*واقعہ کربلا سے پہلے ہی خدا نے اپنے تمام انبیاء کو کربلا کی سر زمین سے گزارا اور اس پر درد دلسوز واقعہ کی خبر دی انکو اور ہر نبی (ع) نے قاتل امام حسین (ع) پر لعنت کی*
● حضرت آدم (ع) اور کربلا
حضرت آدم (ع) جب زمین پر اتارے گے تو زمین پر آب دانہ کی تلاش میں اطراف زمین میم چلنے لگے۔ اسی دوران کربلا میں وارد ہوئے آپ کا سینہ تنگ ہونے لگا دم گٹهنے لگا پریشانی بڑهنے لگی آخر آپ اس مقام پر آکر کهڑے ہوئے جہاں امام حسین (ع) شہید ہوئے تهے آپ کے پاؤں سے خون جاری ہوگیا۔
ہس یہ ماجرا دیکھ کر جناب آدم (ع) نے اپنا سر آسمان کی طرف بلند کیا اور عرض کیا:
اے میرے پروردگار! کیا مجھ سے کوئی گناہ سرزد ہوا ہے جس کی سزا مل رہی ہے۔ میں ہر طرف سے مسلسل سفر کرتا چلا آرہا ہوں کہیں ایسی مصیبت مجھ پر نہیں پڑی جیسی یہاں پڑی ہے؟
آپ کی طرف وحی آئی اے آدم! تجھ سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا یہ وہ زمین ہے جس پر تیرا ایک بیٹا جس کا نام حسین (ع) ہوگا بے جرم و گناہ بڑی بے دردی سے مارا جائےگا،
اس لیے تیرا خون جاری ہوا کیونکہ وہ تیرا بیٹا ہے۔
آپ نے پوچها؛ کیا حسین (ع) نبی ہے؟
فرمایا؛ نہیں، بلکہ وہ اخری نبی (ص) کی بیٹی کے بیٹے ہیں۔
آپ نے عرض کیا؛ اس کا قاتل کون ہوگا؟
ندا آئی؛ یذید لع
جناب آدم نے پوچها؛ اے جبرئیل (ع) میں اب کیا کروں؟
جبرئیل (ع) فرمایا: اے آدم (ع)! اس قاتل پر لعنت کرو۔
جناب آدم (ع) نے چار بار یزید لع پر لعنت کی ۔
●حضرت نوح (ع) اور کربلا
حضرت نوح (ع) طوفان نوح کے وقت کشتی پر سوار ہوئے تو پوری دنیا کا چکر لگایا،
جب کشتی وارد کربلا ہوئی تو زمین کربلا سے لگی تو ہچکولے کهانے لگی جیسے ابهی الٹ جائے گی۔
حضرت نوح (ع) پر خوف طاری ہوا اپنا نورانی چہرا آسمان کی طرف کر کے فرمایا:
خدایا! یہ خوف کسی مقام پر بهی طاری نہیں ہوا جو اس مقام پر طاری ہو رہا ہے
کیوں ہو رہا ہے یہ خوف مجھ پر طاری؟
جناب جبرئیل (ع) کی آواز آئی؛
یا نبی اللہ! یہ وہ سر زمین ہے جس پر امام حسین (ع) شہید ہونگے جو نبی آخر الزمان کے نواسے ہیں۔
حضرت نوح (ع) نے پوچها؛ حسین (ع) کا قاتل کون ہے؟
جبرئیل نے کہا: وہ جس پر سات آسمانوں اور سات زمینوں کے ساکنین کی لعنت ہے۔
پس جناب نوح (ع) نے چار بار یزید لع پر لعنت کی۔
اس کے بعد آپ کی کشتی گرداب سے نکلی اور مقام جودی پر آکر ٹهہری۔

اسرار الشہادہ ص 80۔
منتخب طریح ص 48۔
ناسخ، جلد 1، ص270، 272.
رمزالمصیبہ، جلد 1۔
*حسین مولا کی زیارت اور حضرت نوح کا گریہ*
*حضرت نوح علیہ السلام کی عزاداری*
انس بن مالک نے روایت نقل کی ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
جب خداوندمتعال نے حضرت نوح کی قوم کو ہلاک کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت نوح کو دستور دیا کہ جبرائیل کی نظارت میں کشتی بنائیں اور اس کشتی میں استعمال ہونے والی ایک ہزار کیلیں جبرائیل نے حضرت نوح کو دیں اور حضرت نوح نے ان تمام کیلوں کو کشتی بنانے میں استعمال کیا جب آخری پانچ کیلیں باقی بچیں تو جب حضرت نوح نے انھیں لگانے کا ارادہ کیا اور اُن میں سے ایک کیل کو اس مقصد سے ہاتھ میں لیاتو اُچانک اس سے درخشندہ ستاروں کی مانندنور نکلنے لگا حضرت نوح یہ ماجرا دیکھ کر حیران ہو گئے تو اس کیل سے آواز آئی اے نوح میں بہترین پیغمبر یعنی محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں۔حضرت نوح نے کہا: اے جبرائیل اس کیل کا کیا ماجرا ہے میں نے آج تک ایسی کیل نہیں دیکھی۔جبرائیل نے جواب دیا یہ کیل خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نام نامی سے منسوب ہے اسے کشتی کی دائیں جانب نبے کریں۔حضرت نوح نے بھی ایسا ہی کیا
اور
پھر دوسرےکیل کو نصب کرنے کے لیے اٹھایا تواس کیل سے بھی ایک نور بلند ہوا،حضرت نوح نے پوچھا یہ کیا ہے؟جواب ملا:یہ کیل سید الانبیاء کے چچازاد بھائی علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے نام سے منسوب ہے اسے کشتی کی بائیں جانب نصب کریں۔حضرت نوح نے بھی ایسا ہی کیا
اور
پھر تیسری کیل نصب کرنے کے لیےاٹھائی اس سےبھی نور بلند ہوا تو جبرائیل نے کہا یہ کیل آخری پیغمبر کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے نام نامی سے منسوب ہے اسے انکے والد سے منسوب کیل کےساتھ نصب کردیں حضرت نوح نے بھی ایسا ہی کیا
اور
پھر چوتھی کیل اٹھائی تو اس سے بھی نور بلند ہوا تو جبرائیل نے کہا یہ کیل حضرت حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے نام سے منسوب ہے اسے ان کے والد گرامی کے نام سے منسوب کیل کے ساتھ نصب کریں
لیکن جب حضرت نوح علیہ السلام نے پانچویں کیل اٹھائی تو پہلے تو اس سے نور اٹھا لیکن جب حضرت نوح نے اسے کشتی میں نصب کیا تو اس سے خون جاری ہو گیا ۔حضرت جبرائیل نے کہا: یہ کیل حضرت امام حسین علیہ السلام کے نام نامی سے منسوب ہے اور پھر جبرائیل نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا ماجرا بیان کیا اور آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کا پیغمبر کے نواسے سے سلوک بیان کیا
حوالہ جات
بحارالانوار،ج۴۴،ص۲۴۳،ح۳۸
*حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عزاداری*
روایت میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب سرزمین کربلا سے عبور کرنا چاہا توحضرت گھوڑے پر سوار تھے اچانک گھوڑے کا پاؤں پھسلا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام گھوڑے سے زمین پر گرےان کا سر مبارک زمین پر لگنے سے خون جاری ہو گیاحضرت ابراہیم علیہ السلام نے استغفار کرنا شروع کر دیا اور کہا:’’الھی،أیُّ شیءٍ حدث منّی؟ فنزل الیہ جبرئیل وقال: ھنا یُقتَلُ سبط خاتم الانبیاء وابن خاتم الاوصیاء‘‘پروردگارا! مجھ سے کون سا گناہ سرزد ہوا ہے؟جبرائیل نازل ہوئے اور کہا:اس سرزمین پر خاتم الانبیاء اور سید الاوصیاء کا فرزند شہید کردیا جائے گا۔اسی لیے آپ کا خون اُن کے غم میں شریک ہونے کے لیے جاری ہوا ہے۔
حوالہ :
سید موسیٰ جوادی،سوگنامہ آل محمد،ص۳۴،مکتبہ امام رضاؑ
.
حضرت ابراہیم علیہ السلام اور سرزمین کربلا
منقول ہے ایک دن حضرت ابراہیم ع گھوڑے پر سوار ہوکر صحرائے کربلا سے گزر رہے تھے کہ اچانک گھوڑا منہ کے بل گرا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام ، گھوڑے سے گر پڑے اور اپ کا سر مبارک ایک پتھر پر لگا ، خون جاری ہوا ،
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے استغفار شروع کیا ” پروردگار ! مجھ سے کیا گناہ سرزد ہوا جس کی سزا ملی
اس وقت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور کہا
اے ابراہیم! کوئی گناہ آپ سے صادر نہیں ہوا ، لیکن یہ وہ زمین ہے پر نورِ چشم حضرت محمد ص ، فرزند علی مرتضیٰ ع جور و ستم سے شہید ہوگا
خدا نے چاہا تم بھی اس کی مصیبت میں شریک ہو ، تمہارا بھی خون اس زمین پر گرے جس پر اس کا خون گرایا جائے گا
ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا اس کا قاتل کون ہے ؟
جبرائیل علیہ السلام نے کہا اس کا نام یزید ہے
سب اہل زمین و آسمان اس شقی بدبخت پر لعنت کرتے ہیں اور قلم نے لعن کے ساتھ اس کا نام لکھا ہے جس پر خدا نے قلم کی جانب وحی کی کہ اے قلم تو مستحق تعریف ہے تو نے لعن یزید کو لوح پر لکھا
حضرت ابراہیم ع نے یہ سن کر ہاتھ آسمان کی طرف بلند کیے اور یزید پر بہت لعن کی
بحار الانوار ، ج ۴۴ ، ص ۲۴۳


*حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عزاداری*
روایت میں ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نہر فرات کے کنارے اپنے حیوانوں کو چرانے میں مشغول تھے ایک دن ان کے چرواہے نے اُن سے کہا :کہ چند دن سے جانور نہر فرات کا پانی نہیں پی رہے اس کی کیا وجہ ہے؟حضرت اسماعیل علیہ السلام نے خداوندمتعال سے اس کی علت دریافت کی تو جبرائیل نازل ہوئے اور کہا:اے اسماعیل آپ خود ہی اِن حیوانوں سے اس کی علت دریافت کریں وہ خود ہی آپ کو ماجرا سے آگاہ کریں گے؟حضرت اسماعیل علیہ السلام نے حیوانوں سے پوچھا کہ پانی کیوں نہیں پی رہے؟ ’’فقالت بلسانٍ فصیحٍ: قد بلغنا انّ ولدک الحسین(ع) سبط محمد یقتل هنا عطشاناً فنحن لانشرب من هذه المشرعة حزناً علیه‘‘حیوانات نے فصیح زبان میں کلام کرتے ہوئے کہا:کہ ہمیں اطلاع ملی ہے کہ اس مقام پر آپ کے فرزند حسین جومحمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے ہیں اس مقام پر پیاسے شہید کردیے جائیں گے لہٰذا ہم بھی اُن کے حزن میں پانی نہیں پی رہے۔حضرت اسماعیل نے اُن کے قاتلوں کے بارے میں سوال کیا؟ تو جواب ملا اُن کےقاتل پر تمام آسمان و زمین اور اس کی تمام مخلوقات اس پر لعنت کرتیں ہیں۔’’فقال اسماعیل:اللّهم العن قاتل الحسین‘‘حضرت اسماعیل کہا:خداوندا! اس کے قاتلوں پر لعنت بھیج۔
حوالہ:
بحار الانوار،ج۴۴،ص۲۴۳،۲۴۴،ح۳۹
*حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی عزاداری*
مرحوم علامہ مجلسی ؒ نقل فرماتے ہیں کہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام ہوا میں اپنی سواری پر سوار ہو کر زمین کی گردش کرتے ہوئے سرزمین کربلا سے گذرے تو ہوا نے انکی سواری کو تین مرتبہ گردباد میں پھنسا دیا اور قریب تھا کہ وہ کو گر جاتے۔جب ہوا ٹھہری تو حضرت سلیمان کی سواری کربلا کی سرزمین پر نیچے اتری۔حضرت نے سواری سے پوچھا کہ کیوں اس سرزمین پر رکی ہو؟
’’فقالت انّ هنا یقتل الحسین فقال و من یکون الحسین فقالت سبط محمّدٍ المختار و ابن علیّ الکرّار‘‘
ہوا نے کہا:اس سرزمین پر حسین شہید کیے جائیں گے۔حضرت سلیمان نے پوچھا:حسین کون ہیں؟ جواب ملا آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے اورعلی مرتضیٰ کے فرزند ہیں۔ پوچھا؟ کون اُن سے جنگ کرے گا؟جواب ملا آسمان و زمین کا موعلن ترین شخص یزید۔حضرت سلمان نے آسمان کی طرف ہاتھ بلند کرکے اس پر لعنت بھیجی اور تمام جن و انس نے آمین کہی پھر حضرت سلیمان کی سواری نے حرکت کی۔
حوالہ
بحار الانوار،ج۴۴،ص۲۴۴،ح۴۲
*حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عزاداری*
حضرت موسیٰ علیہ السلام یوشع بن نون کے ہمراہ بیابان میں سفر کر رہے تھے کہ جب وہ کربلا کی سرزمین پر پہنچے تو حضرت موسی ٰ علیہ السلام کے جوتے کا تسمہ کھل گیا اور ایک تین پہلوؤں والا کانٹا حضرت موسی ٰ حضرت کے پاؤں میں پیوست ہوگیا جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیر سے خون جاری ہونے لگا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی :بارالہٰا !مجھ سے کوئی گناہ ہوا ہے؟خداوندمتعال نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وحی کی:اس جگہ پر حسین شہید ہوں گے اور ان کا خون بہایا جائے گا تمہارا خون بھی ان کے ساتھ وابستگی کی خاطر جاری ہوا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی : بارالہٰا !حسین کون ہیں؟ ارشاد ہوا:وہ محمد مصطفیٰ کے نواسے اور علی مرتضی کے لخت جگر ہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی مناجات میں عرض کی:
’’يَا رَبِّ لِمَ فَضَّلْتَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ(ص)عَلَى سَائِرِ الْأُمَمِ فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى فَضَّلْتُهُمْ لِعَشْرِ خِصَالٍ قَالَ مُوسَى وَ مَا تِلْكَ الْخِصَالُ الَّتِي يَعْمَلُونَهَا حَتَّى آمُرَ بَنِي إِسْرَائِيلَ يَعْمَلُونَهَا قَالَ اللَّهُ تَعَالَى الصَّلَاةُ وَ الزَّكَاةُ وَ الصَّوْمُ وَ الْحَجُّ وَ الْجِهَادُ وَ الْجُمُعَةُ وَ الْجَمَاعَةُ وَ الْقُرْآنُ وَ الْعِلْمُ وَ الْعَاشُورَاءُ قَالَ مُوسَى(ع)يَا رَبِّ وَ مَا الْعَاشُورَاءُ قَالَ الْبُكَاءُ وَ التَّبَاكِي عَلَى سِبْطِ مُحَمَّدٍ(ص)وَ الْمَرْثِيَةُ وَ الْعَزَاءُ عَلَى مُصِيبَةِ وُلْدِ الْمُصْطَفَى يَا مُوسَى مَا مِنْ عَبْدٍ مِنْ عَبِيدِي فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ بَكَى أَوْ تَبَاكَى وَ تَعَزَّى عَلَى وُلْدِ الْمُصْطَفَى(ص)إِلَّا وَ كَانَتْ لَهُ الْجَنَّةُ ثَابِتاً فِيهَا وَ مَا مِنْ عَبْدٍ أَنْفَقَ مِنْ مَالِهِ فِي مَحَبَّةِ ابْنِ بِنْتِ نَبِيِّهِ طَعَاماً وَ غَيْرَ ذَلِكَ دِرْهَماً إِلَّا وَ بَارَكْتُ لَهُ فِي الدَّارِ الدُّنْيَا الدِّرْهَمَ بِسَبْعِينَ دِرْهَماً وَ كَانَ مُعَافاً فِي الْجَنَّةِ وَ غَفَرْتُ لَهُ ذُنُوبَهُ وَ عِزَّتِي وَ جَلَالِي مَا مِنْ رَجُلٍ أَوِ امْرَأَةٍ سَالَ دَمْعُ عَيْنَيْهِ فِي يَوْمِ عَاشُورَاءَ وَ غَيْرِهِ قَطْرَةً وَاحِدَةً إِلَّا وَ كُتِبَ لَهُ أَجْرُ مِائَةِ شَهِيدٍ‘‘
اے میرے پروردگار! آخری نبی کی امت کو باقی نبیوں کی امتوں پر کیوں برتری دی؟جواب ملا:ان میں دس خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے انھیں فضیلت دی گئی ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی :وہ دس خصوصیات کیا ہیں مجھے بھی بتائیں تو میں بنی اسرائیل کو کہوں کہ وہ بھی ان پر عمل کریں۔
خداوندمتعال نے ارشاد فرمایا:’’نماز،زکات،روزہ،حج،جامد،جمعہ،جماعت،قرآن،علم اورعاشوراء‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی پروردگارا یہ عاشورا کیا ہے؟
ارشاد ہوا:محمد مصطفیٰ کے فرزند کی مصیبت میں عزاداری کرتے ہوئے رونا اورمرثیہ خوانی کرنا۔ اے موسیٰ! جو بھی اس زمانے محمد مصطفیٰ کے اس فرزند پر روئے اور عزاداری کرے اس کے لیے جنت یقینی ہےاور اے موسیٰ !جو بھی محمد مصطفیٰ کے اس فرزند کی محبت میں اپنا مال خرچ کرے (نیازمیں یاپھر کسی بھی چیز میں)میں اس میں برکت ڈال دوں گا یہاں تک کہ اس کا ایک درہم ستر درہموں کے برابر ہوجائے گا اور اسے گناہوں سے پاک صاف جنت میں داخل کروں گااور مجھے میری عزت و جلال کی قسم جو بھی عاشورا یا عاشورا کے علاوہ اس کی محبت میں ایک قطرہ آنسو بہائے میں سو شہیدوں کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھ دوں گا۔
منقول ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہ رب العزت میں بنی اسرائیل کی بخشش کی درخواست کی تو حق متعال نے ارشاد فرمایا:اے موسیٰ !حسین کے قاتل کے علاوہ جو بھی اپنے گناہوں کی مجھ سے معافی مانگے گا میں اسے معاف کردوں گا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی:اس کا قاتل کون ہے؟خداوندمتعال نے فرمایا:اس کا قاتل وہ ہے جس پر مچھلیاں دریاؤں میں، درندے بیابانوں میں،پرندے ہواؤں میں لعنت بھیجتے ہیں۔اس کے جدحضرت محمدمصطفٰی کی امت کے کچھ ظالم اسے کربلا کی سرزمین پر شہید کردیں گے اور ان کا گھوڑا فریاد کرے گا۔’’اَلظَّليْمَةُ اَلظَّليْمَةُ مِنْ اُمّة قتلَت إبْن بِنْت نبيِّهٰا‘‘پھر ان کے بدن کو غسل و کفن کے بغیر صحرا میں پتھروں پر چھوڑ دیں گے اور ان کے اموال کو غارت کریں گے ان کے اہل و عیال کو قیدی بنالیں گے ان کے ساتھیوں کو بھی قتل کردیں گے اور ان کے سروں کو نیزوں پر سوار کرکے بازاروں اور گلیوں میں پھرائیں گے ۔اے موسیٰ ! ان کے بعض بچے پیاس کی شدت سے مرجائیں گے ان کے بڑوں کے جسم کی کھال پیاس کی شدت سے سکڑ جائے گی وہ جس قدر بھی فریاد کریں گے،مدد طلب کریں گے،امان مانگیں گے کوئی بھی ان کی مدد کو نہیں بڑے گا اورانھیں امان نہیں دی جائے گی۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے روتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو بلند کرکے یزید پر لعنت کی اورحضرت امام حسین علیہ السلام کے لیے دعا کی اور یوشع بن نون نے آمین کہا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی:اے میرے پروردگار!حسین کے قاتلوں کے لیے کیا عذاب ہوگا؟ خداوندمتعال نے وحی کی:ایسا عذاب کہ جہنمی بھی اس عذاب کی شدت کی وجہ سے پناہ مانگیں گے ،میری رحمت اور ان کے جد کی شفاعت ان لوگوں کے شامل حال نہ ہوگی اور اگر حسین کی عظمت نہ ہوتی تو میں ان کے قاتلوں کوزندہ درگور کر دیتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا:پروردگار میں ان سے اور جو بھی ان کے کاموں پر راضی تھے ان سب سے بیزار ہوں۔خداوندمتعال نے ارشاد فرمایا:میں نے ان کے پیروکاروں کے لیے بخشش کو انتخاب کیا ہے۔’’وَ اعْلَمْ اَنَّهُ مَنْ بَکٰا عَلَيْهِ اَوْ اَبْکٰا اَوْ تَبٰاکٰا حُرِّمَتْ جَسَدَهُ عَلَی النّٰارْ‘‘اور جان لو! جو بھی حسین پر روئے یا رولائے یا رونے کی شکل بنالے اس کا جسم جہنم کی آگ پر حرام ہے۔
حوالہ
مستدرک الوسائل،
ج۱۰،ص۳۱۸
،ص۲۴۴،ح۴۱
*حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت زکریا علیہ السلام کی عزاداری*
سعد بن عبداللہ قمی ؒکہتے ہیں میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہواحضرت نے ارشاد فرمایا:اس ملاقات سے تمہارا کیا مقصد تھا؟میں نے عرض کیا:مجھے احمد بن اسحاق نے اشتیاق دلایا کہ میں آپ کی خدمت میں شرفیاب ہو کر آپ کے محضر سے فیض حاصل کروں اور اگر آپ اجازت فرمائیں تو آپ سے کچھ سوال بھی کرلوں۔حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے ایک بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا جو کچھ بھی پوچھنا چاہتے ہو میرے اس فرزند سے پوچھ لو یہ اہل تشیع کا بارھواں امام ہے ۔سعد کہتاہے میں نے اس گوہر تابناک کی طرف توجہ کرتے ہوئے ان سے پوچھا اے فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!مجھے سورہ مریم کے اول میں’’کھیعص‘‘کی تأویل سے آگاہ فرمائیں؟
امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:یہ حروف مقطعات غیب کی خبروں میں سے ہیں اور خداوندمتعال ان حروف کے ذریعہ سے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت زکریا کے واقعات سے آگاہ فرمارہے ہیں پھر حضرت نے اس قصہ کو بیان فرمایا: کہ حضرت زکریا نے خداوندمتعال سے تقاضا کیا کے مجھے خمسہ طیبہ کے اسمائے گرامی کی تعلیم دیں،جبرائیل نازل ہوئے اور اُن اسماء کی تعلیم حضرت زکریا کو دی۔ایک دن حضرت زکریا نے مناجات کے وقت عرض کی:پروردگارا! میں جب بھی محمد،علی، فاطمہ اورحسن صلوات الله علیمی اجمعین کے اسماء کو ذہن میں لاتا ہوں تواپنے غموں کو بھول کر خوشحال ہوجاتا ہوں لیکن جب بھی حسین علیہ السلام کے نام گرامی کے بارے میں سوچتا ہوں تو دنیا کے تمام غم میری طرف ہجوم آور ہوجاتے ہیں اور بے اختیار میرے آنسو جاری ہو جاتے ہیں؟خداوندمتعال نے انہیں حضرت سید الشہداء کے واقعہ سے آگاہ کیا ۔پھرحضرت نےفرمایا:
’’کاف‘‘کربلا کی طرف اشارہ ہے جو حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا مقام ہے اور’’ھا‘‘عترت طاہرہ کی ہلاکت کی طرف اشارہ ہے اور’’یا‘‘یزید ملعون کی طرف اشارہ ہے اور’’عین‘‘عطش اور پیاس کی طرف اشارہ ہے’’صاد‘‘صبر سید الشہداء کی طرف اشارہ ہے۔
جب حضرت زکریا نے کربلا کے اس جانسوز واقعہ کو سنا تو اس قدر متأثر ہوئے کہ تین دن تک اپنے گھر سے باہر تشریف نہیں لائے اور لوگوں کو ملنے سے منع کردیا اس مدت میں عزاداری سید الشہداء میں مشغول رہے اور ان جملوں کا تکرار کرتے تھے:
’’إلهي اتفجع خير جميع خلقک بولده ؟ إلهي اتنزل بلوی هذه الرزية بفنائة ؟ إلهي اتلبس علی و فاطمه ثياب هذه المصيبة ؟ إلهي اتحل کربة هذه المصيبة بساحتهما ؟
‘‘اور ان جملوں کے بعد خداوندمتعال سے التجا کرتے تھے کہ بارالہٰا !مجھے ایک فرزند عنایت فرما جس کی محبت سے میرے دل کو نورانی کردے اور پھر مجھے اس کی مصیبت میں اسی طرح مبتلا فرما جس طرح اپنے حبیب محمد مصطفیٰ کو ان کے فرزند حسین کی مصیبت میں مبتلا فرمائے گا ۔
خداوندمتعال نے حضرت زکریا کی دعا قبول کرتے ہوئے انہیں حضرت یحیی ٰعنایت کیے اور پھر حضرت یحییٰ شہید ہو گئے اور زکریا ان کے غم میں سوگوار ہوگئے۔حضرت یحیی ٰاور حضرت امام حسین علیہما السلام میں ایک اور شباہت یہ تھی کہ یہ دونوں بزرگوار چھ ماہ کے حمل کے بعد متولد ہوئے تھے۔ (1) اس کے علاوہ ان دونوں بزرگواروں میں ایک اور شباہہت یہ بھی پائی جاتی ہے جسے حضرت امام جواد علیہ السلام بیان فرماتے ہیں: ’’ما بکت السماء الاّ علی یحیی بن ذکریا والحسین بن علی علیہما السلام‘‘ یعنی آسمان حضرت یحییٰ اور حضرت سید الشہداء کی مظلومیت کے سوا کسی اور کی مظلومیت پر نہیں رویا۔(2)
حوالہ
1: مستدرک الوسائل ، ج ١٠، ص۳۰۸و۲۴۴و۲۷۹
2: ایضاً،ص۲۲۳
*حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عزاداری*
منقول ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے حواریوں کے ہمراہ سفر کر رہے تھے کہ اُن کا گذر سرزمین کربلا سے ہوا تو انھوں نے دیکھا کہ ایک شیر آمادہ ان کا راستہ روکے بیٹھا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام شیر کے پاس گئے اور اس سے علت دریافت کی؟شیر نے فصیح زبان میں کلام کرتے ہوئے کہا:میں اس راستے سے گذرنے نہیں دوں گا مگر یہ کہ
’’تلعنوا یزید قاتل الحسین علیہ السلام فقال عیسی: و من یکون الحسین؟ قال: هو سبط محمّدٍ النّبیّ الامّی و ابن علیٍ الولیٍ‘‘۔
امام حسین علیہ السلام کے قاتل پر لعنت بھیجیں ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پوچھا کہ حسین علیہ السلام کون ہیں؟کہا:محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے اور علی مرتضیٰ علیہ السلام کے فرزندہیں۔پوچھا ان کا قاتل کون ہے؟جواب ملا وحشی حیوانات اور درندگان کا نفرین شدہ یزید۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے ہاتھ بلند کر کے یزید پر لعنت بھیجی اور حواریوں نے آمین کہی تو شیر نے اُن کے لیے راستہ کھول دیا۔
حوالہ
مستدرک الوسائل ج ١٠،ح۴۳
.
.
حضرت اسماعیل بن حزقیل علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام
(حضرت اسماعیل بن حزقیل کو)اللہ تعالیٰ نے انکی قوم کیطرف معبوث کیا ان لوگوں نے ان کو پکڑکراور ان کے سراور چہرے کی کھال بمع سر کے بالوں کے اتار لی تو ایک فرشتہ ان کے پاس آیا اور کہا اللہ تعالیٰ نے مجھے آپؑ کے پاس بھیجا ہے آپؑ چاہیں ہمیں حکم دیں توانہوں نے کہا جوامام حُسین علیہ السلام کے ساتھ کیاجائے گامیرے لئے وہ نمونہ عمل کافی ہے۔
حدثنا محمد بن الحسن بن أحمد بن الوليد رضى الله قال. قال حدثنا محمد بن الحسن الصفار، عن يعقوب بن يزيد، عن محمد بن أبي عمير و محمد بن سنان، عمن ذكره عن أبي عبد الله ” ع ” قال:بعثه الله عز وجل إلى قومه فأخذوه فسلخوا فروة رأسه ووجهه فاتاه ملك، فقال: ان الله عز وجل جلاله بعثني إليك فمرني بما شئت، فقال: لي أسوة بما يصنع بالحسينؑ.
كامل الزيارات ص 64 علل الشرائع ج 1 ص 77، تفسير الصافي ج 3 ص 285, البرهان ج 3 ص 719 بحار الأنوار ج 13 ص 388, القصص للجزائري ص 316, رياض الأبرار ج 1 ص 168, تفسير نور الثقلين ج 3 ص 342, تفسير كنز الدقائق ج 8 ص 237, العوالم ج 17 ص 108, وسائل الشيعة ج 3 ص 365
.
.
حسین مولا کی زیارت اور حضرت نوح کا گریہ
َ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”مَنْ زَارَ قَبْرَ الْحُسَیْنِ لِلّٰہِ وَفی اللّٰہِ، اٴعْتَقَہْ اللّٰہ مِنَ النّٰارِ، وَآمَنَہُ یَوْمَ الْفَزَعِ الاٴکبَرِ، وَلَمْ یَسئَلِ اللّٰہَ حَاجَةً مِن حَوَائِجِ الدُّنیاَ وَالآخِرَةِ اِلاّ اٴعطاَہُ“۔
”جو شخص امام حسین علیہ السلام کی خوشنودی خدا کے لئے اور فی سبیل الله زیارت کرے تو خداوندعالم اس کو آتش جھنم سے نجات عطا کرے گا اور قیامت کے دن اس کو امان دے گا، اور خداوندعالم سے دنیا و آخرت کی کوئی حاجت طلب نھیں کرے گا مگر یہ کہ خداوندعالم اس کی حاجت پوری کردے گا“۔ 1
حضرت نوح علیہ السلام کی عزاداری
انس بن مالک نے روایت نقل کی ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:جب خداوندمتعال نے حضرت نوح کی قوم کو ہلاک کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت نوح کو دستور دیا کہ جبرائیل کی نظارت میں کشتی بنائیں اور اس کشتی میں استعمال ہونے والی ایک ہزار کیلیں جبرائیل نے حضرت نوح کو دیں اور حضرت نوح نے ان تمام کیلوں کو کشتی بنانے میں استعمال کیا جب آخری پانچ کیلیں باقی بچیں تو جب حضرت نوح نے انھیں لگانے کا ارادہ کیا اور اُن میں سے ایک کیل کو اس مقصد سے ہاتھ میں لیاتو اُچانک اس سے درخشندہ ستاروں کی مانندنور نکلنے لگا حضرت نوح یہ ماجرا دیکھ کر حیران ہو گئے تو اس کیل سے آواز آئی اے نوح میں بہترین پیغمبر یعنی محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں۔حضرت نوح نے کہا: اے جبرائیل اس کیل کا کیا ماجرا ہے میں نے آج تک ایسی کیل نہیں دیکھی۔جبرائیل نے جواب دیا یہ کیل خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نام نامی سے منسوب ہے اسے کشتی کی دائیں جانب نبے کریں۔حضرت نوح نے بھی ایسا ہی کیااور پھر دوسرےکیل کو نصب کرنے کے لیے اٹھایا تواس کیل سے بھی ایک نور بلند ہوا،حضرت نوح نے پوچھا یہ کیا ہے؟جواب ملا:یہ کیل سید الانبیاء کے چچازاد بھائی علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے نام سے منسوب ہے اسے کشتی کی بائیں جانب نصب کریں۔حضرت نوح نے بھی ایسا ہی کیا اورپھر تیسری کیل نصب کرنے کے لیےاٹھائی اس سےبھی نور بلند ہوا تو جبرائیل نے کہا یہ کیل آخری پیغمبر کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے نام نامی سے منسوب ہے اسے انکے والد سے منسوب کیل کےساتھ نصب کردیں حضرت نوح نے بھی ایسا ہی کیااورپھر چوتھی کیل اٹھائی تو اس سے بھی نور بلند ہوا تو جبرائیل نے کہا یہ کیل حضرت حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے نام سے منسوب ہے اسے ان کے والد گرامی کے نام سے منسوب کیل کے ساتھ نصب کریں لیکن جب حضرت نوح علیہ السلام نے پانچویں کیل اٹھائی تو پہلے تو اس سے نور اٹھا لیکن جب حضرت نوح نے اسے کشتی میں نصب کیا تو اس سے خون جاری ہو گیا ۔حضرت جبرائیل نے کہا: یہ کیل حضرت امام حسین علیہ السلام کے نام نامی سے منسوب ہے اور پھر جبرائیل نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا ماجرا بیان کیا اور آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کا پیغمبر کے نواسے سے سلوک بیان کیا2-
1- کامل الزیارات، ص۱۴۵، باب۵۷، حدیث۷؛ بحار الانوار، ج۹۸، ص۲۰، باب۳،
۲. بحارالانوار،ج۴۴،ص۲۴۳،ح۳۸
.
.
جب حضرت نوح (ع) اپنی بنائی ہوئی کشتی پر سوار ہوئے تو انھوں نے پوری دنیا کا چکر لگایا۔ جب وہ کربلا پہنچے تو بہت تیز طوفان آ گیا اور وہ کشتی طوفانی لہروں میں پھنس گئی۔ حضرت نوح طوفان میں غرق ہونے کے خوف سے ڈر گئے اور خداوند سے عرض کیا: خداوندا میں نے ساری دنیا میں چکر لگایا ہے، لیکن کہیں بھی اس زمین کی طرح میری حالت نہیں ہوئی۔
جبرائیل نازل ہوا اور فرمایا: اے نوح یہاں پر خاتم انبیاء حضرت محمد (ص) اور حضرت علی (ع) کا بیٹا امام حسین شہید ہو گا۔
حضرت نوح نے سوال کیا: اے جبرائیل اسکو کون قتل کرے گا ؟ جواب ملا: اسکے قاتل پر سات زمین و سات آسمانوں کی لعنت ہوئی ہے۔ پس نوح نے بھی چار مرتبہ اس پر لعنت کی، پھر انکی کشتی نے حرکت کو جاری رکھا، یہاں تک کہ کوہ جودی پر پہنچ کر رک گئی۔
بحار الانوار، ج 44 ص 243، ح 38
اشك روان، ص 217