علی نفس رسول ص بمطابق آیت مباہلہ (تحریر)

علی نفس رسول ہیں​
(علی اور اہلِ بیت آیت ِمباہلہ میں)​
فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنآءَ نَا وَاَبْنآءَ کُمْ وَنِسآ ءَ نَا وَ نِسآ ءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ قف ثُمَّ نَبْتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ۔​
”پس آپ کہہ دیجئے کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ اور ہم اپنی عورتوں کو(بلائیں)اور تم اپنی عورتوں کو(بلاؤ) اور ہم اپنے نفسوں کو(بلائیں) اور تم اپنے نفسوں کو(بلاؤ) پھر ہم خدا کی طرف رجوع کریں اور خدا کی لعنت جھوٹوں پر قرار دیں“۔
(سورئہ آلِ عمران:آیت61)
تشریح ​
تمام مفسرین اور محدثین اہلِ سنت اور شیعہ کے مطابق یہ آیت (جو آیت ِ مباہلہ کے نام سے مشہور ہے)اہلِ بیت کے حق میں نازل ہوئی ہے۔ اس میں ”اَبْنآءَ نَا“سے امام حسن اور امام حسین مراد ہیں،”نِسآءَ نَا“سے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور”اَنْفُسَنَا“سے علی ابن ابی طالب علیہما السلام مرادہیں۔​
روایات لکھنے سے پہلے ہم مباہلہ کے واقعہ کو مختصراً بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔​
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں کودعوتِ اسلام دی۔ عیسائیوں کے بڑے بڑے پادریوں نے باہم مشورہ کیا اور اکٹھے ہوکر مدینہ میں آئے او رپیغمبر اسلام سے ملاقاتیں کیں اور بحث و مباحثہ شروع کردیا۔یہ سلسلہ مناظرہ تک جاپہنچا۔ رسول اللہ نے انہیں محکم دلائل دئیے جس کے جواب میں عیسائیوں نے اپنے عقائد کو درست قرار دینے کیلئے بحث میں ضد کی۔ اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بحکم خدا عیسائیوں کو مباہلہ(مخالف گروہوں کا مل کر جھوٹوں پر خدا کی لعنت بھیجنا)کی دعوت دی تاکہ حق ظاہر ہوجائے۔ عیسائیوں نے یہ دعوت قبول کرلی اور قرار پایا کہ مباہلہ کیلئے اگلے روز مدینہ سے باہر کھلے میدان میں جمع ہوں گے۔ مباہلہ کا وقت آن پہنچا۔ تمام عیسائی ، اُن کے علماء اور راہب مدینہ سے باہر مقررہ جگہ پر پہنچ گئے اور پیغمبر اسلام کے آنے کا انتظار کرنے لگے۔اُن کا خیال تھا کہ آپ یقینا مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد کے ہمراہ آئیں گے۔ ابھی زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ نصاریٰ نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ پیغمبر خدا کے ساتھ مسلمانوں کی جماعت ہے نہ اصحاب و انصار کی کوئی تعداد۔آپ بڑی متانت کے ساتھ صرف چار افراد کے ہمراہ تشریف لارہے ہیں۔ اُن میں سے ایک بچہ(آپ کا نواسہ امام حسین علیہ السلام) ہے جو آپ کی گود میں ہے۔ دوسرے بچے(آپ کا نواسہ امام حسن علیہ السلام)کی انگلی پکڑی ہوئی ہے۔ آپ کے پیچھے ایک بی بی ہیں جن کو خاتونِ جنت کہا جاتا ہے یعنی سیدہ فاطمۃ الزہرا اور اُن کے پیچھے اُن کے شوہرنامدار حضرت علی ہیں۔ ان سب افراد کے چہروں سے نورانی کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔یہ سب افراد کمالِ اطمینان اور ایمانِ راسخ کے ساتھ آہستہ آہستہ میدان کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ عیسائیوں کا رہبر” اسقف اعظم“ حیران ہوا اوراپنے لوگوں سے پکار کر کہنے لگا کہ دیکھو! محمد اپنے بہترین عزیزوں کو لے کر مباہلہ کیلئے تشریف لا رہے ہیں۔ خدا کی قسم! اگر اُن کو مباہلہ میں کوئی فکروتشویش ہوتی تو ہرگز اپنے قریبی رشتہ داروں کو نہ لاتے۔ اے لوگو!ان افراد کے چہروں سے نور کی کرنیں پھوٹتی ہوئی دیکھ رہا ہوں۔ اگر یہ افراد خدا سے دعا کریں تو پہاڑ اپنی جگہ سے حرکت کرنا شروع کردیں۔لہٰذا ان سے مباہلہ کرنے سے گریز کریں وگرنہ ہم سب عذابِ خدا میں گرفتار ہوجائیں گے۔​
اس موقع پر اسقف نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ ہم آپ سے ہرگز مباہلہ نہیں کریں گے بلکہ آپ سے صلح کرنا چاہتے ہیں۔ پیغمبر خدا نے اُن کی تجویز کو قبول کرلیا اور معتبر روایات کے مطابق علی علیہ السلام کے دست ِ مبارک سے صلح نامہ لکھا گیا۔​
اوپر بیان کئے گئے پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے چند روایات جو تشریح اور تفسیر آیت ِ مباہلہ کے ضمن میں نقل کی گئی ہیں، ملاحظہ فرمائیں:​
(ا)۔ ابو نعیم اپنی کتاب حلیة الاولیاء میں لکھتے ہیں کہ عامر بن سعد اپنے باپ سے اسناد کے ساتھ روایت کرتے ہیں:​
📜 لَمَّا نَزَلَتْ ھٰذِ ہِ الاٰ یَۃُ(”فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنآءَ نَا وَاَبْنآءَ کُمْ وَنِسآ ءَ نَا وَ نِسآ ءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ قف ثُمَّ نَبْتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ“)دَعٰا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلّٰی اللّٰہ عَلَیْہِ وَآلہ وَسَلَّم عَلِیاً وَفَاطِمۃَ وَحَسَناًوَحُسَیْناً فَقَالَ:اَلَّلھُمَّ ھٰوٴُلاءِ اَھْلِیْ۔​
📃 جس وقت یہ آیت” فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنآءَ نَا وَاَبْنآءَ کُمْ وَنِسآ ءَ نَا وَ نِسآ ءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ قف ثُمَّ نَبْتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ“ نازل ہوئی، پیغمبر اسلام نے علی ،فاطمہ ، حسن اور حسین علیہم السلام کو اپنے پاس بلایا اور خدا کے حضور عرض کی:”پروردگار! یہ میرے اہلِ بیت ہیں“۔​
(ب)۔ اسی طرح کتاب حلیة الاولیاء میں اسناد کے ساتھ جابر روایت کرتے ہیں:​
📜 قَالَ جَابِرُ: فِیْھِمْ نَزَلَتْ ھٰذِہِ الآ یَۃُ قَالَ جَابِرْ:اَنْفُسَنَا رَسُوْلُ اللّٰہ وَعَلِیٌّ وَ ”اَبْنآءَ نَا“ اَلحَسَنُ وَالحُسَیْنُ وَ ”نِسآءَ نَا“ فَاطِمَۃُ۔​
📃 جابر کہتے ہیں کہ یہ آیہٴ شریفہ” فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنآءَ نَا وَاَبْنآءَ کُمْ وَنِسآءَ نَا وَ نِسآ ءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْقفثُمَّ نَبْتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ“ان ہستیوں(یعنی حضرت محمد، علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین علیہم السلام)کیلئے نازل ہوئی ہے۔​
🎯 جابر کہتے ہیں کہ اَنْفُسَنَا سے رسولِ خدا اور علی علیہ السلام اور اَبْنآءَ نَا سے حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام اورَ نِسآءَ نَا سے سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا مراد ہیں۔​
تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے​ 👇🏻
1۔ فخرالدین رازی تفسیر کبیر میں، جلد12،صفحہ80 اور اشاعت ِ دوم، جلد8،صفحہ85۔​
2۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں، جلد1،صفحہ371 ، البدایہ والنہایہ ،جلد7،ص340،بابِ​
فضائلِ علی علیہ السلام۔​
3۔ سیوطی تفسیر الدرالمنثور میں، جلد2،صفحہ43اور کتاب تاریخ الخلفاء، صفحہ169۔​
4۔ گنجی شافعی کتاب کفایة الطالب، باب32،صفحہ142۔​
5۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب ِعلی علیہ السلام، حدیث310،صفحہ263اور318۔​
6۔ حافظ حسکانی، کتاب شواہد التنزیل، جلد1،صفحہ125، اشاعت ِ اوّل۔​
7۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی ،ینابیع المودة، بابِ مناقب، ص275،حدیث10،ص291​
8۔ زمخشری تفسیر کشاف میں، جلد1،صفحہ36، اشاعت ِ دوم، صفحہ193۔​
9۔ حاکم، کتاب المستدرک، جلد3،صفحہ150(اشاعت ِ حیدرآباد)۔​
10۔ بیضاوی اپنی تفسیر میں، جلد1،صفحہ163۔​
11۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، چوتھا باب، جلد2،صفحہ23، اشاعت ِ اوّل۔​
12۔ حافظ ابونعیم اصفہانی، کتاب”ما نزل من القرآن فی علی “ ، کتاب دلائل النبوة،ص 297​
13۔ احمد بن حنبل، کتاب مسند، جلد1،صفحہ185،اشاعت ِ مصر۔​
14۔ طبری اپنی تفسیر میں، جلد3،صفحہ192۔​
15۔ واحدی نیشاپوری، کتاب اسباب النزول میں، صفحہ74(اشاعت ِ انڈیا)۔​
16۔ آلوسی ، تفسیر ”روح المعانی“میں، جلد3،صفحہ167،اشاعت ِ مصر۔​
17۔ علامہ قرطبی، ”الجامع الاحکام القرآن“، جلد3،صفحہ104، اشاعت ِمصر1936۔​
کپ18۔ حافظ احمد بن حجر عسقلانی،’کتاب الاصابہ‘ ،ج2،ص502، اشاعت :مصطفی محمد، مصر۔​
.
.
مولا علی علیہ السلام نفس رسول یعنی نبی کی جان ھیں”
کتب حدیث و تفسیر اھل سنت کے شاندار حوالہ جات سے۔۔۔محبان اھل بیت کے لیے خصوصی تحفہ
ایک ایسی فضیلت جس میں مولا علی علیہ السلام
کے ساتھ کوئ دوسرا شریک نھی۔۔۔۔
فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنآءَ نَا وَاَبْنآءَ کُمْ وَنِسآ ءَ نَا وَ نِسآ ءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ قف ثُمَّ نَبْتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ۔​
”پس آپ کہہ دیجئے کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ اور ہم اپنی عورتوں کو(بلائیں)اور تم اپنی عورتوں کو(بلاؤ) اور ہم اپنے نفسوں کو(بلائیں) اور تم اپنے نفسوں کو(بلاؤ) پھر ہم خدا کی طرف رجوع کریں اور خدا کی لعنت جھوٹوں پر قرار دیں“۔(سورئہ آلِ عمران:آیت61)۔​
تشریح ​
تمام مفسرین اور محدثین اہلِ سنت کے مطابق یہ آیت (جو آیت ِ مباہلہ کے نام سے مشہور ہے)اہلِ بیت کے حق میں نازل ہوئی ہے۔ اس میں ”اَبْنآءَ نَا“سے امام حسن اور امام حسین مراد ہیں،”نِسآءَ نَا“سے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور”اَنْفُسَنَا“سے علی ابن ابی طالب علیہما السلام مرادہیں
1۔ فخرالدین رازی تفسیر کبیر میں، جلد12،صفحہ800 اور اشاعت ِ دوم، جلد8،صفحہ85۔​
2۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں، جلد1،صفحہ3711 ، البدایہ والنہایہ ،جلد7،ص340،بابِ​
فضائلِ علی علیہ السلام۔​
3۔ سیوطی تفسیر الدرالمنثور میں، جلد2،صفحہ433اور کتاب تاریخ الخلفاء، صفحہ169۔​
4۔ گنجی شافعی کتاب کفایة الطالب، باب32،صفحہ142۔​
55۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب ِعلی علیہ السلام، حدیث310،صفحہ263اور318۔​
66۔ حافظ حسکانی، کتاب شواہد التنزیل، جلد1،صفحہ125، اشاعت ِ اوّل۔​
77۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی ،ینابیع المودة، بابِ مناقب، ص275،حدیث10،ص291​
8۔ زمخشری تفسیر کشاف میں، جلد1،صفحہ366، اشاعت ِ دوم، صفحہ193۔​
9۔ حاکم، کتاب المستدرک، جلد3،صفحہ1500(اشاعت ِ حیدرآباد)۔​
10۔ بیضاوی اپنی تفسیر میں، جلد1،صفحہ163۔​
111۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، چوتھا باب، جلد2،صفحہ23، اشاعت ِ اوّل۔​
122۔ حافظ ابونعیم اصفہانی، کتاب”ما نزل من القرآن فی علی “ ، کتاب دلائل النبوة،ص 297​
133۔ احمد بن حنبل، کتاب مسند، جلد1،صفحہ185،اشاعت ِ مصر۔​
14۔ طبری اپنی تفسیر میں، جلد3،صفحہ192۔​
155۔ واحدی نیشاپوری، کتاب اسباب النزول میں، صفحہ74(اشاعت ِ انڈیا)۔​
166۔ آلوسی ، تفسیر ”روح المعانی“میں، جلد3،صفحہ167،اشاعت ِ مصر۔​
177۔ علامہ قرطبی، ”الجامع الاحکام القرآن“، جلد3،صفحہ104، اشاعت ِمصر1936۔​
188۔ حافظ احمد بن حجر عسقلانی،’کتاب الاصابہ‘ ،ج2،ص502، اشاعت :مصطفی محمد، مصر۔
مزید حوالہ جات۔۔۔۔
عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْطَبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ص) لِوَفْدِ ثَقِيفٍ حِينَ جَاءُوا: «لَتُسْلِمُنَّ أَوْ لَنَبْعَثَنَّ رَجُلا مِنِّي، أَوْ قَالَ: مِثْلَ نَفْسِي، فَلَيَضْرِبَنَّ أَعْنَاقَكُمْ، وَلَيَسْبِيَنَّ ذَرَارِيَّكُمْ، وَلَيَأْخُذَنَّ أَمْوَالَكُمْ»، فَقَالَ عُمَرُ: فَوَاللَّهِ مَا تَمَنَّيْتُ الإِمَارَةَ إِلا يَوْمَئِذٍ، جَعَلْتُ أَنْصِبُ صَدْرِي رَجَاءَ أَنْ يَقُولَ هُوَ هَذَا، قَالَ: فَالْتَفَتَ إِلَي عَلِيٍّ فَأَخَذَ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَ: «هُوَ هَذَا هُوَ هَذَا»
رسول خدا نے ثقیف کے ایک آنے والے وفد سے فرمایا کہ: میرے فرامین کے سامنے تسلیم ہوتے ہو یا میں ایک ایسے مرد کو بھیجوں گا کہ جو مجھ سے ہے یا میری مانند ہے، تا کہ وہ تمہاری گردنوں کو کاٹ دے، تمارے خاندانوں کو اسیر کرے اور تمہارے اموال کو تم سے لے لے۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: خدا کی قسم میں نے اس دن تک کبھی بھی امارت کی اتنی آرزو نہیں کی تھی،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہے کہ میں نے اپنے سینے کو اس امید سے چوڑا کیا کہ اب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پکار کر کہیں گے کہ وہ مرد، عمر ہے۔
راوی کہتا ہے کہ: یہ کہہ کر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کی طرف نگاہ کی، اسکے ہاتھ کو پکڑا اور فرمایا: یہ ہے وہ مرد، یہ ہے وہ مرد۔
حوالہ جات۔۔۔۔۔۔
الأزدي، معمر بن راشد (متوفي151هـ)، الجامع، ج 11 ص 226، ح20389، تحقيق: حبيب الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي – بيروت ، الطبعة: الثانية، 1403هـ
إبن أبي شيبة الكوفي، ابوبكر عبد الله بن محمد (متوفي235 هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج 11 ص 226، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد – الرياض، الطبعة: الأولي، 1409هـ.
الشيباني، ابوعبد الله أحمد بن حنبل (متوفي241هـ)، فضائل الصحابة، ج 2 ص 593، تحقيق د. وصي الله محمد عباس، ناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت، الطبعة: الأولي، 1403هـ – 1983م.
البلاذري، أحمد بن يحيي بن جابر (متوفي279هـ)، أنساب الأشراف، ج 1 ص 283، طبق برنامه الجامع الكبير.
ابن عبد البر النمري القرطبي المالكي، ابوعمر يوسف بن عبد الله بن عبد البر (متوفي 463هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 3 ص 1110، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل – بيروت، الطبعة: الأولي، 1412هـ.
الانصاري التلمساني، محمد بن أبي بكر المعروف بالبري (متوفي644هـ) الجوهرة في نسب النبي وأصحابه العشرة، ج 1 ص 295، طبق برنامه الجامع الكبير.
الطبري، ابو جعفر محب الدين أحمد بن عبد الله بن محمد (متوفي694هـ)، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي، ج 1 ص 64، ناشر: دار الكتب المصرية – مصر.
الحلبي، علي بن برهان الدين (متوفي1044هـ)، السيرة الحلبية في سيرة الأمين المأمون، ج 2 ص 734، ناشر: دار المعرفة – بيروت – 1400.
العاصمي المكي، عبد الملك بن حسين بن عبد الملك الشافعي (متوفي1111هـ)، سمط النجوم العوالي في أنباء الأوائل والتوالي، ج 3 ص 30، تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود- علي محمد معوض، ناشر: دار الكتب العلمية.
نتیجہ فکر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔موئے مبارک کی توھین کفر ھے تو جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان کی مانند ھے اس کی گستاخی یعنی نفس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مولا علی علیہ السلام کی گستاخی بھی یقینا کفر ھے اس پہ دورائے کیوں گستاخ کے لیے نرم لھجہ کیوں؟؟؟