مباہلہ میں پیغمبر (ص) اپنے ساتھ کس کو لے گئے؟؟
شیعہ اور اہل سنّت کا اس پر اتفاق ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) مباہلہ کے لئے علی، فاطمہ، حسن اورحسین علیہم السلام کے علاوہ کسی اور کو اپنے ساتھ نہیں لائے۔
فخررازی نے تفسیر کبیر میں ایة مباہلہ کے ذیل میں لکھاہے:
جب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں پر دلائل واضح کر دئے اور انہوں نے اپنی نادانی اور جہل پر اصرار کیا،تو آنحضرت (ص) نے فرمایا:
خدائے متعال نے مجھے حکم دیاہے اگرتم لوگوں نے دلائل کوقبول نہیں کیا تو تمہارے ساتھ مباہلہ کروں گا۔۔۔۔
پیغمبر اسلام (ص) (مباہلہ کے لئے) اس حالت میں باہر تشریف لائے کہ حسین (علیہ السلام) آپکی آغوش میں تھے، حسن (علیہ السلام) کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، فاطمہ (سلام اللہ علیہا) آپکے پیچھے اور علی(علیہ السلام) فاطمہ کے پیچھے چل رہے تھے۔
آنحضرت (ص) فرماتے تھے:”جب میں دعا مانگوں تو تم لوگ آمین کہنا“
نجران کے پادری نے کہا:
اے گروہ نصاریٰ! میں ایسے چہروں کو دیکھ رہا ہوں کہ اگر خدا سے دعا کریں کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو وہ اپنی جگہ چھوڑ دے گا ۔
لہذا ان کے ساتھ مباہلہ نہ کرنا، ورنہ تم لوگ ہلاک ہوجاؤ گے اور روی زمین پر قیامت تک کوئی عیسائی باقی نہیں بچے گا۔
اس کے بعد انہوں نے کہا: اے اباالقاسم! ہمارا ارادہ یہ ہے کہ آپ سے مباہلہ نہیں کریں گے۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:قسم اس خداکی جس کے قبضہ میں میری جان ہے،اہل نجران نابودی کے دہانے پر پہنچ چکے تھے، اگرمباہلہ کرتے توبندروں اور سوروں کی شکل میں مسنح ہو جاتے اور جس صحرا میں سکونت اختیار کرتے اس میں آگ لگ جاتی اور خدا وندمتعال نجران اوراس کے باشندوں کو نیست و نابود کر دیتا، یہاں تک کہ درختوں پر موجود پرندے بھی ہلاک ہو جاتے اور ایک سال کے اندر اندر تمام عیسائی صفحہء ہستی سے مٹ جاتے۔
روایت میں ہے کہ جب پیغمبراکرم (ص)، اپنی پشمی کالی رنگ کی عبا پہن کر باہرتشریف لائے (اپنے بیٹے)حسن(علیہ السلام) کو بھی اس میں داخل کر لیا، اس کے بعد حسین (علیہ السلام) آگئے انہیں بھی عبا کے نیچے داخل کیا اس کے بعد علی و فاطمہ (علیہما السلام) تشریف لائے اس کے بعد فرمایا: ۔<إنّمایریداللّہ۔۔۔>”
پس اللہ کاارادہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہر طرح کی کثافت وپلیدی سے دوررکھے اوراس طرح پاک وپاکیزہ رکھے جو پاک وپاکیزہ رکھنے کاحق ہے۔“
علامہ فخر رازی نے اس حدیث کی صحت و صدا قت کے بارے میں کہا ہے کہ تمام علماء تفسیر و احادیث کے نزدیک یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
عن عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا فَقَالَ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ؟ فَقَالَ: أَمَّا مَا ذَكَرْتُ ثَلَاثًا قَالَهُنَّ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَنْ أَسُبَّهُ، لَأَنْ تَكُونَ لِي وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَهُ، خَلَّفَهُ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ: يَا رَسُولَ اللهِ خَلَّفْتَنِي مَعَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ؟ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى؟ إِلَّا أَنَّهُ لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي» وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ يَوْمَ خَيْبَرَ «لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلًا يُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ، وَيُحِبُّهُ اللهُ وَرَسُولُهُ» قَالَ فَتَطَاوَلْنَا لَهَا فَقَالَ: «ادْعُوا لِي عَلِيًّا» فَأُتِيَ بِهِ أَرْمَدَ، فَبَصَقَ فِي عَيْنِهِ وَدَفَعَ الرَّايَةَ إِلَيْهِ، فَفَتَحَ اللهُ عَلَيْهِ، وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: {فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ} [آل عمران: 61] دَعَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ: «اللهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِي».
””قتیبة بن سعید اور محمد بن عباد نے ہمارے لئے حدیث نقل کی،– عامربن سعدبن ابی وقاص سے اس نے اپنے باپ (سعد بن ابی وقاص) سے کہ معاویہ نے سعد کو حکم دیا اور کہا :تمھیں ابوتراب (علی بن ابیطالب علیہ السلام) کو دشنام دینے اور برا بھلا کہنے سے کو نسی چیز مانع ہوئی (سعد نے) کہا:مجھے تین چیزیں (تین فضیلتیں) یادہیں کہ جسے رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا ہے،۔لہذامیں انھیں کبھی بھی برابھلا نہیں کہوں گا۔
اگرمجھ میں ان تین فضیلتوں میں سے صرف ایک پائی جاتی تو وہ میرے لئے سرخ اونٹوں سے محبوب تر ہوتی:
۱۔میں نے پیغمبرخدا (ص) سے سنا ہے ایک جنگ کے دوران انھیں (حضرت علی علیہ السلام) مدینہ میں اپنی جگہ پر رکھا تھا اور علی(علیہ السلام) نے کہا:
یارسول اللہ!کیا آپ مجھے عورتوں اوربچوں کے ساتھ مدینہ میں چھوڑرہے ہیں؟
(آنحضرت ص نے) فرمایا :کیا تم اس پر راضی نہیں ہوکہ میرے ساتھ تمہاری نسبت وہی ہو جو ہارون کی حضرت موسی (علیہ السلام ) کے ساتھ تھی، صرف یہ کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہو گا؟
۲۔میں نے رسول خدا (ص) سے سنا ہے کہ آپ نے روز خیبر علی کے با رے میں فرمایا:بیشک میں پرچم اس شخص کے ہاتھ میں دوں گا جو خدا ورسول (ص)کو دوست رکھتاہے اور خدا اور سول (ص) اس کو دوست رکھتے ہیں۔)
سعدنے کہا: ہم (اس بلند مرتبہ کے لئے) سر اٹھا کر دیکھ رہے تھے کہ آنحضرت (ص) اس امر کے لئے ہمیں مقرر فرماتے ہیں یانہیں؟
اس وقت آنحضرت (ص)نے فرمایا: علی (علیہ السلام) کو میرے پاس بلاؤ ۔ علی (علیہ السلام) کو ایسی حالات میں آپکے پاس لایا گیا، جبکہ ان کی آنکھوں میں درد تھا، آنحضرت (ص) نے اپنا آب دہن ان کی آنکھوں میں لگایا اور پرچم ان کے ہاتھ میں تھما دیا اور خدائے متعال نے ان کے ذریعہ سے مسلمانوں کو فتح عطا کی۔
۳۔ جب یہ آیة شریفہ نازل ہوئی: < قل تعالو اندع اٴبناء نا و اٴبنائکم و نسائنا و نسائکم و اٴنفسنا و اٴنفسکم۔۔۔>
تو پیغمبر اکرم (ص) نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین (علیہم السلام ) کو بلا کر فرمایا: خدایا! یہ میرے اہل بیت ہیں۔“۔



اس حدیث سے قابل استفادہ نکات:
۔”اہل“ اور ”اہل بیت“ کے ایک خاص اصطلاحی معنی ہیں جو پنجتن پاک کہ جن کو آل عبا اور اصحاب کساء کہا جاتا ہے، ان کے علاوہ دوسروں پر اس معنی کا اطلاق نہیں ہوتا ہے۔
یہ مطلب پیغمبراسلام (ص) کی بہت سی احادیث سے کہ جو آیہء تطہیر کے ذیل میں ذکر ہوئی ہیں اور اس کے علاوہ دوسری مناسبتوں سے بیان کی ہیں گئی بخوبی استفادہ کیا جاسکتاہے۔



آیتِ مباھلہ پانچ ہستیوں کے بارےمیں نازل ہوئی
تحریر:نعیم عباس Naeem Abbas
یومِ مباھلہ عالم عیسائیت پر فتح کا دن ہے اور پوری عالم عیسائیت کے مقابل اسلام کے فاتحین اہل کساء ہیں ۔
اور یہی عظیم واقعہ اس بات کا بین ثبوت ہے کے کائنات کے سب کاذبین کے مقابل اگر تمغہ صداقت ملا تو انہیں پانچ ہستیوں کو ملا ۔۔۔ یعنی جو بھی جہاں بھی ان پانچ کے مقابل آیا سمجھ لو اس کے مقدر میں سوائے لعنت کے اور کچھ نہیں کیونکہ قرآن کے مطابق لعنۃ اللہ علی الکاذبین ھی ان کے مقابل کے کذب پر دلیلِ اتم ہے
آئیے دیکھتے ہیں اہل سنت کے علماء کی اس آیت اور اس کے مصادیق کے بارے میں کیا رائے ہے۔۔۔۔
اس مختصر تحقیق میں کوشش کی گئی ہے کہ احادیث بھی ذکر کر دی جائیں اور ساتھ ھی علماء اہل سنت نے ان پر جو حکم لگایا وہ بھی بیان کر دیا جائے۔۔
مسلم شریف میں ذکر ہوا کہ
ولما نزلت هذه الآية : فقل تعالوا ندع أبناءنا وأبناءكم ، دعا رسول الله (ص) علياًً وفاطمة وحسناًً وحسيناًًً (ع) ، فقال : اللهم هؤلاء أهلي.
جب یہ آیت نازل ہوئی ( فقل تعالوا ندع أبناءنا وأبناءكم) تو رسول اللہ ص نے علی ع فاطمہ ع اور حسن و حسین ع کو بلایا پس رسول اللہ ص نے فرمایا ؛ اے اللہ یہ میرے اہل بیت ع ہیں (۱)
امام حاکم نیشاپوری لکھتے ہیں:
عن إبن عباس في قوله عز وجل : فقل تعالوا ندع أبناءنا وأبناءكم ونساءنا ونساءكم ، إلى قوله : الكاذبين ، نزلت على رسول الله (ص) وعلي (ع) نفسه ، ونساءنا ونساءكم : في فاطمة (ع) ، وأبناءنا وأبناءكم : في حسن وحسين (ع)
ابن عباس سے مروی ہے آیت (فقل تعالوا ندع أبناءنا وأبناءكم ونساءنا ونساءكم) الکاذبین تک رسول اللہ ص پر نازل ہوئی اور علی نفس رسول ہیں نسائنا ونسائکم فاطمہ کے بارے میں اور ابنائنا وابنائکم حسن و حسین کے بارے میں اتری
اس کے بعد امام حاکم رقمطراز ہیں:
وقد تواترت الأخبار في التفاسير ، عن عبد الله بن عباس ، وغيره أن رسول الله (ص) أخذ يوم المباهلة بيد علي وحسن وحسين (ع) وجعلوا فاطمة (ع) وراءهم ، ثم قال : هؤلاء أبناؤنا وأنفسنا ونساؤنا ، فهلموا أنفسكم وأبناءكم ونساءكم ثم نبتهل فنجعل لعنة الله على الكاذبين.
تفاسیر میں روایات متواتر ہیں ابن عباس و غیرہ سے کہ رسول اللہ ص نے مباھلہ کے روز علی حسن و حسین ع کا ہاتھ میں تھاما اور فاطمہ ع کو ان کے پیچھے رکھا پھر کہا۔ یہی میرے نفوس ، ابناء اور نساء ہیں اب تم اپنے نفوس اور ابناء و نساء کو لے آو پھر ہم مباھلہ کریں اور اللہ کی لعنت کاذبین پر قرار دیں (۲)
ایک اور مقام پر امام حاکم نے لکھا :
لما نزلت هذه الآية : ندع أبناءنا وأبناءكم ونساءنا ونساءكم وأنفسنا وأنفسكم ، دعا رسول الله (ص) علياًً وفاطمة وحسناًً وحسيناًًً (ع) ، فقال : اللهم هؤلاء أهلي ، هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ، ولم يخرجاه.
ترجمہ بعینہ مسلم والی روایت میں گزر گیا فراجع
حدیث کا حکم : امام حاکم کہتے ہیں یہ روایت شیخین کی شرط پر صحیح ہے ۔۔(۳)
امام ترمذی نے بھی دو روایات درج کیں پہلی روایت کا حکم :هذا حديث حسن غريب صحيح. لکھا
جبکہ دوسری کے بارے کہا : هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه.
نوٹ ؛ جب امام ترمذی صحیح کیساتھ غریب کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو انکی خاص مراد ہوتی ہے جس کی تفصیل اہل سنت کتب درایه میں ملاحظہ کی جائے (۴)
ابن کثیر نے بھی لکھا کے یہ روایت پانچ تن کی شان میں اتری پھر حکم بھی بیان کیا کہ :صحيح على شرط مسلم (۵)
مزید کتب اہل سنت کے حوالہ جات (۶)
حوالہ جات از منابع اہل سنت
(۱)صحيح مسلم – فضائل الصحابة – من فضائل علي (ع) – رقم الحديث : ( 4420 )
(۲) معرفة علوم الحديث – ذكر النوع السابع من علوم الحديث
(۳) مستدرك الحاكم – كتاب معرفة الصحابة – رقم الحديث : ( 4719 )
(۴) سنن الترمذي – تفسير القرآن – ومن سورة آل عمران – رقم الحديث : ( 2925 )
سنن الترمذي – المناقب عن الرسول (ص) – مناقب علي (ع) – رقم الحديث : ( 3658 )
(۵) تفسير إبن كثير – الجزء : ( 1 ) – رقم الصفحة : ( 378 )
ابن کثیر کی کتب کے مزید حوالہ جات :
البداية والنهاية – الجزء : ( 5 ) – رقم الصفحة : ( 65 )
تفسير إبن كثير – الجزء : ( 7 ) – رقم الصفحة : ( 376 )
السيرة النبوية – الجزء : ( 4 ) – رقم الصفحة : ( 103 )
(۶) دیگر حوالہ جات :
السيوطي – الدر المنثور – الجزء : ( 2 ) – رقم الصفحة : ( 38 )
السيوطي – الدر المنثور – الجزء : ( 2 ) – رقم الصفحة : ( 39 )
إبن حجر – فتح الباري – الجزء : ( 7 ) – رقم الصفحة : ( 60 )
إبن حجر – الإصابة – الجزء : ( 4 ) – رقم الصفحة : ( 468 )
الطبري – جامع البيان – الجزء : ( 3 ) – رقم الصفحة : ( 408 )
الطبري – جامع البيان – الجزء : ( 3 ) – رقم الصفحة : ( 408 )
الطبري – جامع البيان – الجزء : ( 3 ) – رقم الصفحة : ( 409 )
الطبري – ذخائر العقبى – رقم الصفحة : ( 25 )
تفسير أبي حاتم – سورة البقرة – قولة تعالى : وأنفسنا وأنفسكم
الشوكاني – فتح القدير – الجزء : ( 1 ) – رقم الصفحة : ( 347 )
الشوكاني – فتح القدير – الجزء : ( 1 ) – رقم الصفحة : ( 348 )
أبي نعيم الإصبهاني – دلائل النبوة – ذكر ما روي في قصة السيد
الآجري – الشريعة – كتاب جامع فضائل أهل البيت (ع) رقم الحدیث 1643
الحاكم الحسكاني – شواهد التنزيل – الجزء : ( 1 ) – رقم الصفحة : ( 158 )
القندوزي – ينابيع المودة – الجزء : ( 1 ) – رقم الصفحة : ( 42 )
محمد بيومي – السيدة فاطمة الزهراء (ع) – رقم الصفحة : ( 32 )
الواحدي النيسابوري – أسباب نزول الآيات – رقم الصفحة : ( 67 )
مسند أحمد – مسند العشرة .. – مسند أبي إسحاق – رقم الحديث : ( 1522 )
أحمد بن حنبل – فضائل الصحابة – فضائل الحسن والحسين رقم الحدیث 1332
.
.
فخررازی نے تفسیر کبیر میں ایة مباہلہ کے ذیل میں لکھاہے:
جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں پر دلائل واضح کر دئے اور انہوں نے اپنی نادانی اور جہل پر اصرار کیا، تو آنحضرت (ص) نے فرمایا:
خدائے متعال نے مجھے حکم دیا ہے اگر تم لوگوں نے دلائل کو قبول نہیں کیا تو تمہارے ساتھ مباہلہ کروں گا۔
پیغمبر اسلام (ص) (مباہلہ کے لئے) اس حالت میں باہر تشریف لائے کہ حسین (علیہ السلام) آپکی آغوش میں تھے، حسن (علیہ السلام) کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، فاطمہ (سلام اللہ علیہا) آپکے پیچھے اور علی (علیہ السلام) فاطمہ کے پیچھے چل رہے تھے۔
آنحضرت (ص) فرماتے تھے: ”جب میں دعا مانگوں تو تم لوگ آمین کہنا“
نجران کے پادری نے کہا:
اے گروہ نصاریٰ! میں ایسے چہروں کو دیکھ رہا ہوں کہ اگر خدا سے دعا کریں کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو وہ اپنی جگہ چھوڑ دے گا ۔
لہذا ان کے ساتھ مباہلہ نہ کرنا، ورنہ تم لوگ ہلاک ہوجاؤ گے اور روی زمین پر قیامت تک کوئی عیسائی باقی نہیں بچے گا۔
اس کے بعد انہوں نے کہا: اے اباالقاسم! ہمارا ارادہ یہ ہے کہ آپ سے مباہلہ نہیں کریں گے۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:قسم اس خداکی جس کے قبضہ میں میری جان ہے،اہل نجران نابودی کے دہانے پر پہنچ چکے تھے، اگر مباہلہ کرتے تو بندروں اور سوروں کی شکل میں مسنح ہو جاتے اور جس صحرا میں سکونت اختیار کرتے اس میں آگ لگ جاتی اور خدا وندمتعال نجران اوراس کے باشندوں کو نیست و نابود کر دیتا، یہاں تک کہ درختوں پر موجود پرندے بھی ہلاک ہو جاتے اور ایک سال کے اندر اندر تمام عیسائی صفحہء ہستی سے مٹ جاتے۔
روایت میں ہے کہ جب پیغمبراکرم (ص)، اپنی پشمی کالی رنگ کی عبا پہن کر باہر تشریف لائے (اپنے بیٹے) حسن (علیہ السلام) کو بھی اس میں داخل کر لیا، اس کے بعد حسین (علیہ السلام) آگئے انہیں بھی عبا کے نیچے داخل کیا اس کے بعد علی و فاطمہ (علیہما السلام) تشریف لائے اس کے بعد فرمایا: ۔<إنّمایریداللّہ۔۔۔>”
پس اللہ کاارادہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہر طرح کی کثافت وپلیدی سے دوررکھے اوراس طرح پاک وپاکیزہ رکھے جو پاک وپاکیزہ رکھنے کاحق ہے۔“
علامہ فخر رازی نے اس حدیث کی صحت و صدا قت کے بارے میں کہا ہے کہ تمام علماء تفسیر و احادیث کے نزدیک یہ حدیث متفق علیہ ہے۔


