کالے کپڑے پہننے کی مذمت پر موجود روایات کا جواب

*کیا کالے کپڑے پہننا حکم رسول اللہ ص ہے* ⁉️
تحریر و تحقیق : *سید عدنان نقوی ، قائم علی نجفی*
.
✴️ہر سال کی طرح اس سال بھی ناصبی حضرات یہ اعتراض کرتے ہیں کہ حالت غم میں کالے کپڑے پہننا کہا لکھا ہے ⁉️
☑️اگر یہ ناصبیت کا پردہ آنکھوں سے ہٹا کر اپنی ہی کتابوں میں دیکھ لیں تو ہر اعتراض کا جواب خود انہی کی کتابوں میں لکھا ہے بس شوق ہے اعتراض کرنا اور جب شیعان حیدر کرار کی طرف سے منہ توڑ جواب ملتا ہے تو پھر بکواس کرتے ہیں اور بڑوں کی سنت پر عمل کرتے ہوئے بھاگ نکلتے ہیں….
❇️آج اس اعتراض کا جواب بھی انہی کی کتابوں سے دیکھاتے ہیں کہ کہا کہا لکھا ہے ⁉️
🔴اور کس نے خود حکم دیا تھا کہ حالت غم میں کالے کپڑے پہنو… اور یہ کس کی سنت ہے
1️⃣:سیر أعلام النبلاء میں شمس الدين ذہبی نے لکھا ہے کہ :
♦️خطبنا الحسن بن علي، عليه ثیاب سود و عمامة سوداء
✍️مفہومی ترجمہ :(جب امام علی ع دنیا سے چلے گئے تو پھر) راوی کہتا ہے کہ ہم سے حسن بن علی ع نے خطاب کیا، اور وہ اس حالت میں تھے کہ انہوں نے سیاہ کپڑے اور سیاہ عمامہ پہنا ہوا تھا.
📚حواله :سير أعلام النبلاء ، تصنیف : امام شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان الذھبی ، جلد 3،ص 267.
2️⃣: کتاب فضائل الصحابه میں احمد بن حنبل نے لکھا ہے کہ :
♦️ حدثنا عبد اللہ، قال حدثنی ابی ،نا وکیع، عن شریک، عن عاصم عن ابی رزین قال :خطبنا الحسن بن علي بعد وفاۃ علی و علیه عمامة سوداء فقال :لقد فارقکم رجل لم یسبقه الاولون بعلم ولا یدرکه الآ خرون.
✍️ترجمہ مفہومی : ابی رزین روایت کرتا ہے کہ حسن بن علی ع نے علی ع کی وفات (شھادت) کے بعد ہم سے خطاب کیا، اور وہ اس وقت اس حالت میں تھے کہ انہوں نے سیاہ عمامہ پہنا ہوا تھا پس انہوں نے فرمایا :: بتحقيق تم لوگوں نے اس ہستی سے داغ مفارقت حاصل کر لی ہے کہ نہ ہی علم کے لحاظ سے اس سے پہلے کوئی تھا اور نہ ہی اس کے بعد کسی کو پاؤ گے.
📚حواله: فضائل الصحابه ، احمد بن حنبل، جلد 1 ص 743،744.
3️⃣:شرح نھج البلاغہ میں ابن ابی الحدید معتزلی لکھتے ہیں کہ جب امام علی ع شھید ہو گئے تو لوگ رو رہے تھے اور امام حسن ع گھر سے نکلے اور انہوں نے لوگوں سے خطاب کیا اور جب وہ خطاب کے لیے گھر سے نکلے تو انہوں نے اس وقت سیاہ لباس پہنا ہوا تھا…
📚حواله: شرح نھج البلاغه لابن ابی الحدید معتزلی، جلد 16 ص 22.
⭕نتیجه : یہ تو امام حسن علیہ السلام کے حوالے سے کچھ حوالا جات جس سے ہم نے یہ ثابت کیا ہے کہ حالت غم میں سیاہ لباس پہننا، اور سیاہ عمامہ پہننا یہ سنت امام حسن علیہ السلام ہے…
⬛اب ہم آپکو دیکھاتے ہیں کہ خود رسول اللہ ص نے بھی جناب جعفر اور جناب حمزہ کے دنیا سے جانے پر خود حکم دیا تھا ان پر رونے کا، اور رونے کے ساتھ ساتھ سیاہ لباس پہننے کا…
1️⃣:النهاية في غريب الحديث و الأثر، میں ابن اثیر نے روایت نقل کی ہے کہ :
ترجمہ مفہومی : حضرت حمزۃ پر جناب زینب نے تین دن تک سوگ والے سیاہ کپڑے پہنے رکھے پھر تین دن کے بعد رسول خدا ص نے آپ کو حکم دیا کہ اپنے سر کے اگلے حصے کے بالوں کو اپنے کاندھوں پر ڈالو اور آنکھوں میں سرمہ لگاؤ.
📚 النهاية في غريب الحديث و الأثر، للامام مجد الدین بن محمد الجزري، المعروف بابن اثیر، باب نون مع الصاد، حدیث : 15864 ص: 4170.
2️⃣:كتاب تاج العروس من جواھر القاموس، تألیف :السید محمد مرتضی الحسینی لکھا ہے کہ :
اسماء بنت عميس نقل کرتی ہیں کہ جب جناب جعفر کا انتقال ہوا تو رسول اللہ ص نے مجھے حکم دیا کہ تین دن تک سوگ والے سیاہ کپڑے پہنوں اور پھر تین دن کے بعد جو جی چاہے کروں
اور جناب ام سلمہ سے حدیث میں ہے کہ وہ جناب حمزہ پر تین دن تک روتی رہیں اور سوگ والے سیاہ لباس کو اوڑھے رکھا
📚حوالہ : *كتاب تاج العروس من جواھر القاموس، تألیف :السید محمد مرتضی الحسینی ، ج 3 ص،72،
3️⃣:الفارق فی غریب الحدیث میں علامہ زمخشری لکھتے ہیں کہ :
ام سلمہ کی بیٹی تین دن تک جناب حمزۃ رض پر روتی رہیں اور سوگ والے سیاہ کپڑے پہنے، پھر تین دن کے بعد رسول خدا ص نے آپ کو بلوایا اور کہا کہ اپنے سر کے اگلے حصے کے بالوں کو اپنے کاندھوں پر ڈالو اور آنکھوں میں سرمہ لگاؤ.
📚حوالہ :*الفارق فی غریب الحدیث، تألیف ٪ العلامة جار الله محمود بن عمر الزمخشری، ج، 2 ص 192*
4️⃣کتاب تہذیب اللغة میں أحمد الازھری نے لکھا ہے کہ :
اسماء بنت عمیس نقل کرتی ہیں کہ جب حضرت جعفر کا انتقال ہوا تو رسول خدا ص نے مجھے حکم دیا :-کہ تین دن تک سوگ والے سیاہ کپڑے اوڑھ لو پھر تین دن کے بعد جو جی چاہے کرو…
📚حواله: *کتاب تہذیب اللغة، تألیف منصور محمد بن أحمد الازھری، جلد 12 ص 436*
♦️پھر آگے اسی کتاب تہذیب اللغة کی جلد 12 ص 244 میں رویات مزکور ہے کہ :
ام سلمہ کی بیٹی تین دن تک جناب حمزۃ رض پر روتی رہیں اور سوگ والے سیاہ کپڑے پہنے، پھر تین دن کے بعد رسول خدا ص نے آپ کو بلوایا اور کہا کہ اپنے سر کے اگلے حصے کے بالوں کو اپنے کاندھوں پر ڈالو اور آنکھوں میں سرمہ لگاؤ.
5️⃣:المسند میں احمد بن حنبل نے روایت نقل کی ہے کہ :
أسماء بنت عمیس کہتی ہیں کہ جب جعفر کا انتقال ہو گیا تو رسول اللہ ص نے فرمایا :اے میری قوم تین دن تک سوگ والے سیاہ کپڑے پہن لو پھر اس ان تین دن کے بعد جو چاہے کرو…
📚حوالہ : المسند، احمد ابن محمد بن حنبل، جلد 18 ،ص 558.
6️⃣:مسند ابن الجعد میں لکھا ہے کہ :
اسماء بنت عمیس کہتی ہیں کہ جب حضرت جعفر کا انتقال ہوا تو رسول خدا ص نے مجھے حکم دیا :-کہ تین دن تک سوگ والے سیاہ کپڑے اوڑھ لو پھر تین دن کے بعد جو جی چاہے کرو…
📚حوالہ : مسند ابن الجعد، تحقیق : عبد المھدی بن عبد القادر بن عبد الھادی، جلد 1 ص ،،973،974،
⬛یہ کالے کپڑے پہننا، غم ماننا اور ماتم کرنا یہ حکم رسول اللہ ص ہے..
اور ہم شیعان اہل بیت علیہم السلام کو افتخار حاصل ہے کہ ہم وہی کام کرتے ہیں جس کا حکم رسول اللہ ص نے دیا ہو یا اہل بیت علیہم السلام نے دیا ہو کیونکہ ان کا حکم ایسے ہی ہے جیسے اللہ کا حکم ہے…
.
.
کالے کپڑوں کی مذمت پر احادیث کا جائزہ
تحریر: سید علی اصدق نقوی
جب اہل تشیع سے محرم میں انکی رسوم کا سوال کیا جاتا ہے، تو اس میں سے ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ شیعہ محرم میں کالے کپڑے کیوں پہنتے ہیں۔ اس سلسلے میں بعض افراد شیعہ کتب حدیث سے احادیث نقل کرتے ہیں اور یہ استدلال کرتے ہیں کہ شیعوں کو سیاہ لباس نہیں پہننا چاہیئے کیونکہ اسکی مذمت آئی ہے۔
56 باب العلة التي من أجلها لا تجوز الصلاة في سواد
۵۶ باب: وہ سبب جسکی وجہ سے کالے کپڑے میں نماز جائز نہیں
1 أَبِي (رحمه الله) قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْعَطَّارُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (ع) قَالَ قُلْتُ لَهُ أُصَلِّي فِي قَلَنْسُوَةِ السَّوْدَاءِ قَالَ لَا تُصَلِّ فِيهَا فَإِنَّهَا لِبَاسُ أَهْلِ النَّارِ
ایک شخص نے امام صادق ع سے کہا: میں کالی ٹوپی میں نماز پڑھ سکتا ہوں؟ امام ع نے فرمایا: اس میں نماز نہ پڑھو کیونکہ یہ جہنمیوں کا لباس ہے۔ (1) روایت کی سند ضعیف ہے۔ سہل بن زیاد ضعیف ہے، محمد بن سلیمان ضعیف ہے اور روایت مرسل ہے۔ اگلی روایت:
2 وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى الْيَقْطِينِيِّ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ يَحْيَى عَنْ جَدِّهِ الْحَسَنِ بْنِ رَاشِدٍ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (ع) قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ جَدِّي عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (ع) قَالَ فِيمَا عَلَّمَ أَصْحَابَهُ لَا تَلْبَسُوا السَّوَادَ فَإِنَّهُ لِبَاسُ فِرْعَوْنَ
امیر المؤمنین ع نے فرمایا: کالا رنگ نہ پہنو کیونکہ یہ فرعون کا لباس تھا۔ (2) اس کی بھی سند ضعیف ہے کیونکہ قاسم بن یحیی اور حسن بن راشد ضعیف ہیں۔ شاید یہاں پر امام ع کی فرعون سے مراد انکے دور کا عباسی خلیفہ تھا، کیونکہ کالا لباس پہننا بنی عباس کی عادت تھی۔
3 وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بِإِسْنَادِهِ يَرْفَعُهُ إِلَى أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (ع) قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ (ص) يَكْرَهُ السَّوَادَ إِلَّا فِي ثَلَاثَةٍ الْعِمَامَةِ وَالْخُفِّ وَالْكِسَاءِ
امام صادق ع نے فرمایا: رسول اللہ ص کالے رنگ کو ناپسند کرتے تھے سوائے تین چیزوں میں: عمامہ، چپل، اور چادر۔ (3)
یہ بھی پچھلی ہی سن سے ہی آئی ہے اور ساتھ ہی مرفوع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
4 وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْحُسَيْنِ اللُّؤْلُؤِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ مَنْصُورٍ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ بِالْحِيرَةِ فَأَتَاهُ رَسُولُ أَبِي الْعَبَّاسِ الْخَلِيفَةِ يَدْعُوهُ فَدَعَا بِمِمْطَرَةٍ لَهُ أَحَدُ وَجْهَيْهِ أَسْوَدُ وَالْآخَرُ أَبْيَضُ فَلَبِسَهُ ثُمَّ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ (ع) أَمَا إِنِّي أَلْبَسُهُ وَأَنَا أَعْلَمُ أَنَّهُ مِنْ لِبَاسِ أَهْلِ النَّارِ
حذیفہ بن منصور کہتے ہیں: میں امام صادق ع کے پاس حیرہ میں تھا تو خلیفہ أبو العباس کا قاصد آیا تو انہوں نے ایک ممطرہ (بارش کیلئے لباس) منگوایا جسکے دو رخ تھے، ایک سیاہ تھا اور دوسرا سفید۔ تو انہوں نے اسکو پہن لیا۔ پھر امام صادق ع نے فرمایا: جان لو! میں نے اسکو پہن رہا ہوں، اور مجھے پتا ہے کہ یہ جہنمیوں کا لباس ہے۔ (4) علامہ فیض کاشانی اسکے ذیل میں کہتے ہیں:
وإنما كان من لباس أهل النار لسواده وإنما لبسه ع مع علمه بذلك للتقية لأن آل عباس كانوا يلبسون السواد ولا يعجبهم إلا ذلك‌
اور وہ جہنمیوں کا لباس اس لیئے ہی ہے کیونکہ وہ سیاہ ہے اور امام ع نے اسکو یہ جاننے کے باوجود تقیہ کیلئے پہنا تھا، کیونکہ آل عباس سیاہ لباس پہنتے تھے اور انکو اسکے علاوہ کوئی رنگ پسند نہیں آتا تھا۔ (5)
مذکورہ بالا روایت میں بھی امام صادق ع نے جہنمیوں کا لباس کہا ہے جب کہ اس کپڑے کو خود بھی پہنا ہے، پھر بھی اسکو جہنمیوں کا لباس کہہ دیا۔ اس روایت کو اگر ظاہر پر لیا جائے تو اس سے صریح توہین ہے امام ع کی، اس کی توجیہ تقیہ پر کی گئی ہے، لیکن یہ روایت بھی شدید ضعیف ہے جبکہ حسن لؤلؤی اسکو محمد بن سنان سے روایت کر رہا ہے، ان دونوں ہی کی تضعیف وارد ہوئی ہے۔ شیخ صدوق نے اس روایت کو نقل کرکے لکھا ہے:
قال مؤلف هذا الكتاب لبسه للتقية وإنما أخبر حذيفة بن منصور بأنه لباس أهل النار لأنه ائتمنه وقد دخل إليه قوم من الشيعة يسألونه عن السواد ولم يثق إليهم في كتمان السر فاتقاهم فيه
اس کتاب کے مصنف (شیخ صدوق) کہتے ہیں: امام ع نے اسکو تقیہ کیلئے پہنا تھا اور انہوں نے حذیفہ بن منصور کو یہ بتایا کہ یہ جہنمیوں کا لباس ہے کیونکہ وہ اسکو امانت دے رہے تھے، کیونکہ انکے پاس کچھ شیعہ لوگ داخل ہوئے تھے اور ان سے کالے رنگ کا پوچھ رہے تھے مگر وہ ان پر بھروسہ نہیں کرتے تھے راز کو مخفی رکھنے میں تو انہوں نے ان سے تقیہ کیا اس میں۔ (6)
اگلی روایات الکافی سے ہیں:
24ـ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى رَفَعَهُ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ الْسَّلام) لاَ تُصَلِّ فِيمَا شَفَّ أَوْ سُفَّ يَعْنِي الثَّوْبَ الْمُصَيْقَلَ. وَرُوِيَ لاَ تُصَلِّ فِي ثَوْبٍ أَسْوَدَ فَأَمَّا الْخُفُّ أَوِ الْكِسَاءُ أَوِ الْعِمَامَةُ فَلاَ بَأْسَ.
امام صادق ع نے فرمایا: اس میں نماز نہ پڑھو جو “شف” ہو یا “صُف” ہو، یعنی صیقل کیا ہوا کپڑے میں۔ اور روایت ہوا ہے: کالے کپڑے میں نماز نہ پڑھو، جہاں تک چپل، کساء یا عمامے کی بات ہے تو کوئی مسئلہ نہیں۔ (7)
یہ تمام روایات ضعف رکھتی ہیں اپنے میں۔ البتہ فقہاء نے ان روایات سے یہ لیا ہے کہ نماز میں کالے لباس کا پہننا مکروہ ہے۔ لیکن یہ بھی عام وقت پر پہننے کو مکروہ یا حرام نہیں کرتا، یہ واضح رہنا چاہیئے۔ نیز یہ بنو عباس کا بھی لباس تھا اس بھی وجہ سے اس کی وجہ نظر آتی ہے جیسے اس ہی باب میں یہ روایت شیخ صدوق لائے ہیں:
6 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الصَّفَّارُ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ مَعْرُوفٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ يَزِيدَ النَّوْفَلِيِّ عَنِ السَّكُونِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (ع) قَالَ أَوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى نَبِيٍّ مِنْ أَنْبِيَائِهِ قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ لَا تَلْبَسُوا لِبَاسَ أَعْدَائِي وَلَا تَطْعَمُوا طَعَامَ أَعْدَائِي وَلَا تَسْلُكُوا مَسَالِكَ أَعْدَائِي فَتَكُونُوا أَعْدَائِي كَمَا هُمْ أَعْدَائِي
امام صادق ع نے فرمایا: اللہ عز و جل نے اپنے انبیاء میں سے ایک نبی کی طرف وحی کی: مومنین سے کہو کہ میرے دشمنوں کا لباس نہ پہنیں اور نہ میرے دشمنوں کا کھانا کھائیں، اور نہ میرے دشمنوں کے رستوں پر چلیں، کہ تم میرے دشمن ہوجاؤ جیسے وہ لوگ میرے دشمن ہیں۔ (😎 نوفلی مجہول ہے اور اس پر غلو کا الزام ہے، سکونی ایک عامی راوی ہے، پس روایت ضعیف ہے۔ اس روایت کو اگر قبول کیا جائے تو اس میں سیاہ لباس نہ پہننے کی علت یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہ بعض دشمنان خدا کی مخالفت میں کہا گیا ہے، جس میں قوی بات یہ ہے کہ یہ روایت بنی عباس کے طریقوں کی وجہ سے وارد ہوئی ہے۔ ایک ضعیف روایت کے مطابق کالے لباس کا احرام باندھنا یا اس میں تکفین کرنا بھی درست نہیں (9)، یہ نہی تنزیہی ہے، مگر یہ موضوع سے مرتبط بھی نہیں۔
جواز پر احادیث:
‎حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْعَطَّارُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْجَعْفَرِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَضْلِ عَنْ دَاوُدَ الرَّقِّيِّ قَالَ كَانَتِ الشِّيعَةُ تَسْأَلُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ (ع) عَنْ لُبْسِ السَّوَادِ قَالَ فَوَجَدْنَاهُ قَاعِداً عَلَيْهِ جُبَّةٌ سَوْدَاءُ وَقَلَنْسُوَةٌ سَوْدَاءُ وَخُفٌّ أَسْوَدُ مُبَطَّنٌ بِسَوَادٍ قَالَ ثُمَّ فَتَقَ نَاحِيَةً مِنْهُ وَقَالَ أَمَا إِنَّ قُطْنَهُ أَسْوَدُ وَأُخْرِجَ مِنْهُ قُطْنٌ أَسْوَدُ ثُمَّ قَالَ بَيِّضْ قَلْبَكَ وَالْبَسْ مَا شِئْتَ
داود رقی کہتے ہیں: شیعہ امام صادق ع سے کالا کپڑا پہننے کا پوچھتے تھے۔ تو ہم نے امام ع کو پیٹھا ہوا پایا، اور انہوں نے کالا جبہ، کالی ٹوپی، اور کالے جوتے پہنے ہوئے تھے جنکی اندرونی تہہ کالی تھی۔ داود نے کہا: پھر امام ع نے اس کا ایک حصہ چاک کیا اور فرمایا: جان لو کہ اسکی روئی کالی ہے، اور اس میں سے ایک کالی روئی نکلی، پھر فرمایا: اپنے دل کو سفید کرو، اور جو چاہتے ہو (وہ رنگ) پہنو۔ (10)
اسکو نقل کرکے شیخ صدوق لکھتے ہیں:
قال محمد بن علي مؤلف هذا الكتاب فعل ذلك كله تقية والدليل على ذلك قوله في الحديث الذي قبل هذا أما إني ألبسه وأنا أعلم أنه من لباس أهل النار وأي غرض كان له (ع) في أن صبغ القطن بالسواد إلا لأنه كان متهما عند الأعداء أنه لا يرى لبس السواد فأحب أن يتقي بأجهد ما يمكنه لتزول التهمة عن قلوبهم فيأمن شرهم
محمد بن علی (شیخ صدوق) اس کتاب کے مؤلف نے کہا: امام ع نے یہ سب ہی تقیہ کی وجہ سے کیا تھا اور اس پر دلیل انکا فرمان ہے اس سے پچھلی حدیث میں “جان لو، میں اسکو پہن رہا ہوں اور مجھے پتا ہے کہ یہ جنہمیوں کا لباس ہے۔” اور انکو کیا غرض تھی کہ وہ روئی کو سیاہ رنگ لگاتے مگر وجہ ہوئی کہ وہ دشمنان کے نزدیک متہم تھے کہ انکو کبھی کالا رنگ پہنے نہیں دیکھا جاتا، تو انہوں نے پسند کیا ہے کہ ان سے جتنی کوشش ہو سکے وہ تقیہ کریں تاکہ ان لوگوں کے دلوں سے تہمت زائل ہو اور وہ ان سے شر سے امان میں رہیں۔ (11)
أَبُو عَلِيٍّ اَلْأَشْعَرِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ اَلنَّضْرِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شِمْرٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ قَالَ: قُتِلَ اَلْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ وَعَلَيْهِ جُبَّةُ خَزٍّ دَكْنَاءُ فَوَجَدُوا فِيهَا ثَلاَثَةً وَسِتِّينَ مِنْ بَيْنِ ضَرْبَةٍ بِالسَّيْفِ وَطَعْنَةٍ بِالرُّمْحِ أَوْ رَمْيَةٍ بِالسَّهْمِ.
امام باقر ع نے فرمایا: جب امام حسین بن علی ع شہید ہوئے تو ان پر ایک ریشم کا کالا جُبہ تھا، اس میں انہوں نے 63 زخم پائے جو تلوار کی ضربت، نیزے کے مارنے یا تیر سے لگے تھے۔ (12)
… حَدَّثَنِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ (ع) قَالَ‏ إِنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ كَانَ آخِرَ مَنْ بَقِيَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ (ص) وَكَانَ رَجُلًا مُنْقَطِعاً إِلَيْنَا أَهْلَ الْبَيْتِ وَكَانَ يَقْعُدُ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ (ص) وَهُوَ مُعْتَمٌّ بِعِمَامَةٍ سَوْدَاءَ…
۔۔۔ امام صادق ع نے بیان کیا اور فرمایا: جابر بن عبد اللہ آخری فرد تھے جو باقی رہے رسول اللہ ص کے اصحاب میں سے، وہ ہم اہل بیت ع کے ساتھ مخلص شخص تھے اور وہ مسجد رسول اللہ ص میں بیٹھتے تھے، انہوں نے کالا عمامہ پہنا ہوتا تھا۔۔۔ (13) قلتُ: جابر بن عبد اللہ انصاری ایک جلیل القدر صحابی تھے نبی ص کے بعد انکے تمام احکامات پر عمل پیرا تھے، انکا سیاہ عمامہ پہننا اسکے جواز پر دلیل ہے۔ ایک اور حدیث میں امام ع اپنے ایک صحابی عبد اللہ بن شریک عامری کا ذکر کرتے ہیں جو کہ سیاہ عمامہ پہنے امام قائم ع کے ساتھ ہونگے انکے انصار میں (14) اس سے بھی ہمیں یہی قرینہ ملتا ہے۔ امام حسن ع نے امام علی ع کی شہادت کے بعد سیاہ عمامہ پہن کر خطبہ دیا تھا:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، نا وَكِيعٌ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي رَزِينٍ قَالَ: خَطَبَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ بَعْدَ وَفَاةِ عَلِيٍّ وَعَلَيْهِ عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ فَقَالَ: لَقَدْ فَارَقَكُمْ رَجُلٌ لَمْ يَسْبِقْهُ الْأَوَّلُونَ بِعِلْمٍ، وَلَا يُدْرِكُهُ الْآخَرُونَ.
علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے خطبہ پڑھا اور انکے سر پر ایک کالا عمامہ تھا، انہوں نے کہا کہ تم سے ایک ایسا شخص جدا ہوگیا ہے جس سے اولین میں سے کسی نے علم میں سبقت نہ لی تھی اور نہ آخرین میں سے کوئی ایسا آئے گا جو علم میں ان سے زیادہ ہوگا۔ (15) اسکی سند وصی اللہ محمد کے مطابق حسن درجے کی ہے۔ امام علی ع کی شہادت پر انکا سیاہ عمامہ پہننا بتاتا ہے کہ غم کے موقعے پر یہ جائز ہے۔ خود متعدد اہل سنت کتب حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ سیاہ عمامہ مسنون عمل ہے جو نبی ص کی سنت سے ثابت ہے (16) بلکہ امام حسین ع کیلئے بنی ہاشم کی عورتوں نے کالے لباس پہنے تھے:
عَنْهُ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ طَرِيفِ بْنِ نَاصِحٍ عَنْ أَبِيهِ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ قَالَ لَمَّا قُتِلَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ (ع) لَبِسْنَ نِسَاءَ بَنِي هَاشِمٍ السَّوَادَ وَالْمُسُوحَ وَكُنَّ لَا يَشْتَكِينَ مِنْ حَرٍّ وَلَا بَرْدٍ وَكَانَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ (ع) يَعْمَلُ لَهُنَّ الطَّعَامَ لِلْمَأْتَمِ
عمر بن علی بن حسین کہتے ہیں: جب امام حسین بن علی ع شہید ہوئے تو بنی ہاشم کی عورتوں نے کالے کپڑے اور زاہدانہ لباس پہنے اور وہ نہ گرمی نہ سردی کی شکایت کرتی تھیں، اور امام علی بن حسین ع ان کیلئے کھانا تیار کرتے تھے ماتم کیلئے۔ (17)
نتیجہ بحث یہ ہے کہ شیعہ کتب میں کالے لباس کی مذمت میں جتنی روایات ہیں وہ سب سندا ضعیف ہیں، بعید نہیں کہ یہ روایات اس لیئے آئیں کیونکہ بنی عباس کا شعار کالا لباس بن چکا تھا، پس ان سیاسی اوضاع کے سیاق میں یہ احادیث ائمہ ع نے بیان کیں، اور ان سے مخالفت کے سبب یہ احادیث وارد ہوئیں ان سے، جیسا کہ اوپر ہم ایک حدیث کو نقل کر چکے ہیں جسکا یہ مفہوم ہے۔ بعض مراجع نے ان روایات کو دیکھتے ہوئے نماز میں سیاہ لباس کی کراہیت کا فتوی بھی دیا ہے، لیکن انہوں نے بھی اسکو نماز تک محصور رکھا ہے اور عزاداری سید الشہداء ع کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔
مآخذ:
(1) علل الشرائع، ج 2، ص 346، الكافي، ج 3، ص 403، تهذيب الأحكام، ج 2، ص 213
(2) علل الشرائع، ج 2، ص 346 – 347، الخصال، ص 615
(3) علل الشرائع، ج 2، ص 347، الكافي، ج 6، ص 449، الخصال، ص 148، من لا يحضره الفقيه، الرقم: 768، تهذيب الأحكام، ج 2، ص 213
(4) علل الشرائع، ج 2، ص 347
(5) الوافي، ج 20، ص 712
(6) علل الشرائع، ج 2، ص 347
(7) الكافي، ج 3، ص 403
(😎 علل الشرائع، ج 2، ص 348، عيون أخبار الرضا، ج 2، ص 23، من لا يحضره الفقيه، الرقم: 770، تهذيب الأحكام، ج 6، ص 172
(9) الكافي، ج 4، ص 341: عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ عَائِذٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ مُخْتَارٍ قَالَ قُلْتُ لأَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلاَم) يُحْرِمُ الرَّجُلُ فِي الثَّوْبِ الأَسْوَدِ قَالَ لا يُحْرِمُ فِي الثَّوْبِ الأَسْوَدِ وَلا يُكَفَّنُ بِهِ الْمَيِّتُ.
(10) علل الشرائع، ج 2، ص 347
(11) علل الشرائع، ج 2، ص 347
(12) الكافي، ج 6، ص 452
(13) رجال الكشي، الرقم: 88، الكافي، ج 1, ص 469
(14) رجال الكشي، الرقم: 390
(15) فضائل الصحابة، رقم الحديث: 1026
(16) صحيح مسلم، الرقم: 3309 إلى 3312
(17) المحاسن، ج 2، ص 420
.
.
تحریر: سید جواد حسین رضوی
ہماری کتب میں سیاہ لباس کی ممانعت پر کافی روایات ہیں۔ لیکن ان کی سند پر نظر دوڑائی جائے تو سب کی سب ضعیف ہیں، اسی لئے مراجع نے ان کو کراہت پر محمول کیا ہے۔ آقای جواد تبریزی کے مطابق سند کے ضعف کی وجہ سے کراہت بھی نہیں۔ بہت سے شیعہ علماء نے عزاداری میں اس امر کو مستثنی کیا ہے، اور بعض کے نزدیک عزاداری میں سیاہ لباس کا استعمال چونکہ غم کے مظاہر میں سے ہے تو اس کا استحباب اس کی کراہت سے زیادہ ہے۔
اس فقہی اختلاف سے قطع نظر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ تواریخ میں عباسیوں نے سیاہ رنگ کو اپنا شعار قرار دیا تھا۔ ان کے جھنڈے کا رنگ سیاہ تھا اور ساتھ ہی سیاہ لباس پہننے پر سرکاری توجہ حاصل رہی، ان کے خلفاء و امراء سیاہ لباس زیب تن کرتے تھے۔ بعید نہیں کہ روایات میں یہ ممانعت ان عباسی خلفاء سے مشابہت و متابعت کی حوصلہ شکنی کی وجہ سے ہو جیسا کہ حذیفہ بن منصور کی روایت میں ذکر ہے کہ جب امام جعفر صادق(ع) کو عباسی خلیفہ منصور نے بلایا تو آپ نے سیاہ لباس کو جہنمیوں کا لباس کہا۔ اس روایت کو شیخ صدوق نے من لا یحضرہ الفقیہ میں مرسل اور علل الشرائع میں مسند نقل کیا۔ امام جعفر صادق(ع) ایک اور جگہ فرماتے ہیں؛
قال: أوحى الله عزوجل إلى نبي من أنبيائه قل للمؤمنين لا تلبسوا لباس اعدائي ولا تطعموا طعام أعدائي ولا تسلكوا مسالك أعدائي فتكونوا أعدائي كما هم أعدائی
امام صادق ع سے منقول ہے کہ اللہ نے اپنے انبیاء میں سے ایک نبی کو وحی کی کہ وہ مؤمنین سے کہے کہ وہ میرے دشمن کے لباس جیسا نہ پہنیں، ان سے مخصوص کھانے نہ کھائیں، اور میرے دشمنوں کے طریقے پر نہ چلیں کیونکہ اگر ایسا نہ کیا تو مبادا کہیں وہ میرے دشمن نہ ہوجائیں جیسے وہ میرے دشمن ہیں۔
علل الشرائع جلد 2 ص 348
اس موضوع پر روایات فراوان ہیں کہ اہل جور و ظلم کے ساتھ متابعت نہ کی جائے تو بعید نہیں کہ سیاہ لباس کی مخالفت اسی وجہ سے ہو کہ عباسی خلفاء کا یہ شعار رہا ہے۔ یہ بات اہلسنت میں بھی بہت معروف رہی ہے، جیسا کہ ابن تیمیہ امام احمد بن حنبل کے بارے میں لکھتے ہیں؛
وقد كره أحمد رضي الله عنه لبس السواد في الوقت الذي كان شعار الولاة والجند
احمد بن حنبل نے کالے کپڑے کو مکروہ قرار دیا جب یہ حکمرانوں اور فوج کا شعار ہو۔
شرح العمدة لشيخ الإسلام ابن تيمية ص 385
اب جبکہ یہ ثابت ہے کہ خلفائے جور کا شعار سیاہ لباس رہا اور اس کی ممانعت ان کی متابعت کی وجہ سے ہوئی تاکہ گریز پسندی کا راستہ اختیار کیا جائے تو پھر آج یہ موضوع بھی ختم ہو چکا ہے۔ عباسیوں کے بعد کبھی ظالم حکمرانوں کا شعار سیاہ لباس نہیں رہا، لہذا ہمارے زمانے میں اس کی کراہت کا حکم نہیں لگایا جا سکتا چاہے عزاداری میں ہو یا عزاداری کے علاوہ ہو۔ موجودہ صدی کے عظیم فقیہ آیت اللہ سید علی سیستانی فرماتے ہیں “لم تثبت الكراهة حتى في غير تلك الايام” یعنی اس کی کراہت ان (عزاداری کے) ایام کے علاوہ بھی ثابت نہیں ہے (کنز الفتاوی)۔
علاوہ ازیں یہ بھی ثابت شدہ امر ہے کہ سیاہ عمامہ اور سیاہ چادر (کملی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے۔ نیز خواتین کے لئے سیاہ چادر بہترین
حجاب ہے لہذا اس کی کلّی مخالفت درست نہیں ہے۔
والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ
.
.
اس ضمن میں بہت سی روایات مروی ہیں، ہم سب کا معائنہ کرتے ہیں:
شیخ صدوق کی کتاب علل الشرائع میں یہ باب ہے:
56 باب العلة التي من أجلها لا تجوز الصلاة في سواد
۵۶ باب: وہ سبب جسکی وجہ سے کالے کپڑے میں نماز جائز نہیں
1 أَبِي (رحمه الله) قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْعَطَّارُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (ع) قَالَ قُلْتُ لَهُ أُصَلِّي فِي قَلَنْسُوَةِ السَّوْدَاءِ قَالَ لَا تُصَلِّ فِيهَا فَإِنَّهَا لِبَاسُ أَهْلِ النَّارِ
ایک مرد نے امام صادق ع سے کہا: میں کالی ٹوپی میں نماز پڑھ سکتا ہوں؟ امام ع نے فرمایا: اس میں نماز نہ پڑھو کیونکہ یہ جہنمیوں کا لباس ہے۔
روایت کی سند ضعیف ہے۔ سہل بن زیاد ضعیف ہے، محمد بن سلیمان ضعیف ہے اور روایت مرسل ہے۔ اگلی روایت:
2 وَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى الْيَقْطِينِيِّ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ يَحْيَى عَنْ جَدِّهِ الْحَسَنِ بْنِ رَاشِدٍ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (ع) قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ جَدِّي عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (ع) قَالَ فِيمَا عَلَّمَ أَصْحَابَهُ لَا تَلْبَسُوا السَّوَادَ فَإِنَّهُ لِبَاسُ فِرْعَوْنَ
امام علی ع نے فرمایا: کالا رنگ نہ پہنو کیونکہ یہ فرعون کا لباس تھا۔
اس کی بھی سند ضعیف ہے۔
3 وَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بِإِسْنَادِهِ يَرْفَعُهُ إِلَى أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (ع) قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ (ص) يَكْرَهُ السَّوَادَ إِلَّا فِي ثَلَاثَةٍ الْعِمَامَةِ وَ الْخُفِّ وَ الْكِسَاءِ
امام صادق ع نے فرمایا: رسول اللہ ص کالے رنگ کو ناپسند کرتے تھے سوائے تین میں: عمامہ، چپل، اور کساء۔
یہ بھی پچھلی ہی سن سے ہی آئی ہے اور ساتھ ہی مرفوع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
4 وَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْحُسَيْنِ اللُّؤْلُؤِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ مَنْصُورٍ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ بِالْحِيرَةِ فَأَتَاهُ رَسُولُ أَبِي الْعَبَّاسِ الْخَلِيفَةِ يَدْعُوهُ فَدَعَا بِمِمْطَرَةٍ لَهُ أَحَدُ وَجْهَيْهِ أَسْوَدُ وَ الْآخَرُ أَبْيَضُ فَلَبِسَهُ ثُمَّ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ (ع) أَمَا إِنِّي أَلْبَسُهُ وَ أَنَا أَعْلَمُ أَنَّهُ مِنْ لِبَاسِ أَهْلِ النَّارِ
مذکورہ روایت میں بھی امام صادق ع نے جہنمیوں کا لباس کہا ہے جب کہ اس کپڑے کو خود بھی پہنا ہے، پھر بھی اسکو اہل نار کا لباس کہہ دیا۔ اس کی توجیہ تقیہ پر کی گئی ہے، لیکن یہ روایت بھی شدید ضعیف ہے جبکہ حسن اللولوی اسکو محمد بن سنان سے روایت کر رہا ہے۔ اگلی روایات الکافی سے ہیں:
30ـ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ مُحَسِّنِ بْنِ أَحْمَدَ عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ الْسَّلام) قَالَ قُلْتُ لَهُ أُصَلِّي فِي الْقَلَنْسُوَةِ السَّوْدَاءِ فَقَالَ لاَ تُصَلِّ فِيهَا فَإِنَّهَا لِبَاسُ أَهْلِ النَّارِ.
یہ وہی روایت ہے جو ہم اوپر ذکر کر چکے، اس کی سند کا بھی وہی مسئلہ ہے اور ضعیف ہے۔
24ـ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى رَفَعَهُ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ الْسَّلام) لاَ تُصَلِّ فِيمَا شَفَّ أَوْ سُفَّ يَعْنِي الثَّوْبَ الْمُصَيْقَلَ. وَرُوِيَ لاَ تُصَلِّ فِي ثَوْبٍ أَسْوَدَ فَأَمَّا الْخُفُّ أَوِ الْكِسَاءُ أَوِ الْعِمَامَةُ فَلاَ بَأْسَ.
امام صادق ع نے فرمایا: اس میں نماز نہ پڑھو جو “شف” ہو یا “صُف” ہو، یعنی صیقل کیا ہوا کپڑا۔ اور روایت ہوا ہے: کالے کپڑے میں نماز نہ پڑھو، جہاں تک چپل، کساء یا عمامے کی بات ہے تو کوئی مسئلہ نہیں۔
یہ تمام روایات ضعف رکھتی ہیں اپنے میں۔ البتہ فقہاء نے ان روایات سے یہ لیا ہے کہ نماز میں کالے لباس کا پہننا مکروہ ہے۔ لیکن یہ بھی عام وقت پر پہننے کو مکروہ یا حرام نہیں کرتا، یہ واضح رہنا چاہیئے۔ نیز یہ بنو عباس کا بھی لباس تھا اس بھی وجہ سے اس کی وجہ نظر آتی ہے جیسے اس ہی باب میں یہ روایت شیخ صدوق لائے ہیں:
6 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الصَّفَّارُ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ مَعْرُوفٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ يَزِيدَ النَّوْفَلِيِّ عَنِ السَّكُونِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (ع) قَالَ أَوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ إِلَى نَبِيٍّ مِنْ أَنْبِيَائِهِ قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ لَا تَلْبَسُوا لِبَاسَ أَعْدَائِي وَ لَا تَطْعَمُوا طَعَامَ أَعْدَائِي وَ لَا تَسْلُكُوا مَسَالِكَ أَعْدَائِي فَتَكُونُوا أَعْدَائِي كَمَا هُمْ أَعْدَائِي
امام صادق ع نے فرمایا: اللہ عز و جل نے اپنے انبیاء میں سے ایک نبی کی طرف وحی کی: مومنین سے کہو کہ میرے دشمنوں کا لباس نہ پہنیں اور نہ میرے دشمنوں کا کھانا کھائیں، اور نہ میرے دشمنوں کے رستوں پر چلیں، کہ تم میرے دشمن ہوجاؤ جیسے وہ لوگ میرے دشمن ہیں۔
.
.
×ایام عزا میں کالے لباس پہننے کی مشروعیت ×
ناظرین محرم کا چاند نظر آتا ہے اور مخالفین عزا کے اشکالات شروع ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ اس ضمن میں کتب تشیع سے بعض روایات کو نقل کیا جاتا ہے کہ جو اس کے نہ پہننے کی طرف تشویق دلاتی ہے۔ آئے اس کا جواب دیتے ہیں۔ پھر اس کی مشروعیت پر کلام کیا جائے گا.
جو روایات نقل کیں جاتیں ہیں لبس السواد کی مکروہیت پر (یعنی کالے لباس کے پہننے پر) تو آئے ان کو نقل کرتے ہے اور ان کی علمی حیثیت کا تعین کیا جاتا ہے
پہلی: امام صادق ع سے منقول روایت کہ یہ دوزخیوں کا لباس ہے (لا تصل فيها فانها لباس أهل النار.)
جواب: یہ روایت شیخ صدوق نے مرسلا من لايحضره الفقيه جلد ١ ص ٢٥١ میں نقل کی ہے اور علل الشرائع میں مسند طریق سے نقل کی ملاحظہ ہو علل الشرائع جلد ٢ ص ٣٤٦ اور اس کی سند یوں ہے:
– أبى رحمه الله قال: حدثنا محمد بن يحيى العطار عن محمد بن احمد عن سهل بن زياد عن محمد بن سليمان عن رجل عن ابى عبد الله (ع)
واضح طور سے اس کی سند میں ارسال ہے کہ راوی جس نے امام صادق ع سے روایت نقل کی وہ غیر موسوم ہے۔ دیگر اس روایت کی سند میں سھل بن زیاد اور محمد بن سلیمان پر کلام ہے۔ علی کل حال اس روایت کی سند ضعیف ہے۔
دوسری: امام علی ع سے منقول روایت کہ کالا لباس فرعون کا لباس ہے (لا تلبسوا السواد فانه لباس فرعون. )
جواب: اس روایت کو شیخ صدوق نے مرسلا من لايحضره الفقيه جلد ١ ص ٢٥١ میں نقل کی ہے اور علل الشرائع میں مسند طریق سے نقل کی ملاحظہ ہو علل الشرائع جلد ٢ ص ٣٤٧ اور اس کی سند یوں ہے:
وبهذا الاسناد عن محمد بن احمد عن محمد بن عيسى اليقطينى عن القاسم ابن يحيى عن جده الحسن بن راشد عن ابى بصير عبد الله (ع) قال: حدثنى ابى، عن جدى، عن ابيه عن أمير المؤمنين (ع) قال
اس کی سند میں تامل ہے کیونکہ اس میں حسن بن راشد ہے جو مختلف فیہ راوی ہے اور محمد بن عیسی الیقطینی بھی مختلف فیہ راوی ہے۔ البتہ ہمارا کلام حسن بن راشد کے لئے ہے اور ہمارے نزدیک جو مبنی زیادہ محکم ہے اس کے تحت راوی مجہول الحال ہے۔
تیسری: امام صادق ع کی روایت کہ رسول ص تین موارد کے علاوہ کالے کپڑے کو مکروہ جانتے تھے ( كان رسول الله صلى الله عليه وآله يكره السواد إلا في ثلاثة العمامة والخف والكساء.)
جواب: یہ روایت شیخ صدوق نے مرسلا من لايحضره الفقيه جلد ١ ص ٢٥١ میں نقل کی ہے، الکافی جلد ٣ ص ٤٠٣۔ البتہ علل الشرائع جلد ٢ ص ٢٤٧ میں سند کے ساتھ نقل کی ہے۔
الکافی کی سند: عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد رفعه، عن أبي عبد الله (عليه السلام) قال
علل الشرائع: وبهذا الاسناد عن محمد بن احمد باسناده يرفعه إلى ابى عبد الله (ع) قال:
اس سند میں واضح طور پر ارسال موجود ہے۔۔ راوی اور امام صادق ع کے درمیان واسطہ موجود نہیں
چوتھی: حذیفہ بن منصور کی روایت جس میں امام صادق ع کو جب عباسی خلیفہ کی طرف سے بلایا جاتا ہے تو آپ کالے لباس کو اہل نار کا لباس کہتے ہیں۔
جواب: اس روایت کو شیخ صدوق مرسلا من لايحضره الفقيه جلد ١ ص ٢٥٢ میں نقل کیا ہے اور مسندا علل الشرائع جلد ٢ ص ٣٤٧ میں نقل کیا ہے بایں سند:
وبهذا الاسناد عن محمد بن احمد عن الحسن بن الحسين اللؤلؤي عن محمد بن سنان، عن حذيفة بن منصور قال: كنت عند ابى عبد الله
سند میں محمد بن سنان مشہور ضعیف راوی موجود ہے۔۔ اگرچہ اس روایت کو مان بھی لیا جائیں تو ہمارے لئے مسئلہ نہیں کیونکہ اس روایت میں چونکہ عباسیوں نے کالے لباس کو اپنا شعار بنایا تھا تو اس معھود عنوان سے کالے لباس کو جہنمیوں (عباسیوں) کا گردانا گیا ہے۔ یہ روایت تو ہماری موید ہے نہ کہ مخالف۔
چنانچہ چیدہ عنوان سے یہی روایات نقل کیں جاتیں ہیں اور ہم نے ان کا جواب دے دیا ہے، آئے اب ہم دو بزرگ مراجعین کرام کے فتاوی نقل کئے دیتے ہیں جو کالے لباس پر ہیں
آیت اللہ جواد تبریزی ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہے:
لم يثبت كراهية لبس السواد لا في الصلاة ولا في غيرها. نعم، ورد في بعض الروايات ما يستفاد منها كراهية لبس السواد، ولكنها ضعيفة السند، ومع الإغماض عن ضعفها فالكراهة في الصلاة بمعنى كونها أقل ثواباً، ولبس السواد في عزاء الحسين والأئمة (عليهم السلام) لأجل إظهار الحزن وإقامة شعائر المذهب مستحب نفسي، وثوابه أكثر من نقص الثواب في الصلاة، واللّه العالم.
کالے کپڑے کی پہننے کی کراہیت چاہے نماز میں ہو یا نماز کے علاوہ وہ ثابت نہیں۔ ہاں البتہ کچھ روایات سے اس کپڑے کا پہننے کی مکروہیت کا اسخراج کیا جاسکتا ہے لیکن وہ تمام ضعیف سند پر مشتمل ہیں۔ اور اگر اس ضعف سند سے چشم پوشی بھی کی جائے تو نماز میں کراہیت سے مراد نماز میں ثواب کا کم ہونا ہے (یاد رہے عبادات میں کسی چیز کا مکروہ ہونا اس عبادت کا عدم تقرب نہیں بلکہ قلت ثواب ہے از خیر طلب) اور ایام عزائے حسینی ع و آئمہ علیھم السلام میں کالے کپڑے کا پہننا اظہار غم اور شعائر مذھب کو قائم کرنے کے عنوان سے ہوتا ہے جو خود اپنے عمل کے عنوان سے مستحب ہے اور اس کے پہننے کا ثواب نماز میں ثواب کم ہوجانے سے زیادہ ہے، واللہ اعلم۔
آیت اللہ سیستانی فرماتے ہے:
لم تثبت الكراهة حتى في غير تلك الايام .
کالے کپڑے کے پہننا کا ایام عزا کے علاوہ بھی مکروہ ہونا ثابت نہیں ہے۔
کنز الفتاوی، باب السلوك الفردي سوال و جواب نمب ٥٥
چنانچہ فقہی مسئلہ کی حد تک ایام عزا کے علاوہ قاعدہ تسامح کے تحت بعض علماء کے نزدیک کالے لباس کا نماز میں پہننا مکروہ ہے اور بعض کے ہاں اس مکروہیت کا محل موجودہ زمانہ نہیں رہا کیونکہ محتمل بات یہ ہے کہ آئمہ علیھم السلام کے زمانہ میں یہ ظالم حکمران اور ان کے چاہنے والوں کا شعار ہو جب اب نہیں رہا اور بعض کے ہاں مطلقا اس کی کراہیت ثابت نہیں ہے۔
اب ایک سوال کیا جاسکتا ہے کہ کس دلیل کے تحت اس کالے کپڑے کو صرف اس زمانہ میں برا مانا گیا ہے اور اب کیوں نہیں تو دیکھیں خود امام اہلسنت احمد بن حنبل کے ہاں بھی کالے کپڑے پہننا اس وقت مکروہ ہے جب وہ ظالم حکمران اور اس کی فوج کا شعار ہو۔ چنانچہ ابن تیمیہ کہتے ہے:
وقد كره أحمد رضي الله عنه لبس السواد في الوقت الذي كان شعار الولاة والجند
احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ نے کالے کپڑے کو مکروہ جانا ہے اس وقت جب یہ حکمرانوں اور فوج کا شعار ہو۔
حوالہ: شرح العمدة لشيخ الإسلام ابن تيمية ص ٣٨٥
لہذا اگر آپ روایات کو لیجئے جن میں اہلبیت ع نے منع کیا ہے تو اس میں بعض جگہ وجہ بھی بتائے گئی ہے۔
عن أبي عبد الله عليه السلام قال: أوحى الله عزوجل إلى نبي من أنبيائه قل للمؤمنين لا تلبسوا لباس اعدائي ولا تطعموا طعام أعدائي ولا تسلكوا مسالك أعدائي فتكونوا أعدائي كما هم أعدائي.
امام صادق ع سے منقول ہے کہ اللہ نے اپنے انبیاء میں سے ایک نبی کو وحی کی کہ وہ مؤمنین سے کہیں کہ وہ میرے دشمن کے لباس جیسا نہ پہنیں، ان جیسے مختص کھانے نہ کھائیں، اور میرے دشمنوں کے طریقے پر نہ چلیں کہ اگر ایسا نہ کیا تو مبادا کہ کہی وہ میرے دشمن نہ ہوجائیں جیسے وہ میرے دشمن ہیں
حوالہ: علل الشرائع جلد ٢ ص ٣٤٨
اس روایت کا مفاد پتا چلا کہ چونکہ عباسیوں کے زمانہ میں ان کا شعار تھا تو اس وجہ سے عین ممکن ہے کہ اس وقت اس کے تحت منع کیا جاتا ہو
ان حوالوں سے ہم نے مختلف اشکالات کے جوابات دئیں ہیں۔ ائے ہمارے علاقہ برصغیر میں اکثریت رہنے والے احناف کی رائے سے استفادہ کرتے ہیں:
شیخ علاء الدین الحنفی فرماتے ہے:
وَلَوْ اجْتَمَعَ الْمَوْتَى الْمُسْلِمُونَ وَالْكُفَّارُ يُنْظَرُ إنْ كَانَ بِالْمُسْلِمِينَ عَلَامَةٌ يُمْكِنُ الْفَصْلُ بِهَا يُفْصَلُ، وَعَلَامَةُ الْمُسْلِمِينَ أَرْبَعَةُ أَشْيَاءَ: الْخِتَانُ وَالْخِضَابُ، وَلُبْسُ السَّوَادِ وَحَلْقُ الْعَانَةِ
اگر مسلمان او کافروں کے مردے ایک جگہ ہوں (اور ان میں تشخص کرنا مقصود ہو) تو مسلمانوں کی عموما کچھ علامات ہوتیں ہیں جن سے ان دو کے فرق کو دیکھا جاسکتا ہے۔ اور وہ مسلمانوں کی علامات چار ہیں ١، ختنہ شدہ ہونا ٢، خضاب کا استعمال ٣، کالا لباس پہننا ٤، شرمگاہ کے بالوں کی تحلیق کرنا۔
حوالہ: بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع جلد ١ ص ٣٠٣
علامہ سرخسی حنفی نے تو سیدھی بات کہی کہ کالے کپڑے پہننا علامات مسلمان ہیں اور کفار کالے نہیں پہنتے۔۔ عبارت کا ترجمہ نہیں کرتا بلکہ فقط عربی عبارت عرض ہے:
وَأَمَّا السَّوَادُ مِنْ عَلَامَاتِ الْمُسْلِمِينَ جَاءَ فِي الْحَدِيثِ «أَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – دَخَلَ مَكَّةَ يَوْمَ الْفَتْحِ وَعَلَى رَأْسِهِ عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ» وَقَالَ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «إذَا لَبِسَتْ أُمَّتِي السَّوَادَ فَابْغُوا الْإِسْلَامَ» وَمِنْهُمْ مِنْ رَوَى فَانْعَوْا وَالْأَوَّلُ أَوْجَهُ فَقَدْ صَحَّ «أَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – بَشَّرَ الْعَبَّاسَ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – بِانْتِقَالِ الْخِلَافَةِ إلَى أَوْلَادِهِ بَعْدَهُ وَقَالَ: مِنْ عَلَامَاتِهِمْ لُبْسُ السَّوَادِ»، وَالْكُفَّارُ لَا يَلْبَسُونَ السَّوَادَ
حوالہ: المبسوط للسرخسی، جلد ١٠ ص ١٩٩-٢٠٠
چنانچہ ان عبارات سے واشگاف پتہ چلا کہ کالے لباس کو پہننا علامات مومن ہیں۔
اب آتے ہیں کہ کالے کپڑے پہننے پر کہ چونکہ کالے کپڑے کے پہننے کی نہی کراہیت پر روایت بھی نقل کیں گئیں ہیں مصادر امامیہ سے تو ان ہی مصادر میں وہ روایات بھی ہیں جن میں سید الشہداء ع کے غم میں اہلبیت ع اور محبین نے کالے کپڑے پہننے۔ اور فقہاء امامیہ میں اس پر کوئی اختلاف نہیں کہ عزائے سید الشہداء ع میں کالے کپڑے پہننا شعار حسینی ع کے عنوان سے بہترین عمل ہے اور اگر جہاں منع لبس السواد موجود ہے (جن کے نزدیک کراہیت ثابت ہے) تو سید الشہداء ع کا غم اس سے مستثنی ہے۔
شیخ یوسف البحرانی کا قول عموما علمائے امامیہ نقل کرتے ہیں تو ان علماء کی تاسی میں نقل کئے دیتا ہوں:
لا يبعد استثناء لبس السواد في مأتم الحسين (عليه السلام) من هذه الأخبار لما استفاضت به الأخبار من الأمر باظهار شعائر الأحزان
اور کالے لباس کا امام حسین ع کی عزا میں پہننے کا عمومی کراہیت سے استثنی ہونا بعید نہیں کیونکہ مستفیض روایات میں غم کے اظہار کے شعار پر موجود ہیں (جن میں کالا لباس پہننا بھی ہے)
حوالہ: الحدائق الناضرة جلد ٧ ص ١١٨
یوں علمائے امامیہ کے ہاں سید الشہداء ع کی عزاداری میں کالا لباس پہننا شعار حسینی ع ہے جو بلاشک و شبہ مستحب ہے۔ اور ان کے پاس اس پر دلیل ہے، اس پر روایت ہے
المحاسن للبرقی جلد ٢ ص ٤٢٠ میں روایت منقول ہے:
عنه، عن الحسن بن طريف بن ناصح، عن أبيه، عن الحسين بن زيد، عن عمر بن على بن الحسين، قال: لما قتل الحسين بن على (ع) لبسن نساء بنى هاشم السواد والمسوح وكن لا يتشتكين من حر ولا برد وكان على بن الحسين (ع) يعمل لهن الطعام للمأتم
جب سید الشہداء ع شہید ہوئے تو بنی ہاشم کی خواتین نے کالے کپڑے پہنتیں اور وہ چادر مغطیہ پہنتیں اور وہ گرمی اور سردی کی شکایت نہیں کرتیں جب کہ امام زین العابدین ع ان کے کھانے کا انتظام کرتے تاکہ ان کے ماتم و غم چلتا رہے۔
اس کے علاوہ ایک عمومی دلیل اس عنوان سے ہے کہ اظہار حزن و غم کا طریقہ جو عرب اور دیگر جگاہوں پر عموما چلا آرہا ہے وہ کالے لباس کا پہننا ہے اور سید الشہداء ع کے غم کا اظہار کرنے پر روایات آئمہ ع ہیں چنانچہ اس عنوان سے یہ کالا لباس استثنی ہے۔
باقی جہاں تک اہلسنت ہیں ان کے ہاں مسلم ہیں کہ کالا لباس رسول اللہ پہنتے تھے اور خود اہلبیت ع بھی پہنا کرتے تھے۔
احمد بن حنبل نقل فرماتے ہے:
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمِيصَةٌ سَوْدَاءُ حِينَ اشْتَدَّ بِهِ وَجَعُهُ
عائشہ کہتی ہے کہ رسول اللہ ص جب شدید درد و الم سے دوچار تھے تو آپ نے کالا لباس اوڑھا ہوا تھا۔
حوالہ: مسند احمد، جلد ٤٣ ص ٢٧٠
ذھبی اپنی کتاب میں نقل کرتے ہے:
عاصم بن بهدلة، عن أبي رزين، قال: خطبنا الحسن بن علي وعليه ثياب سود وعمامة سوداء.
ابو رزین فرماتے ہے کہ امام حسن ع نے ہمارے سامنے خطبہ دیا جب کہ وہ کالا لباس اور کالا عمامہ پہنے ہوئے تھے
حوالہ:سير أعلام النبلاء جلد ٣ ص ٢٧٢
خلاصہ: کالا لباس عزائے سید الشہداء ع میں پہننا بالکل جائز ہے بلکہ مستحب ہے۔
طالب دعا،
خیر طلب
.
.
حضرت امام زین العابدین (ع) کے فرزندوں میں سے ایک نقل کرتے ہیں کہ حضرت اباعبدللہ الحسین (ع) کی شہادت کے بعد نبی ہاشم کی خواتین نے سیاہ اور پرانےلباس پہن لئے اور کبھی بھی سردی اور گرمی کی پروانہ کرتیں جبکہ ہمارے والدعلی بن الحسین (امام سجادع) ان خواتیں کے لئے کھانا تیار کرتے ۔ کیونکہ وہ اکثر عزاداری میں مشغول رہتی تھیں ۔ محاسن برقی ، ۴۲۰ح ۱۹۵ ، بحارالانوار : ۱۸۸۴۵ وج۸۴۸۲ وسائل : ۲۳۸۳ ب ۱۴۷ زدفن ح۱۰
روایت نمبر 2 :
جب امام مظلوم حضرت سجاد (ع) نے جامع دمشق (مسجداموی ) میں جوکہ یزیدلعین کا دربار تھا ، خطبہ ارشاد فرمایا تو اس وقت ایک شخص منہال اٹھ کھڑاہوا اور امام (ع) سے مخاطب ہو کرکہا کہ آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ آپ فرزندرسول (ص) ہیں کیا رسول خدا (ص) کا بیٹا ؟ اور اس کی یہ حالت ؟ جیسے کہ آپ نظر آرہے ہیں ۔ امام(ع) نے فرمایا کہ میرا حال ایسا کیوں نہ ہو کہ جس کا باپ پیاسا قتل ہوجائے اور اس کے اہل وعیال کو قیدی بنالیا جائے تو اس کا حال کیسا ہوگا ؟۔ اسی لئے تو میں نے اور میرے خاندان کے پاک افراد نے عزاداری کے لباس پہن رکھے ہیں ۔ کیونکہ ہمیں نئے لباس پہن کر کیا کرنا ہے اب نئے لباس پہننےکا کیا فائدہ ۔ ہم کیسے نئے لباس پہن سکتے ہیں ؟ ۔ متقل ابی مخنف ، ۲۱۶ ناایخ التورایخ امام سجاد : ۲۹۳
عزاداری امام حسین ع کے دوران پرانا کالا لباس باعث ثواب ہے نا کہ نت نئے ملبوسات کا انتخاب کیا جائے ۔
روایت نمبر 3 :
اصبغ بن نباتہ نے کہتے ہیں کہ میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد مسجدکوفہ داخل ہوا میں نے دیکھا کہ حضرت امام حسن ع اورامام حسین ع نے سیاہ لباس ہین رکھا تھا ۔ آئمہ نور کے سوگ نامہ میں کے صفحہ ۲۳۳ میں سیاہ پوشی کے متعلق آیۃ اللہ مامقانی کے رسالہ مجمع الدرر سے نقل کی گئی عبارت ۔
روایت نمبر 4
حضرت رسول پاک (ص) کا جب وصال قریب ہو تو انہوں نے سیاہ لباس پہن لیا تھا اس بارے حضرت امام صادق(ع) فرماتے ہیں جب پیغمبرالسلام (ص) کا اس دنیا سے انتقال ہواہے تو انہوں نے سیاہ لباس پہن رکھا تھا ۔ حضرت نے صبح کی نماز مسجد میں پڑھائی اور اس کے بعد خطبہ ارشاد فرمایا ۔ بصائر الدرجات ،۳۰۴ب۱۲ج۱۰