رئیس النواصب ابن تيمية کے شاگرد ابن قيم الجوزي کا أمير المؤمنين علي ؑ ابن أبي طالب ؑ سے بغض…!
ابن قيم جوزی اپنی کتاب جلاء الأفهام في فضل الصلاة والسلام على خير الأنام میں الصفحة 299 پر مباهلة کے ذیل میں لکھتے ہیں
کہ جب یہ آیت نازل ہوئی…
فَمَنْ حَاجَّك فيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا وَأَبْناءَكمْ وَنِساءَنا وَنِساءَكمْ وَأَنْفُسَنا وَأَنْفُسَكمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكاذِبينَ….
آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہدیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی بیٹیوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنی بیٹیوں کو بلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوں فریق الله سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر الله کی لعنت ہو۔
سورة آل عمران 61
تو رسول الله ﷺ نے ، سیدہ فاطمہ ؑ ، امام حسن ؑ ، اور امام حسین ؑ کو بلایا اور مباہلے کے لئے نکلے….
ابن قيم جوزی نے امام علی ؑ کا نام حَذْف کر دیا گیا.
اس کتاب کے محقیق زائد بن أحمد النشيري خاشیے ميں لکھتے ہیں أحرجه في صحیح مسلم…
جب ہم صحیح مسلم میں یہ حدیث پڑھتے ہیں تو وہاں حدیث یوں ہیں..
عامر بن سعد بن ابی وقاص سے ، انھوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ معاویہ بن ابی سفیان نے حضرت سعد کو حکم دیا ، کہ ابو تراب ؑ کو برا بھلا کہنے سے آپ کو کیا چیز منع کرتی ہیں..
حضرت سعد نے جواب دیا : جب تک مجھے وہ تین باتیں یاد ہیں جو رسول الله ﷺ نے ان ( امام علی ؑ ) سے کہی تھیں ، میں ہرگز انھیں برا نہیں کہوں گا ۔ ان میں سے کوئی ایک بات بھی میرے لئے ہو تو وہ مجھے سرخ اونٹوں سے زیادہ پسند ہو گی ، میں نے رسول الله ﷺ سے سنا تھا ، آپ ان سے ( اس وقت ) کہہ رہے تھے جب آپ ایک جنگ میں ان کو پیچھے چھوڑ کر جا رہے تھے اور علی ؑ نے ان سے کہا تھا : الله کے رسول ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ کر جا رہے ہیں ؟ تو رسول الله ﷺ نے ان سے فرمایا :’’ تمھیں یہ پسند نہیں کہ تمھارا میرے ساتھ وہی مقام ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھا ، مگر یہ کہ میرے بعد نبوت نہیں ہے ۔‘‘ اسی طرح خیبر کے دن میں نے آپ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا :’’ اب میں جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو الله اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتا ہے اور الله اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘ کہا : پھر ہم نے اس بات ( کا مصداق جاننے ) کے لئے اپنی گردنیں اٹھا اٹھا کر ( ہر طرف ) دیکھا تو رسول الله ﷺ نے فرمایا :’’ علي ؑ کو میرے پاس بلاؤ ۔‘‘ انھیں شدید آشوب چشم کی حالت میں لایا گیا ۔ آپ نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگایا اور جھنڈا انھیں عطا فرما دیا ۔ الله نے ان کے ہاتھ پر خیبر فتح کر دیا ۔ اور جب یہ آیت اتری : ( تو آپ کہہ دیں : آؤ ) ہم اپنے بیٹوں اور تمھارے بیٹوں کو بلا لیں ۔‘‘ تو رسول الله ﷺ نے حضرت علی ؑ ، حضرت فاطمہ ؑ ، حضرت حسن ؑ ، اور حضرت حسین ؑ کو بلایا اور فرمایا :’’ اے الله ! یہ میرے گھر والے ہیں ۔‘‘
صحیح مسلم 6220
صحیح مسلم کی حدیث میں واضح ہے کہ
دَعَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا..
رسول الله ﷺ نے امام علی ؑ ، سیدہ فاطمہ ؑ ، امام حسن ؑ ، اور امام حسین ؑ کو بلایا…
لیکن ابن قيم الجوزی نے کو امام علی ؑ سے اتنا بغض تھا کہ حدیث مباہلہ سے امام علی ؑ کا نام ہی نکال دیا….
کويت کے وہابی شیخ نبیل العوضي نے بھی ابن قيم جوزی کے سنت پر عمل کر کے امام علی ؑ کو مباہلے سے نکال دیا کہ رسولالله تین افراد کے ساتھ مباہلے کے لیے نکلے تھے،
سیدہ فاطمہ ؑ ، امام حسن ؑ ، امام حسین ؑ …
جبکہ صحیح حدیث میں چار افراد کا ذکر ہے..
دَعَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا…
صحیح مسلم 6220.

