مباہلہ کرنے پر آئمہ ع کی روایت

مباہلہ پر روایات اہل بیت علیہم السلام
تحریر: سید علی اصدق نقوی
مباہلہ کا ذکر قرآن میں سورہ آل عمران کی آیات کے ذیل میں ہے (1) جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور نجران کے نصاری کے درمیان گفتگو ہوتی ہے اور گفتگو کا نتیجہ نہ نکلنے پر نصاری کو مباہلہ کی دعوت دی جاتی ہے جس سے وہ ہٹ جاتے ہیں جب نبی ص اہل بیت علیہم السلام کو لاتے ہیں۔ یہ واقعہ معروف ہے اور اس پر کئی روایات موجود ہیں۔ اس کے لیئے سورہ آل عمران کی آیت 61 کے متعلق تفاسیر کی کتب سے رجوع کیجیئے۔
مباہلہ کرنے کا طریقہ جو آئمہ ع سے مروی ہے:
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَكِيمٍ عَنْ أَبِي مَسْرُوقٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قُلْتُ إِنَّا نُكَلِّمُ النَّاسَ فَنَحْتَجُّ عَلَيْهِمْ بِقَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ أَطِيعُوا الله وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأمْرِ مِنْكُمْ فَيَقُولُونَ نَزَلَتْ فِي أُمَرَاءِ السَّرَايَا فَنَحْتَجُّ عَلَيْهِمْ بِقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّما وَلِيُّكُمُ الله وَرَسُولُهُ إِلَى آخِرِ الآيَةِ فَيَقُولُونَ نَزَلَتْ فِي الْمُؤْمِنِينَ وَنَحْتَجُّ عَلَيْهِمْ بِقَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى‏ فَيَقُولُونَ نَزَلَتْ فِي قُرْبَى الْمُسْلِمِينَ قَالَ فَلَمْ أَدَعْ شَيْئاً مِمَّا حَضَرَنِي ذِكْرُهُ مِنْ هَذِهِ وَشِبْهِهِ إِلا ذَكَرْتُهُ فَقَالَ لِي إِذَا كَانَ ذَلِكَ فَادْعُهُمْ إِلَى الْمُبَاهَلَةِ قُلْتُ وَكَيْفَ أَصْنَعُ قَالَ أَصْلِحْ نَفْسَكَ ثَلاثاً وَأَظُنُّهُ قَالَ وَصُمْ وَاغْتَسِلْ وَابْرُزْ أَنْتَ وَهُوَ إِلَى الْجَبَّانِ فَشَبِّكْ أَصَابِعَكَ مِنْ يَدِكَ الْيُمْنَى فِي أَصَابِعِهِ ثُمَّ أَنْصِفْهُ وَابْدَأْ بِنَفْسِكَ وَقُلِ اللهمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبَّ الأرَضِينَ السَّبْعِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الرَّحْمَنَ الرَّحِيمَ إِنْ كَانَ أَبُو مَسْرُوقٍ جَحَدَ حَقّاً وَادَّعَى بَاطِلاً فَأَنْزِلْ عَلَيْهِ حُسْبَاناً مِنَ السَّمَاءِ أَوْ عَذَاباً أَلِيماً ثُمَّ رُدَّ الدَّعْوَةَ عَلَيْهِ فَقُلْ وَإِنْ كَانَ فُلانٌ جَحَدَ حَقّاً وَادَّعَى بَاطِلاً فَأَنْزِلْ عَلَيْهِ حُسْبَاناً مِنَ السَّمَاءِ أَوْ عَذَاباً أَلِيماً ثُمَّ قَالَ لِي فَإِنَّكَ لا تَلْبَثُ أَنْ تَرَى ذَلِكَ فِيهِ فَوَ الله مَا وَجَدْتُ خَلْقاً يُجِيبُنِي إِلَيْهِ.
علی بن ابراہیم – اسکے والد – ابن ابی عمیر – محمد بن حکیم – ابی مسروق – امام صادق ع – (راوی نے) کہا:
ہم لوگوں سے کلام کرتے ہیں تو ان سے اللہ عز و جل کے قول أَطِيعُوا الله وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأمْرِ مِنْكُمْ سے استدلال کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ تو لشکروں کے امیروں کیلئے نازل ہوا ہے۔ تو ہم نے ان سے اللہ کے قول إِنَّما وَلِيُّكُمُ الله وَرَسُولُهُ۔۔ آیت کے آخر تک سے استدلال کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ تو مومنین کیلئے نازل ہوا ہے۔ تو ہم ان سے اللہ کے قول قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى سے استدلال کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ تو مسلمانوں کے اقربا کیلئے نازل ہوئی ہے۔ (راوی نے) کہا: تو میں نے کوئی چیز نہیں چھوڑی جو مجھے یاد آئی اور اسکے مشابہ مگر یہ کہ میں نے اسکا ذکر کیا۔ تو امام ع نے مجھ سے فرمایا: جب ایسا ہو تو انکو مباہلہ کیلئے بلاؤ۔ میں نے کہا: وہ میں کیسے کروں؟ امام ع نے فرمایا: اپنے نفس کی اصلاح کرو تین دن، اور میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے فرمایا تھا: اور روزہ رکھو اور غسل کرو اور تم اور وہ صحراء کی طرف جاؤ۔ تو اپنی دائیں ہاتھ کی انگلیوں کو اسکی انگلیوں میں رکھو۔ پھر انصاف کرو اس سے اور خود سے شروع کرو اور کہو: اے سات آسمانوں اور سات زمینوں کے رب، غیب و دیکھے جانے کو جاننے والے، رحمان و رحیم، اگر ابو مسروق حق کا انکار کرتا ہے اور باطل کا ادعاء کرتا ہے تو اس پر فیصلہ نازل کر آسمان سے یا دردناک عذاب۔ پھر مجھ سے فرمایا: اگر تم وہاں نہ رہے کہ اس میں وہ دیکھو تو بخدا میں نے کوئی خلقت نہیں پائی جو مجھے اسکی طرف اجابت کرے (یعنی میرے ساتھ مباہلہ کرے)۔ (2)
علامہ مجلسی: حدیث حسن ہے۔ (مرآة العقول / ١٢ / ۱٨٥)
عَلِيٌّ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ أُذَيْنَةَ عَنْ زُرَارَةَ قَالَ جَاءَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَيْرٍ اللَّيْثِيُّ إِلَى أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيْهِ السَّلام) فَقَالَ لَهُ مَا تَقُولُ فِي مُتْعَةِ النِّسَاءِ فَقَالَ أَحَلَّهَا اللهُ فِي كِتَابِهِ وَعَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) فَهِيَ حَلالٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ فَقَالَ يَا أَبَا جَعْفَرٍ مِثْلُكَ يَقُولُ هَذَا وَقَدْ حَرَّمَهَا عُمَرُ وَنَهَى عَنْهَا فَقَالَ وَإِنْ كَانَ فَعَلَ قَالَ إِنِّي أُعِيذُكَ بِاللهِ مِنْ ذَلِكَ أَنْ تُحِلَّ شَيْئاً حَرَّمَهُ عُمَرُ قَالَ فَقَالَ لَهُ فَأَنْتَ عَلَى قَوْلِ صَاحِبِكَ وَأَنَا عَلَى قَوْلِ رَسُولِ اللهِ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) فَهَلُمَّ أُلاعِنْكَ أَنَّ الْقَوْلَ مَا قَالَ رَسُولُ اللهِ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَأَنَّ الْبَاطِلَ مَا قَالَ صَاحِبُكَ قَالَ فَأَقْبَلَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَيْرٍ فَقَالَ يَسُرُّكَ أَنَّ نِسَاءَكَ وَبَنَاتِكَ وَأَخَوَاتِكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ يَفْعَلْنَ قَالَ فَأَعْرَضَ عَنْهُ أَبُو جَعْفَرٍ (عَلَيْهِ السَّلام) حِينَ ذَكَرَ نِسَاءَهُ وَبَنَاتِ عَمِّهِ.
علی بن ابراہیم – اسکے والد – ابن ابی عمیر – عمر بن اذینہ – زرارہ – کہا:
عبد اللہ بن عمیر لیثی امام باقر ع کے پاس آیا اور ان سے کہا: آپ عورتوں کے متعہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ امام ع نے فرمایا: الله نے اسکو حلال کیا ہے اپنی کتاب میں اور اپنے نبی ص کی زبان پر، تو وہ روز قیامت تک حلال ہے۔ تو اس نے کہا: اے ابا جعفر، آپکی مثل کا شخص کہہ رہا ہے جبکہ عمر نے اسکو حرام کردیا تھا اور اس سے منع کردیا تھا؟ تو امام ع نے فرمایا: چاہے اس نے کیا بھی ہو (فرق نہیں پڑتا)! اس (عبد اللہ بن عمیر) نے کہا: میں اس سے الله کی پناہ مانگتا ہوں کہ آپ کوئی چیز حلال کریں جسکو عمر نے حرام کردیا۔ تو امام ع نے اس سے فرمایا: تو تم اپنے ساتھی (عمر) کے قول پر ہو، اور میں رسول الله ص کے قول پر ہوں، تو آگے بڑھو میں تمہارے ساتھ مباہلہ کرتا ہوں کہ حق وہ ہے جو رسول الله ص نے فرمایا ہے اور جو تمہارے ساتھی نے کہا ہے وہ باطل ہے۔ تو عبد اللہ بن عمیر ان (امام ع) کے قریب آیا اور کہا: کیا آپ کو یہ پسند ہے کہ آپ کی عورتیں، بیٹیاں، بہنیں اور کزنیں وہ (متعہ) کریں؟ تو راوی نے کہا: امام ع نے اس (عبد اللہ بن عمیر) سے اپنا منہ پھیر لیا جب وہ انکی عورتوں، اور کزنوں کا ذکر لایا۔ (3)
علامہ مجلسی: حدیث حسن ہے۔ (ملاذ الأخيار / ١٢ / ٣٠) اور (مرآة العقول / ٢٠ / ٢٢٨)
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) فِي الْمُبَاهَلَةِ قَالَ تُشَبِّكُ أَصَابِعَكَ فِي أَصَابِعِهِ ثُمَّ تَقُولُ اللهمَّ إِنْ كَانَ فُلانٌ جَحَدَ حَقّاً وَأَقَرَّ بِبَاطِلٍ فَأَصِبْهُ بِحُسْبَانٍ مِنَ السَّمَاءِ أَوْ بِعَذَابٍ مِنْ عِنْدِكَ وَتُلاعِنُهُ سَبْعِينَ مَرَّةً.
محمد بن یحیی – احمد بن محمد بن عیسی – ابن محبوب – ابی العباس – امام صادق ع – مباہلہ کے متعلق، فرمایا:
تم اپنی انگلیاں اسکی انگلیوں میں ڈالو، پھر کہو: اے اللہ، اگر فلاں حق کا منکر ہے اور باطل کا اقرار کرتا ہے تو اسکو آسمان کے فیصلہ سے مبتلاء کر، یا تیرے پاس سے عذاب، اور تم ایک دوسرے پر ستر مرتبہ لعنت کرو۔ (4)
علامہ مجلسی: حدیث صحیح ہے۔ (مرآة العقول / ١٢ / ١٨٨)
روایات سے واضح ہوتا ہے کہ مباہلہ کرنے کی بہت سی شرائط ہیں اور پورا ایک طریقہ کار ہے جو آئمہ ع نے بیان کیا، اور خود آئمہ ع اصحاب کو بتاتے تھے کہ یہ کرو اور خود بھی چیلنج کرتے تھے جیسا کہ اوپر روایت بیان کیا ہے۔ تاریخ میں بہت سے افراد کے مابین مباہلہ پیش بھی آیا ہے جیسے مرزا غلام احمد قادیانی کا بعض افراد کے ساتھ مباہلہ کرنا وغیرہ۔ آج کے دور میں بھی مباہلہ ممکن ہے اور اس کے احکام جاری ہیں۔
مآخذ:
(1) فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ‎﴿آل عمران: ٦١﴾‏
(2) الكافي، ج 2، ص 514
(3) الكافي، ج 5، ص 449، تهذيب الأحكام، ج 7، ص 250
(4) الكافي، ج 2، ص 514