تحریر: سید علی اصدق نقوی
ہر سال محرم کی آمد پر اہل تشیع سے بہت سے سوالات ہوتے ہیں جن میں سے ایک ماتم کا مسئلہ ہے۔ اس ضمن میں ہم ایک مختصر تحریر لکھ چکے ہیں جس میں اہل سنت کتب سے چند حوالہ جات منقول ہیں ماتم کے جواز پر۔ اہل تسنن پھر اہل تشیع کی کتب سے ماتم کی (مبینہ) حرمت پر احادیث پیش کرتے ہیں۔ اس بحث اور تحقیق میں حقیر نے ان روایات کو جمع کرکے ان کا سندی جائزہ لیا ہے اور ساتھ ہی اس سے معارض روایات کو بھی نقل کیا ہے اور ان روایات کے متون کی توجیہ پیش کی ہے، وإليكم الروايات الذامة أولاً:
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ سَمَاعَةَ الْخُزَاعِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي الْمِقْدَامِ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ (عَلَيْهِ السَّلام) يَقُولُ تَدْرُونَ مَا قَوْلُهُ تَعَالَى وَلا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ قُلْتُ لا قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللهِ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) قَالَ لِفَاطِمَةَ (عَلَيْهِا السَّلام) إِذَا أَنَا مِتُّ فَلا تَخْمِشِي عَلَيَّ وَجْهاً وَلا تَنْشُرِي عَلَيَّ شَعْراً وَلا تُنَادِي بِالْوَيْلِ وَلا تُقِيمِي عَلَيَّ نَائِحَةً قَالَ ثُمَّ قَالَ هَذَا الْمَعْرُوفُ الَّذِي قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ.
عمرو بن ابی المقدام سے روایت ہے جو کہتے ہیں میں نے امام صادق ع نے کو فرماتے سنا: تم جانتے ہو اللہ تعالی کے فرمان “اور وہ اچھائی میں آپ کی نافرمانی نہ کریں” سے کیا مراد ہے، میں نے عرض کیا: نہیں۔ تو امام ع نے فرمایا: رسول اللہ ص نے فاطمہ ع سے فرمایا تھا: جب میری وفات ہوجائے تو مجھ پر (غم میں) اپنے چہرے کو نہ خراش لگانا اور نہ اپنے بال بکھیرنا اور نہ ہی واویلا کرنا اور نہ ہی مجھ پر کھڑے ہوکر نوحہ گیری کرنا۔ پھر امام ع نے فرمایا: یہ اچھائی ہے جس کا ذکر اللہ عز و جل نے کیا ہے۔ (1)
اس روایت میں سلمہ بن خطاب اور عمرو بن ابی المقدام ضعیف ہیں، پس یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ ایک اور تفسیر فرات کوفی میں بھی مروی ہے اس مفہوم کی (2) لیکن یہ کتاب معتبر تفاسیر میں شمار نہیں ہوتی اور اس میں بھی روایات عنعنہ کی شکل میں تو ہیں لیکن متصل سند نہیں ہے مؤلف سے معصوم تک۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ عَنْ أَبَانٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللهِ (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ لَمَّا فَتَحَ رَسُولُ اللهِ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) مَكَّةَ بَايَعَ الرِّجَالَ ثُمَّ جَاءَ النِّسَاءُ يُبَايِعْنَهُ… قَالَ لا تَلْطِمْنَ خَدّاً وَلا تَخْمِشْنَ وَجْهاً وَلا تَنْتِفْنَ شَعْراً وَلا تَشْقُقْنَ جَيْباً وَلا تُسَوِّدْنَ ثَوْباً وَلا تَدْعِينَ بِوَيْلٍ فَبَايَعَهُنَّ رَسُولُ اللهِ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) عَلَى هَذَا…
امام صادق ع نے فرمایا: جب رسول اللہ ص نے مکہ فتح کیا تو مردوں نے انکی بیعت کی، پھر عورتیں آئیں اور انہوں نے آپ ص کی بیعت کی۔۔۔ آپ ص نے فرمایا: اپنی گال کو مت مارنا، اور اپنے چہرے کو خراش نہ لگانا، اور اپنے بالوں کو نہ نوچنا، اور اپنے گریبان کو نہ چاک کرنا، اور کالا لباس نہ پہننا، اور واویلا نہ کرنا تو ان عورتیں نے رسول اللہ ص کی اس بات پر بیعت کی۔۔۔ (3)
یہ روایت سندا مؤثق ہے، ابان بن عثمان عامی راوی تھا، اگرچہ اسکی صریح توثیق نہیں آئی مگر اسکو اصحاب اجماع میں سے شمار کیا گیا ہے۔ تفسیر قمی کے صفحہ 364 میں بھی یہ سورہ ممتحنہ کی آیت 12 کے ذیل میں آیا ہے، آیت یہ ہے:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰ أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّـهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّـهَ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿الممتحنة: ١٢﴾
پیغمبر اگر ایمان لانے والی عورتیں آپ کے پاس اس امر پر بیعت کرنے کے لئے آئیں کہ کسی کو خدا کا شریک نہیں بنائیں گی اور چوری نہیں کریں گی – زنا نہیں کریں گی – اولاد کو قتل نہیں کریں گی اور اپنے ہاتھ پاؤں کے سامنے سے کوئی بہتان (لڑکا) لے کر نہیں آئیں گی اور کسی نیکی میں آپ کی مخالفت نہیں کریں گی تو آپ ان سے بیعت کا معاملہ کرلیں اور ان کے حق میں استغفار کریں کہ خدا بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔
الکافی میں ایک اور روایت بھی اس ضمن میں آئی ہے ضعیف سند سے جس میں یہاں معروف یعنی نیکی / اچھائی سے مراد گریبان نہ چاک کرنا مراد ہے (4) شیخ مفید نے الارشاد میں امام حسین ع کا اپنی بہن سیدہ زینب ع سے مکالمہ نقل کیا ہے جس میں امام ع فرماتے ہیں:
…يا أُخيّةُ إِنِّي أقسمتُ فأبِرِّي قَسَمي، لا تَشُقِّي عليَّ جيبأً، ولا تَخْمشي عليَّ وجهاً، ولا تَدْعِي عليٌ بالويلِ والثّبورِ إِذا أنا هلكتُ.
اے میری بہن، میں نے اللہ کی قسم کھائی ہے پس میری قسم کو پورا کرنا، مجھ پر (غم میں) گریبان نہ چاک کرنا اور نہ واویلا کرنا اور شور مچانا جب میں شہید ہوجاؤں۔ (5)
مگر یہاں پر یہ بات بلا سند منقول ہے، اور مرسل روایت پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ اگر اسکو قبول کیا بھی جائے تو اس ممانعت کی وجہ یہ تھی کہ کہ دشمنان اس سب کو دیکھ کر خوش نہ ہوں (6)۔ نہج البلاغہ اور امالی شیخ مفید میں ہے کہ امام علی ع نے رسول اللہ ص کو غسل کرنے کے بعد فرمایا تھا:
…وَلَوْ لاَ أَنَّكَ أَمَرْتَ بِالصَّبْرِ وَنَهَيْتَ عَنِ اَلْجَزَعِ لَأَنْفَدْنَا عَلَيْكَ مَاءَ اَلشُّئُونِ…
۔۔۔اور اگر آپ نے صبر کا حکم نہ دیا ہوتا اور “جزع” سے نہ روکا ہوتا تو ہم آپ پر آنسو بہا دیتے۔۔۔ (7) جزع سے مراد گھبرانا ہے، جیسے کہتے ہیں “جزع و فزع”، یعنی گھبرانا اور ڈرنا۔
شیخ مفید کی امالی کے انتساب کا مسئلہ ہے، اور اگر اس کتاب کی نسبت شیخ مفید سے مان بھی لی جائے تب بھی اس میں موجود سند ضعیف ہے، نہج البلاغہ میں بھی یہ مرسلاً مروی ہے۔ مزید نہج البلاغہ میں ہی ہے:
وَقَالَ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ: يَنْزِلُ اَلصَّبْرُ عَلَى قَدْرِ اَلْمُصِيبَةِ وَمَنْ ضَرَبَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ عِنْدَ مُصِيبَتِهِ حَبِطَ عَمَلُهُ.
اور امام ع نے فرمایا: صبر، مصیبت کے حساب سے نازل ہوتا ہے۔ اور جو اپنے ہاتھ کو اپنی ران پر مارے تو اسکا عمل ضائع ہوگیا۔ (
اس طرح کی ایک روایت من لا یحضرہ الفقیہ (9) اور الخصال (10) پر بھی اس مفہوم سے مروی ہے مگر یہ بھی سندا ضعیف ہیں۔ الکافی میں بھی ایک باب میں دو جگہ یہ روایت وارد ہوئی ہے:
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّوْفَلِيِّ عَنِ السَّكُونِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ الْسَّلام) قَالَ قَالَ رَسُولُ الله (صلّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) ضَرْبُ الْمُسْلِمِ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ عِنْدَ الْمُصِيبَةِ إِحْبَاطٌ لأَجْرِهِ.
رسول اللہ ص نے فرمایا: مسلمان کا مصیبت کے وقت اپنے ہاتھ کو اپنی ران پر مارنا اسکے اجر کا ضائع کردیتا ہے۔ (11) اسکی سند میں نوفلی مجہول ہے اور سکونی عامی ہے، پس یہ ضعیف ہے۔ اور دوسری روایت اس ہی باب میں:
سَهْلٌ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حَسَّانَ عَنْ مُوسَى بْنِ بَكْرٍ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الأوَّلِ (عَلَيْهِ الْسَّلام) قَالَ قَالَ ضَرْبُ الرَّجُلِ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ عِنْدَ الْمُصِيبَةِ إِحْبَاطٌ لأَجْرِهِ.
امام ابو الحسن اول ع نے فرمایا: کسی شخص کا مصیبت کے وقت اپنے ہاتھ کو اپنی ران پر مارنا اسکے اجر کو ضائع کردیتاب ہے۔ (12) اس حدیث کی سند میں سہل بن زیاد اور علی بن حسان ضعیف ہیں۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عُقْبَةَ عَنِ امْرَأَةِ الْحَسَنِ الصَّيْقَلِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ الْسَّلام) قَالَ لاَ يَنْبَغِي الصِّيَاحُ عَلَى الْمَيِّتِ وَلاَ شَقُّ الثِّيَابِ.
امام صادق ع نے فرمایا: میت پر (غم میں) چیخنا اور کپڑے چاک کرنا مناسب نہیں ہے۔ (13) اس سند میں بھی سہل بن زیاد اور علی بن عقبہ ضعیف ہیں، اور بنیادی راوی بھی مجہول ہے۔ یہی روایت ایک اور ضعیف سند سے بھی اس باب میں وارد ہوئی ہے (14)
یہ روایات اجمالا ماتم کی کراہیت پر تھیں، اب ہم نوحہ گیری کی کراہیت پر روایات نقل کرتے ہیں:
5769 النِّيَاحَةُ مِنْ عَمَلِ الْجَاهِلِيَّةِ
نوحہ گیری جاہلیت کے عمل میں سے ہے۔ (15) یہ روایت شیخ صدوق نے معصوم ع سے نسبت دیئے بغیر نقل کی ہے اور اسکی کوئی سند بھی نہیں دی، پس یہ مرسل روایت ہے۔ اور شیخ مفید سے منسوب کتاب الاختصاص میں بھی یہ روایت آئی ہے، لیکن اس کتاب کی نسبت شیخ مفید سے ثابت نہیں ہے، اور اگر مان بھی لیا جائے تب بھی یہ روایت سندا قابل التفات نہیں۔ ایک روایت ہے جو متأخر کتب جیسے مستدرک الوسائل اور جامع احادیث الشیعہ میں نقل ہوئی ہے، اسکا مصدر اول قاضی نعمان أبو حنیفہ کی کتاب دعائم الإسلام ہے جس پر فقہاء کا عمل نہیں ہے اور اسکے مؤلف کے مذہب پر اختلاف ہے، اس روایت سے بھی استدلال ممکن نہیں (16) اور اس ہی طرح نوحے پر اور بھی روایات ہیں جیسے:
…وَنَهَى عَنِ الرَّنَّةِ عِنْدَ الْمُصِيبَةِ وَنَهَى عَنِ النِّيَاحَةِ وَالِاسْتِمَاعِ إِلَيْهَا…
اور آپ ص نے چیخ و پکار سے منع فرمایا تھا مصیبت کے وقت اور نوحہ گیری اور اسکو سننے سے بھی منع فرمایا تھا۔۔۔ (17) اس حدیث کی سند میں بہت سے مجاہیل یعنی مجہول راویان ہیں جسکے سبب یہ روایت بھی ضعیف ہے۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ وَاَلْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ جَمِيعاً عَنْ أَبِي جَمِيلَةَ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ قَالَ: قُلْتُ لَهُ مَا اَلْجَزَعُ قَالَ أَشَدُّ اَلْجَزَعِ اَلصُّرَاخُ بِالْوَيْلِ وَاَلْعَوِيلِ وَلَطْمُ اَلْوَجْهِ وَاَلصَّدْرِ وَجَزُّ اَلشَّعْرِ مِنَ اَلنَّوَاصِي وَمَنْ أَقَامَ اَلنُّوَاحَةَ فَقَدْ تَرَكَ اَلصَّبْرَ وَأَخَذَ فِي غَيْرِ طَرِيقِهِ وَمَنْ صَبَرَ وَاِسْتَرْجَعَ وَحَمِدَ اَللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فَقَدْ رَضِيَ بِمَا صَنَعَ اَللَّهُ وَوَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اَللَّهِ وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ جَرَى عَلَيْهِ اَلْقَضَاءُ وَهُوَ ذَمِيمٌ وَأَحْبَطَ اَللَّهُ تَعَالَى أَجْرَهُ. عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ عَنْ أَبِي جَمِيلَةَ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ: مِثْلَهُ.
جابر نے امام باقر ع سے روایت کی اور کہا: میں نے امام ع سے عرض کیا: جزع کیا ہے؟ امام ع نے فرمایا: سب سے شدید جزع، چیخ کر واویلا کرنا ہے اور گریہ کرنا، اور چہرے اور سینے کو مارنا اور بالوں کو چوٹی سے چیرنا۔ اور جو نوحہ کرنے والی عورت کو بلائے اس نے صبر چھوڑ دیا ہے اور کوئی اور رستہ اپنا لیا ہے۔ اور جس صبر کرے اور کلمہ استرجاع کہے تو اللہ عز و جل کی تعریف کرے تو وہ اس سے راضی ہوا جو اللہ نے کیا ہے اور اسکا اجر اللہ پر ہے، اور جو ایسا نہ کرے تو اللہ اس پر اپنی قضاء جاری کرے گا اور یہ مذموم ہے، اور اللہ تعالی اسکا اجر ضائع کرے گا۔ علی بن ابراہیم نے اپنے والد سے جس نے عمرو بن عثمان سے جس نے ابو جمیلہ سے جس نے جابر سے جس نے امام باقر ع سے یہی حدیث روایت کی ہے۔ (18) یہ حدیث بھی سندا ضعیف ہے، أبو جمیلہ اس میں ضعیف راوی ہے اور سہل بن زیاد بھی ضعیف ہے۔
ان تمام روایات کی سند ضعیف ہے، لیکن انکی توجیہ یہ ہو سکتی ہے کہ جب جزع اور نوحہ باطل چیز یا دنیوی امر پر ہو تب مذموم ہے، لیکن جب وہ ائمہ ع اور معصومین کے مصائب پر ہو تب ممدوح ہے۔ اب ہم وہ روایات نقل کرتے ہیں جو نوحہ کرنے کے جواز پر ہیں۔ الکافی میں بسند صحیح مروی ہے:
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَعْقُوبَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللهِ (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ قَالَ لِي أَبِي يَا جَعْفَرُ أَوْقِفْ لِي مِنْ مَالِي كَذَا وَكَذَا لِنَوَادِبَ تَنْدُبُنِي عَشْرَ سِنِينَ بِمِنًى أَيَّامَ مِنًى.
امام صادق ع نے فرمایا: مجھ سے امام باقر ع نے فرمایا تھا: میرے مال میں سے فلاں رقم کو وقف کردو گریہ کرنے والی عورتوں کیلئے جو دس سال مجھ پر منیٰ میں ایام منیٰ میں گریہ کریں۔ (19)
اس سے میت پر گریہ کرنے کا جواز معلوم ہوتا ہے، وہ بھی چند دن نہیں بلکہ کئی سالوں تک۔ نہج البلاغہ میں ہے:
وَقَالَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ: عَلَى قَبْرِ رَسُولِ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ سَاعَةَ دُفِنَ إِنَّ اَلصَّبْرَ لَجَمِيلٌ إِلاَّ عَنْكَ وَإِنَّ اَلْجَزَعَ لَقَبِيحٌ إِلاَّ عَلَيْكَ…
اور امام علی ع نے رسول اللہ ص کی قبر پر کھڑے فرمایا جب وہ دفن ہوگئے: صبر بہت خوبصورت چیز ہے، سوائے آپ پر، اور جزع بہت بدصورت چیز ہے، سوائے آپ پر کرنے کے۔ (20)
پھر یہ کہ اگر ہم ممانعت یا کراہیت کی روایات کو قبول کر بھی لیں، تب بھی اسکا اطلاق عزاداری امام حسین ع پر نہیں ہوتا کیونکہ انکی عزاداری کو حدیث کے نص سے استثناء حاصل ہے۔ دیگر تمام عزاداری اور نوحہ مکروہ ہے سوائے امام حسین ع پر گریہ اور جزع کے، جیسا کہ مروی ہے:
حَدَّثَنِي أَبِي رَحِمَهُ اَللَّهُ عَنْ سَعْدِ بْنِ عَبْدِ اَللَّهِ عَنْ أَبِي عَبْدِ اَللَّهِ اَلْجَامُورَانِيِّ عَنِ اَلْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ: إِنَّ اَلْبُكَاءَ وَاَلْجَزَعَ مَكْرُوهٌ لِلْعَبْدِ فِي كُلِّ مَا جَزِعَ – مَا خَلاَ اَلْبُكَاءَ وَاَلْجَزَعَ عَلَى اَلْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ فَإِنَّهُ فِيهِ مَأْجُورٌ.
امام صادق ع نے فرمایا: گریہ اور جزع مکروہ ہے بندے کیلئے، ہر اس کیلئے جو جزع کرے، سوائے امام حسین بن علی ع پر گریہ اور جزع کے کیونکہ اس میں اسکو اجر ملے گا۔ (21) اس روایت کی سند اگرچہ ضعیف ہے، لیکن اسکی ہی تائید میں بسند معتبر یہی مفہوم مروی ہے:
وَقَالَ (عليه السلام). كُلُّ الْجَزْع وَالْبُكاء مَكْرُوهٌ سِوَى الْجَزْع وَالْبُكاء عَلَى الْحُسَينِ (عليه السلام).
امام ع نے فرمایا: ہر غم اور گریہ مکروہ ہے سوائے امام حسین ع پر غم و گریہ کرنے کے۔ (22)
اس استثناء پر ایک اور حدیث:
وَذَكَرَ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ دَاوُدَ اَلْقُمِّيُّ فِي نَوَادِرِهِ قَالَ رَوَى مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى عَنْ أَخِيهِ جَعْفَرِ بْنِ عِيسَى عَنْ خَالِدِ بْنِ سَدِيرٍ أَخِي حَنَانِ بْنِ سَدِيرٍ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ عَنْ رَجُلٍ شَقَّ ثَوْبَهُ عَلَى أَبِيهِ أَوْ عَلَى أُمِّهِ أَوْ عَلَى أَخِيهِ أَوْ عَلَى قَرِيبٍ لَهُ فَقَالَ «لاَ بَأْسَ بِشَقِّ اَلْجُيُوبِ قَدْ شَقَّ مُوسَى بْنُ عِمْرَانَ عَلَى أَخِيهِ هَارُونَ وَلاَ يَشُقَّ اَلْوَالِدُ عَلَى وَلَدِهِ وَلاَ زَوْجٌ عَلَى اِمْرَأَتِهِ وَتَشُقُّ اَلْمَرْأَةُ عَلَى زَوْجِهَا وَإِذَا شَقَّ زَوْجٌ عَلَى اِمْرَأَتِهِ أَوْ وَالِدٌ عَلَى وَلَدِهِ فَكَفَّارَتُهُ حِنْثُ يَمِينٍ وَلاَ صَلاَةَ لَهُمَا حَتَّى يُكَفِّرَا وَيَتُوبَا مِنْ ذَلِكَ وَإِذَا خَدَشَتِ اَلْمَرْأَةُ وَجْهَهَا أَوْ جَزَّتْ شَعْرَهَا أَوْ نَتَفَتْهُ فَفِي جَزِّ اَلشَّعْرِ عِتْقُ رَقَبَةٍ أَوْ صِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ أَوْ إِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِيناً وَفِي اَلْخَدْشِ إِذَا دَمِيَتْ وَفِي اَلنَّتْفِ كَفَّارَةُ حِنْثِ يَمِينٍ وَلاَ شَيْءَ فِي اَللَّطْمِ عَلَى اَلْخُدُودِ سِوَى اَلاِسْتِغْفَارِ وَاَلتَّوْبَةِ وَقَدْ شَقَقْنَ اَلْجُيُوبَ وَلَطَمْنَ اَلْخُدُودَ اَلْفَاطِمِيَّاتُ عَلَى اَلْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ وَعَلَى مِثْلِهِ تُلْطَمُ اَلْخُدُودُ وَتُشَقُّ اَلْجُيُوبُ».
حنان بن سدیر کہتے ہیں: میں نے امام صادق ع سے کسی کا پوچھا جو اپنے والد یا اپنی والدہ یا اپنے بھائی یا رشتہ دار پر اپنا گریبان چاک کرے۔ تو امام ع نے فرمایا: گریبانوں کو چاک کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ موسی بن عمران ع نے اپنے بھایئ ہارون ع پر گریبان چاک کیا تھا۔ اور کوئی باپ اپنے بیٹے پر گریبان چاک نہ کرے نہ کوئی شوہر اپنی بیوی پر۔ اور اگر عورت اپنے شوہر پر گریبان چاک کرے جب شوہر اپنی عورت پر کرے، یا باپ اپنے بیٹے پر کرے تو اسکا کفارہ قسم توڑنے کا ہے، اور ان دونوں کی کوئی نماز نہیں ہوگی جب تک وہ کفارہ دیکر توبہ نہ کرلیں اس سے۔ اور اگر عورت اپنے چہرے پر خراش کرے یا اپنے بال کھینچے یا انکو نوچے تو بال کھینچنے پر ایک غلام آزاد کرے یا دو ماہ مسلسل روزہ رکھے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ اور اگر خراش سے خون نکل آئے اور نوچنے پر قسم توڑنے کا کفارہ ہے۔ اور گالوں کو مارنے پر کوئی چیز نہیں کرنی ہوگی سوائے استغفار اور توبہ کرے۔ اور فاطمی عورتوں نے بھی اپنے گریبانوں کو چاک کیا تھا اور گالوں کو مارا تھا امام حسین بن علی ع پر، اور ان ع جیسے پر گالوں کو مارا جا سکتا ہے اور گریبانوں کو چاک کیا جا سکتا ہے۔ (23) اس روایت کی سند اگرچہ ضعیف ہے، لیکن اس سے امام حسین ع کیلئے استثناء معلوم ہوتا ہے جو کہ سابقہ روایات کی تائید میں ہے۔ امام حسن عسکری ع نے بھی اپنے والد امام نقی ع پر اپنا گریبان چاک کیا تھا جس پر ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ موسی ع نے اپنے بھائی ہارون ع پر بھی اپنا گریبان چاک کیا تھا۔ (24) سیرت ائمہ ع میں یہ عمل اور بھی مقامات پر ملتا ہے۔ جیسے امام صادق ع نے بھی اپنے فرزند اسماعیل پر جزع کیا تھا، شیخ صدوق نے روایت کی ہے:
حَدَّثَنَا أَبِي رَحِمَهُ اَللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ عَبْدِ اَللَّهِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ بَزِيعٍ عَنْ أَبِي اَلْحَسَنِ ظَرِيفِ بْنِ نَاصِحٍ عَنِ اَلْحَسَنِ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: مَاتَتِ اِبْنَةٌ لِأَبِي عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَنَاحَ عَلَيْهَا سَنَةً ثُمَّ مَاتَ لَهُ وَلَدٌ آخَرُ فَنَاحَ عَلَيْهِ سَنَةً ثُمَّ مَاتَ إِسْمَاعِيلُ فَجَزِعَ عَلَيْهِ جَزَعاً شَدِيداً فَقَطَعَ اَلنَّوْحَ قَالَ فَقِيلَ لِأَبِي عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ أَصْلَحَكَ اَللَّهُ أَيُنَاحُ فِي دَارِكَ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ قَالَ لَمَّا مَاتَ حَمْزَةُ ليبكين لَكِنَّ حَمْزَةَ لاَ بَوَاكِيَ لَهُ.
حسن بن زید نے کہا: امام صادق ع کی ایک بیٹی کی وفات ہوئی تو انہوں نے اس پر ایک سال نوحہ گیری کی۔ پھر انکے ایک بیتے کی وفات ہوئی تو انہوں نے اس پر ایک سال نوحہ گیری کی۔ پھر اسماعیل کی وفات ہوئی تو امام ع کو شدید جزع ہوا، پھر نوحہ قطع ہوا۔ تو راوی نے کہا: امام صادق ع سے پوچھا گیا: کیا آپ کے گھر نوحہ ہوتا ہے؟ امام ع نے فرمایا: جب حضرت حمزہ ع کی وفات ہوئی تو رسول اللہ ص نے فرمایا تھا: وہ عورتیں روتی ہیں، مگر حمزہ پر کوئی رونے والی نہیں ہے۔ (25)
واضح رہے کہ جزع، صبر کے منافی نہیں ہے۔ کیونکہ حضرت یعقوب ع بھی اپنے فرزند یوسف ع پر کئی سال روتے رہے، مگر اسکے باوجود انہوں نے اپنے فعل کو صبر جمیل سے تعبیر کیا ہے۔ ایک روایت میں جزع کی مذمت آئی ہے (26) مگر اسکی توجیہ یہ ہے کہ یہ عام حالات اور عام افراد کیلئے ہے جیسا کہ ہم ذکر کر چکے کہ اسکا اطلاق امام حسین ع کیلئے جزع پر نہیں ہوتا۔ مزید، بسند صحیح شیخ طوسی نے روایت کیا ہے:
الْحُسَيْنُ بْنُ سَعِيدٍ عَنِ النَّضْرِ عَنِ الْحَلَبِيِّ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ الْحُرِّ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع لَا بَأْسَ بِأَجْرِ النَّائِحَةِ الَّتِي تَنُوحُ عَلَى الْمَيِّتِ.
امام صادق ع نے فرمایا: نوحہ پڑھنے والی جو میت پر نوحہ پڑھتی ہے کو اجرت دینے میں کوئی حرج نہیں۔ (27) اور یہی روایت من لا یحضرہ الفقیہ میں رقم 551 پر بھی آئی ہے اور اس میں کلمات ہیں وَقَدْ نِيحَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ص، یعنی رسول اللہ ص پر بھی نوحہ کیا گیا تھا۔ ایک اور صحیح السند روایت کے مطابق ولید بن مغیرہ کی وفات ہوئی تو اسکی اولاد نے اس پر نوحہ کیا اور حضرت ام سلمہ رض نے بھی اس میں شرکت کی، رسول اللہ ص نے انکو اس سے منع نہیں فرمایا جو کہ جواز کی دلیل ہے۔ (28)
روضہ الکافی میں بسند صحیح جنگ احد کے دن کے متعلق ایک روایت ہے:
…نِسَاءُ الأنْصَارِ قَدْ خَدَشْنَ الْوُجُوهَ وَنَشَرْنَ الشُّعُورَ وَجَزَزْنَ النَّوَاصِيَ وَخَرَقْنَ الْجُيُوبَ وَحَزَمْنَ الْبُطُونَ عَلَى النَّبِيِّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) فَلَمَّا رَأَيْنَهُ قَالَ لَهُنَّ خَيْراً وَأَمَرَهُنَّ أَنْ يَسْتَتِرْنَ وَيَدْخُلْنَ مَنَازِلَهُنَّ…
۔۔۔ انصار کی عورتوں نے اپنے چہروں کو مارا تھا اور اپنے بال بکھیرے تھے اور اپنی بال کی چوٹیوں کو چیرا تھا اور اپنے گریبان چاک کیئے تھے اور اپنے شکموں پر کمربند باندھی تھی نبی ص پر (غم میں)۔ پس جب انہوں نے آپ ص کو دیکھا تو آپ ص نے ان سے بھلائی کہی اور ان کو حکم دیا کہ خود کو ڈھک لیں اور اپنے گھروں میں داخل ہوجائیں۔۔۔ (29) اس روایت میں بھی نبی ص نے انکو منع نہیں فرمایا اس چیز سے۔ ایک نبی پر واجب ہے کہ جب وہ کوئی غلط کام ہوتا دیکھے تو اس سے روکے، پس نبی ص کی خاموشی خود اس عمل کے جواز کی دلیل ہے، خصوصا نبی ص جیسی ہستی پر۔ کتاب المحاسن میں ہے:
عَنْهُ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ طَرِيفِ بْنِ نَاصِحٍ عَنْ أَبِيهِ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ قَالَ لَمَّا قُتِلَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ (ع) لَبِسْنَ نِسَاءَ بَنِي هَاشِمٍ السَّوَادَ وَالْمُسُوحَ وَكُنَّ لَا يَشْتَكِينَ مِنْ حَرٍّ وَلَا بَرْدٍ وَكَانَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ (ع) يَعْمَلُ لَهُنَّ الطَّعَامَ لِلْمَأْتَمِ
عمر بن علی بن حسین کہتے ہیں: جب امام حسین بن علی ع شہید ہوئے تو بنی ہاشم کی عورتوں نے کالے کپڑے اور زاہدانہ لباس پہنے اور وہ نہ گرمی نہ سردی کی شکایت کرتی تھیں، اور امام علی بن حسین ع ان کیلئے کھانا تیار کرتے تھے ماتم کیلئے۔ (30)
امام حسین ع کی عزاداری اور ان کا مرثیہ اور اشعار پڑھنے کے استحباب پر ہم ایک الگ تحریر لکھ چکے ہیں جس میں شیعہ منابع سے ہم نے احادیث ذکر کی ہیں اسکے جواز اور مستحب ہونے پر۔
نتیجہ
تمام روایات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نتیجہ لیتے ہیں کہ اکثر و بیشتر روایات جو نوحہ اور ماتم کی مذمت یا کراہیت میں آئی ہیں وہ سندا ضعیف ہیں۔ اگر انکو قبول کر بھی لیا جائے تو زیادہ سے زیادہ وہ کراہیت پر محمول ہیں نہ کہ حرمت پر، اور تب بھی اسکا تعلق عام افراد سے ہے نہ کہ معصومین ع کے مصائب سے، کیونکہ اس استثناء کیلئے بھی معتبر نصوص وارد ہوئے ہیں کہ ان پر گریہ کرنا نیک عمل ہے۔ خود ائمہ ع کی سیرت سے بھی اس عمل کا جواز ملتا ہے۔
مآخذ:
(1) الكافي، ج 5، ص 527
(2) تفسير فرات الكوفي، ص 586
(3) الكافي، ج 5، ص 527
(4) الكافي، ج 5، ص 526 – 527: عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عِيسَى عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْخَزَّازِ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللهِ (عَلَيْهِ السَّلام) فِي قَوْلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ قَالَ الْمَعْرُوفُ أَنْ لا يَشْقُقْنَ جَيْباً وَلا يَلْطِمْنَ خَدّاً وَلا يَدْعُونَ وَيْلا وَلا يَتَخَلَّفْنَ عِنْدَ قَبْرٍ وَلا يُسَوِّدْنَ ثَوْباً وَلا يَنْشُرْنَ شَعْراً.
(5) كتاب الإرشاد، ج 2، ص 94
(6) بحار الأنوار، ج 44، ص 391، العوالم، الإمام الحسين، ص 242، اللهوف في قتلى الطفوف، ص 55: قال: فلطمت زينب (عليها السلام) على وجهها وصاحت، فقال لها الحسين (عليه السلام): مهلا، لا تشمتي القوم بنا.
(7) نهج البلاغة، ج 2، ص 228، الأمالي للمفيد، ص 103
(
نهج البلاغة، ج 4، ص 34
(9) من لا يحضره الفقيه، الرقم: 5904: إِنَّ اَللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يُنَزِّلُ اَلصَّبْرَ عَلَى قَدْرِ اَلْمُصِيبَةِ مَنْ ضَرَبَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ عِنْدَ اَلْمُصِيبَةِ حَبِطَ أَجْرُهُ
(10) الخصال، ص 191
(11) الكافي، ج 33، ص 224
(12) الكافي، ج 33، ص 225
(13) الكافي، ج 3، ص 225
(14) الكافي، ج 3، ص 226: مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ جَرَّاحٍ الْمَدَائِنِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ الْسَّلام) قَالَ لاَ يَصْلُحُ الصِّيَاحُ عَلَى الْمَيِّتِ وَلاَ يَنْبَغِي وَلَكِنَّ النَّاسَ لاَ يَعْرِفُونَهُ وَالصَّبْرُ خَيْرٌ.
(15) من لا يحضره الفقيه، الرقم: 5769، الإختصاص، ص 343
(16) دعائم الإسلام، ج 1، ص 227: صوتان ملعونان يبغضهما الله: إعوال عند مصيبة، وصوت عند نغمة؛ يعني النوح والغناء
(17) الأمالي للصدوق، الرقم: 707، من لا يحضره الفقيه، الرقم: 4968
(18) الكافي، ج 3، ص 222 – 223
(19) الكافي، ج 5، ص 117
(20) نهج البلاغة، ج 4، ص 71
(21) كامل الزيارات، الرقم: 286
(22) الأمالي للطوسي، الرقم: 268
(23) تهذيب الأحكام، ج 8، ص 325
(24) رجال الكشي، الرقم: 1084 و 1085
(25) كمال الدين، ص 73
(26) الكافي، ج 3، ص 224: الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ عَامِرٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مَهْزِيَارَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ إِسْمَاعِيلَ الْمِيثَمِيِّ عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ الْسَّلام) قَالَ إِنَّ الصَّبْرَ وَالْبَلاَءَ يَسْتَبِقَانِ إِلَى الْمُؤْمِنِ فَيَأْتِيهِ الْبَلاَءُ وَهُوَ صَبُورٌ وَإِنَّ الْجَزَعَ وَالْبَلاَءَ يَسْتَبِقَانِ إِلَى الْكَافِرِ فَيَأْتِيهِ الْبَلاَءُ وَهُوَ جَزُوعٌ.
(27) تهذيب الأحكام، ج 6، ص 359، من لا يحضره الفقيه، الرقم: 3589، الإستبصار، ج 3، ص 60
(28) الكافي، ج 5، ص 117
(29) الكافي، ج 8، ص 322، الرقم: 502
(30) المحاسن، ج 2، ص 420
