مباہلہ کے معنی ایک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کے ہیں۔ دو افراد یا دو گروہ جو اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کے مقابلے میں بارگاہ الہی میں التجا کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ خداوند متعال جھوٹے پر لعنت کرے تاکہ سب کے سامنے واضح ہوجائے کہ کونسا فریق حق بجانب ہے۔ چنانچہ پیغمبر اسلام(ص) نے نجران کے نصارٰی کو مباہلہ کی تجویز دی اور انھوں نے یہ تجویز قبول کرلی لیکن مقررہ وقت پر انھوں نے مباہلے سے اجتناب کیا کیونکہ انھوں نے دیکھا کہ پیغمبر(ص) اپنے قریب ترین افراد یعنی اپنی بیٹی : فاطمۂ زہراء(س)، اپنے داماد امام علی(ع)، اپنے نواسوں حسن(ع) اور حسین(ع)، کو ساتھ لے کر آئے ہیں چنانچہ انہیں آپ(ص) کی صداقت کا یقین ہوا۔ اور یوں رسول اللہ(ص) اس مباہلے میں کامیاب ہوئے۔
نجران کے نصارٰی اور رسول خدا(ص) کے درمیان پیش آنے والا واقعۂ مباہلہ نہ صرف نبی اکرم(ص) کے اصل دعوے [یعنی دعوت اسلام] کی حقانیت کا ثبوت ہے بلکہ آپ(ص) کے ساتھ آنے والے افراد کی فضیلت خاصہ پر بھی دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ آپ(ص) نے تمام اصحاب اور اعزاء و اقارب کے درمیان اپنے قریب ترین افراد کو مباہلے کے لئے منتخب کرکے دنیا والوں کو ان کا اس انداز سے تعارف کرایا ہے۔ یہ واقعہ 24 ذی الحجہ سنہ 9 ہجری کو رونما ہوا، اور قرآن کریم کی سورت آل عمران آیت نمبر 61 میں اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
پوسٹ کی فہرست
1 مباہلہ کے معنی
2 آیت مباہلہ
3 روز مباہلہ
4 مباہلے میں شامل افراد
5 واقعۂ مباہلہ
6 واقعۂ مباہلہ سے تاریخی استدلالات
6.1 سعد بن ابی وقاص کا استدلال
6.2 امام موسی کاظم(ع) کا استدلال
6.3 امام رضا(ع) کا استدلال
7 متعلقہ موضوعات
8 حوالہ جات
مباہلہ کے معنی
لغوی معنی
“مباہلہ” کے لغوی معنی ایک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کے ہیں[1] “بہلہ اللہ” یعنی اس پر لعنت کرے اور اپنی رحمت سے دور کرے۔[2] لفظ “مباہلہ” مفہوم کے حوالے سے آیت مباہلہ سے ماخوذ ہے۔[3]
اصطلاحی معنی
ابتہال کے معنی میں دو اقوال ہیں: 1۔ ایک دوسرے پر لعن کرنا، اگر دو افراد کے درمیان ہو؛ 2۔ کسی کی ہلاکت کی نیت سے بددعا کرنا۔[4]
مباہلہ کے معنی ایک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کے ہیں۔ دو افراد یا دو گروہ جو اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کے مقابلے میں بارگاہ الہی میں التجا کرتے ہیں کہ اور چاہتے ہیں کہ خداوند متعال جھوٹے پر لعنت کرے تاکہ سب کے سامنے واضح ہوجائے کہ کونسا فریق حق بجانب ہے۔
آیت مباہلہ
مفصل مضمون: آیت مباہلہ
آیت مباہلہ سورہ آل عمران کی اکسٹھویں آیت ہے جو واقعۂ مباہلہ کی طرف اشارہ کرتی ہے:
آیت مباہلہ
فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
ترجمہ: چنانچہ اب آپ کو علم (اور وحی) پہنچنے کے بعد، جو بھی اس (حضرت عیسی(ع)) کے بارے میں آپ سے کٹ حجتی کرے، تو کہہ دیجیے کہ آؤ! ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں، اور اپنی عورتوں اور تمہاری عورتوں، اور اپنے نفسوں کو اور تمہارے نفسوں کو، بلالیں، پھر التجا کریں اور اللہ کی لعنت قرار دیں جھوٹوں پر۔
سورہ آل عمران آیت 61۔
شیعہ اور سنی مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت رسول اکرم(ص) کے ساتھ نجران کے نصارٰی کے مناظرے کی طرف اشارہ کرتی ہے؛ کیونکہ نصارٰی (عیسائیوں) کا عقیدہ تھا کہ حضرت عیسی(ع) تین اقانیم میں سے ایک اقنوم ہے؛ وہ عیسی(ع) کے بارے میں قرآن کریم کی وحیانی توصیف سے متفق نہیں تھے جو انہیں خدا کا پارسا بندہ اور نبی سمجھتا ہے؛ حتی کہ آپ(ص) نے انہیں للکارتے ہوئے مباہلے کی دعوت دی۔[5]
اہل سنت کے مفسرین (زمخشری،[6] فخر رازی،[7] بیضاوی[8] اور دیگر) نے کہا ہے کہ “ابناءنا” [ہمارے بیٹوں] سے مراد حسن(ع) اور حسین(ع) ہیں اور “نساءنا” سے مراد فاطمہ زہراءعلیہا السلام اور “انفسنا” [ہمارے نفس اور ہماری جانوں] سے مراد حضرت علی(ع) ہیں۔ یعنی وہ چار افراد جو آنحضرت(ص) کے ساتھ مل کر پنجتن آل عبا یا اصحاب کساء کو تشکیل دیتے ہیں۔ اور اس آیت کے علاوہ بھی زمخشری اور فخر رازی، کے مطابق آیت تطہیر اس آیت کے بعد ان کی تعظیم اور ان کی طہارت پر تصریح و تاکید کے لئے نازل ہوئی ہے، ارشاد ہوتا ہے:
آیت تطہیر
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً۔
ترجمہ: اللہ کا بس یہ ارادہ ہے کہ تم اہل بیت سے ہر پلیدی اور گناہ کو دور رکھے اور تم کو پاک رکھے جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے”۔
سورہ احزاب آیت 33۔
نصارائے نجران نے رسول اللہ(ص) اور آپ(ص) کے ساتھ آنے والے افراد کے دلیرانہ صدق و اخلاص کا مشاہدہ کیا خائف و ہراساں اور اللہ کی عقوبت و عذاب سے فکرمند ہوکر مباہلہ کرنے کے لئے تیار نہيں ہوئے اور آپ(ص) کے ساتھ صلح کرلی اور درخواست کی کہ انہیں اپنے دین پر رہنے دیا جائے اور ان سے جزیہ وصول کیا جائے اور آنحضرت(ص) نے ان کی یہ درخواست منظور کرلی۔[9] بالفاظ دیگر عیسائی جان گئے کہ اگر رسول خدا(ص) مطمئن نہ ہوتے تو اپنے قریب ترین افراد کو میدان مباہلہ میں نہ لاتے چنانچہ وہ خوفزدہ ہوکر مباہلے سے پسپا اور جزیہ دینے پر آمادہ ہوئے۔
روز مباہلہ
شیخ مفید نے اس واقعے کو فتح مکہ کے بعد اور حجہ الوداع سے پہلے (یعنی سنہ 9 ہجری قمری) قرار دیا ہے۔[10] نصارٰی کے ساتھ رسول خدا(ص) اور عیسائیوں کے درمیان واقعۂ مباہلہ 24 ذوالحجہ (سنہ 631عیسوی) کو رونما ہوا۔[11] صاحب کشف الاسرار کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ 21 ذوالحجہ کو واقع ہوا ہے۔[12] شیخ انصاری کا کہنا ہے کہ مشہور یہی ہے کہ واقعۂ مباہلہ 24 ذوالحجہ کو رونما ہوا ہے اور اس روز غسل کرنا مستحب ہے۔[13] شیخ عباس قمی، اپنی مشہور اور شریف کتاب مفاتیح الجنان میں 24 ذوالحجہ کے لئے بعض اعمال ذکر کئے ہیں جن میں غسل اور روزہ شامل ہیں۔[14]
جو کچھ شیعہ اور سنی مؤرخین و محدثین کے ہاں مسلّم ہے یہ ہے کہ یہ واقعہ رسول اکرم(ص) اور نجران کے عیسائیوں کے درمیان رونما ہوا ہے۔
مباہلے میں شامل افراد
یہ بھی تفاسیر اور تواریخ و حدیث کے علماء کے ہاں امر مسلّم ہے کہ رسول اللہ(ص) جن لوگوں کو مباہلہ کے لئے ساتھ لائے تھے وہ امیرالمؤمنین(ع)، حضرت فاطمہ(س)، امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) تھے؛ تاہم یہ کہ اس واقعے کی تفصیلات کیا تھیں، عیسائیوں میں سے کون لوگ رسول اللہ(ص) کے حضور آئے تھے اور عیسائیوں اور رسول اللہ(ص) کے درمیان کن کن باتوں کا تبادلہ ہوا تھا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات مختلف روایات اور کتب میں اختلاف کے ساتھ نقل ہوئے ہیں۔
واقعۂ مباہلہ
روز مباہلہ کی صبح کو حضرت رسول اکرم(ص) امیرالمؤمنین(ع) کے گھر تشریف فرما ہوئے؛ امام حسن(ع)کا ہاتھ پکڑ لیا اور امام حسین(ع)کو گود میں اٹھایا اور حضرت امیر(ع) اور حضرت فاطمہ(س) کے ہمراہ مباہلے کی غرض سے مدینہ سے باہر نکلے۔
جب نصارٰی نے ان بزرگواروں کو دیکھا تو ان کے سربراہ [اور آج کے عیسائیانتظامات کے مطابق کارڈینل] ابوحارثہ نے پوچھا: یہ لوگ کون ہیں جو محمد(ص) کے ساتھ آئے ہیں؟ جواب ملا کہ:
وہ جو ان کے آگے آگے آرہے ہیں، ان کے چچا زاد بھائی، ان کی بیٹی کے شریک حیات اور مخلوقات میں ان کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں؛ وہ دو دو بچے ان کے فرزند ہیں ان کی بیٹی سے؛ اور وہ خاتون ان کی بیٹی فاطمہ ہیں جو خلق خدا میں ان کے لئے سب سے زیادہ عزیز ہیں۔
آنحضرت(ص) مباہلے کے لئے دو زانو بیٹھ گئے۔ پس سید اور عاقب (جو وفد کے اراکین اور عیسائیوں کے راہنما تھے) اپنے بیٹوں کو لے کر مباہلے کے لئے روانہ ہوئے۔
ابو حارثہ نے کہا: خدا کی قسم! محمد(ص) کچھ اس انداز میں زمین پر بیٹھے ہیں جس طرح کہ انبیاء(ع) مباہلے کے لئے بیٹھا کرتے تھے، اور پھر پلٹ گیا۔
سید نے کہا: کہاں جارہے ہو؟
ابو حارثہ نے کہا: اگر محمد(ص) بر حق نہ ہوتے تو اس طرح مباہلے کی جرئت نہ کرتے؛ اور اگر وہ ہمارے ساتھ مباہلہ کریں تو ہم پر ایک سال گذرنے سے پہلے پہلے ایک نصرانی بھی روئے زمین پر باقی نہ رہے گا۔
ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ ابو حارثہ نے کہا: میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ خدا سے التجا کریں کہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے اکھاڑ دے تو بےشک وہ اکھاڑ دیا جائے گا۔ پس مباہلہ مت کرو ورنہ ہلاک ہوجاؤگے اور حتی ایک عیسائیبھی روئے زمین پر باقی نہ رہے گا۔
اس کے بعد ابو حارثہ آنحضرت(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا:
اے ابا القاسم! ہمارے ساتھ مباہلے سے چشم پوشی کریں اور ہمارے ساتھ مصالحت کریں، ہم ہر وہ چیز ادا کرنے کے لئے تیار ہیں جو ہم ادا کرسکیں۔ چنانچہ آنحضرت(ص) نے ان کے ساتھ مصالحت کرتے ہوئے فرمایا کہ انہیں ہر سال دو ہزار حلے (یا لباس) دینے پڑیں گے اور ہر حلے کی قیمت 40 درہم ہونی چاہئے؛ نیز اگر یمن کے ساتھ جنگ چھڑ جائے تو انہیں 30 زرہیں، 30 نیزے، 30 گھوڑے مسلمانوں کو عاریتا () دینا پڑیں گے اور آپ(ص) خود اس ساز و سامان کی واپسی کے ضامن ہونگے۔ اس طرح آنحضرت(ص) نے صلحنامہ لکھوایا اور عیسائینجران پلٹ کر چلے گئے۔
رسول اللہ(ص) نے بعدازاں فرمایا: “اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، کہ ہلاکت اور تباہی نجران والوں کے قریب پہنچ چکی تھی؛ اگر وہ میرے ساتھ مباہلہ کرتے تو بےشک سب بندروں اور خنزیروں میں بدل کر مسخ ہوجاتے اور بے شک یہ پوری وادی ان کے لئے آگ کے شعلوں میں بدل جاتی اور حتی کہ ان کے درختوں کے اوپر کوئی پرندہ باقی نہ رہتا اور تمام عیسائیایک سال کے عرصے میں ہلاک ہوجاتے۔[15]
نصرانیوں کی نجران واپسی کے کچھ عرصہ بعد ہی سید اور عاقب کچھ ہدایا اور عطیات لے کر رسول اللہ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوکر مسلمان ہوئے۔[16]
واقعۂ مباہلہ سے تاریخی استدلالات
تاریخ میں متعدد بار اہل بیت(ع) کی حقانیت کے اثبات کے لئے واقعۂ مباہلہ سے استناد و استدلال کیا گیا ہے اور اس واقعے سے استدلال امیرالمؤمنین(ع)، امام حسن(ع)، امام حسین(ع) اور باقی ائمۂ طاہرین(ع) و دیگر کے کلام میں ملتا ہے۔ یہاں چند نمونے قارئین کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں:
سعد بن ابی وقاص کا استدلال
عامر بن سعد بن ابی وقاص سعد بن ابی وقاص سے نقل کرتے ہیں کہ معاویہ نے سعد سے کہا: تم علی پر سب و شتم کیوں نہیں کرتے ہو؟
سعد نے کہا:
“جب تک مجھے تین چیزیں یاد ہونگی کبھی بھی ان پر دشنام طرازی نہیں کروں گا؛ اور اگر ان تین باتوں میں سے ایک کا تعلق مجھ سے ہوتا تو میں اس کو سرخ بالوں والوں اونٹوں سے زیادہ دوست رکھتا”۔ بعد ازاں سعد ان تین باتوں کا ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں: اور تیسری بات یہ تھی کہ جب آیتفَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ… نازل ہوئی، تو رسول خدا(ص) نے علی، [[فاطمہ اور حسن و حسین(ع) کو را بلایا اور فرمایا: “اللهم هؤلاء اهل بيتي یعنی بار خدایا! یہ میرے اہل بیت ہیں۔[17]
امام موسی کاظم(ع) کا استدلال
ہارون عباسی نے امام کاظم(ع) سے کہا: آپ یہ کیونکر کر کہتے ہیں “ہم نبی(ص) کی نسل سے ہیں حالانکہ نبی(ص) کی کوئی نسل نہیں ہے، کیونکہ نسل بیٹے سے چلتی ہے نہ کہ بیٹی سے، اور آپ رسول خدا(ص) کی بیٹی کی اولاد اولاد ہیں؟
امام کاظم(ع) نے فرمایا: مجھے اس سوال کے جواب سے معذور رکھنا۔
ہارون نے کہا: اے فرزند علی(ع)، آپ کو اس بارے میں اپنی دلیل بیان کرنا پڑے گی، اور آپ اے موسی(ع)! ان کے سربراہ اور ان کے زمانے کے امام ہیں ـ مجھے یہی بتایا گیا ہے ـ اور میں جو کچھ بھی پوچھتا ہوں آپ کو اس کے جواب سے معذور نہيں رکھوں گا حتی کہ ان سوالات کی دلیل قرآن سے پیش کریں؛ اور آپ فرزندان علی(ع) دعوی کرتے ہیں کہ قرآن میں کوئی بھی ایسی بات نہیں ہے جس کی تاویل آپ کے پاس نہ ہو، اور اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہمَّا فَرَّطْنَا فِي الكِتَابِ مِن شَيْءٍ (ترجمہ: ہم نے اس کتاب میں کوئی چیز لکھے بغیر نہیں چھوڑی)۔ اور یوں اپنے آپ کو رأی اور قیاس کے حاجتمند نہیں سمجھتے ہیں۔[18]
امام کاظم(ع) نے فرمایا: مجھے جواب کی اجازت ہے؟
ہارون نے کہا: کہہ دیں۔
امام(ع) نے فرمایا:
أَعُوذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ٭ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمـَنِ الرَّحِيمِ
وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ كُلاًّ هَدَيْنَا وَنُوحاً هَدَيْنَا مِن قَبْلُ وَمِن ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَى وَهَارُونَ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ٭ وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَى وَعِيسَى وَإِلْيَاسَ كُلٌّ مِّنَ الصَّالِحِينَ”۔
ترجمہ: اور ہم نے عطا کیے انہیں اسحٰق اور یعقوب، ہر ایک کو ہم نے راستہ دکھایا اور نوح کو اس کے پہلے ہم نے راستہ دکھایا اور ان کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسٰی اور ہارون کو اور اسی طرح ہم صلہ دیتے ہیں نیک اعمال رکھنے والوں کو ٭ اور زکریا اور یحییٰ اور عیسٰی اور الیاس کو، سب صالحین اور نیکو کاروں میں سے تھے۔[19]
عیسی(ع) کا باپ کون ہیں؟
ہارون نے کہا: ان کا کوئی بات نہیں؟
امام(ع) نے فرمایا:
پس خداوند متعال نے مریم(س) کے ذریعے انہیں انبیاء(ع) کی نسل سے محلق فرمایا ہے اور ہمیں بھی ہماری والدہ فاطمہ(س) کے ذریعے رسول اللہ(ص) کی نسل سے ملحق فرمایا ہے؛ کیا پھر بھی بتاؤں؟
ہارون نے کہا: کہہ دیں۔
چنانچہ امام(ع) نے آیت مباہلہ کی تلاوت فرمائی اور فرمایا:
کسی نے بھی یہ نہیں کیا کہ رسول اللہ(ص) نجران کے نصارٰی کے ساتھ مباہلے کے لئے علی بن ابی طالب، فاطمہ اور حسن و حسین، کے سوا کسی اور کو کساء کے کے نیچے جگہ دی ہے! پس آیت میں ہمارے بیٹوں (“ابنائنا”) سے مراد حسن و حسین، ہماری خواتین (“نسائنا”) سے مراد فاطمہ اور ہماری جانوں (“انفسنا”) سے مراد علی بن ابی طالب ہیں۔[20] [پس خداوند متعال نے آیت مباہلہ میں امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کو رسول اللہ(ص) کے بیٹے قرار دیا ہے اور یہ صریح ترین ثبوت ہے اس بات کہ امام حسن(ع)اور امام حسین(ع) اہل بیت(ع) رسول اللہ(ص) کی نسل اور ذریت ہیں]۔
امام رضا(ع) کا استدلال
مأمون عباسی نے امام رضا(ع) سے کہا: امیرالمؤمنین(ع) کی عظیم ترین فضیلت ـ جس کی دلیل قرآن میں موجود ہے ـ کیا ہے؟
امام رضا(ع) نے کہا: امیرالمؤمنین(ع) کی فضیلت مباہلہ میں؛ اور پھر آیت مباہلہ کی تلاوت کرتے ہوئے فرمایا:
رسول خدا(ص)، نے امام حسن(ع)اور امام حسین(ع) ـ جو آپ(ص) کے بیٹے ہیں ـ کو بلوایا اور حضرت فاطمہ(س) کو بلوایا جو آیت میں “نسائنا” کا مصداق ہیں اور امیرالمؤمنین(ع) کو بلوایا جو اللہ کے حکم کے مطابق “انفسنا” کا مصداق اور رسول خدا(ص) کا نفس اور آپ(ص) کی جان ہیں؛ اور ثابت ہوا ہے کہ کوئی بھی مخلوق رسول اللہ(ص) کی ذات با برکات سے زیادہ جلیل القدر اور اور افضل نہیں ہے؛ پس کسی کو بھی رسول خدا(ص) کے نفس و جان سے بہتر نہیں ہونا چاہئے۔
بات یہاں تک پہنچی تو مامون نے کہا: خداوند متعال نے “ابناء” کو صیغہ جمع کے ساتھ بیان کیا ہے جبکہ رسول خدا(ص) صرف اپنے دو بیٹوں کو ساتھ لائے ہیں، “نساء” بھی جمع ہے جبکہ آنحضرت(ص) صرف اپنی ایک بیٹی کو لائے ہیں، پس یہ کیوں نہ کہیں کہ “انفس” کو بلوانے سے مراد رسول خدا(ص) کی اپنی ذات ہے، اور اس صورت میں جو فضیلت آپ(ص) نے امیرالمؤمنین(ع) کے لئے بیان کی ہے وہ خود بخود ختم ہوجاتی ہے!
امام رضا(ع) نے جواب دیا:
نہیں، یہ درست نہیں ہے کیونکہ دعوت دینے والا اور بلوانے والا اپنی ذات کو نہیں بلکہ دوسروں کو بلواتا ہے، آمر (اور حکم دینے والے) کی طرح جو اپنے آپ کو نہیں بلکہ دوسروں کو امر کرتا اور حکم دیتا ہے، اور چونکہ رسول خدا(ص) نے مباہلہ کے وقت علی بن ابیطالب(ع) کے سوا کسی اور مرد کو نہیں بلوایا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ علی(ع) وہی نفس ہیں جو کتاب اللہ میں اللہ کا مقصود و مطلوب ہے اور اس کے حکم کو خدا نے قرآن میں قرار دیا ہے۔
پس مامون نے کہا: جواب آنے پر سوال کی جڑ اکھڑ جاتی ہے۔[21]
حوالہ جات
1: الجوہری، اسمعیل بن حماد، الصحاح، 1407۔ ذیل مادہ بہل۔
2: الزمخشری، محمود، 1415 ق، ج1، ص: 368۔
3: شیرازی، مکارم، تفسیر نمونه، ج2، ص580۔
4: طبرسی، مجمع البیان، انتشارات ناصرخسرو، ج2، ص 762 تا 761۔
5: قرآن کریم، توضیحات و واژه نامه از بهاءالدین خرمشاهی، 1376.ذیل آیه مباهله، ص 57۔
6: الزمخشری، تفسیر الکشاف، ذیل آیه 61 آل عمران۔
7: الرازی، التفسیر الکبیر، ذیل آیه 61 آل عمران۔
8: البیضاوی، تفسیر انوار التنزیل واسرار التأویل، ذیل آیه 61 آل عمران۔
9: قرآن کریم، توضیحات و واژه نامه از بهاءالدین خرمشاهی، 1376، ذیل آیه مباهله، ص 57۔
10: المفید، الارشاد، ج1، صص166-171
11: ابن شهرآشوب، 1376ق، ج 3، ص: 144۔
12: میبدی، کشف الاسرار وعدة الابرار، ج2، ص147۔
13: انصاری، مرتضی، کتاب الطهارة، ج3، قم، کنگره جهانی بزرگداشت شیخ اعظم انصاری، صص48-49۔
14: رجوع کریں: ذو الحجہ کے واقعات و اعمال
15: قمی، شیخ عباس، 1374، ج1، صص: 182-184۔
16: الطبرسی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، 1415، ج 2، ص 310۔
17: الطباطبائی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ذیل آیت 61 آل عمران؛ المیزان کے مؤلف کے مطابق یہ روایت صحیح مسلم، سنن ترمذی، أبو المؤید الموفق بن أحمد کی “فضائل علی”، ابو نعیم اصفہانی کی “حلیۃ الاولیاء” میں اور حموینی کی “فرائد السمطین” میں بھی نقل ہوئی ہے۔
18: سورہ انعام، انعام 38۔
19: سورہ انعام آیات 83 و 84۔
20: الطباطبائي، سید محمد حسین، وہی ماخذ، صص: 230-229۔
21: المفید، الفصول المختاره، التحقیق: السید میرعلی شریفی، بیروت: دار المفید، الطعبة الثانیة، 1414، ص 38۔۔
.
.
.
واقعہ مباہلہ.
فتح مکہ کے بعد غلبہ اسلام کا دور شروع ہوا اور اسلام نے جزیرہ نمائے عرب سے باہر پھیلنا شروع کیا۔ چنانچہ ہرقل روم، کسرائے ایران، مقوقس، حارث شاہ حیرہ، شاہ یمن اور شاہ حبشہ تک اسلام کی دعوت پہنچ گئی۔ نجران کے مسیحی ان حالات سے نہایت پریشان تھے۔ اتنے میں ان کے پاس رسول اللہ (ص) کی طرف سے دعوت اسلام پہنچ گئی۔ نجران کے مسیحی پادریوں میں بے چینی پھیل گئی۔ ان کے ارباب حل و عقد اور سرداران قبائل ایک جگہ جمع ہو گئے اور اسلام سے بچنے کی تجاویز زیر غور آئیں۔ اس گرما گرم بحث میں کچھ لوگ اسلام کے حق میں مؤقف رکھتے تھے، لیکن اکثر لوگ اسلام کے خلاف سخت مؤقف رکھتے تھے۔ آخر میں اپنے رہنماؤں السید اور العاقب کی رائے معلوم کی تو ان دونوں نے کہا: دین محمد (ص) کی حقیقت معلوم ہونے تک اپنے دین پر قائم رہیں۔ ہم خود یثرب جا کر قریب سے دیکھتے ہیں کہ محمد (ص) کیا دین لائے ہیں۔ چنانچہ السید اور العاقب اپنے مذہبی پیشواء ابو حاتم کی معیت میں چودہ رکنی وفد اور ستر افراد کے ہمراہ یثرب کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ لوگ نہایت نفیس لباس زیب تن کیے، نہایت تزک و احتشام کے ساتھ شہرمدینہ میں داخل ہوئے۔
اہل مدینہ کا کہنا ہے:
ما رأینا وفداً اجمل من ھؤلاء
ہم نے ان سے زیبا ترین وفد نہیں دیکھا تھا۔
چنانچہ جب وہ مسجد نبوی میں داخل ہوئے تو ان کی عبادت کا وقت آگیا۔ ناقوس بجا اور انہوں نے مشرق کی طرف رخ کر کے عبادت شروع کر دی۔ لوگوں نے روکنا چاہا، لیکن حضور (ص) نے منع فرمایا۔ یہ آزادیٔ عقیدہ و عمل کا بے مثال نمونہ ہے کہ مسجد نبوی (ص) کی چار دیواری کے اندر بھی غیر مسلموں کو اپنے مذہبی عقائد کا اظہار کرنے اور اعمال بجا لانے کی آزادی دی گئی، جب کہ یہ لوگ رسالت محمدی (ص) کے منکر تھے۔ عقیدے کے معمولی اختلاف پر دیگر مسلمانوں کو واجب القتل قرار دینے والے دہشت گردوں کی پالیسی اور رسول رحمت (ص) کی پالیسی میں کس قدر فاصلہ نظر آتا ہے۔
انہیں تین دن تک مہلت دے دی گئی۔ تین روز کے بعد حضور (ص) نے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو انہوں نے کہا: مسیح علیہ السلام کے بعد آنے والے نبی سے متعلق توریت میں موجود تمام اوصاف آپ (ص) کے اندر موجود ہیں، سوائے ایک صفت کے، جو سب سے اہم ہے۔ وہ یہ کہ آپ مسیح علیہ السلام کو برا بھلا کہتے ہیں، ان کی تکذیب کرتے ہیں، انہیں بندۂ خدا کہتے ہیں۔
حضور (ص) نے فرمایا: میں مسیح علیہ السلام کی تصدیق کرتا ہوں، ان پر ایمان لاتا ہوں اور گواہی دیتاہوں کہ وہ نبی مرسل اور عبد خدا تھے۔
وفد: کیا وہ مردوں کو زندہ نہیں کرتے تھے، مادر زاد اندھوں کو بینائی نہیں دیتے تھے اور برص کے مریضوں کو شفا نہیں دیتے تھے؟
حضور(ص): یہ سب باذن خدا انجام دیتے تھے۔
وفد: مسیح بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔ بھلا کوئی بندہ بغیر باپ کے پیدا ہوتا ہے؟
حضور(ص): اللہ کے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام کی مثال آدم علیہ السلام کی طرح ہے کہ اسے مٹی سے خلق فرمایا پھر حکم دیا: بن جاؤ، وہ بن گیا۔
نجران کا وفد اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہا۔ انہوں نے دلیل و برہان کو قبول نہیں کیا۔
اس وقت حضور (ص) پر وحی نازل ہوئی:
فَمَنْ حَاۗجَّكَ فِيْہِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَاۗءَنَا وَاَبْنَاۗءَكُمْ وَنِسَاۗءَنَا وَنِسَاۗءَكُمْ وَاَنْفُسَـنَا وَاَنْفُسَكُمْ۰ۣ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللہِ عَلَي الْكٰذِبِيْنَ.
سورہ العمران آیت 61
حضور (ص) نے یہ آیت پڑھ کر حاضرین کو سنائی اور فرمایا: اگر تم اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے تو اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہارے ساتھ مباہلہ کروں۔
وفد والے اپنے ٹھکانے پر واپس چلے گئے اور آپس میں کہنے لگے کہ محمد (ص) نے ہمیں ایک فیصلہ کن دوراہے پر کھڑا کر دیا ہے۔ کل دیکھو وہ کس قسم کے لوگوں کے ساتھ مباہلے کے لیے نکلتے ہیں۔ اپنے سارے پیروکاروں کے ساتھ؟ یا اپنے بڑے اصحاب کے ساتھ؟ یا اپنے قریبی رشتہ داروں اور تھوڑے دیندار لوگوں کے ساتھ؟ اگر یہ بڑی جمعیت کی معیت میں جاہ و جلالت کے ساتھ شاہانہ انداز میں نکلتے ہیں تو کامیابی تمہاری ہے۔
اگر تواضع کے ساتھ چند ہی لوگوں کے ساتھ نکلتے ہیں تو یہ انبیاء کی سیرت اور ان کے مباہلے کا انداز ہے۔ اس صورت میں تمہیں مباہلے سے گریز کرنا چاہیے۔
دوسری طرف رات بھر مسلمان آپس میں قیاس آرائیاں کرتے رہے کہ کل رسول خدا (ص) اَبْنَاۗءَنَا، نِسَاۗءَنَا اور اَنْفُسَـنَا میں کن کن ہستیوں کو شامل کریں گے؟
۲۴ ذی الحجۃ کی صبح طلوع ہوئی اور حق و باطل میں ہمیشہ کے لیے فیصلہ کن دن آ گیا۔ رسول خدا (ص) نے حکم دیاکہ دو درختوں کو کاٹ کر ان کی درمیانی جگہ کو جھاڑو دے کر صاف کیا جائے۔ صبح ہوئی تو ان دونوں درختوں پر ایک سیاہ کساء (چادر) خیمے کی شکل میں ڈال دی گئی۔
نجرانی وفد میں السید اور العاقب اپنے دونوں بیٹوں کی معیت میں نکلے۔ وفد کے دیگر ارکان یعنی قبائل کے سردار بھی بہترین لباس زیب تن کیے نہایت تزک و احتشا م کے ساتھ ہمراہ تھے۔
دوسری طرف رسول اللہ (ص) حسنین (ع) کا ہاتھ پکڑے نکلے۔ پیچھے حضرت فاطمہ (س) اور ان کے پیچھے علی (ع) تھے۔ اس کساء کے نیچے پانچوں تن تشریف فرما ہوئے اور حضور (ص) نے فرمایا: میں دعا کروں تو تم آمین کہنا۔ اس کے بعد حضور (ص) نے السید اور العاقب کو مباہلے کی دعوت دی۔ ان دونوں نے عرض کی: آپ (ص) کن لوگوں کو ساتھ لے کر ہمارے ساتھ مباہلہ کر رہے ہیں؟ حضور (ص) نے فرمایا: باھلکم بخیر اھل الارض ۔ میں اہل زمین میں سب سے افضل لوگوں کو ساتھ لے کر تمہارے ساتھ مباہلہ کر رہا ہوں۔
یہ دونوں اپنے اسقف (پادری) کے پاس لوٹ گئے اور اس سے پوچھا: آپ کیا دیکھ رہے ہیں؟
پادری نے کہا:
انی لأری وجوھاً لوسئل اللہ بہا ان یزیل جبلاً من مکانہ لازالہ ۔
میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ شخص (محمدؐ) ان کو وسیلہ بنا کر خداسے دعا کرے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو ضرور ہٹ جائے گا۔ خبردار ان کے ساتھ ہرگز مباہلہ نہ کرنا، ورنہ روئے زمین پر قیامت تک کوئی نصرانی نہیں رہے گا۔
چنانچہ وہ مباہلہ کی جرأت نہ کر سکے اور جزیہ دینے کا معاہدہ کر کے واپس چلے گئے۔ (سید ابن طاؤسؒ کی الاقبال)
محدثین، مفسرین، مورخین اور سیرت نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضور (ص) نے مباہلے کے موقع پر حسنین، فاطمہ اور علی علیہم السلام کو ساتھ لیا۔
چنانچہ چوتھی صدی کے مقتدر عالم ابوبکر جصاص لکھتے ہیں:
رواۃ السیر و نقلۃ الاثر لم یختلفوا فی ان النبی صلی اللّٰہ علیہ (و آلہ) وسلم اخذ بید الحسن و الحسین و علی و فاطمۃ رضی اللّٰہ عنہم ثم دعا النصاری الذین حاجوہ الی المباہلۃ ۔
(احکام القرآن ۲:۱۵)
سیرت نگاروں اور مورخین میں سے کسی نے بھی اس بات میں اختلاف نہیں کیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ (و آلہ) و سلم نے حسن، حسین، فاطمہ اور علی رضی اللہ عنہم کا ہاتھ پکڑ کر نصاریٰ کو مباہلے کی دعوت دی۔
ہم ذیل میں چند اصحاب کا ذکر کرتے ہیں۔ جنہوں نے مباہلے میں صرف اہل البیت(ع) کی شرکت کا ذکر کیا ہے۔
1: سعد بن ابی وقاص۔ ان کی روایت صحیح مسلم۷: ۱۲ طب مصر۔ مسند احمد بن حنبل ۱: ۱۸۵ اور المستدرک للحاکم ۳: ۱۵۰ میں ملاحظہ ہو۔
2: عبد اللہ بن عباس۔ ملاحظہ ہو معرفۃ علوم الحدیث للحاکم ص ۵۰۔ الدر المنثور۔
3: جابر بن عبد اللہ انصاری۔ ملاحظہ ہو دلائل النبوۃ ص ۲۹۷ اور اسباب النزول ص ۷۴۔
4: سلمۃ بن یسوع عن ابیہ عن جدہ۔ دیکھیے البدایۃ و النھایۃ ۵: ۵۲
.
.
واقعہ مباھلہ
پنجتن آل عبا اور اصحاب کساء کے فضائل مختلف مقامات پر منظر عام پر آتے رہے اور دنیا والوں کے لئے ان کی عظمت پر ثبوت پیش ہوتے رہے۔ فضائل اہل بیت (علیہم السلام) کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر میں سے کچھ فضائل آیت مباہلہ اور آیت تطہیر میں رونما ہوئے۔ بعض نقل کے مطابق یہ دونوں آیات مباہلہ کے دن میں ہی نازل ہوئی ہیں۔
اس نے کہا: میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ اللہ سے دعا مانگیں کہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے اکھاڑ دے تو یقیناً پہاڑ اکھڑ جائے گا، لہذا مباہلہ مت کرو کہ ہلاک ہوجاوگے اور ایک نصرانی بھی زمین پر باقی نہیں رہے گا۔
نجران کے نصرانیوں نے جب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آنحضرت کی اہل بیت (علیہم السلام) کی صداقت اور اخلاص کو دیکھا تو اللہ کے عذاب سے ڈر گئے اور انہوں نے مباہلہ نہ کی، اور عاجزانہ طور پر آنحضرت سے عرض کی: اے ابوالقاسم! ہم مباہلہ نہیں کرتے، آپ اپنے دین پر باقی رہیں اور ہمیں بھی اپنے دین پر باقی رہنے دیجیے۔
آپ نے فرمایا: نہیں، اگر مباہلہ نہیں کرنا چاہتے ہو تو مسلمان ہوجاو۔
پادری نے کہا: نہیں! ہم مسلمان نہیں ہوتے اور چونکہ ہمارے پاس جنگ کی طاقت نہیں ہے تو دیگر اہل کتاب کی طرح جزیہ دیں گے۔
پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی بات قبول کرلی اور مصالحہ کرلیا۔
آیت مباہلہ اور واقعہ مباہلہ سے اہل بیت عصمت و طہارت (علیہم السلام) کی عظمت واضح ہوتی ہے اور اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدعی، سچے اور مستجاب الدعوۃ ہیں… انسان اپنے گھرانے سے محبت کرتا ہے اور بعض اوقات اپنے آپ کو ان پر قربان کردیتا ہے، لیکن چونکہ اللہ تعالی کا دین اپنی جان سے زیادہ پیارا ہوتا ہے اور انسان کی قدر، اللہ کے دین کی حمایت کرنے پر موقوف ہے، جب دین کو خطرہ لاحق ہوا تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے آپ کو اور اپنے اہل بیت (علیہم السلام) کو دین پر قربان کرتے ہیں۔
آیت مباہلہ اور آیت تطہیر حضرت عائشہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا کی زبانی
علامہ اہلسنت زمخشری نے تفسیر کشاف میں آیت مباہلہ کے ذیل میں سیدہ عائشہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ مباہلہ کے دن باہر تشریف لائے اور آپ نے سیاہ بالوں والی عبا زیب تن کی ہوئی تھی، جب امام حسن پہنچے تو آپ نے ان کو اپنی عبا میں داخل کیا، پھر امام حسین پہنچے، آپ نے ان کو بھی اپنی عبا کے نیچے داخل کیا، اور اس کے بعد فاطمہ اور پھر علی، پھر فرمایا:
»إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً «
[ بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے “۔
علامہ زمخشری کا کہنا ہے کہ “یہ بات، اصحاب کساء کی فضیلت پر دلیل ہے کہ اس سے زیادہ طاقتور دلیل نہیں پائی جاتی”۔
نتیجہ: آیت مباہلہ اور آیت تطہیر دونوں آیتوں کے مصداق پنجتن آل عبا ہیں، جو پنجتن آیت تطہیر کے مخاطب ہیں انہیں کو اللہ کے حکم سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نصرانیوں سے مباہلہ کے لئے اپنے ساتھ لے گئے، جس سے اہل بیت (علیہم السلام) کی عظمت واضح ہوتی ہے۔ جو آیت تطہیر کے مخاطب ہیں انہیں کی بددعا دشمن سے مقابلہ کرتے ہوئے اللہ کی بارگاہ میں مستجاب ہونا تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
] تفسیر الکشاف، سورہ آل عمران، آیت 61 کے ذیل میں
التفسیر الکبیر، سورہ آل عمران، آیت 61 کے ذیل میں۔
[] تفسیر انوار التنزیل و اسرار التأویل، سورہ آل
] مسند احمد، ج 1، ص331؛ مسند احمد، ج 4، ص107؛ مسند احمد، ج 6، ص292۔
[ فضائل الصحابة، احمد ابن حنبل، ج 2، تحقیق: وصی الله بن محمدعباس، مکة: جامعة ام القری، 1403ق/1983م،
.
.
ﻣﺒﺎﮨﻠﮧ ﺍﯾﮏ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﺳﯿﺮﺕ ﺍﺑﻦ ﺍﺳﺤﺎﻕ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﺭ ﺗﻔﺴﯿﺮ ﺍﺑﻦ ﮐﺜﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﻔﺼﯿﻞ ﺳﮯ ﻟﮑﮭﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﭼﻨﺪ ﻭﺍﻗﻌﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﮐﻮ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﻨﺎ ﭘﮍﺍ۔
ﻧﺠﺮﺍﻥ ﮐﮯ ﻋﯿﺴﺎﺋﯽ ﺟﺐ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺁﻟﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﺁﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﺤﺚ ﮐﯽ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﯿﺴﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺣﻨﮧ ﻣﺎﻧﮯ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﺝ ﺫﯾﻞ ﺁﯾﺖ ﻧﺎﺯﻝ ﮐﯽ :
ﺗﺮﺟﻤﮧ ﺍﮮ ﭘﯿﻐﻤﺒﺮ ! ﻋﻠﻢ ﮐﮯ ﺁﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﻮ ﻟﻮﮒ ﺗﻢ ﺳﮯ ﮐﭧ ﺣﺠﺘﯽ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﻥ ﺳﮯ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﺠﺌﮯ ﮐﮧ ﺁﺅ ﮨﻢ ﻟﻮﮒ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﺮﺯﻧﺪ , ﺍﭘﻨﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻔﺴﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﻼﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﮔﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﮭﻮﭨﻮﮞ ﭘﺮ ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﻟﻌﻨﺖ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﮟ۔ ﺳﻮﺭۃ ﺁﻝ ﻋﻤﺮﺍﻥ ﺁﯾۃ 61.
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺒﺎﮨﻠﮧ ﮐﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻋﯿﺴﺎﺋﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺮﮔﺰﯾﺪﮦ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﻻﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺁﻟﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ﺁﯾۂ ﻣﺒﺎﮨﻠﮧ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﺳﮯ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮨﻮﮔﺎ . ﺍﺱ ﭘﺮﻃﮯ ﯾﮧ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﮐﻞ ﺳﻮﺭﺝ ﮐﮯ ﻃﻠﻮﻉ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺷﮩﺮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ) ﻣﺪﯾﻨﮧ ﮐﮯ ﻣﺸﺮﻗﻤﯿﮟ ﻭﺍﻗﻊ ( ﺻﺤﺮﺍ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﯾﮧ ﺧﺒﺮ ﺳﺎﺭﮮ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻞ ﮔﺊ ۔ ﻟﻮﮒ ﻣﺒﺎﮬﻠﮧ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺍﺱ ﺟﮕﮧ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ ۔ ﻧﺠﺮﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﻤﺎﯾﻨﺪﮮ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ : ﺍﮔﺮ ﺁﺝ ﻣﺤﻤﺪ ) ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ( ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺮﺩﺍﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺳﭙﺎﮨﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ، ﺗﻮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﮔﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺣﻖ ﭘﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﺰﯾﺰﻭﮞ ﮐﻮ ﻟﮯ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻋﻮﮮ ﮐﺎ ﺳﭽﺎ ﮨﮯ۔ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﮐﯽ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﭨﮑﯽ ﮨﯿﮟ ؛ ﺩﻭﺭ ﺳﮯ ﻣﺒﮩﻢ ﺳﺎﯾﮧ ﻧﻈﺮ ﺁﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺟﺲ ﺳﮯﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺣﯿﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮨﻮﺍ ، ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﺳﮑﺎ ﺗﺼﻮﺭ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ۔
ﭘﯿﻐﻤﺒﺮ ﺧﺪﺍ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﺍﯾﮏ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺣﺴﯿﻦ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﻮ ﺁﻏﻮﺵ ﻣﯿﮟ ﻟﺌﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯﺣﺴﻦ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﻮ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﺑﮍﮪ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ۔
ﺁﻧﺤﻀﺮﺕ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺍﻧﮑﯽ ﺩﺧﺘﺮ ﮔﺮﺍﻣﯽ ﺳﯿﺪۃﺍﻟﻨﺴﺎﺀ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﺯﮨﺮﺍ ﺳﻼﻡ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮩﺎ ﭼﻞ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺳﺐ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺁﻧﺤﻀﺮﺕ ﮐﮯ ﻋﻤﻮﺯﺍﺩ ﺑﮭﺎﺋﯽ ، ﺣﺴﻨﯿﻦ ﮐﺎ ﻭﺍﻟﺪ ﺍﻭﺭ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﺟﻨﺖ ﺣﻀﺮﺕ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﮐﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﻋﻠﯽ ﺍﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻃﺎﻟﺐ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮨﯿﮟ۔
ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯽ ﻋﯿﺴﺎﺋﯽ ﻣﻐﻠﻮﺏ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺧﺪﺍ ﺳﮯ ﺑﺪ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﯾﮟ ﺗﻮ ﺭﻭﺋﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺑﮭﯽ ﻋﯿﺴﺎﺋﯽ ﺳﻼﻣﺖ ﻧﮧ ﺭﮦ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔
[ ﺣﻮﺍﻟﮧ ﺟﺎﺕ
1. ﺗﻔﺴﯿﺮ ﺍﺑﻦ ﮐﺜﯿﺮ ﺻﻔﺤﮧ 438 ﺗﻔﺴﯿﺮ ﺳﻮﺭﮦ ﺁﻝ ﻋﻤﺮﺍﻥ
2. ﺳﯿﺮﺕ ﺍﺑﻦ ﺍﺳﺤﺎﻕ ) ﺑﯿﺎﻥ ﺗﻔﺴﯿﺮ ﺍﺑﻦ ﮐﺜﯿﺮ ﻣﯿﮟ
( 3. ﻧﻘﻮﺵ ﻋﺼﻤﺖ ﺍﺯ ﺫﯾﺸﺎﻥ ﺣﯿﺪﺭ ﺟﻮﺍﺩﯼ 4. ﺗﻔﺴﯿﺮ ﺑﯿﻀﺎﻭﯼ ﺻﻔﺤﮧ 74)