بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم
.
قرآن جلا دیا گیا
.
وہ قرآن جو صحابہ نے جمع کر رکھے تھے 👇🏼
.
حضرت عثمان نے سب کے قرآن کو جلا دیا 👇🏼
📜وامر بما سواہ من القرآن فی کل صحیفتہ او مصحف ان یحرق
📝 اور حکم دیا کہ اسکے سواہ کوئی چیز اگر قرآن کی طرف منسوب کی جاتی ہے خواہ وہ کسی صحیفہ یا مصحف میں ہو تو اسے جلا دیا جائے۔۔
📚 صحیح بخاری – کتاب فضائل القرآن – رقم ۴۹۸۷
.
اور دیکھیں کہ علمائے اھلسنت نے کتنی شدومد کے ساتھ اس فعل کو قبیح کہنے کے بجائے مستحسن قرار دیا۔۔۔نعوذباللہ
.
♨ تاریخ خمیس کی عبارت:
📜 قالو۱ ان عثمان احرق مصحف ابن مسعود و مصحف ابی و جمع الناس علی مصحف زید ثابت ولما بلغ ابن مسعود انہ احرق مصحفہ و کان لہ نسختہ عند اصحاب لہ بالکوفتہ امرھم بحفظھا وقال لھم قرات بسبعین سورتہ و ان زید بن ثابت لصبی من الصبیان ۔۔ جوابہ اما حراق مصحف ابن مسعود فلیس ذلک مما تعتذر عنہ بل ھوا من اکبر المصالح۔۔الخ
.
📝 یہ جو کہا جاتا ہے کہ جناب عثمان نے جناب عبداللہ بن مسعود اور ابی بن کعب کے مصاحف کو جلایا اور لوگوں کو زید بن ثابت کے قرآن پر جمع کیا۔ جب ابن مسعود کو اسکے قرآن جلائے جانے کی خبر پہنچی تو کوفہ میں اسکے اصحاب کے پاس اس کے قرآن کی ایک نقل موجود تھی، ابن مسعود نے اس نقل کی حفاظت کرنے کیلئے ان اپنے اصحاب کو مامور کیا، اور ان سے کہا کہ میں نے ستر سورتوں کی تلاوت کی ہے اور زید بن ثابت جس کے قرآن پر عثمان نے لوگوں کو جمع کیا ہے وہ ابھی بہت چھوٹا بچہ ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں جناب عثمان کو معذور سمجھنا غلط ہے بلکہ یہ ان کی بہترین مصلحت کا نتیجہ ہے۔
📚 تاریخ الخمیس – جلد ۲ – صفحہ ۲۷۳ – از امام اہل سنت الدیاربکری
.
تبصرہ: ادھر قابل توجہ بات یہ ہے کہ جناب ابن مسعود ؓ نے قرآن جلانے کے باوجود اپنی قرآن ہی کو مستند سمجھا اور جناب زید بن ثابت کو بچہ کہہ کر ٹھکرایا۔ کیا اب بھی کسی کو شک ہے جناب عثمان نے زبردستی اکابر صحابہ کے قرآن کو جلائے
صواعق المحرقہ کی عبارت :
📜 ومنھا انہ احرق المصاحف التی فیھا القرآن و جوابہ ان ھذا من فضائلہ
📝 ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ جناب عثمان نے مصاحف کو جلایا جس میں قرآن تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات دراصل ان کے فضائل میں سے ہیں۔۔
📚 الصواعق المحرقہ فی الرد علی اھل البدع والزندقتہ، از امام اہلسنت ابن حجر مکی – صفحہ ۷۱ – طبع قدیم و صفحہ ۱۱۵، ناشر مکتبہ امدادیہ، ملتان
.
تبصرہ: یہ لیجئے اب تو کام ہی تمام ہوگیا۔ ابن حجر نےوہ مصحف جس میں قرآن لکھا تھا اسے جلانا فضیلت قرار دیا۔۔۔
روضتہ الاحباب میں جناب عثمان کے اس عمل کے دفاع میں مرقوم ہیں:
📜 وامر کردتا سوائے ان مصاحف را از مصحف اکناف و قصب ولحاف ہرجاکہ بود غرق یا حرق نمودند۔۔الخ
📝 ّ(اس کا خلاصہ) جناب عثمان نے سوائے ایک مصحف کے باقی تمام کو پھاڑا اور پھر انہیں جلایا۔
📚 روضتہ الاحباب، از امام اہلسنت محدث جمال الدین، جلد ۲، صفحہ ۲۲۹، سطر ۳، مطبوعہ بہادر لکھنؤ و جلد ۲، صفحہ ۱۶۵، ۱۲۹۷ ہجری ایڈیشن۔
.
ٰتبصرہ: اس میں جمال الدین محدث نے تو پھاڑنے کی بھی تصریح کردی جلانے کے ساتھ یعنیٰ اہلسنت کے تیسرے خلیفہ نے پہلے قرآن کو پھاڑا پھر جلایا۔۔کیا کوئی اھلسنت قرآن کو پھاڑنے کیلئے تیار ہیں؟
.
.
ہمارے پاس اس ضمن میں بہت سارے فتوے جات ہیں علمائے اہلسنت کے جنہوں نے جناب عثمان کے اس فعل قبیح کو دلیل بناتے ہوئے احراق آیات کو جائز قرار دیا ہیں۔۔
.
اس ضمن میں ہم فقط علامہ جلال الدین سیوطی کی کتاب سے ایک فتویٰ نقل کریں گے تاکہ ہماری دلیل مستحکم رہیں۔۔
سیوطی نقل ہیں:
📜 وان احرقھا بالنار فلا باس احرق عثمان مصاحف کان فیھا الآیات وقراء ات منسوختہ و لم ینکر علیہ۔۔
📝 اور بتحقیق اس بات میں کوئی قباحت نہیں کہ قرآن کو جلایا جائے کیونکہ جناب عثمان نے مصاحف کو جلایا جس میں آیات قرآنی بھی تھیں اور اسکے علاوہ قرآت منسوخہ بھی لیکن کسی نے انکے اس فعل پر انکار نہیں کرا۔
📚 الاتقان فی علوم القرآن، جز نمبر ۶، صفحہ ۲۲۵۸، تحت ۷۶ نوع، محقق مرکز الدراسات القرآنیتہ، ۱۴۲۶ ہجری ایڈیشن۔
جس کاغذ[مصحف یا قرآن] پر اللہ کا نام ھو اُسے جلا ڈالنا درست ھے۔
تیسیر الباری شرح صحیح البخاری // ج 6 // ص 500
.
اللہ سے دشمنی میں اس قدر آگے نکل گئے کہ اللہ کا نام اگر کسی کاغذ پر لکھا ھو تو اُسے جلانے سے بھی گریز نہیں کیا۔
صحابی رسول ﷺ حضرت عبداللہ بن مسعود نے حضرت عثمان کے قرآن جلانے کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا ۔۔۔ اور اپنے حلقہ احباب کو اپنے اپنے قرآن چھپا لینے کا حکم دیا تھا ۔۔۔ اس کا مطلب ہے وہ حضرت عثمان کے جمع قرآن سے متفق نہیں تھے ۔۔۔؟