*آیت تطہیر* سورہ احزاب کی آیت 33 کا دوسرا حصہ ہے جس میں اللہ تعالی نے اہل بیت(ع) کو ہر قسم کی پلیدگی اور رجس سے پاک رکھنے کا تکوینی ارادہ ظاہر فرمایا ہے اور شیعہ علما ائمہ(ع) کی عصمت کے اثبات کے لئے اس آیت سے استناد و استدلال کرتے ہیں۔
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا[1]
بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت (ع) کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔
*شان نزول*
بعض احادیث میں ہے کہ یہ آیت ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی ہے اور اس کے نزول کے وقت گھر میں رسول اللہ(ص) کے علاوہ، علی(ع)، حضرت فاطمہ(س)، حسن(ع) اور حسین(ع) بھی موجود تھے۔ اس موقع پر رسول اللہ(ص) خیبری چادر اوڑھ کر علی(ع)، حضرت فاطمہ(س)، حضرت حسن(ع) اور حسین(ع) کو چادر اوڑھا لی اور اپنے ہاتھ پروردگار عالمین کی جانب اٹھا کر عرض کیا: “بار پروردگار! میرے اہل بیت ہیں انہیں ہر پلیدی سے پاک رکھ دے”۔
ام سلمہ نے رسول اکرم(ص) کی خدمت میں حاضر کر عرض کیا: “اے رسول خدا(ص)! کیا میں اہل بیت میں شامل ہوں؟
فرمایا: تم ازواج رسول خدا(ص) میں شامل ہو اور تم خیر کے راستے پر ہو۔[2]
یہ آیت آیت تطہیر کے عنوان سے مشہور ہے[3] اور اس کا آغاز “إنما” سے ہوا ہے جو علمائے لغت کی گواہی کے مطابق حصر کے لئے ہے اور آیت میں ارادۂ الہیہ کو صرف اہل بیت(ع) کے لئے محدود اور ان ہی میں منحصر کردیتی ہے۔
جار و مجرور “عنکم” کو مفعولٌ بہ “الرجس” پر مقدم کیا گیا اور “أهل البیت” پر اعراب نصب اختصاص کا افادہ کرتا ہے جو اس تاکید و انحصار کو دوچند کر دیتا ہے۔
“لِیذهِبَ عَنکُمالرّجسَ” کے فورا بعد “یطهّرکُم” کے الفاظ پلیدی اور رجس کی دوری کے بعد طہارت و پاکیزگی پر تاکید ہے اور “تَطهِیراً” مفعول مطلق ہے جو بذات خود ایک تاکید اور ہے طہارت و پاکیزگی پر۔
“الرِجسَ'” جو الف و لام جنس کے ساتھ آیا ہے، ہر قسم کی فکری اور عملی پلیدی ـ منجملہ شرک، کفر، نفاق اور جہل و گناہ ـ پر مشتمل ہے۔[4]
*رجس کے معنا*
معنائے “رجس” کے متعلق مفسرین اختلاف نظر رکھتے ہیں اور انہوں نے اس کے لئے مختلف معانی ذکر کئے ہیں۔ ان میں سے گناہ، فسق، شیطان، شرک، شک، بخل، لالچ، ہوائے نفس اور بدعت ہیں۔[5]
شیعہ علماء و مفسرین کا کہنا ہے کہ اہل بیت کی گناہوں سے پاکیزگی کے معنا گناہوں سے عصمت اور طاعت و بندگی کی توفیق عطا ہونا ہیں۔[6]
رجس سے مراد ظاہری پلیدی نہیں ہے بلکہ یہ باطنی پلیدیوں کی طرف اشارہ ہے اور آیت مطلق ہے چنانچہ اس میں شرک و کفر اور عفت و پاکدامنی سے متصادم افعال اور ہر قسم کی معصیت و نافرمانی اور تمام اعتقادی، اخلاقی اور عملی آلودگیوں پر محیط ہے۔اس نکتے کی طرف توجہ رکھنا نہایت ضروری کہ تکوینی ارادہ ـ جس کے معنی خلقت و آفرینش کے ہیں ـ یہاں مقدمہ اور متقاضی ہے اور علت تامہ یا سبب تام نہیں ہے چنانچہ یہ جبر کا سبب نہیں بنتا اور اختیار کو سلب نہیں کرتا۔ وضاحت یہ کہ مقام عصمت تقوائے الہی کی ایک خاص کیفیت ہے جو اللہ کی مدد سے انبیاء اور ائمہ علیہم السلام میں ودیعت کی جاتی ہے؛ تاہم اس کیفیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معصومین گناہ اور نافرمانی کا ارتکاب کر ہی نہیں سکتے بلکہ وہ گناہ کرنے کی استعداد کے باوجود اپنے اختیار سے گناہوں سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ جیسے زہر کے خواص سے اطلاع رکھنے والا ماہر و حذاق طبیب یا شخص کبھی بھی زہریلے مادے کو تناول نہیں کرتا حالانکہ وہ اس زہریلے مادے کو کھا سکتا ہے لیکن اس کا علم اور اس کے فکری اور روحانی آگہیاں اسے ایسا نہیں کرنے دیتیں اور وہ اپنے ارادے اور اختیار کے ساتھ اس کام سے چشم پوشی کرتا ہے۔[7]
*اہل بیت کا مصداق*
مفسرین کے درمیان اہل بیت(ع) کے مصداق کے متعلق اختلاف نظر پایا جاتا ہے:
پہلا قول:
انس بن مالک، ابوسعید خُدْری، ام سلمہ، عائشہ، سعد بن ابی وقّاص، عبداللہ بن جعفر اور عبداللہ بن عباس جیسے صحابہ کا کہنا ہے کہ اہل بیتِ رسول(ص) سے مراد علی(ع)، حضرت فاطمہ(س)، حسن(ع) اور حسین(ع) ہیں۔ ائمۂ شیعہ نے اس قول کی تائید کی ہے۔[8]
دوسرا قول:
دوسرا قول صحابی رسول(ص) زید بن ارقم سے منسوب ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اہل بیت(ع) وہ ہیں جن پر اللہ نے زکٰوة حرام کردی ہے؛ اور وہ رسول اللہ(ص) کے قریبی رشتہ دار ہیں جیسے” آل علی، آل عقیل اور آل جعفر؛ اور اس آیت میں تطہیر سے مراد صدقہ اور زکٰوة لینے سے انہیں پاکیزہ قرار دیئے جانے کے ہیں۔[10]
مسند احمد بن حنبل میں ایک روایت کئی بار نقل ہوئی ہے اور ان سب روایتوں کا مضمون یہ ہے کہ رسول خدا(ص) نے آیت تطہیر کے مصادیق واضح کرکے متعارف کرائے ہیں جو کچھ یوں ہیں:
حضرت فاطمہ(س)، ان کے خاوند اور دو بیٹے۔[11]
ابن حنبل ہی باب “فضائل الصحابہ”، کے ضمن میں لکھتے ہیں:
رسول خدا(ص) 66 ماہ کے عرصے تک ہر روز نماز صبح کے لئے نکلتے ہوئے حضرت فاطمہ(س) کے گھر کے دروازے پر رک کر صدا دیتے تھے “اے اہل بیت! نماز! نماز! نماز، اے اہل بیت! “� اللہ کا بس یہ ارادہ ہے کہ تم لوگوں سے ہر گناہ کو دور رکھے اے اس گھر والو! اللہ تمہیں پاک رکھے جو پاک رکھنے کا حق ہے۔[12]
قول صحیح
آیت تطہیر کا ظاہری مفہوم اول الذکر قول سے مطابقت رکھتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اہل بیتِ رسول(ص) سے مراد علی(ع)، حضرت فاطمہ(س)، حسن(ع) اور حسین(ع) ہیں،
کیونکہ اگر زوجات نبی(ص) مقصود ہوتیں تو صیغہ “عَنکُم” کے بجائے صیغہ “عَنکُنَّ” آتا اور “یطَهِّرَکُم” کے بجائے “یطَهِّرَکُنَّ” کا صیغہ آتا۔[13]
سوال: یہ کیونکر ممکن ہے کہ ازواج رسول(ص) کے فرائض کے ضمن میں دوسرا موضوع زیر بحث لایا جائے اور اس میں ازواج سرے سے شامل ہی نہ ہوں؟
جواب یہ ہے کہ یہ عرب فصحاء کا جانا پہچانا شیوہ ہے اور قرآن کریم کی متعدد آیات میں بھی دہرایا گیا ہے جہاں آیات ایک ساتھ آئی ہیں لیکن ان می بیک وقت مختلف موضوعات پر بات ہوئی ہے۔ اور روایات و احادیث میں تاکید ہوئی ہے کہ یہ حصہ جداگانہ طور پر نازل ہوا لیکن جمع قرآن کے وقت یہ آیات یکجا کی گئی ہیں۔[14]
یہ قول ـ کہ “آیت تطہیر” اصحاب کساء کی شان میں نازل ہوئی ہے ـ شیعیان اہل بیت(ع) کے ہاں حد تواتر تک پہنچ چکا ہے۔[15]
نیز ائمۂ شیعہ سے ایسی احادیث منقول ہے جن کی روشنی میں پنج تن پاک کے علاوہ دوسرے ائمہ(ع) بھی آیت تطہیر کے مصادیق میں شامل ہیں۔[16]
اہل سنت کے بزرگ عالم دین ابن کثیر، نے اپنی تفسیر میں “آیت تطہیر” کی تفسیر کرتے ہوئے امام حسن مجتبی علیہ السلام سے ایک روایت نقل کی ہے اور کہا ہے: امام حسن(ع) نے بر سر منبر فرمایا ہے: “ہم ہی وہ اہل بیت ہیں جن کے حق میں خدا نے آیت تطہیر نازل فرمائی ہے۔ابن کثیر امام سجاد(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ(ع) نے ایک شامی مرد سے فرمایا: “ہم ہی اہل بیت کا مصداق ہیں”۔[17]
حوالہ جات:
سورہ احزاب آیت 33۔
1: ترمذی ، ج5، ص699؛ ابن بابویہ، ج2، ص403۔
2: راضی، ص 7۔
3: راضی، ص 7۔
4: ابن بابویہ، ص138۔
5: مفید، ص27؛ شوشتری، ص147 و 148؛ طباطبائی، ج16، ص313۔
6: آیہ تطہیر(1)- تفسیر کلی آیہ, مکارم شیرازی
7: ابن عطیہ، ج 13، ص 72؛ ابن کثیر، ج 3، ص 799؛ شوکانی، ج 4، ص 279.
8: ابن کثیر، ج 3، ص 798؛ شوکانی، ج 4، ص 278۔
10: مسند احمد، ج 1، ص 331؛ مسند احمد، ج 4، ص 107؛ مسند احمد، ج 6، ص 292۔
11: احمد ابن حنبل، فضائل الصحابۃ، ج 2، تحقیق: وصی الله بن محمدعباس، مکۃ: جامعۃ ام القری، 1403ق/1983م، ص 761۔
12: قرطبی، ج14، ص183؛ ابوحیان اندلسی، ج7، ص231؛ حسینی طهرانی، ص290 ـ 292.
13: طبرسی، ج 8، ص 560؛ طباطبایی، ج 16، ص 311۔
14: ابن حکم، ص 297 ـ311؛ کوفی، ص331 و 340؛ طوسی، ج8، ص339؛ طبرسی، ج8، ص؛ ابن طاووس، ص215؛ طباطبائی، ج16، ص311۔
15: کلینی، ج1، ص423؛ طبرسی، ج2، ص34.
16: ابن کثیر دمشقی، تفسیر القرآن العظیم، ج 6، تحقیق: محمدحسین شمس الدین، 1419ق.، ص 371.














.