مأمون عباسی نے امام رضا(ع) سے کہا: امیرالمؤمنین(ع) کی عظیم ترین فضیلت ـ جس کی دلیل قرآن میں موجود ہے ـ کیا ہے؟
امام رضا(ع) نے کہا: امیرالمؤمنین(ع) کی فضیلت مباہلہ میں؛ اور پھر آیت مباہلہ کی تلاوت کرتے ہوئے فرمایا:
رسول خدا(ص)، نے امام حسن(ع)اور امام حسین(ع) ـ جو آپ(ص) کے بیٹے ہیں ـ کو بلوایا اور حضرت فاطمہ(س) کو بلوایا جو آیت میں “نسائنا” کا مصداق ہیں اور امیرالمؤمنین (ع) کو بلوایا جو اللہ کے حکم کے مطابق “انفسنا” کا مصداق اور رسول خدا(ص) کا نفس اور آپ(ص) کی جان ہیں؛ اور ثابت ہوا ہے کہ کوئی بھی مخلوق رسول اللہ(ص) کی ذات با برکات سے زیادہ جلیل القدر اور اور افضل نہیں ہے؛ پس کسی کو بھی رسول خدا(ص) کے نفس و جان سے بہتر نہیں ہونا چاہئے۔
بات یہاں تک پہنچی تو مامون نے کہا: خداوند متعال نے “ابناء” کو صیغہ جمع کے ساتھ بیان کیا ہے جبکہ رسول خدا(ص) صرف اپنے دو بیٹوں کو ساتھ لائے ہیں، “نساء” بھی جمع ہے جبکہ آنحضرت(ص) صرف اپنی ایک بیٹی کو لائے ہیں، پس یہ کیوں نہ کہیں کہ “انفس” کو بلوانے سے مراد رسول خدا(ص) کی اپنی ذات ہے، اور اس صورت میں جو فضیلت آپ(ص) نے امیرالمؤمنین(ع) کے لئے بیان کی ہے وہ خود بخود ختم ہوجاتی ہے!
امام رضا(ع) نے جواب دیا:
نہیں، یہ درست نہیں ہے کیونکہ دعوت دینے والا اور بلوانے والا اپنی ذات کو نہیں بلکہ دوسروں کو بلواتا ہے، آمر (اور حکم دینے والے) کی طرح جو اپنے آپ کو نہیں بلکہ دوسروں کو امر کرتا اور حکم دیتا ہے، اور چونکہ رسول خدا(ص) نے مباہلہ کے وقت علی بن ابیطالب(ع) کے سوا کسی اور مرد کو نہیں بلوایا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ علی(ع) وہی نفس ہیں جو کتاب اللہ میں اللہ کا مقصود و مطلوب ہے اور اس کے حکم کو خدا نے قرآن میں قرار دیا ہے۔
پس مامون نے کہا: جواب آنے پر سوال کی جڑ اکھڑ جاتی ہے۔
دار المفید، الطعبة الثانیة، 1414، ص 38

