النساء: التي تترك الزينة و الطيب؛ وقال ابن دريد: هي المرأَة التي تترك الزينة والطيب بعد زوجها للعدة. حَدَّتْ تَحِدُّ وتَحُدُّ حدّاً وحِداداً، وهو تَسَلُّبُها على زوجها.
حداد ماتم کا کالا لباس ہے۔ حاد و محد وہ عورت ہے جو بناؤ سنگھار کو ترک کرتی ہے۔
ابن درید کہتا ہے کہ؛
حاد و محد وہ عورت ہے جو اپنے شوھر کے مرنے پر بناؤ سنگھار کو ترک کرتی ہے۔ حدت، تحد اور حداد کالا لباس ہے جو بیوی شوھر کی موت پر پہنتی ہے۔
ابن منظور الأفريقي المصري، محمد بن مكرم الوفاة: 711 ، لسان العرب ج 3 ص 143، دار النشر: دار صادر- بيروت، الطبعة: الأولى.
عكبری بغدادی اديب و لغت شناس مشهور عرب، اپنے دیوان میں لکھتا ہے کہ:
والحداد ثياب سود تلبس عند الحزن ومنه قوله عليه الصلاة والسلام لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تحد على أحد فوق ثلاث ليال إلا المرأة تحد على زوجها.
حداد ماتم کا کالا لباس ہے جو غم کے موقع پر پہنا جاتا ہے۔ حاد و محد وہ عورت ہے جو بناؤ سنگھار کو ترک کرتی ہے اور کالا لباس پہنتی ہے۔
العكبري البغدادي، أبو البقاء محب الدين عبد الله بن الحسين بن عبد الله (متوفاي616هـ)، ديوان المتنبي، ج 1 ص 353، تحقيق : مصطفى السقا/إبراهيم الأبياري/ عبد الحفيظ شلبي، ناشر: دار المعرفة- بيروت.
اسی دیوان میں ایک دوسری جگہ بھی اسی بات کو نقل کرتا ہے:
العكبري البغدادي، أبو البقاء محب الدين عبد الله بن الحسين بن عبد الله (متوفاي616هـ)، ديوان المتنبي ، ج 4 ص 296، تحقيق : مصطفى السقا/إبراهيم الأبياري/عبد الحفيظ شلبي ، ناشر: دار المعرفة- بيروت.
اور ابن اثير کہتا ہے کہ:
الحداد: ترك الزينة. ومنه الحديث الحداد للمرأة المتوفى عنها زوجها. ومنه حدت المرأة على زوجها تحد حدادا بالكسر، فهي حاد بغير هاء: إذا حزنت عليه ولبست ثياب الحزن وتركت الزينة.
حداد زینت کرنے کو ترک کرنا ہے۔ حدت المرأة على زوجها تحد حدادا بالكسر حاد و محد وہ عورت ہے جو اپنے شوھر کے مرنے پر بناؤ سنگھار کو ترک کرتی ہے۔
الجزري، أبو السعادات المبارك بن محمد (متوفاي: 606 ) النهاية في غريب الحديث والأثر، ج1 ص 352 ، تحقيق: طاهر أحمد الزاوى – محمود محمد الطناحي، ناشر: المكتبة العلمية- بيروت- 1399هـ – 1979م .
فيومى مصباح المنير، میں اسی طرح عبارت کو نقل کرتا ہے:
حدَّتِ: المرْأَةُ عَلَى زَوْجِهَا (تَحِدُّ) و(تَحُدُّ) (حِدَاداً) بِالْكَسْرِ فَهِىَ (حَادٌّ) بغَيْرِ هَاءٍ و(أحَدَّتْ إحْداداً) فَهِىَ (مُحِدٌّ) و(مُحِدَّةٌ) إذا تَرَكَتِ الزِّينَةَ لِمَوْتِهِ.
الفيومي، أحمد بن محمد بن علي المقري (الوفاة: 770هـ )، المصباح المنير في غريب الشرح الكبير للرافعي، ص: 125(ماده حد)، دار النشر: المكتبة العلمية – بيروت.
مضمون دوم : «تسلبی ثلاثا ثم أصنعی ما شئت»
ابن جعد عالم اہل سنت اپنی مسند میں لکھتا ہے کہ:
حدثنا محمد بن بكار بن الريان نا محمد بن طلحة عن الحكم بن عتيبة عن عبد الله بن شداد بن الهاد عن أسماء بنت عميس أنها قالت لما أصيب جعفر أمرني رسول الله صلى الله عليه وسلم قال تسلبي ثلاثا ثم أصنعي ما شئت۔
اسماء بنت عميس کہتی ہے کہ جب جعفر طیار شھید ہوئے تو رسول خدا نے مجھے فرمایا کہ تین دن کالا لباس پہنوں اور اس کے بعد جو دل ہے کروں۔
الجوهري البغدادي ،علي بن الجعد بن عبيد أبو الحسن الوفاة: 230، مسند ابن الجعد ج 1، ص 398 ش 2714 ، تحقيق : عامر أحمد حيدر، ناشر: مؤسسة نادر- بيروت – الطبعة : الأولى، 1410- 1990 ،
یہ روايت اسی مضمون کے ساتھ بہت سی كتب اہل سنت نقل ہوئی ہے:
الأنصاري القرطبي، ابوعبد الله محمد بن أحمد (متوفاي671هـ)، الجامع لأحكام القرآن، ج 3 ص 181 ناشر: دار الشعب، القاهرة.
ابن كثير الدمشقي، إسماعيل بن عمر ابوالفداء القرشي (متوفاي774هـ)، البداية والنهاية، بيروت.ج7 ص 97، ناشر: مكتبة المعارف،
الشوكاني، محمد بن علي بن محمد (متوفاي 1255هـ)، نيل الأوطار من أحاديث سيد الأخيار شرح منتقي الأخبار، ج7 ص 97 ناشر: دار الجيل، بيروت 1973
جیسا کہ بیان ہوا سلاب بمعنی غم کی حالت میں کالا لباس پہننا ہے۔ اسی طرح اس روایت کے آخر میں علماء نے بھی اس معنی پر وضاحت کی ہے۔
ابن منظور اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد کہتا ہے:
تسلبي أي البسي ثياب الحداد السود وهي السلاب تسلبت المرأة إذا لبسته وهو ثوب أسود تغطي به المحد رأسها.
تسلب یعنی غم میں کالا لباس پہننا۔ وہی سلاب کہ عورت پہنتی ہے۔ وہی کالا لباس ہے کہ جس سے عزادار عورت سر ڈھانپتی ہے۔
الأفريقي المصري، محمد بن مكرم بن منظور (متوفاي711هـ)، لسان العرب،ج 1 ص 472 ـ 473، ناشر: دار صادر – بيروت، الطبعة: الأولى
Copied from KarbalaViews
.
.
سیاہ لباس پہننے کا جواز- سعید مجتبیٰ سعیدی
ایام عزا میں کالے لباس پہننے کی مشروعیت
شام میں حضرت عثمان بن عفان کی عزاداری برپا کرنا
شامیوں کا ایک سال تک حضرت عثمان کی عزاداری کروانا
شیعہ زعما بالعموم سیاہ پگڑی استعمال کرتے ہیں، اور وہ اپنی مخصوص محافل و مجالس میں سیاہ جبہ بالخصوص پہنتے ہیں۔ ماہ ِمحرم الحرام میں ان کی ایجاد کردہ بہت سی خرافات و بدعات ورسومات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ لوگ اس مہینہ کو بطور ِ سوگ مناتے اور ان کے عوام وخواص بالعموم سیاہ لباس پہنتے ہیں، ان کے بالمقابل اہل سنت علما و زعما جب ان کی بدعات کا ردّ کرتے ہیں تو اسی ضمن میں سیاہ لباس کی مذمت بیان کرتے ہوئے حد سے تجاوز کرجاتے اور اسے بالکل ناجائز قرار دیتے ہیں۔ اگر کوئی سُنّی آدمی عام دنوں میں ہی سیاہ لباس استعمال کرے تو اس پر شیعہ ہونے کی پھبتی بھی کس دی جاتی ہے یا ماہ ِمحرم سے قبل کوئی آدمی سیاہ لباس پہنے ہوئے ہو تو کہہ دیا جاتا ہے کہ ابھی شیعہ حضرات نے تو سیاہ لباس پہنا نہیں، تم نے ان سے پہلے ہی یہ پہننا شروع کردیا یا ماہ ِ محرم گزر چکا ہو تو کہتے ہیں کہ اب شیعوں نے سیاہ لباس اُتارا اور تم نے پہننا شروع کردیا۔ الغرض مختلف انداز سے اس لباس کے متعلق اظہارِ خیال کیا جاتا ہے۔ گویا سیاہ لباس کو شیعہ ہونے کی ایک علامت سمجھ لیا گیا ہے۔حالانکہ تعصب سے بالاتر ہوکر احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ احادیث ِ مبارکہ میں کہیں بھی سیاہ لباس پہننے کی ممانعت وارد نہیں بلکہ بہت سی احادیث سے اس کا جواز معلوم ہوتا ہے۔
عن عائشة أن النبي ﷺ لَبِس خمیصة سوداء فقالت عائشة : ما أحسنھا علیك یا رسول اﷲ؟ یشوب بیاضھا سوادك ویشوب سوادھا بیاضك، فثار منھا ریح فألقاھا، وکان تعجبه الریح الطیبة 1
”اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاہ اُونی چادر زیب ِتن کی، توانہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسولؐ! یہ آپ پر کس قدر سج رہی ہے!! اس کی سفیدی آپ کی سیاہی میں اور اس کی سیاہی آپ کی سفیدی میں خوب گھل مل گئی ہے۔ بعد میں اس میں سے ناپسند سی بو آئی تو آپ نے اسے اتار پھینکا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو محض اچھی بو پسند تھی۔”
عن عائشة قالت صُنِعت لرسول اﷲ ﷺ بردة سوداء فلبِسھا فلما عرق فیھا وجد ریح الصوف فقذفھا 2
”اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک سیاہ اُونی چادر تیار کی گئی۔ آپؐ نے اسے زیب تن فرمایا۔ جب پسینہ آیا تو آپؐ نے اس میں اُون کی ناگوار بو محسوس کی تو پؐ نے اِسے اُتار پھینکا۔”
عن عبداﷲ بن زید أن رسول اﷲ ﷺ استسقی وعلیه خمیصة سوداء
”عبداللہ بن زید ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز استسقا کے لئے تشریف لے گئے تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سیاہ چادر اوڑھے ہوئے تھے۔”3
عن جعفر بن عمرو بن حریث عن أبیه أن رسول اﷲ ﷺ خطب الناس وعلیه عمامة سوداء 4
”عمرو بن حریثؓ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیا ۔ اس وقت آپؐ کے سر پر سیاہ عمامہ تھا۔”
عن ابن عباس أن النبي ﷺ خطب الناس وعلیه عمامة دسماء 5
”ابن عباس ؓ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کوخطبہ دیا۔ اس وقت آپؐ کے سر پر سیاہ عمامہ تھا۔ یا ایسا عمامہ تھاجو تیل لگا ہوا تھا۔”
عن جابر بن عبد اﷲ أن النبي ﷺ دخل یوم فتح مکة وعلیه عمامة سوداء
”ابن عمرؓ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے روز مکہ میں داخل ہوئے تو اس وقت آپؐ کے سر پر سیاہ عمامہ تھا۔”6
عن ابن بریدة عن أبیه أن النجاشي أھدی للنبي ﷺ خُفَّین أسودین ساذجین فلبسھما ثم توضأ ومسح علیھما 7
”بریدہؓ کا بیان ہے کہ نجاشی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دو سادہ سیاہ موزے ہدیہ بھیجے۔ آپؐ نے اُنہیں پہن لیا۔ بعد میںوضو کیا تو ان پر آپ نے مسح کیا۔”
عن عائشة قالت خرج النبي ﷺ ذات غداة وعلیه مِرْط مُرَحَّل من شعر أسود 8
”اُمّ المومنین عائشہؓ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز صبح کو باہر اس حال میںتشریف لے گئے کہ آپؐ نے سیاہ اون کی بنی ہوئی چادر اوڑھ رکھی تھی جس پر پالان کی سی شکل بنی ہوئی تھی۔”
عن اُمّ خالد بنت خالد قالت:أُتي النبي ﷺ بثیاب فیھا خمیصة سوداء صغیرة فقال: من ترون أن نکسو ھذہ؟ فسکت القوم،فقال: إیتوني بأم خالد فاُتي بھا تُحْمَل فأخذ الخمیصة بیدہ فألبَسَھا وقال أبلي واخلقي،وکان فیھا علم أخضر أو أصفر،فقال: یا أم خالد ! ھذا سَنَاہْ، وسَنَاہ بالحبشیة حسن 9
”اُمّ خالدؓ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں کچھ کپڑے آئے۔ ان میں ایک چھوٹی سی سیاہ چادر بھی تھی۔ آپؐ نے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے کہ ہم یہ پہننے کے لئے کس کو دیں؟ لوگ خاموش رہے۔ تو آپؐ نے فرمایا: اُمّ خالد (بچی) کو میرے پاس لاؤ، اسے اُٹھا کر لایا گیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر لیکر اپنے ہاتھوں سے اُسے اوڑھائی اور فرمایا: اللہ کرے، اسے خوب استعمال کرو۔ اس چادر پر سبز یا زرد دھاریاں بھی تھیں۔ آپؐ نے فرمایا: اُمّ خالد! یہ کتنی اچھی ہے۔”
عن سعد قال: رأیت رجلا ببخارٰی علی بغلة بیضاء علیه عمامة خَزٍّ سوداء فقال کسانیھا رسول اﷲ ﷺ 10
”سعد کا بیان ہے کہ میں نے بخارا میں سفید خچرپر سوار ایک آدمی دیکھا۔ اس کے سر پر سیاہ عمامہ تھا۔ اُس نے بتلایا کہ یہ عمامہ مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پہنایا تھا۔”
عن الأشعث بن سلیم قال سمعت عمتي تحدث عن عمھا قال: بینا أنا أمشي بالمدینة إذا إنسان خلفي یقول:ارفع إزارك فإنه أتقی وأبقی فإذا ھو رسول اﷲ ﷺ، فقلت: یارسول اﷲ ! إنما ھي بُردَة مَلْحَاء قال: أما لك فيَّ اُسوة؟ فنظرتُ فإذا إزارہ إلی نصف ساقیه 11
”اشعث بن سلیم کا بیان ہے کہ میں نے اپنی پھوپھی جان سے سنا کہ وہ اپنے چچا سے بیان کرتی تھیں۔ اس نے کہا کہ ایک دفعہ میں مدینہ منورہ میں چلا جارہا تھا۔ اچانک میں نے سنا کہ کوئی آدمی میرے پیچھے کہتا آرہا تھا: اپنی چادر کو اوپر کرلو، اس سے کپڑا صاف رہے گا اور پھٹنے سے بھی محفوظ رہے گا۔ میں اِدھر متوجہ ہوا تو دیکھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسولؐ یہ ‘سیاہ چادر’ تو کام کاج کے وقت کی ہے یعنی اس میںتکبر والی کوئی بات نہیں۔ تو آپؐ نے فرمایا: کیا تمہارے لئے میرے عمل میں اُسوہ نہیں؟ میں نے دیکھا تو آپؐ کی چادر نصف پنڈلی تک تھی۔”
عن یونس بن عبید مولی محمد بن القاسم قال بعثني محمد بن القاسم إلی البراء بن عازب یسأله عن رأیة رسول اﷲ ﷺ ما کانت؟ فقال: کانت سوداء مُرَبَّعَة من نَمِرة 12
”یونس بن عبید مولیٰ محمد بن القاسم کا بیان ہے کہ محمدبن قاسم نے مجھے براء بن عازبؓ کی خدمت میں بھیج کر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے متعلق دریافت کیا کہ کیسا تھا؟ اُنہوں نے فرمایا: وہ اُونی کپڑے کا سیاہ و سفید لکیروں والا تھا۔”
عن الحارث بن حسان قال قدمت المدینة،فرأیت النبي ﷺ قائمًا علی المنبر وبلال قائم بین یدیه مُتقلِّد سیفا وإذا رأیة سوداء، فقلت: من ھذا ؟ قالوا: ھذا عمرو بن العاص قَدِم من غَزَاة 13
”حارث بن حسانؓ کا بیان ہے کہ میں مدینہ منورہ گیا۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ منبر پر کھڑے تھے اور بلالؓ گلے میں تلوار حمائل کئے آپؐ کے سامنے کھڑے تھے۔ اچانک میں نے ایک سیاہ جھنڈا دیکھا۔ تو میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے بتلایا کہ یہ عمروبن العاصؓ ہیں جو ایک غزوہ سے واپس آئے ہیں۔”
عن ابن عباس أن رأیة رسول اﷲ ﷺ کانت سوداء ولواء ہ أبیض 14
”ابن عباسؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا جھنڈا سفید اور چھوٹا علامتی جھنڈا سیاہ تھا۔”
ولم تر عائشة بأسا بالحُلِيّ والثوب الأسود والمُوَرَّد والخف للمرأة 15
”اور اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ عورت کے لئے احرام کے دوران زیورات، سیاہ لباس یا گلابی رنگ کا لباس اور موزے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتی تھیں۔”
مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب ِ ضرو رت مختلف مواقع پر سیاہ چادر، سیاہ عمامہ، سیاہ موزے اور سیاہ جھنڈے استعمال کئے۔ سیاہ چادر ایک صحابیہ کو عطا فرمائی، سیاہ عمامہ ایک صحابی کو عنایت فرمایا۔ نیز اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ نے احرام کے دوران عورت کے لئے سیاہ لباس پہننے میںکوئی حرج نہیں سمجھا۔ لہٰذا کسی قوم کی مشابہت یا سوگ سے ہٹ کر اگر سیاہ لباس استعمال کیا جائے تو شرعی طور پر اس میں نہ کوئی حرج ہے اور نہ اس کی ممانعت۔ واﷲ اعلم
حوالہ جات
1. صحیح ابن حبان، موارد الظمآن، باب في صفته
2. سنن ابی داؤد: 74 40 ‘صحیح’
3. سنن النسائی: 1507’صحیح’
4. صحیح مسلم: 1359
5. الشمائل للترمذي، باب ماجاء في صفة عمامة رسول اﷲ ﷺ ‘صحیح’
6. صحیح مسلم:1358
7. جامع ترمذی: 2820 ‘صحیح’
8. صحیح مسلم:2081
9. صحیح بخاری: 5823
10. سنن ابی داؤد: 4038’ضعیف’
11. الشمائل للترمذي، باب ماجاء في صفة إزار رسول اﷲ ﷺ
12. سنن ابی داود:1680’صحیح’
13. سنن ابن ما جہ:2816’حسن’
14. جامع الترمذي: 1681
15. صحیح البخاري: باب ما یلبس المحرم من الثیاب
.





.
سیدالشداءؑکی عزاداری میں سیاہ لباس پہننے کی فضیلت
شیخ عباس اسماعیلی یزدی
اس میں شک نہیں کہ تمام علماء ، صالحین ، مجتہدین اور مفکرین حضرات کی ہمیشہ یہ روش رہی ہے کہ جب انہیں غم مصیبت در پیش ہوتی تو اس پر انہوں نے سیاہ لباس زیب تن کیا اوراسی طرح معصومینؑ اور خصوصا حضرت سید الشہداءعلیہ السلام کے ایام غم میں تمام علماء اور مجتہدین کایہ طریقہ رہا کہ وہ اس عزاداری اور مصیبت عظمیٰ کے موقع پر سیاہ لباس پہنتے ۔
سلمان بن راشد نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ میں نے امام زین العابدین (ع) کو دیکھا کہ انہوں نے سیاہ عبااور قبا اوڑھ رکھی تھی جبکہ ان کا گریبان چاک تھا ۔
کافی :۴۴۹۴ ،وسائل :۳۴۵ ب۱۷ ملابس ح ۲ ، مستدرک :۳، ۲۱۰ ب۱۷لباس مصلی ح ۲ ، دعائم الاسلام : ۱۶۱۲ ح۵۷۶
اسی طرح شرع مقدس السلام میں بھی اس بارے یا اس روش کے متعلق کسی قسم کی ممنوعیت یا قدغن نہیں ملتی بلکہ اس بارے بہت ساری تاکید کے ساتھہ احادیث واردہوئی ہیں ۔ہم اس مضمون میں اس روش غم کے بارے کچھ احادیث جوصرف عزاداری آئمہ اطہار (ع) کے متعلق نقل ہوئی ہیں بطور دلیل پیش کرناچاہتے ہیں اور آخر میں ہم اس بارے بعض فقہا کے فتاویٰ بھی ذکر کریں گے جنہوں نے اس اہم پہلوپر فقہی بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ ایام عزاداری ، غم اور مصیبت میں سیاہ لباس پہننے کی ممانعت ہی نہیں ،بلکہ باعث ثواب ہے ۔
جب جنگ احد میں ۷۰ کے قریب مسلمان شہید ہوئے تو اس وقت مسلمان عورتوں نے جن میں حضرت ام سلمہ (س) بھی شامل تھیں ،سیاہ لباس پہن کر ان کے فرش غم میں شریک ہوئیں ۔ (۱)
۲۔ابونعیم اصفہانی نقل کرتے ہیں جیسے ہی امام حسین (ع) کی شہادت کی خبر حضرت ام سلمہ (س) کو ملی تو انہوں نےمسجدالنبی (ص) کے گنبد پر سیاہ پارچہ لپیٹ دیا اور خود بھی سیاہ لباس پہن لیا (۲)
۳۔ اسماء بنت عمیس نے جنگ موتہ کے بعد اپنے شوہر (حضرت جعفرطیارؓ ) کی خبرشہادت سن کر سیاہ لباس پہن لیا (۳)
۴۔ حضرت امام زین العابدین (ع) کے فرزندوں میں سے ایک نقل کرتے ہیں کہ حضرت اباعبدللہ الحسین (ع) کی شہادت کے بعد نبی ہاشم کی خواتین نے سیاہ اور پرانےلباس پہن لئے اور کبھی بھی سردی اور گرمی کی پروانہ کرتیں جبکہ ہمارے والدعلی بن الحسین (امام سجادع) ان خواتیں کے لئے کھانا تیار کرتے ۔ کیونکہ وہ اکثر عزاداری میں مشغول رہتی تھیں ۔(۴)
۵۔ جب یزید لعین نے اہلبیت (ع) کے افرادکو اپنے دربار میں طلب کیا اور امام سجاد (ع) سے کہا کہ آپ شام میں رہنا چاہیں یا پھر مدینہ واپس چلے جائیں اس میں آپ کو اختیار ہے تو اس وقت اہلبیت (ع) کے ہر فرد نے یہ کہا ہمیں ہر چیز سے پہلے عزاداری سیدالشہداء پسندہے تاکہ ہم امام مظلوم (ع) پر گریہ کرسکیں ۔ یزید نے کہا ان کیلئے ایک گھر آمادہ کیا جائے ۔ اجازت کا ملناتھا کہ نبی ہاشم اور قریش کے تمام افراد جوکہ یزید لعین کی قید میں تھے سب نے سیاہ لباس پہن لئے اور سات دن تک مسلسل عزاداری کرتے رہے (۵)
۶۔ جب امام مظلوم حضرت سجاد (ع) نے جامع دمشق (مسجداموی ) میں جوکہ یزیدلعین کا دربار تھا ، خطبہ ارشاد فرمایا تو اس وقت ایک شخص منہال اٹھ کھڑاہوا اور امام (ع) سے مخاطب ہو کرکہا کہ آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ آپ فرزندرسول (ص) ہیں کیا رسول خدا (ص) کا بیٹا ؟ اور اس کی یہ حالت ؟ جیسے کہ آپ نظر آرہے ہیں ۔ امام(ع) نے فرمایا کہ میرا حال ایسا کیوں نہ ہو کہ جس کا باپ پیاسا قتل ہوجائے اور اس کے اہل وعیال کو قیدی بنالیا جائے تو اس کا حال کیسا ہوگا ؟۔ اسی لئے تو میں نے اور میرے خاندان کے پاک افراد نے عزاداری کے لباس پہن رکھے ہیں ۔ کیونکہ ہمیں نئے لباس پہن کر کیا کرنا ہے اب نئے لباس پہننےکا کیا فائدہ ۔ ہم کیسے نئے لباس پہن سکتے ہیں ؟ ۔ (۶)
۷۔ سلمان بن راشد نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ میں نے امام زینالعابدین (ع) کو دیکھا کہ انہوں نے سیاہ عبااور قبا اوڑھرکھی تھی جبکہ ان کا گریبان چاک تھا ۔(۷)
۸۔نعمان بن بشیر نے جب مدینہ میں اما م حسین (ع) کی خبر شہادت کے لئے منادی کی تو مدینہ کے سب لوگوں نے گریہ کیا اور ساتھہ ہی سیاہ لباس پہن لئے (۸)
۹۔ سلمان بن ابی جعفر جو کہ ہارون الر شید کا چچازاد بھائی تھا اس نے امام موسی کاظم (ع) کے جنازے میں سیاہ لباس پہن رکھاتھا (۹)
۱۰۔ سیفبن عمیرجوکہ امام صادق (ع) اور امام موسی کاظم (ع) کے بزرگ صحابی ہیں وہ اپنے سوگنامہ میں اس طرح لکھتے ہیں والبس ثیاب الحذن یوم مصابہ مابین اسود حالک اواخضر
یعنی اس دن (روزعاشورا ) لباس عزا کے طور پر یا سیاہ لباس پہنو یاگہرے سبز رنگ کا انتخاب کرو (۱۰)
ان دس واقعات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ السلام کے شروع میں واضح طور پر یہ ثابت تھا کہ السلام کی پہلی صدی (۱۱)میں آجکل کی طرح مصیبت اور عزاداری پر لوگ کالا لباس پہنتے تھے یا پھر گہرارنگ ہوتا یا ہلکا گہرا، سبزی مائل سیاہ لباس بھی لوگ پہنتے تھے
پہلے اور دوسرے واقعے میں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ السلام کی بزرگ خاتون جس نے پیغمبرخدا (ص) کے ساتھہ سات سال گزارے اور ۵۰سال تک آئمہ معصومین (ع) کے ساتھہ مانوس رہیں اور انہیں قریب سے دیکھا اور اسی طرح امام حسین (ع) کے مدینہ چھوڑنے کے موقع پر وہاں موجود تھیں اور جدائی کے مناظر انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ، امام حسین (ع) انہیں مادر کہہ کر پکارتے تھے
وہ اس طرح سے عزاداری کرتی ہیں گویا ان کے اس اقدام کو آئمہ طاہرین (ع) اور معصومین کی تائید حاصل تھی اور انہیں یہی طریقہ بتایا گیا تھا ان کے اس عمل کو سیرت اور سنت قراردیا جاسکتا ہے اس کے علاوہ اس کے بارے کوئی دوسری رائے نہیں ۔
تیسرے واقعے میں اسماء بنت عمیس ہیں جنہوں نے کئی سال حضرت زہرا (س) اور حضرت امیرالمو منین (ع) کے گھر پر گزارے ہوں اور ان سے زندگی گزارنے کا ادب سیکھا ۔ ان کا طریقہ بھی ہمارے لئے نمونہ عمل سے کم نہیں ہو سکتا ۔
آئیے چوتھے واقعے میں دیکھیں حضرت زینب (س) جوکہ عقیلہ نبی ہاشم کے نام سے معروف ہیں اور انہیں ثانی زہراء بھی کہا جاتا ہے اور کربلا کی وہ شیردل خاتون جو، ان خواتین میں شامل ہے جنہوں نے سیاہ لباس پہنا ئی مسئلہ بھی ہمارے لئے نہ فقط سیرت اور نمونہ عمل ہے ، بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے
خاص طور پر اس لئے کہ یہ السلام کی وہ خاتون جنہوں نے حضرت امام سجاد (ع) کا زمانہ دیکھا اور ان سے راہنمائی لیتی رہیں اور حضرت امام زین العابدین (ع) ان کیلئے کھانے کا اہتمام بھی کرتے جبکہ وہ عزاداری میں مصروف ہوتیں ۔
اور امام (ع) انکے لباس پہننے کو دیکھتے تھے اور کبھی بھی امام نے انہیں نہیں روکا ۔ امام معصوم (ع) کے سامنے کیے گئے اس عمل کو شرعی حجت کے طور پر بھی پیش کیا جا سکتا ہے اور اس عمل کی مطلوبیت کو ثابت کیا جاسکتا ہے ۔
پانچویں مرحلے میں دیکھیں تو یہ مسئلہ بھی چوتھے مرحلے کی طرح شرعی حیثیت رکھتا ہے
آئیں دیکھیں چھٹے مرحلے میں جہاں سیاہ لباس کی وضاحت تو نہیں ہوئی لیکن اس عزاداری کا لباس صاف ظاہر ہے ، ثابت ہوتا ہے
ساتویں مرحلے میں کالے لباس کی یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ امام بزر گوارنے اپنے جدامجد کے غم میں سیاہ لباس پہن رکھا تھا ورنہ کالا لباس پہننا واجب ہوتا ، لیکن اس گفتگومیں جو جملے اداکیے اخیاری تھے یعنی جس کا باپ قتل ہو جا ئے اس کی حالت کیسی ہونی چاہیے ۔
ان بیانات کی روشنی میں یہ ثابت ہوتاہے کہ السلام کے شروع میں اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی مصیبت اور غم پر سیاہ لباس پہننا نہ فقط جائز تھا بلکہ لوگ اس کو امام (ع) کیتا ئید کی روشنی میں ایک شرعی حجت سمجھتے تھے ۔ جیسا کہ امام کے قول اور فعل سے اس بارے روایات نقل کی جارہی ہیں
۱۔ اصبغ بن نباتہ نے کہتے ہیں کہ میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد مسجدکوفہ داخل ہوا میں نے دیکھا کہ حضرت امام حسنؑ اورامام حسینؑ نے سیاہ لباس ہین رکھا تھا (۱۲)
۲۔عبدللہ ابن عباس حضرت امیرالمومنینؑ کی شہادت کے بعد حضرت کے گھر سے باہر آئےاور لوگوں سے کہا کہ امیر المومنینؑ شہید ہو گئے ہیں اور انہوں نے اپناایک جانشین مقرر کیا ہے اگر آپ اجازت دیں تو میں انہیں باہر لے آتا ہوں اس سلسلے میں کسی کوکسی پر کوئی اجبار نہیں یعنی ان کی بیعت کرنے میں ہر ایک آزاد ہے لوگ گریہ کرنے لگےاور لوگوں نے کہا کہ انہیں باہر لے آئیں ۔ امام حسن(ع) جنہوں نے سیاہ لباس پہن رکھاتھا گھر سے باہر تشریف لائے اور لوگوں سے مخاطب ہوئے اور ایک خطبہ ارشاد فرمایا (۱۳)
۳۔ حضرت رسول پاک (ص) کا جب وصال قریب ہو تو انہوں نے سیاہ لباس پہن لیا تھا اس بارے حضرت امام صادق(ع) فرماتے ہیں جب پیغمبرالسلام (ص) کا اس دنیا سے انتقال ہواہے تو انہوں نے سیاہ لباس پہن رکھا تھا ۔ حضرت نے صبح کی نماز مسجد میں پڑھائی اور اس کے بعد خطبہ ارشاد فرمایا (۱۴)
۴۔حضرت امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد ایک بہشتی فرشتہ سمندر پراترااور اس نے اپنے پروں کو سمندر پر پھیلا دیا اور ایک زور دار آواز میں انددی ’’ کہ اے دریائی مخلوق غم میں غرق ہو جاؤ اور اپنے اوپر سیاہ خول چڑہالو کیونکہ آج فرزند رسول (ص) کو شہید کر دیا گیا ہے ،،(۱۵)
۵۔ حضرت سکینہ جو امام حسین (ع) کی دختر ہیں یزیدلعین کے دربار میں اسے مخاطب ہو کر کہا کہ کل رات میں نے دیکھا کہ جنت کے خادم میرا ہاتھہ پکڑ کر مجھے بہشت کے محلات میں لے جا رہے ہیں اور ان محلات میں پانچ نورانی خواتیں دیکھیں اور ان میں سے ایک زیادہ نورانی معلوم ہوتی تھیں لیکن ان کے بال بکھرے ہوئے ہیں میں نے دیکھا کہ اس نے سیاہ لباس پہنا ہوا تھا اور اس کے ہاتھہ میں ایک خون آلودہ کرتہ تھا (حضرت سکینہ خاموش ہو جاتیں ہیں ) پھر کہتی ہیں کہ وہ حضرت زہرا (س) تھیں ۔ (۱۶)
۶۔ امام حسن عسکری (ع) نے ۹ ابیع الاول کے دن کے بارے بتایا ’’ یوم نزع السواد ،،’’ وہ ایسا دن ہے جس دن سیاہ لباس اتاردیا جائے ،، (۱۷)
ان چھ مقامات پر ہم نے دیکھا کہ پہلی اور دوسری روایت میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ امام حسن مجتنی (ع) اور امام حسین (ع) نے امیر المومنین (ع) کی شہادت پر سیاہ لباس پہن لیا تھا ۔ دو ایسی شخصیات ہیں جوروئے زمیں پر حجت خدا ہیں لٰہذا اعمال کی روشنی میں دیکھا جائے تو ان کی اتناع کرنے کار جحان پایا جاتا ہے ۔ تیسری روایت میں حضرت رسول خدا (ص) کے سیاہ لباس پہننے کی علت گرچہ معلوم نہیں ہوتی اور اس کی وضاحت نہیں کی گئی لیکن اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اپنے بعد ہونے والے واقعات کی روشنی میں سیاہ لباس پہنے ہوئے تھےکیونکہ انہیں معلوم تھا میرے جانے کے بعد حضرت زہراء(س) یتیم ہو جائیں گی اور ان کے دروازے پر لوگ آگ اور پتھر لے آئیں ان پر دروازہ گرادیا جائے گا اور ان کامحسن شہید ہو جائے گا ۔ مسلمانوں کو اس برے کام سے روکنے اور اپنے بعد آنے والے حالات کی خاطر سیاہ لباس پہن کر بتانا چاہیے تھے کہ آگاہ رہو میری اہلبیت (ع) کا خیال رکھنا
چوتھے مرحلہ میں جو بیان کیا گیا ہے کہ (بہشتی فرشتے نے اپنے بال سمند ر پر پھیلا ) اگر چہ اس سے کالا لباس پہننا ثابت نہیں لیکن اس سے لباس عزا پہننا ثابت ہے اور روز روشن کی طرح عیان ہے
پانچویں مرحلے پر دیکھیں تو حضرت سکینہ کا خواب جو کہ ایک سچا خواب تھا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت زہراء (س) بہشت میں سیاہ لباس پہنے ہوئے اپنے بیٹے کے غم میں شریک ہیں ۔ یعنی یہ عزاداری صرف دنیا میں ہی نہیں بلکہ عالم برزخ میں بھی برپا ہے
چھٹے مرحلے میں امام حسن عسکری (ع) نے اس حدیث کو اپنے جد امجد حضرت رسول اکرم ؐ سے روایت (۱۷) کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایام عزا میں سیاہ لباس پہننے اور ایام جشن وسرور میں سیاہ لباس کو اتارنے کے معاملے میں حضرت رسول اکرمؐ نے بھی تائید فرمائی ہے
سیاہ لباس کا پہننا فقہاکی نظرمیں
الف: بزرگ عالم ربانی علامہ مرحوم بحرانی لکھتے ہیں کہ سیاہ لباس پہننے کی کراہت والی روایات کے باوجود امام حسینؑ کے ایام عزا میں سیاہ لباس زیب تن کرنے کو مسثنی قرار دینے میں کوئی مشکل نہیں کیو نکہ مستفیضہ روایات موجود ہیں جن میں شعائر اللہ (جیسا کہ امام حسینؑ کی عزاداری بھی شعائر میں سے ہے ) تعظیم اور اسکے اظہار کرنے کا حکم وارد ہواہے ،ہم اوربہت سی روایات کا سہارا بھی لیتے ہیں جن سے سیاہ لباس پہننا اور سیاہپوش ہو نے کی تائید ملتی ہے کہ علامہ مجلسی نے برقی سے کتاب محاسن میں امام سجاد (ع) کے بیٹے عمر سے ایک روایت نقل کی ہے (۱۹)
ب۔ مرحوم علامہ نوری نے بھی امام حسین (ع) کی عزاداری میں کالا لباس پہننے کی روایات نقل کی ہیں اور فرمایا ہے کہ یہ کراہت سے استثنا ہے بلکہ روایات سے ثابت ہے کہ امام حسینؑ کی عزاداری میں سیاہ لباس پہننا بہتر ہے جیسا کہ بزرگان کی سیرت ع روش بھی اس کی تائید کرتی ہے (۲۰)
ج :۔ بزرگ عالم علامہ مرحوم کاظم یزدیؓ ، مو‘ لف عروۃ الو ثقی نے اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے :’’ جی ہاں سیاہ لباس پہننا حضرت رسول (ص) اور آئمہ ھدیؑ کی خوشنودی کا باعث ہے اور بعض روایات سے اس کا مطلوب و مستحب ہونا ثابت ہوتا ہے ۔لٰہذا عزاداری اور غم میں اس کو استثنا حاصل ہے ۔ یہ (سیاہ لباس پہننا ) ایک قسم کا غم منانے کے برابر ہے اور اظہار ہمدردی اور غم میں شریک ہونے کے مترادف ہے
د:، علامہ مرحو م مامقانی اس بارے مفصل بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں جو چیزیں ذکر ہوئیں ہیں ان سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ سیاہ لباس کا پہننا نہ صرف مکروہ نہیں بلکہ آئمہ اطہارؑ کے ایام عزا میں پہننا موجب ثواب ہے اور بطور مطلق مومنین کی علامت ہے
سیاہ پوشی کے جواز پر بعض فقہا ء کے واضح فتاویٰ کے علاوہ علماء ،مراجع تقلید اور فقہاء کی یہ روش رہی کہ اول محرم سے اواخر صفر تک سیاہ لباس پہنتے اور کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے ان دوماہ کے اندر سیاہ کے علاوہ کوئی اور لباس پہنا ہو
نیز بعض بزرگ علماء نے اس سلسلے میں مستقل طور پر معتبر کتابیں لکھی ہیں ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں
۱۔ ارشاد العباد الی ۱ لاستحباب لبس السواد علی سید الشہد اء والائمتہ الامجاد
مئولف ۔ سید جعفر طباطبائی : صاحب ریاض کے پوتے ، متوفی ۳۱۲ھ چاپ ۱۴۰۴ھ ۔قم
۲ ۔تبین الر شادفی استحباب لبس السواد وعلی الائمتہ الامجاد ،، مئولف سید حسن صدر ، متوفی ۱۳۵۴ھ ۔قم ش(۲۱)
۳۔ سیاہپوشی در سوگ ائمہ انوار ، مولف : علی ابوالحسنی منزر، معاصر ، چاپ ۱۳۷۵: ھ ،ش۳۹۲صفحات ،قم ۔ اسی کتاب میں مختلف مسائل کے علاوہ سینکڑوں بزرگ مجتہد ین وصاحب حدایق، صاحب عروۃ سے لیکر آج تک لکھی گئی توضیح المسائل ، استفتائات اور دوسری فقہی کتب سے اسی مسئلہ سے متعلق فتاویٰ کو نقل کیا ہے ۔اس کے علاوہ کچھ ایسی کتابیں بھی تالیفکی گئیں ہیں جن میں فقہا ئے گزشتہ اور دوران حاضر کے فتاویٰ خصوصیت کے ساتھہ درج ہیں جن پر مراجع تقلید کی مہراور دستخط بھی موجود ہیں ۔
۴۔ عزاداری سید الشہد اء علیہ السلام ، مولف : سبط حسین زیدی ۔ معاصر م چھاپ ۱۴۱۵ھ ق ۲۱۲صفحات پر مشتمل اس کتاب میں سینکڑوں علماء کے فتاویٰ سیاہ لباس اور اباعبدللہ الحسین (ع) کی عزاداری سے متعلق لکھے گئے ہیں اسی طرح دوسری کتب بھی موجود ہیں جن میں حضرت امام حسین (ع) کی عزاداری اور سیاہ لباس کے بارے استنباط اور دلیل کے ساتھہ ذکر آیا ہے
۵۔ عزاداری سید الشہد اازدیدہ گاہ مر جعیت شیعہ مولف : سید سبط حسین زیدی ، معاصر چھاپ۱۴۱۵ ھ ش۲۴۰ صفحات پر مشتمل یہ کتاب قم سے چھپی ہے ،اس کتاب میں بھی سینکڑوں مجتہدین اور علماء کرام کے فتاویٰ کو یکجا کیا گیا ہے جواس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ سیاہ لباس عزاداری امام حسین (ع) میں پہننا جائز ہے ۔ اور بھی نئی کتب موجود ہیں جن میں امام حسین (ع) کی عزاداری کے دوران کالا لباس پہننے کے متعلق روایات نقل ہوئی ہے
۶۔ مجمع الدررفی مسائل اثناعشر
مولف مرحوم آیت اللہ حاج شیخ عبد اللہ مامقانی (متوفی ۱۳۵۱ھ ش چاپ سنگی )
۷۔ الدعاۃ الحسینیتہ
مولف مرحوم حاج شیخ محمد علی نخجوانی ( متوفی ۳۳۴ھ) اس کتاب میں مختلف علماء کے فتاویٰ کو کالے لباس پہننے کے متعلق جمح کیا گیا ہے اور یہ کتاب ۲۴۰ صفحست پر مشتمل ہے
۸۔ نجاۃ الامتہ فی اقامتہ العزاء علی الحسین (ع) والائمتہ مولف : حاج سید محمد رضا حسینی فحام ، معاصر ، چھاپ ۱۴۱۳ھ ق) اس کے علاوہ دوسری کتاب (احسن الجزاء فی اقامتہ العزاء علی سید الشہد اء چھاپ ۱۳۹۹ ھ ،ق قم ) میں بھی مولف نے کافی غور و غوض کیا ہے اور اس پر شرعی دلائل دیئے ہیں ۔کتب مزکورہ کے علاوہ دسیوں کتب موجود ہیں جن میں ’’سیاہ لباس کی کراہت ،، کو مشکوک ثابت کیا گیا ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ سیاہ لباس مکروہ ہونے پر کوئی دلیل موجود نہیں اس لئے کہ (الف ) سیاہ پہننے پرکسی قسم کا اجماع ثابت نہیں (ب) اولاً شہرت فتوائی کی حجیت ثابت نہیں ثانیاً اگر کوئی قاتل بھی ہو تو مستند فتاویٰ کے مقابلے میں تو اس کی حجیت کا کوئی بھی قائل نہیں ہے
(ج) سیاہ لباس کی کراہت سے متعلق سب روایات مرسلہ اور ضعیف ہیں
(د) ان روایات (کراہت والی ) سے جن علماء نے استفاد کیا ہے وہ ۔’’ تسامح درادلہ سنن ،، کے عنوان سے ہے جب کہ ضعیف ۔ سند (ان کی سند کا ضعیف ہونا ) اس کا جبران (کمی کو پورا) نہیں کر سکھتا ۔
(ز) باالفرض اگر سند کو صحیح تسلیم کربھی لیں تو کراہت پر دلالت کے لحاظ سے کمزور ہیں کیونکہ ان کو کسی خاص مقام کے لئے علت کے طور پر بیان کیا گیا ہے مگر عزاداری سید الشہد اء (ع) کو استثنا ء حاصل ہے کیونکہ عزاداری کے ایام میں کالا لباس پہننا خود ایک عزاء کی علامت ہے اور اس کابے حد ثواب ہے
ان روایات میں سیاہ لباس کو فرعون اور فرعونیوں کا لباس بیان کیا گیا ہے جس سے زیادہ ۔ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر فرعون وقت کے تشخص و شعار کے ساتھہ ہم آہنگی کی نیت سے ہوتو مکروہ ہے نہ کہ مطلق کالے لباس کا پہننا ،
اس قسم کی روایات میں حتیٰ کہ امام صادقؑ سے روایت ہے کہ جس میں آپ نے فرمایا :’ میں اسے پہنتا ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ یہ لباس اہل جہنم کاہے ،، ان سب روایات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایات در حقیقت جو نبی عباس اور اس دور کے ظالم حکمرانوں کی مخالفت اور ان پر اعتراض کے تانظر میں بیان ہوئیں کیونکہ اس زمانے میں سیاہ لباس ان کا تشخص اور ان کی پہچان تھا اور معصومینؑ چاہتے تھے کہ مومنین کو ان کے دائرے سے دور رکھیں داودرقی کہتا ہے ، کہ حضرت امام صا دق(ع) سے بعض شیعیان امام (ع) نے یہ سئوال کیا جبکہ امام )ع) نے سیاہ عبا ، عمامہ اور سیاہ رنگ کا جوتا پہن رکھا تھا ۔ امام (ع) نے اپنی عبا کے دھاگے کو پکڑ کر کہا کہ دیکھیں یہ سیاہ رنگ کا لباس ہے آپ اپنے دلوں کو سیاہ نہ کر اب جودل میں آئے پہن لیتا ۔ (۲۲) یعنی امام صادق (ع) ایک طرح سے یہ بات سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آپ اپنے دل ہماری محبت سے نورانی کریں ہمارے دشمن کی باتوں میں آکر سیاہ دل نہ ہوجانا ۔اب اس صورت میں جس قسم کے رنگ کا لباس چاہیں پہن سکتے ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر منع والی روایات کو تسلیم بھی کر لیں تودر حقیقت سیاہ لباس پہنے سے منع کرنے کا مقصد نبی عباس کے خلاف احتجاج کے طور پر تھا چونکہ انھوں نے آل فرعون کی پیروی کی نیت سے اس لباس کو اپنا شعار قرار دیاتھا ۔ لٰہذا منع کرنے سے نبی عباس سے دور رکھنا مقصود تھا نہ کہ حکم شرعی کو بیان کرنا
حوالہ جات
۱۔ سیرۂ ابن ہشام : ۱۵۹۳
۲۔عیوالاخبارازعمادالدین قرشی ۱۰۹
۳۔ مجمع الزوائد ھیشمی:۱۶۳
۴محاسن برقی ، ۴۲۰ح ۱۹۵ ، بحارالانوار : ۱۸۸۴۵ وج۸۴۸۲ وسائل : ۲۳۸۳ ب ۱۴۷ زدفن ح۱۰
۵۔منتخب طریحی : ۴۸۲۲ ، بحاالانوار : ۱۹۶۴۵ مستدرک :۳ب ۱۴۸ احکام ملاپس ح ۳۱، مقتل ابی مخنف ۲۲۰
۶۔ متقل ابی مخنف ، ۲۱۶ ناایخ التورایخ امام سجادؑ : ۲۹۳
۷۔ کافی :۴۴۹۴ ،وسائل :۳۴۵ ب۱۷ ملابس ح ۲ ، مستدرک :۳، ۲۱۰ ب۱۷لباس مصلی ح ۲ ، دعائم الاسلام : ۱۶۱۲ ح۵۷۶
۸ ۔مقتل ابی مخنف ۲۲۲،
۹۔بحار الانوار ،۴۸،۲۲۸
۱۰۔ منتخب طریحی ۔۲ ۴۳۷۔
۱۱۔ابن کثیر نے الھدایہ والنہایہ کی جلد نمبر ۱۱ کے صفحہ پر یوں لکھا ہے اور اس طرح تاریخ عزاداری امام حسین علیہ السلام کی مختصر تاریخ کے صفحہ نمبر ۲۵۲ پر بھی یہ تحریر درج کی ہے سن ۳۵۲ ہجری میں معزالدولہ احمدبن بویہ نے حکم دیا کہ محرم کے پہلے عشرے میں بغداد کےتمام بازار بند کردیے جائیں اور سب لوگ سیاہ لباس پہن کر نوحہ خوانی عزاداری اور اپنے سر اور صورت پر ماتم کرتے ہیں ہوئے جلوس کی صورت میں حرم کاظمین شریفین میں داخل ھو کر حضرت امام موسی کاظم اور حضرت امام محمد تقی کی بارہ گاہ میں تعزیعت پیش کریں
۱۲۔ آئمہ نور کے سوگ نامہ میں کے صفحہ ۲۳۳ میں سیاہ پوشی کے متعلق آیۃ اللہ مامقانی کے رسالہ مجمع الدرر سے نول کی گئی عبارت موجودہ ہے
۱۳۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ۱۶،۲۲،مجمع الزوائد۔۹،۱۲۶
۱۴۔ بصائر الدرجات ،۳۰۴ب۱۲ج۱۰
۱۵۔ بحار الانوار،۶۵،۲۲۱،کامل الزیارات،۶۷،ب۲۱،ح۳،مقتل خوارزمی،۱،۶۲،ف،۸
۱۶۔ بحار الانوار۴۵،۲۲۱، مستدرک،، ۳،۳۲۷، منتخب طریحی،۲،۴۷۹،
۱۷۔ مستدرک،۳،۳۲۶، احکام ملاپس،ح۲۰،المختصر،۵۴،
۱۸، بحار الانوار،۹۸،۳۵۲
۱۹۔الحدائق الناضر،۷،۱۱۸،
۲۰۔ مستدرک وسائل،۳،۳۲۸،
۲۱،الزریعہ،۳،۳۳۳،
۲۲، وسائل،۴،۳۸۵،از لباس مصلی،ح
.
.
اہلسنت کے ہاں مسلم ہیں کہ کالا لباس رسول اللہ پہنتے تھے اور خود اہلبیت ع بھی پہنا کرتے تھے۔
احمد بن حنبل نقل فرماتے ہے:
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمِيصَةٌ سَوْدَاءُ حِينَ اشْتَدَّ بِهِ وَجَعُهُ
عائشہ کہتی ہے کہ رسول اللہ ص جب شدید درد و الم سے دوچار تھے تو آپ نے کالا لباس اوڑھا ہوا تھا۔
حوالہ: مسند احمد، جلد ٤٣ ص ٢٧٠
ذھبی اپنی کتاب میں نقل کرتے ہے:
عاصم بن بهدلة، عن أبي رزين، قال: خطبنا الحسن بن علي وعليه ثياب سود وعمامة سوداء.
ابو رزین فرماتے ہے کہ امام حسن ع نے ہمارے سامنے خطبہ دیا جب کہ وہ کالا لباس اور کالا عمامہ پہنے ہوئے تھے
حوالہ:سير أعلام النبلاء جلد ٣ ص ٢٧٢
المحاسن للبرقی جلد ٢ ص ٤٢٠ میں روایت منقول ہے:
عنه، عن الحسن بن طريف بن ناصح، عن أبيه، عن الحسين بن زيد، عن عمر بن على بن الحسين، قال: لما قتل الحسين بن على (ع) لبسن نساء بنى هاشم السواد والمسوح وكن لا يتشتكين
.
.
احمد حنبل اپنی مسند میں لکھتا ہے کہ:
عن أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ قالت لَمَّا اصيب جَعْفَرٌ أَتَانَا النبي صلى الله عليه وسلم فقال أمى البسي ثَوْبَ الْحِدَادِ ثَلاَثاً ثُمَّ اصنعي ما شِئْتِ.
اسماء بنت عميس کہتی ہے کہ جب جعفر طیار شھید ہوئے تو رسول خدا نے مجھے فرمایا کہ تین دن کالا لباس پہنوں اور اس کے بعد جو دل ہے کروں۔
أحمد بن حنبل أبو عبدالله الشيباني، (متوفاي241) مسند، ج 6 ص 438 ح 27508 ، ناشر: مؤسسة قرطبة مصر.
معنی حداد :
ابن منظور اس بارے میں کہتا ہے کہ:
والحِدادُ: ثياب المآتم السُّود. والحادُّ والمُحِدُّ من النساء: التي تترك الزينة و الطيب؛ وقال ابن دريد: هي المرأَة التي تترك الزينة والطيب بعد زوجها للعدة. حَدَّتْ تَحِدُّ وتَحُدُّ حدّاً وحِداداً، وهو تَسَلُّبُها على زوجها.
حداد ماتم کا کالا لباس ہے۔ حاد و محد وہ عورت ہے جو بناؤ سنگھار کو ترک کرتی ہے۔
ابن درید کہتا ہے کہ؛
حاد و محد وہ عورت ہے جو اپنے شوھر کے مرنے پر بناؤ سنگھار کو ترک کرتی ہے۔ حدت، تحد اور حداد کالا لباس ہے جو بیوی شوھر کی موت پر پہنتی ہے۔
ابن منظور الأفريقي المصري، محمد بن مكرم الوفاة: 711 ، لسان العرب ج 3 ص 143، دار النشر: دار صادر- بيروت، الطبعة: الأولى.
یہ حدیث صحیح ہے علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے تفصیل کے لئے دیکھئے : سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها :7/ 684 رقم ۔3226
جامع المسانید
.
.
.

















.
.
محرم کا چاند نظر آتا ہے اور مخالفین شیعہ کے اعتراضات شروع ہوجاتے ہیں ۔ چنانچہ اس ضمن میں کتب تشیع سے بعض روایات کو نقل کیا جاتا ہے کہ جو اس کے نہ پہننے کی طرف تشویق دلاتی ہے۔ آئے اس کا جواب دیتے ہیں۔ پھر اس کی مشروعیت پر کلام کیا جائے گا.







علل الشرائع : و بهذا الاسناد عن محمد بن احمد باسناده يرفعه إلى ابى عبد الله قال : كان رسول الله صلى الله عليه وآله يكره السواد إلا في ثلاثة العمامة والخف والكساء ۔۔ امام صادق ع کی روایت کہ رسول تین موارد کے علاوہ کالے کپڑے کو مکروہ جانتے تھے ( من لايحضره الفقيه ج١ ص٢٥١ ، الکافی ج٣ ص٤٠٣ ، علل الشرائع جلد٢ ص ٢٤٧ ) 







حوالہ : [ علل الشرائع – جلد٢ – ص ٣۴٧ ]

حوالہ : [ رجال الكشي – الرقم ٨٨ ، الكافي – جلد١ – صفحہ ۴٦٩ ]

حوالہ : [ المحاسن – جلد ٢ – صفحہ ۴٢٠ ]

حوالہ : [ الكافي – جلد ٦ – صفحہ ۴۵٢ ]
اگر سیاہ لباس استعمال کیا جائے تو شرعی طور پر اس میں نہ کوئی حرج ہے اور نہ اس کی ممانعت ہے ۔نبی ﷺ سے سیاہ (کالے ) رنگ کا لباس پہننا ثابت ہے ، بلکہ سنت رسول ہے ۔ رسول پاک ﷺ نے لباس پہننے کی اجازت دی اور اہلبیت کا بھی کالا لباس پہننے کا جواز کتب اہلسنت سے ملتا ہے

حواله : [ سير أعلام النبلاء – الجزء الثالث – ص ۲٦۷ ]

حواله : [ فضائل الصحابه – الجزء الاول – ص ۷۴٣ , ۷۴۴ ]

حواله : [ کتاب تہذیب اللغة – الجزء الثانی عشر – ص ۴٣٦ ]

حوالہ : [ المسند احمد – الجزء الثامن عشر – ص ٥٥۸ ]

حوالہ : [ مسند ابن الجعد – جلد الاول – ص ۹۷٣ , ۹۷۴ ]








