عزا پر اعتراض کرنے والوں کو جواب

یہ رویت ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ ھے جو غم حسین علیہ السلام میں رونے پر فتویٰ لگاتے ہیں۔۔۔۔
جب امام زین العابدین سید سجاد علیہ السلام سے انکے کثرت گریہ کرنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا: میری اس کام پر ملامت نہ کرو، حضرت یعقوب علیہ السلام کا فقط ایک بیٹا ان سے دور ہوا تھا، تو انھوں نے اس پر اتنا گریہ کیا کہ انکی آنکھیں سفید ہو گئیں، یعنی بینائ چلی گئ حالانکہ انکو یقین نہیں تھا کہ انکا بیٹا فوت ھو گیا ہے، لیکن میری آنکھوں کے سامنے اہل بیت اطہار کے 14 مردوں کو ایک دن میں بے جرم و خطا ذبح کر دیا گیا، کیا اس صورت میں انکا غم کبھی میرے دل سے نکل سکتا ہے ؟
📚 ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفى571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 41 ص 386 ، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر – بيروت – 1995
Online link 👇🏻
.
.
وَقَال أبو حمزة محمد بن يعقوب بن سوار، عن جعفر بن محمد: سئل علي بن الحسين عن كثرة بكائه، فقال: لا تلوموني، فإن يعقوب فقد سبطا من ولده، فبكى حتى ابيضت عيناه ولم يعلم أنه مات، ونظرت أنا إلى أربعة عشر رجلا من أهل بيتي ذبحوا في غداة واحدة، فترون حزنهم يذهب من قلبي أبدا؟
تہذیب الکمال
.
.
.
🍁کیا آپ نے کسی خاندان کو اس طرح ایک ہی دن میں ذبح ہوتے ہوئے دیکھا ہے؟🍁
اہل سنت محدث سلیمان بن احمد طبرانی (المتوفی ۳۶۰ھ) نے اپنی سند سے بیان کیا :
حدثنا محمد بن عبد الله الحضرمي ثنا عبد السلام بن عاصم الرازي ثنا يحيى بن ضريس عن فطر عن منذر الثوري قال كان إذا ذكر قتل الحسين بن علي رضي الله عنه عند محمد بن الحنفية قال لقد قتل معه سبعة عشر ممن ارتكض في رحم فاطمة رضي الله عنهم
منذر الثوری نے فرمایا کہ جب محمد بن حنفیہ کے پاس قتل حسین بن علیؑ کا ذکر ہوتا تو وہ کہتے کہ حسینؑ کے ساتھ ۱۷ لوگ قتل ہوئے جو نسل فاطمہؑ سے تھے۔
⛔معجم الکبیر – طبرانی // جلد ۲ // صفحہ ۲۴۲ // رقم ۲۷۸۶ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
اس اثر کو ابن سعد (المتوفی۲۳۰ھ) نے طبقات میں بھی نقل کیا۔
⛔طبقات ابن سعد – محمد بن سعد // جلد ۵-۶ // صفحہ ۳۱۹ // طبع دار ابن الجوزی قاھرہ مصر۔
نور الدین ھیثمی (المتوفی ۸۰۷ھ) نے اس روایت کے بارے میں یوں لکھا :
اسکو طبرانی نے دو سندوں سے نقل کیا اور ان میں سے ایک صحیح ہے۔
⛔مجمع الزوائد – ھیثمی // جلد ۹ // صفحہ ۲۳۲ // رقم ۱۵۱۷۰ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
اسی طرح کا ایک اور اثر حسن البصری سے بھی منقول ہے۔
طبرانی نے اپنی سند سے اسکو نقل کیا ہے :
حدثنا علي بن عبدالعزيز، ثنا اسحاق بن اسماعيل الطالقاني، ثنا سفيان بن عيينة، عن أبي موسي، عن الحسن، قال: قتل مع الحسين بن علي رضي الله عنه ستة عشر رجلا من أهل بيته والله ما علي ظهر الأرض يومئذ أهل بيت يشبهون.
قال سفيان: و من يشك في هذا؟
حسن البصری نے فرمایا کہ حسین بن علیؑ کے ساتھ اسکے خاندان کے ۱۷ لوگ قتل ہوئیں۔ اللہ کی قسم روئے زمین اس وقت ایسا خاندان ہی نہیں تھا۔
سفیان نے کہا : کیا اس میں کون شک کرتا ہے ؟
⛔معجم الکبیر – طبرانی // جلد ۲ // صفحہ ۲۴۲ // رقم ۲۷۸۶ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
شمس الدین القرطبی (المتوفی ۶۷۱ھ) نے بھی اسکو اپنی کتاب میں حسن البصری سے نقل کیا۔
⛔التذکرۃ فی احوال الموتیٰ و امور الاخرۃ – شمس الدین قرطبی // صفحہ ۴۵۳ // طبع دار ابن حزم ریاض سعودیہ۔
سلام ہو ان شہداء پر۔