حضرت عمر کا حضرت ابوبکر کی بہن ام فروہ کو حضرت ابوبکر کی میت پردرے مارنا

بخاری شریف کتاب كِتَاب الْخُصُومَاتِ یعنی نالشوں اور جھگڑوں کے بیان میں جس میں ایک باب بَابُ إِخْرَاجِ أَهْلِ الْمَعَاصِي وَالْخُصُومِ مِنَ الْبُيُوتِ بَعْدَ الْمَعْرِفَةِ: (جب حال معلوم ہو جائے تو مجرموں اور جھگڑے والوں کو گھر سے نکال دینا) قائم کیا ھے
وَقَدْ أَخْرَجَ عُمَرُ أُخْتَ أَبِي بَكْرٍ حِينَ نَاحَتْ.
‏‏‏‏ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بہن ام فروہ رضی اللہ عنہا نے جب وفات صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر نوحہ کیا تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے انہیں (ان کے گھر سے) نکال دیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْخُصُومَاتِ/حدیث: Q2420]
ام فروہ کا تعارف
ام فروہ بنت ابوقحافہ ،حضرت ابوبکر کی بہن ، حضرت عائشہ کی پھوپی اور اشعت ابن قیس (جو کہ مرتد ھوگیا تھا ) اس کی بیوی اور محمد ابن اشعت ابن قیس جو اشعت ان قیس کا بیٹا تھا اور کربلا میں امام حسین علیہ السلام سے لڑنے والوں میں تھا اور اس کا دوسے بیٹے شہدا کے سروں بے حرمتی کی تھی یہ وہ ام فروہ ھے
بخاری نے اس حدیث کو تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کیا لیکن طبقات ابن سعد (حصہ سوئم) صفحہ 42 پر یہ واقع طرح بیان کیا گیا ھے
ام فروہ کو درے مارنا
سیعد بن مسیب سے مروی ھے کہ جب ابوبکر کی وفات ھوئی تو حضرت عائشہ نے ان پر نوحہ قاتم کیا عمر کومعلوم ھوا تو وہ آئے اور ان عورتوں کو ابوبکر پر نوحہ کرنے پرمنع کیا عورتوں نے باز رھنے سے انکار کیا انہوں نے ھشام بن الولید ( جو کہ خالد بن ولید کا بھائی تھا) سے کہا کہ میرے پاس ابوقحافہ کی بیٹی(ابوبکر کی بہن) کو لے آؤ ، انہوں نے ان کو درے سے چند ضربیں لگائیں نوحہ کرنے والیوں نے جب سنا تو سب متفرق ھو گئیں عمر نے کہا کہ تم لوگ یہ چاھتی ھو کہ تمہارے رونے کی وجہ سے ابوبکر کو عذاب کیا جائے رسول اللہؐ نے فرمایا ھے کہ میت پر اس کے عزیزوں کے رونے سے عذاب کیا جاتا ھے ۔
حضرت عائشہ کا میت پر رونے کے بارے میں قول
عمرہ بنت عبد الرحمٰن نے خبردی کہ انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا (اس موقع پر) ان کے سامنے بیان کیا گیا تھا حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میت کو زندہ کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ ابو عبد الرحمٰن کو معاف فر ما ئے!یقیناً انھوں نے جھوٹ نہیں بو لا لیکن وہ بھول گئے ہیں یا ان سے غلطی ہو گئی ہے (امرواقع یہ ہے کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودی عورت (کے جنازے) کے پاس سے گزرے جس پر آہ و بکارکی جا رہی تھی تو آپ نے فرمایا: “یہ لو گ اس پر رو رہے ہیں اور اس کو اس کی قبر میں عذاب دیا جا رہاہے۔ (مسلم شریف حدیث نمبر 2156)
عمر بن خطاب کا رسولﷺ کے گھر پر حملہ
سعید بن مسیب سے روایت ہے
کہ جب ابوبکر فوت ہوئے تو ان پر رویا جانے لگا۔ حضرت عمر نے فرمایا: نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے: میت کو زندہ کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے لیکن وہ رونے سے باز نہ آئے۔
عمر نے ہشام بن ولید سے کہا: اٹھو اور عورتوں کو نکال دو۔
عائشہ نے کہا میں تمہیں نکالتی ہوں۔ عمر نے کہا داخل ہو جاو میں نے تمہیں اجازت دی ہے۔ چنانچہ وہ داخل ہوگئے تو عائشہ نے فرمایا: اے بیٹے! کیا تم مجھے نکالنا چاہتے ہو؟
پھر وہ عمر کے پاس ایک ایک عورت کو لاتے رہے اور وہ انھیں درے مارتا رہا یہاں تک کہ ابوبکر کی بہن ام فروہ کو بھی کئی درے رسید کیے۔
[📖مصنف عبدالرزاق کتاب الجنائز]
[📕تاریخ طبری اردو حصہ دوم]
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْؕ
یہ نبی مومنین کے ان کی جان سے زیادہ مالک ہیں اور ان کی بیبیاں اُن کی مائیں ہیں(الاحزاب6)
ہمیں امہات المومنین کی تعظیم کا درس دینے والے بتائیں گے!
.
١_کہ کیا عمر بن خطاب پر اس آیت کا اطلاق نہیں ہوتا تھا؟
٢_جس گھر اماں عائشہ رہتی تھیں وہ رسولﷺ کا گھر تھا کیا اسکی تعظیم کرنا عمر کی ذمہ داری نہ تھی؟
٣_رسول اللہﷺ کے دروازے پر اونچی آواز میں بولنا بے ادبی نہیں؟
۴_جس مسئلے کا موصوف کو علم نہیں اس پر ڈھٹائی دکھانا جہالت نہیں؟
۵۔اماں عائشہ نے جب اسکی تردید کی تو کیا اسکے بعد موصوف کا رسول اللہﷺ پر جھوٹ باندھنے سے رجوع ثابت ہے؟
⭕ سب سے اہم بات کہ اس سے ثابت ہوا کہ موصوف گھروں پر حملہ کرنے اور عورتوں پر تشدد کے عادی تھے جس کا ثبوت بہن کو مارنا اور پھر رسولﷺ کی لختِ جگر کے گھر پر دھاوا ہے۔