پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امہات المومنین رض کے گھروں میں عزاداری کرنا

عائشہ کہتی ہیں:ایک دن جبرائیل پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تشریف لائے( جبکہ امام حسین علیہ السلام آپ کے شانوں پر سوار ہو رہے تھے اور آپ سے کھیل رہے تھے)اور آپ سے کہا:’’یا محمّد انّ امّتک ستقتل بعدک و یقتل ابنک هذا من بعدک و مدّ یده فأتاه بتربةٍ بیضاء و قال فی هذه الارض یقتل ابنک اسمها الطّف‘‘اے محمد! جلد ہی آپ کی امت اس فرزند کو آپ کے بعد شہید کر ڈالے گی۔پھر جبرائیل نے ہاتھ بڑھا کر آپ کی خدمت میں ایک سفید رنگ کی مٹی دی اور کہا : آپ کا فرزند اس زمین پر قتل کر دیا جائے گاجسے طف کہتے ہیں۔جب جبرائیل حضرت کے پاس سے رخصت ہوئے تو حضرت مٹی کو ہاتھ میں لئے رو رہے تھے کہ اسی دوران اصحاب کی ایک جماعت جن میں علیؑ،حذیفہ،عمار،ابوذروغیرہ شامل تھے آپ کے پاس تشریف لائے تو آپ نے فرمایا ؛کہ: جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ میرا یہ فرزند طف نامی سرزمین میں شہید کردیا جائے گااور پھر یہ مٹی مجھے دی ہے جس میں میرا یہ فرزند شہید ہو گا اور اس کی اسی میں قبر بنے گی۔
حوالہ
مقتل خوازمی،ج۱ص۱۵۹

زینب بنت جحش نقل کرتی ہیں:ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر تھے۔اس وقت امام حسین علیہ السلام نے تازہ چلنا شروع کیا تھا۔جب وہ رسول خدا کے کمرے میں داخل ہونے لگے تومیں نے انھیں پکڑ لیا۔رسول خدا نے فرمایا:چھوڑ دو!میں نے چھوڑ دیا۔آپ نے وضو کیا اور نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوگئے جبکہ امام حسین علیہ السلام کو اپنی گود میں لیا ہوا تھا۔ جب بھی آپ رکوع میں جاتے تو امام حسین علیہ السلام کو زمین پر بٹھا دیتے۔نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے رونا شروع کردیا۔میں نے عرض کی :یا رسول اللہ ! میں نے آج یہ جو منظر دیکھا اس سے پہلے کبھی مشاہدہ نہیں کیا تھا۔فرمایا:جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ میری امت اس فرزند کو شہید کر دے گی۔پھر حضرت نے حسین علیہ السلام کی تربت مجھے دیکھائی جو جبرائیل حضرت کے لیے لائے تھے۔
حوالہ
کنزالعمال،ج۶،ص۲۲۳

ام سلمہ کہتی ہیں کہ حسنین شریفین علیہم السلام میرے گھر میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کھیل میں مشغول تھے کہ جبرائیل نازل ہوئے اور کہا:’’یا محمّد انّ امّتک تقتل ابنک هذا من بعدک فأومأ بیده الی الحسین فبکی رسول اللّه و وضعه الی صدره‘‘اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ کی امت آپ کے فرزند حسین کو آپ کے بعد شہید کردے گی۔تب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسین کو اپنی آغوش میں لے کر اپنے سینے سے لگا لیا اور رونے لگے۔اور مجھ سے فرمایا:یہ مٹی تمہارے پاس امانت ہے یہ کہہ کر آپ نے مٹی کو سونگھا اور فرمایا:اے ام سلمہ! جب بھی یہ مٹی خون آلود ہو جائے تو جان لینا کہ میرا بیٹا حسین شہید ہو گیا ہے۔
حوالہ
مسند احمد حنبل،ج۳،ص۲۶۵

ام فضل کہتی ہیں میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں شرفیاب ہوئی اور عرض کی میں نے کل رات بہت پریشان کن خواب دیکھا ہے۔حضرت نے فرمایا :اپنا خواب میرے لیے نقل کرو! عرض کی،میں نے دیکھا ہے کہ گویا آپ کے جسم اطہر سے ایک ٹکڑا کاٹ کر میرے دامن میں رکھ دیا گیا ہے۔حضرت نے فرمایا:بہت اچھا خواب دیکھا ہے۔عنقریب فاطمہ سے ایک فرزند متولد ہوگا جو تمہارے دامن میں پروان چڑہے گا۔کچھ ہی مدت بعد امام حسینؑ متولد ہوئے اور میری آغوش میں دے دیے گئے۔ایک دن میں حسین کو لے کر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں شرفیاب ہوئی تو حضرت نے حسین کو اپنی گود میں لیا ’’فاذاً عینا رسول اللّه تهرقان من الدّموع فقلت یا نبیّ اللّه بابی انت و امّی مالک؟ قال:اتانی جبرئیل علیه السّلام فاخبرنی انّ امّتی ستقتل ابنی۔ فقلت:هذا؟ فقال:نعم و أتانی تربةً من تربةٍ حمراء‘‘اچانک حضرت کی چشم مبارک سے آنسو جاری ہونے لگے۔میں نے عرض کی:میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں یا رسول اللہ کیا ہوا ہے؟ارشاد فرمایا: جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ میری امت میرے فرزند حسین کو قتل کر دے گی۔میں نے عرض کی اسی فرزند حسین کو؟فرمایا:ہاں!اور پھر جبرائیل نے مجھے سرخ مٹی عنایت فرمائی اور فرمایا :یہ وہی مٹی ہے جس پر حسین کو شہید کیا جائے گا۔
حوالہ
مستدرک علی الصحیحین،کتاب معرفۃ الصحابہ،ج۳ص۱۷۶

ایک دن پیغمبر اکرم بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں حضرت امام حسن تشریف لائے جب پیغمبر کی نظر امام پر پڑی تو گریہ کرنے لگے پھر فرمایا اے میرے فرزند میرے قریب تشریف لائیں امام پیغمبر کے قریب آئے تو پیغمبر نے ان کو اپنی دائیں ران پہ بٹھایا پھر امام حسین آئے جب پیغمبر کی نظر آپ پر پڑی تو روتے ہوئے فرمایا اے میرے فرزند میرے قریب تشریف لائیں امام آنحضرت کے قریب آئے تو آنحضرت نے آپ کو اپنی بائیں ران پہ بٹھایا اتنے میں جناب سیدہ فاطمہ زہرا تشریف لائیں تو ان کے نظر آتے ہی آپ رونے لگے اور فرمایا اے میری بیٹی فاطمہ میرے قریب تشریف لائیں آنحضرت نے حضرت فاطمہ کو اپنے قریب بٹھایا پھر جناب امام علی تشریف لائے جب پیغمبر اکرم کو حضرت علی نظر آئے تو گریہ کرتے ہوئے فرمایا اے میرے بھائی میرے قریب تشریف لائیں پیغمبر نے حضرت علی کو اپنے دائیں طرف بٹھایا اور حضرت زہرا کی فضیلت بیان کرنے کے بعد آنحضرت نے حضرت زہرا (س) کے بارے میں رونے کا سبب اس طرح بیان فرمایا:
و انّی لمّا راتیھا ذکرت ما یصنع بھا بعدی کانی بھا و قد دخل الذل بیتھا و انتہکت حرمتھا و غصب حقھا و منعت ارثھا و کسر جنبھا و اسقطت جنینھا و ھی تنادی یا محمداہ فلا تجاب و تسغیث فلا تغاث۔
بتحقیق جو سلوک میری رحلت کے بعد حضرت زہرا کے ساتھ کیا جائے گا وہ مجھے یاد آنے سے جب بھی حضرت زہرا نظر آتی ہیں بے اختیار آنسو آ جاتے ہیں کہ میرے مرنے کے بعد ان کی حرمت پائمال اور ان کے گھر پر ذلت و خواری کا حملہ ان کے حقوق دینے سے انکار ان کا ارث دینے سے منع کر کے ان کا پہلو شہید کیا جائے گا اور ان کا بچہ سقط ہو گا اور وہ فریاد کرتی ہوئی یا محمداہ کی آواز بلند کریں گی لیکن کوئی جواب دینے والا نہیں ہو گا وہ استغاثہ کریں گی لیکن ان کے استغاثہ پر لبیک کہنے والا کوئی نہیں ہو گا
جناب ابراہیم ابن محمد الحدید جو الجوینی کے نام سے معروف ہیں جن کے بارے میں جناب ذہبی نے یوں تعریف کی ہے:
(ھو امام محدث فرید فخر الاسلام صدر الدین) انھوں نے اپنی قابل قدر گراں بہا کتاب فرائد السمطین میں اس روایت کو ابن عباس سے نقل کیا ہے
الوافی بالوافیات ج 6ص 17
میزان الاعتدال ج1 ص139
.
.
” حضور صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت اُمِّّ سلمہ رضی اللّہ عنہا کو کربلا کی مٹی عطا فرمانا اور ایک لطیف نُکتہ ”
حضرت اِمام حَسین علیہ السلام ابھی بچّے تھے کہ:
” آقائے دو جہاں صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللّہ عنہا کو اس جگہ کی مٹی عطا فرمائی جہاں اِمام حُسین علیہ السلام نے شہادت پانا تھی۔ ”
چنانچہ حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللّہ عنہا فرماتی ہیں کہ:
” حَسن اور حُسین علیھم السلام دونوں میرے گھر میں رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کھیل رہے تھے کہ جبرئیل امین علیہ السّلام خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور کہا کہ اے محمد ( صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم )! بے شک آپ کی اُمّت میں سے ایک جماعت آپ کے اس بیٹے حُسین ( علیہ السلامُ ) کو آپ کے بعد قتل کر دے گی اور آپ کو ( وہاں کی تھوڑی سی ) مٹی دی۔ ”
حضور نبی اکرم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مٹی کو اپنے سینہ مُبارک سے چِمٹا لیا اور روئے پِھر فرمایا:
” اے اُمِّ سلمہ ( رضی اللّہ عنہا )! جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو جان لینا کہ میرا یہ بیٹا قتل شھید ہو گیا۔ ”
اُمِّ سلمہ رضی اللّہ عنہُ نے اس مٹی کو بوتل میں رکھ دیا تھا اور وہ ہر روز اس کو دیکھتیں اور فرماتیں:
” اے مٹی! جس دن تُو خون ہو جائے گی وہ دن عظیم ہو گا۔ ”
حوالہ جات:-
( الخصائص الکبریٰ،جِلد 2،صفحہ 125 )
( المعجم الکبیر للطبرانی،جِلد 3،صفحہ 108 )
____
لطیف نُکتہ:
یہ بات قابلِ غور ہے کہ:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّہ عنہا جو کہ حضور اکرم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی ازواج میں سے زیادہ محبوب تھیں ان کو مٹی عطا نہیں فرمائی اور نہ ہی کسی اور زوجہ مُطہرہ کے سپرد فرمائی بلکہ حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللّہ عنہا کے حوالے فرمائی اور فرمایا کہ:
” اے اُمِّ سلمہ ( رضی اللّہ عنہا )! جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو سمجھ لینا کہ میرا بیٹا شہید ہو گیا ہے۔ ”
اس کی وجہ یہ ہے کہ:
” آپ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم اپنی نِگاہِ نبوّت سے یہ دیکھ رہے تھے کہ میرے بیٹے کی شہادت کے وقت ازواجِ مُطہرات میں سے حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللّہ عنہا ہی زندّہ ہوں گی۔ ”
چنانچہ جب واقعہ کربلا ظہور پذیر ہُوا تو اس وقت صرف اُمِّ سلمہ رضی اللّہ عنہا ہی زندّہ تھیں،حضور نبی اکرم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم کی باقی تمام ازواجِ مُطہرات وفات پا چُکی تھیں۔
_
نام کتاب = شہادتِ اِمام حُسین علیہ السلامُ
( فلسفہ و تعلیمات )صفحہ = 51
.
.
سُُرخ مٹی
ابوسلمہؓ بن عبدالرحمان کہتے ہیں کہ عائشہؓ کا ایک بالا خانہ تھا .حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب جبرئیل سے ملنے کا ارادہ کرتے تھے تو اس میں ملتے تھے .ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس پر چڑھ گئے اور عائشہؓ سے کہا کہ ان کی طرف نہ جھانکیں، کہتے ہیں کہ اوپڑ کی سیڑھی عائشہؓ کے حجرے میں سے تھی.امام حسینؑ داخل ہوئے اور اوپر چڑھ گئے ، ان کو معلوم نہ ہو سکا حتیٰٰ کہ وہ بالا خانے میں پہنچ گئے . جبرئیل نے پوچھا یہ کون ہیں ?فرمایا یہ میرا بیٹا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام حسینؑ کو پکڑ کر اپنی ران پر بٹھا لیا.جبرئیل نے کہاعنقریب اس کوآپ کی امت قتل کرے گی .رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا کہ میری امت ? انہوں نے کہا جی ہاں ! اگر آپ چاہیں تو میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس سر زمین کی خبر دوں جس میں وہ قتل کئے جائیں گے.جبرئیل نے مقام الطف عراق کی طرف اشارہ کیا اور انہوں نے سُُرخ مٹی وہاں سے لے لی اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو وہ مٹی دکھا دی
دلائل النبوہ //حافظ بیہقی // سفر سادس // ص 468// تحقیق:ڈاکٹر عبدالمعطی قلعی // طبع الاولی 1408 ھ ، جز 7،دارالکتب العلمیہ بیروت