جبرائیل کا رسول اللّه کو امام حسین کی شہادت کی خبر دینا

رسول خدا (ص) کا امام حسین (ع) کے غم میں گریہ کرنا۔ اہلِ سنت روایات
حاكم نيشاپوری اپنی كتاب المستدرك علي الصحيحين میں لکھتا ہے کہ
( أخبرنا) أبو عبد الله محمد بنj علي الجوهري ببغداد ثنا أبو الأحوص محمد بن الهيثم القاضي ثنا محمد بن مصعب ثنا الأوزاعي عن أبي عمار شداد بن عبد الله عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ بِنْتِ الْحَارِثِ أَنَّهَا دَخَلَتْ عَلَي رَسُولِ اللَّهِ ص فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ حُلْماً مُنْكَراً قَالَ وَ مَا هُوَ قَالَتْ إِنَّهُ شَدِيدٌ قَالَ مَا هُوَ قَالَتْ رَأَيْتُ كَأَنَّ قِطْعَةً مِنْ جَسَدِكَ قُطِعَتْ وَ وُضِعَتْ فِي حَجْرِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ(صلي الله عليه وآله وسلم) خَيْراً رَأَيْتِ تَلِدُ فَاطِمَةُ غُلَاماً فَيَكُونُ فِي حَجْرِكِ فَوَلَدَتْ فَاطِمَةُ الْحُسَيْنَ(عليه السلام) فَقَالَتْ وَ كَانَ فِي حَجْرِي كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ(صلي الله عليه وآله وسلم) فَدَخَلْتُ بِهِ يَوْماً عَلَي النَّبِيِّ ص فَوَضَعْتُهُ فِي حَجْرِهِ ثُمَّ حَانَتْ مِنِّي الْتِفَاتَةٌ فَإِذَا عَيْنَا رَسُولِ اللَّهِ(صلي الله عليه وآله وسلم) تُهْرَاقَانِ بِالدُّمُوعِ فَقُلْتُ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ قَالَ أَتَانِي جَبْرَئِيلُ(عليه السلام) فَأَخْبَرَنِي أَنَّ أُمَّتِي سَتَقْتُلُ ابْنِي هَذَا وَ أَتَانِي بِتُرْبَةٍ مِنْ تُرْبَتِهِ حَمْرَاء.
المستدرك، الحاكم النيسابوري، ج 3، ص 176 – 177 و تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 196 – 197 و البداية والنهاية، ابن كثير، ج 6، ص 258 و.
ام الفضل حارث کی بیٹی ایک دن حضور رسول خدا(صلي الله عليه و آله و سلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ کل رات میں نے ایک خطر ناک خواب دیکھا ہے ۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ کیا خواب دیکھا ہے ؟ کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ آپ کے بدن کا ایک ٹکڑا آپ کے بدن سے الگ ہو کر میری گود میں آ گرا ہے۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ تم نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے ۔
بہت جلد فاطمه(عليها السلام) کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہو گا اور وہ بچہ تمہاری گود میں آئے گا۔ کہتی ہے کہ جب حسین(ع) دنیا میں آئے تو میں نے انکو اپنی گود میں اٹھایا۔
ایک دن میں حسین|(ع) کو گود میں اٹھائے رسول خدا(ص) کے پاس گئی ۔ وہ حسین(ع) کو دیکھتے ہی اشک بہانے لگے۔ میں نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں، آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ابھی جبرائیل مجھ پر نازل ہوا ہے اور اس نے مجھے خبر دی ہے کہ میری امت میرے اس بیٹے کو میرے بعد جلدی شھید کر دے گی پھر اس نے مجھے شھادت والی جگہ کی خاک بھی دکھائی اور دی ہے۔
حاكم نيشابوري اس حديث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے:
هذا حديث صحيح علي شرط الشيخين ولم يخرجاه.
اور ایک دوسری جگہ پر لکھتا ہے کہ:
أخبرناه أبو الحسين علي بن عبد الرحمن الشيباني بالكوفة ثنا أحمد بن حازم الغفاري ثنا خالد بن مخلد القطواني قال حدثني موسي بن يعقوب الزمعي أخبرني هاشم بن هاشم بن عتبة بن أبي وقاص عن عبد الله بن وهب بن زمعة قال أخبرتني أم سلمة رضي الله عنها ان رسول الله صلي الله عليه وآله اضطجع ذات ليلة للنوم فاستيقظ وهو حائر ثم اضطجع فرقد ثم استيقظ وهو حائر دون ما رأيت به المرة الأولي ثم اضطجع فاستيقظ وفي يده تربة حمراء يقبلها فقلت ما هذه التربة يا رسول الله قال أخبرني جبريل(عليه الصلاة والسلام) ان هذا يقتل بأرض العراق للحسين فقلت لجبريل أرني تربة الأرض التي يقتل بها فهذه تربتها هذ حديث صحيح علي شرط الشيخين ولم يخرجاه.
المستدرك، الحاكم النيسابوري، ج 4، ص 398.
عبد الله بن زمعه کہتا ہے کہ: ام سلمہ نے مجھے خبر دی ہے کہ ایک دن رسول خدا صلي الله عليه وآله وسلم سو رہے تھے کہ اچانک پریشانی کی حالت میں بیدار ہو ئے، پھر دوبارہ سو گئے اور دوبارہ بیدار ہوئے تو ان کے ہاتھ میں سرخ رنگ کی خاک تھی جس کو وہ سونگھ رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کونسی خاک ہے ؟ فرمایا کہ جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ حسین(ع) کو عراق میں شھید کر دیا جائے گا اور یہ اسی سر زمین کی خاک ہے جہاں پر حسین(ع) کو شھید کیا جائے گا۔ اس پر میں نے جبرائیل سے چاہا کہ اس سر زمین کی خاک مجھے دکھائے ۔ یہ خاک وہی خاک ہے جو اب میرے ہاتھ میں ہے۔
حاكم نيشابوري کہتا ہے:یہ حديث بخاري و مسلم کے مطابق بھی صحیح ہے، لیکن انھوں نے اپنی اپنی کتاب میں اس حدیث کو نقل نہیں کیا۔
طبراني نے معجم كبير، هيثمي نے مجمع الزوائد اور متقي هندي نے كنز العمال میں بھی اس روایت کو ذکر کیا ہے:
وعن أم سلمة قالت كان رسول الله صلي الله عليه وسلم جالسا ذات يوم في بيتي قال لا يدخل علي أحد فانتظرت فدخل الحسين فسمعت نشيج رسول الله صلي الله عليه وسلم يبكي فأطلت فإذا حسين في حجره والنبي صلي الله عليه وسلم يمسح جبينه وهو يبكي فقلت والله ما علمت حين دخل فقال إن جبريل عليه السلام كان معنا في البيت قال أفتحبه قلت أما في الدنيا فنعم قال إن أمتك ستقتل هذا بأرض يقال لها كربلاء فتناول جبريل من تربتها فأراها النبي صلي الله عليه وسلم فلما أحيط بحسين حين قتل قال ما اسم هذه الأرض قالوا كربلاء فقال صدق الله ورسوله كرب وبلاء، وفي رواية صدق رسول الله صلي الله عليه وسلم أرض كرب وبلاء.
المعجم الكبير، الطبراني، ج 23، ص 289 – 290 و مجمع الزوائد، الهيثمي، ج 9، ص 188 – 189 و كنز العمال، المتقي الهندي، ج 13، ص 656 – 657 و….
ام سلمه کہتی ہے کہ رسول خدا(ص) نے کہا کہ اے ام سلمہ کسی کو میرے پاس آنے کی اجازت نہ دینا۔ تھوڑی دیر بعد حیسن(ع) آئے اور اصرار کر کے رسول خدا(ص) کے کمرے میں چلے گئے اور ان کی کمر مبارک پر بیٹھ گئے ۔ رسول خدا(ص) نے حسین(ع) کے بوسے لینا شروع کر دیا۔ اس پر فرشتے نے رسول خدا(ص) سے کہا کہ کیا آپ اس سے محبت کرتے ہیں ؟ حضرت نے فرمایا: ہاں ۔ فرشتے نے کہا کہ آپ کے بعد آپکی امت اس کو شھید کرے گی ۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو میں آپکو شھادت کی جگہ بھی دکھا سکتا ہوں ۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ ہاں دکھا‍‍‌‌ؤ ۔ پھر فرشتہ رسول خدا(ص) کو ایک سرخ رنگ کی خاک کی ڈھیری کے پاس لایا ۔
ام سلمه کہتی ہے کہ: پھر فرشتے نے تھوڑی سی خاک رسول خدا(ص) کو دکھائی۔
جب دشمن کے لشکر نے امام حسین(ع) کو محاصرے میں لیا ہوا تھا اور وہ امام حسین(ع) کو شھید کرنا چاہتے تھے تو امام نے ان سے پوچھا کہ اس سر زمین کا کیا نام ہے ؟ انھوں نے کہا کہ اس کا نام کربلاء ہے۔ امام حسين عليه السلام نے فرمایا کہ رسول اكرم صلّي اللّه عليه و آله نے سچ فرمایا تھا کہ یہ زمین کرب و بلا ہے۔
هيثمي اس حديث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے کہ:
رواه الطبراني بأسانيد ورجال أحدها ثقات.
اسی طرح، هيثمي مجمع الزوائد میں ، ابن عساكر تاريخ مدينه دمشق میں، مزّي تهذيب الكمال میں اور ابن حجر عسقلاني تهذيب التهذيب میں لکھتے ہیں کہ:
عن أم سلمة قالت كان الحسن والحسين يلعبان بين يدي رسول الله صلي الله عليه وسلم في بيتي فنزل جبريل فقال يا محمد إن أمتك تقتل ابنك هذا من بعدك وأومأ بيده إلي الحسين فبكي رسول الله صلي الله عليه وسلم وضمه إلي صدره ثم قال رسول الله صلي الله عليه وسلم يا أم سلمة وديعة عندك هذه التربة فشمها رسول الله صلي الله عليه وسلم وقال ويح وكرب وبلاء قالت وقال رسول الله صلي الله عليه وسلم يا أم سلمة إذا تحولت هذه التربة دما فاعلمي أن ابني قد قتل قال فجعلتها أم سلمة في قارورة ثم جعلت تنظر إليها كل يوم وتقول إن يوما تحولين دما ليوم عظيم.
تهذيب التهذيب، ابن حجر، ج 2، ص 300 – 301 و تهذيب الكمال، المزي، ج 6، ص 408 – 409 و تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 192 – 193 و ترجمة الإمام الحسين(ع)، ابن عساكر، ص 252 – 253 و مجمع الزوائد، الهيثمي، ج 9، ص 189 و…
ام سلمه سے روايت ہوئی ہے کہ:
امام حسن و حسين عليهما السّلام میرے گھر میں اور رسول خدا صلّي اللّه عليه و آله کے سامنے کھیل رہے تھے کہ اسی وقت جبرائیل نازل ہوا اور کہا اے محمد(ص) آپ کی رحلت کے بعد آپ کی امت آپکے اس بیٹے حسین(ع) کو شھید کرے گی۔ رسول خدا صلّي اللّه عليه و آله نے گريہ کیا اور حسين عليه السلام کو سينے سے لگا لیا۔
پھر رسول خدا صلّي اللّه عليه و آله نے وہ خاک جو جبرائیل نے رسول خدا(ص) کو دی تھی، اپنے ہاتھ میں لیا سونگھا اور فرمایا کہ اس خاک سے کرب و بلا کی بو آ رہی ہے۔ پھر اس خاک کو ام سلمہ کو دیا اور فرمایا کہ اے ام سلمہ اس کا خیال رکھنا اور جب یہ خاک خون میں تبدیل ہو جائے تو جان لینا کہ میرا بیٹا حسین(ع) شھید ہو گیا ہے۔
ام سلمه نے خاک کو ایک شیشی میں رکھ دیا اور ہر روز اس کو دیکھا کرتی تھی اور خاک سے کہتی تھی کہ اے خاک جس دن تو خون میں تبدیل ہو جائے گی وہ دن بہت غم و عزا والا ہو گا۔
ابن حجر عسقلاني اس حديث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے:
و في الباب عن عائشة و زينب بنت جحش و أم الفضل بنت الحارث و أبي أمامة و أنس بن الحارث و غيرهم.
اس بارے میں روايات عايشه، زينب بنت جحش، ام فضل دختر حارث، ابو امامه، انس بن حارث اور دوسروں سے بھی نقل ہوئی ہیں۔
اسی طرح هيثمي ایک دوسری روايت نقل کرتا ہے کہ:
عن أبي أمامة قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لنسائه لا تبكوا هذا الصبي يعني حسينا قال وكان يوم أم سلمة فنزل جبريل فدخل رسول الله صلي الله عليه وسلم الداخل وقال لام سلمة لا تدعي أحدا أن يدخل علي فجاء الحسين فلما نظر إلي النبي صلي الله عليه وسلم في البيت أراد أن يدخل فأخذته أم سلمة فاحتضنته وجعلت تناغيه وتسكنه فلما اشتد في البكاء خلت عنه فدخل حتي جلس في حجر النبي صلي الله عليه وسلم فقال جبريل للنبي صلي الله عليه وسلم إن أمتك ستقتل ابنك هذا فقال النبي صلي الله عليه وسلم يقتلونه وهم مؤمنون بي قال نعم يقتلونه فتناول جبريل تربة فقال بمكان كذا وكذا فخرج رسول الله صلي الله عليه وسلم قد احتضن حسينا كاسف البال مغموما فظنت أم سلمة أنه غضب من دخول الصبي عليه فقالت يا نبي الله جعلت لك الفداء انك قلت لنا لا تبكوا هذا الصبي وأمرتني ان لا أدع أحدا يدخل عليك فجاء فخليت عنه فلم يرد عليها فخرج إلي أصحابه وهم جلوس فقال إن أمتي يقتلون هذا.
مجمع الزوائد، الهيثمي، ج 9، ص 189 و المعجم الكبير، الطبراني، ج 8، ص 285 – 286 و تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 190 – 191 و ترجمة الإمام الحسين(ع)، ابن عساكر، ص 245 – 246 و….
ابو امامه سے روايت نقل ہوئی ہے کہ رسول خدا صلّي اللّه عليه و آله نے اپنی بیویوں سے کہا کہ اس بچے(حسین ع) کو نہ رلایا کرو ۔ اس دن کے رسول خدا(ص) ام سلمہ کے گھر تھے کہ جبرائیل نازل ہوا ۔ حضرت رسول صلّي اللّه عليه و آلهنے کہا کہ اے ام سلمہ کسی کو میرے کمرے میں آنے کی اجازت نہ دینا۔ حسين عليه السلام آئے جونہی اپنے نانا کو دیکھا تو چاھا کہ کمرے میں داخل ہوں۔ ام سلمہ نے حسین(ع) کو اپنے سینے سے لگایا تو حسین(ع) نے رونا شروع کر دیا اس نے بہت کوشش کی لیکن حسین(ع) کا گریہ بڑھتا گیا اور اسی گرئیے کی حالت میں رسول خدا کے کمرے میں چلے گئے اور جا کر اپنے نانا کی گود میں بیٹھ گئے۔
جبرئيل نے رسول خدا صلّي اللّه عليه و آله کو خبر دی کہ آپ کے بعد آپکی امت آپکے بیٹے کو شھید کرے گی۔ رسول خدا صلّي اللّه عليه و آله نے جبرائیل کی اس بات پر تعجب کیا اور کہا کہ کیا میری امت ایمان کی حالت میں میرے بیٹے کو شھید کرے گی۔ جبرائیل نے کہا ہاں وہ ایمان کا دعوی کرنے والی امت ہو گی لیکن پھر بھی اپنے رسول کے بیٹے کو بھوکا پیاسا شھید کر دے گی۔
جبرئيل نے زمین کربلاء کی خاک رسول خدا صلّي اللّه عليه و آله کو دی اور کہا کہ یہ خاك اسی زمین کی ہے کہ جس پر آپکے بیٹے کو شھید کیا جائے گا۔
رسول خدا صلّي اللّه عليه و آله غم کی حالت میں حسين عليه السلام کو اٹھائے ہوئے گھر سے باہر چلے گئے۔
ام سلمہ کہتی ہے کہ میں نے گمان کیا کہ شاید حسین(ع) کو رسول خدا(ص) کے کمرے میں جانے دیا ہے اس لیے وہ ناراض ہو گئے ہیں۔ اسی لیے میں نے کہا اے اللہ کے رسول(ص) میری جان آپ پر قربان ہو آپ نے خود ہی کہا تھا کہ حسین(ع) کو رونے نہ دینا اور آپ نے خود ہی کہا تھا کہ کسی کو کمرے میں میں نہ آنے دینا میں بھی مجبور تھی کیا کرتی حسین(ع) بھی خود ہی کمرے میں داخل ہو گیا ہے۔ پيغمبر اكرم صلّي اللّه عليه و آله نے ام سلمہ کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور اصحاب کے پاس چلے گئے۔ اصحاب ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ رسول خدا(ص) نے ان سے کہا کہ میری امت میرے اس بیٹے حسین(ع) کو شھید کرے گی اور زور زور سے رونا شروع کر دیا۔
*سُُرخ مٹی*
ابوسلمہؓ بن عبدالرحمان کہتے ہیں کہ عائشہؓ کا ایک بالا خانہ تھا .حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب جبرئیل سے ملنے کا ارادہ کرتے تھے تو اس میں ملتے تھے .ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس پر چڑھ گئے اور عائشہؓ سے کہا کہ ان کی طرف نہ جھانکیں، کہتے ہیں کہ اوپڑ کی سیڑھی عائشہؓ کے حجرے میں سے تھی.
امام حسینؑ داخل ہوئے اور اوپر چڑھ گئے ، ان کو معلوم نہ ہو سکا حتیٰٰ کہ وہ بالا خانے میں پہنچ گئے . جبرئیل نے پوچھا یہ کون ہیں ?
فرمایا یہ میرا بیٹا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام حسینؑ کو پکڑ کر اپنی ران پر بٹھا لیا.
جبرئیل نے کہا عنقریب اس کوآپ کی امت قتل کرے گی .
رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا کہ میری امت ?
انہوں نے کہا جی ہاں ! اگر آپ چاہیں تو میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس سر زمین کی خبر دوں جس میں وہ قتل کئے جائیں گے.
جبرئیل نے مقام الطف عراق کی طرف اشارہ کیا اور انہوں نے سُُرخ مٹی وہاں سے لے لی اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو وہ مٹی دکھا دی
📚 دلائل النبوہ //حافظ بیہقی // سفر سادس // ص 468// تحقیق:ڈاکٹر عبدالمعطی قلعی // طبع الاولی 1408 ھ ، جز 7،دارالکتب العلمیہ بیروت
.
.
*حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے وقت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزاداری*
بیقیض حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے اسماء بنت عمیس کے نقل کو نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ آپ فرماتی ہیں :میں حضرات امام حسن اور حسین علیہم السلام کی ولادت با سعادت کے مواقع پر آپ کی دادی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے پاس موجود تھی۔جب حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو حضرت خاتم الانبیاء میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا:اے اسماء ! میرے فرزند کو میرے پاس لے آؤ۔میں نے مولود کو ایک سفید کپڑے میں لپیٹ کر رسول خدا کے سپرد کردیا۔حضرت نے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اور پھر بچے کو اپنی گود میں رکھ کر رونے لگے۔میں نے عرض کیا میں آپ پر قربان جاؤں کیوں گریہ فرما رہے ہیں؟ارشاد فرمایا: اپنے اس فرزند پر رو رہا ہوں۔ میں نے دوبارہ دریافت کیا:یہ تو ابھی متولد ہوا ہے! فرمایا:اے اسماء ! میرے اس فرزند کو ستمگروں کا ایک گروہ شہید کردے گا خداوندمتعال انھیں میری شفاعت سے محروم رکھے۔پھر فرمایا:اے اسماء!یہ بات ابھی فاطمہ سے ذکر نہ کرنا کیونکہ یہ فرزند ابھی تازہ متولد ہوا ہے۔
حوالہ
مقتل،حافظ ابوالمؤید خوارزمی،ج۱فصل۶ص۸۸
.
.
*رسول اکرم (ص) کا جبرائیل الامین سے امام حسین (ع) کی شھادت کی خبر سن کر بلند آواز میں گریہ (رونا) کرنا: اہل سنت کی کتابوں سے*
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اہل سنت عالم دین، أحمد بن إسماعيل البوصيري الشافعي (متوفی 840ھ) نے اپنی کتاب ’’إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة‘‘ میں ایک اور اہل سنت عالم، عبد بن حميد بن نصر الكسي (متوفی 249ھ) کی کتاب ’’منتخب مسند عبد بن حميد‘‘ سے ایک حدیث رسول اکرمؐ نقل کی ہے اور اسکو ’’صحیح سند‘‘ مانا ہے۔
📜 أنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَائِمًا فِي بَيْتِي فَجَاءَ حُسَيْنٌ يَدْرُجُ، قَالَتْ: فَقَعَدْتُ عَلَى الْبَابِ فَأَمْسَكْتُهُ مَخَافَةَ أَنْ يَدْخُلَ فَيُوقِظَهُ، قَالَتْ: ثُمَّ غَفَلْتُ فِي شَيْءٍ فَدَبَّ فَدَخَلَ فَقَعَدَ عَلَى بَطْنِهِ، قَالَتْ: *فَسَمِعْتُ نَحِيبَ رَسُولِ اللَّهِ* صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجِئْتُ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاللهِ مَا عَلِمْتُ بِهِ؟ فَقَالَ: ” إِنمَا جَاءَنِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَهُوَ عَلَى بَطْنِي قَاعِدٌ، فَقَالَ لِي أَتُحِبُّهُ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ قَالَ: إِنَّ أُمَّتَكَ سَتَقْتُلُهُ أَلَا أُرِيكَ التُّرْبَةَ الَّتِي يُقْتَلُ بِهَا؟ قَالَ: فَقُلْتُ: بَلَى قَالَ: فَضَرَبَ بِجَنَاحِهِ فَأَتَانِي بِهَذِهِ التُّرْبَةِ ” قَالَتْ: فَإِذَا فِي يَدِهِ تُرْبَةٌ حَمْرَاءُ، وَهُوَ يَبْكِي وَيَقُولُ: «يَا لَيْتَ شِعْرِي مَنْ يَقْتُلُكَ بَعْدِي؟ »[1] رَوَاهُ عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ بِسَنَدٍ صَحِيحٍ [2]
حضرت ام سلمه (رض) نے فرمایا:
نبیؐ میرے گھر میں سورہے تھے کہ حسینؑ تشریف لائے اور بیٹھ گئے۔ آپؓ نے فرمایا: میں دروازے پر بیٹھ گئی اور انہیں ڈر سے پکڑ لیا کہ کہیں اندر داخل ہوکر انہیں جگا نہ دیں۔ آپؓ نے فرمایا: پھر میرا دھیان ہٹا تو وہ اندر داخل ہوگئے اور آپؐ کے پیٹ پر بیٹھ گئے۔ آپؓ نے فرمایا: *مجھے رسولؐ الله کے بلند آواز میں رونے کی آواز سنائی دی (فَسَمِعْتُ نَحِيبَ رَسُولِ اللَّهِ)*
تو میں بھی وہاں آگئی اور میں نے عرض کی: اے رسولؓ الله! اللہ کی قسم مجھے اسکا علم نہیں ہوا (کہ حسینؑ اندر داخل ہوکر آپؐ کے پیٹ پر بیٹھ گئے ہیں۔
آپؐ نے فرمایا: جب یہ میرے پیٹ پر تھے تو جبرائیل علیه السلام میرے پاس آئے تھے اور انہوں نے مجھ سے کہا: کیا آپؐ انؑ سے محبت کرتے ہیں؟
میںؐ نے کہا: جی!
کہا: آپؐ کی امت انہیں قتل کردے گی تو کیا میں آپؐ کو وہ تربت (مٹی) نہ دکھاؤں جس پر انکو قتل کیا جائے گا؟
آپؐ نے فرمایا کہ کہا: جی!
فرمایا: اس نے اپنے پر ہلائے اور مجھے یہ تربت (مٹی) لادی۔
(حضرت ام سلمهؓ نے) کہا: اور آپؐ کے ہاتھ میں سرخ تربت (مٹی) تھی اور آپؐ نے روتے ہوئے فرمایا: کاش مجھے معلوم ہوتا کہ کون تجھے میرے بعد قتل کریگا؟
(البوصیری الشافعي کہتے ہیں) عبد بن حمید نے اسے صحیح سند سے روایت کیا ہے (اپنی کتاب المنتخب میں)۔
*«لفظ ’’نحیب‘‘ کے معنی»*
مشھور سنی عالم، علامہ ابن اثیر (متوفی 606ھ) نے اپنی کتاب ’’النهاية في غريب الحديث والأثر‘‘[3] میں لفظ “نحیب” کے معنی *البکاء بصوت طویل ومد یعنی طویل آواز میں گریہ (رونا) کئے ہیں۔*
اسی طرح مشھور عربی لغت، لسان العرب (ابن منظور الافریقی المصری) میں لفظ ’’نحیب‘‘ کے معنی *رفع الصوت بالبکاء ہے یعنی بلند آواز گریہ (رونا)* کئے گئے ہیں۔
*حاصل کلام*
سو، ازروئے کتب اہل سنت برادران بھی امام حسینؑ پر بلند آواز میں گریہ کرنے کی سنت ثابت ہے۔
*—– ختم شد ——-*
[1] منتخب مسند عبد بن حميد: رقم الحدیث: 1533
[2] إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة: رقم الحدیث: 6755
[3] النهاية في غريب الحديث والأثر: ج 5، ص 27
’’النهاية في غريب الحديث والأثر‘‘ کا مختصر سا تعارف
علامہ ابن اثیر کی یہ کتاب غریب الحدیث میں بہت مشہور اور بلند پایہ ہے۔ علامہ سیوطی (م 911ھ) لکھتے ہیں: ’’غریب الحدیث میں علامہ ابن اثیر کی النہایہ بہت مشہور اور متد اول کتاب ہے۔‘‘
’’النهاية في غريب الحديث والأثر‘‘ کو لغت کی کتابوں کے انداز پر حروف تہجی سے مرتب کیا گیا ہے مولانا ضیاءا لدین اصلاحی مقدمہ النہایہ کی روشنی میں النہایہ سے متعلق لکھتے ہیں:
’’اس میں حدیثوں کے مشکل اور غریب الفاظ کو ذکر کرکے ان کے معانی بیان کئے گئے ہیں۔اور ہر لفظ کی تشریح سے پہلے حدیث کا وہ ٹکڑا بھی نقل کیا گیا ہے جس میں یہ لفظ آیا ہے۔ لغات کی تشریح وتحقیق کے لئے دوسری حدیثوں سے لطائر اورائمہ لغت اورشارحین حدیث کے بیانات بھی نقل کئے گئے ہیں‘‘.
🖋️ سید علی اصدق نقوی اور احمد بابری