قران میں اہلبییت کہ کر کس کو مخاطب کیا گیا ہے۔۔۔۔!!
.
آية التطهير : ( إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ) ( الأحزاب : 33 )
کتب اہلسنت میں 561 المصادر اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ آیات تطہیر کا مخاطب 5 ہستیاں ہیں
1في كتب البخاري ومسلم ( 2 )
2في كتب ابن حنبل ( 18 )
3في كتب الترمذي ( 4 )
4في كتب النسائي ( 3 )
5في كتب البيهقي ( 6 )
6في كتب ابن حبان ( 3 )
7في كتب الحاكمالنيسابوري ( 9 )
8في كتب الهيثمي ( 7 )
9في كتب ابن حجر العسقلاني ( 8 )
10في كتب الذهبي ( 6 )
11في كتب ابن الأثير ( 9 )
12في كتب ابن أبي عاصم ( 2 )
13في كتب ابن أبي شيبة ( 5 )
14في كتب ابن كثير ( 16 )
15في كتب القرطبي ( 1 )
16في كتب السيوطي ( 19 )
17في كتب الطبري ( 18 )
18في كتب الطبراني ( 37 )
19في كتب ابن عساكر ( 104 )
20في كتب الحاكم الحسكاني ( 98 )
21في كتب أبي يعلى الموصلي ( 3 )
22في كتب الأصبهاني ( 6 )
23في كتب المزي ( 3 )
24في كتب الآجري ( 9 )
25في كتب أبي قدامة (1 )
26في كتب الطحاوي ( 12 )
27في كتب الشوكاني ( 7 )
28في كتب الخطيب البغدادي ( 2 )
29في كتب ابن الأعرابي ( 2 )
30في كتب المتقي الهندي ( 2 )
31في كتب الدولابي ( 2 )
32في كتب ابن عدي ( 8 )
33في كتب العقيلي ( 2 )
34في كتب ابن عبد البر ( 3 )
35في كتب ابن الدمشقي ( 2 )
36في كتب الكسي ( 2 )
37في كتب سعيد أيوب ( 2 )
38في كتب محمد بيومي ( 24 )
39في كتب ابن أبي الحديد ( 3 )
40في كتب الصالحي الشامي ( 10 )
41في كتب القندوزي الحنفي ( 46 )
42في كتب الخوارزمي ( 4 )
43في كتب الواحدي النيسابوري ( 2 )
44في كتب الزرندي الحنفي ( 8 )
45في بقية المصادر ( 211 )


.
.
چلو حضرت عائشہ سے پوچھ لیتے ہیں کہ قران میں اہلبییت کہ کر کس کو مخاطب کیا گیا ہے۔۔۔۔!!
سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک دن صبح کو نبی کریم ﷺ باہر تشریف لائے اور آپ کے جسم مبارک پر اونٹ کے کجاوں جیسی دھاریوں والی ایک اونی چادر تھی تو حسن بن علی (رضی اللہ عنہما) تشریف لائے، آپ نے انھیں چادر میں داخل کرلیا۔ پھر حسین (رضی اللہ عنہ) تشریف لائے، وہ چادر کے اندر داخل ہوگئے ۔ پھر فاطمہ (رضی اللہ عنہا) تشریف لائیں تو انھیں آپ نے چادر کے اندر داخل کرلیا، پھر (علی رضی اللہ عنہ) تشریف لائے تو انھیں (بھی) آپ نے چادر کے اندر داخل کرلیا۔
پھر آپﷺ نے فرمایا :﴿اِنَّمَا یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا﴾
اے اہلِ بیت اللہ صرف یہ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی دور کردے اور تمہیں خوب پاک صاف کردے۔
(صحیح مسلم: ۲۴۲۲/۶۱ و دارالسلام: ۶۲۶۱۱)
.
.
آیتِ تطہیر میں اھل بیت سے مراد صرف اور صرف پنجتن پاک ہیں۔
امام ابن عساکرؒ
*****
پڑھیے :
عن أم سلمة قالت فيها:
(وأهل البيت رسول الله وعلي وفاطمة والحسن والحسين).
قال: (هذا حديث صحيح).
علامہ ابو منصور ابن عساکر اپنی کتاب الاربعین فی مناقب امہات المؤمنین میں ام سلمہؓ کی روایت کے بعد فرماتے ہیں :
قال ابن عساكر: وقولها – :
” والآية نزلت خاصة في هؤلاء المذكورين “
امام ابنِ عساکر فرماتے ہیں کہ :
” آیت ( تطہیر ) صرف ( حدیث میں ) مذکورین
( رسول اللہﷺ ، علی ، فاطمہ ، حسن ، حسین رضی اللہ عنہم) کے لیے نازل ہوئی ۔ “
كتاب الأربعين / 106
—————
كتاب الأربعين في مناقب أمهات المؤمنين رحمة الله عليهن أجمعين
المؤلف: عبد الرحمن محمد الحسن هبة الله ابن عساكر الشافعي أبو منصور
المحقق: محمد مطيع حافظ – غزوة بدير
.
.
صحابہ سے پوچھ لیتے ہیں اہلبیت کون ہیں۔۔۔
سیدنا واثلہ بن الاسقعؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی دائیں طرف فاطمہ کو اور بائیں طرف علی کو بٹھایا اور اپنے سامنے حسنؓ و حسینؓ کو بٹھایا (پھر) فرمایا: ﴿اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا ﴾ اے اہلِ بیت اللہ صرف یہ چاہتا ہے کہ تم سے پلیدی دور کردےاور تمہیں خوب پاک و صاف کردے۔ (الاحزاب: ۳۳)
اے اللہ ! یہ میرے اہلِ بیت ہیں۔
(صحیح ابن حبان، الاحسان : ۶۹۷۶/۶۹۳۷، الموارد : ۲۲۴۵، و مسند احمد ۱۰۷/۴ و صححہ البیہقی ۱۵۲/۲ و الحاکم ۱۴۷/۳ ح ۴۷۰۶ علیٰ شرط الشیخین و وافقہ الذہبی علیٰ شرط مسلم و الحدیث سندہ صحیح)
.
.
چلو ام سلمہ رض سے پتہ کرتے ہیں اہلبیت کون ہیں۔۔۔
سیدہ ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے علیؓ، فاطمہؓ، حسنؓ اور حسینؓ کے بارے میں فرمایا: “اللھم ھؤلاء أھل بیتي“ اے میرے اللہ ! یہ میرے اہلبیت ہیں۔(المستدرک ۴۱۶/۲ ح ۳۵۵۸ و سندہ حسن و صححہ الحاکم علیٰ شرط البخاری) مسند احمد (۲۹۲/۶ ح ۲۶۵۰۸ ب ) میں صحیح سند سے اس حدیث کا شاہد (تائیدی روایت) موجود ہے ۔ سیدنا علیؓ، سیدہ فاطمہؓ، سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ کے اہلِ بیت میں ہونے کے بیان والی حدیث عمر بن ابی سلمہؓ (ترمذی: ۳۷۸۷ و سندہ حسن) سے مروی ہے ۔
.
.
امام ابو جعفر طحاوی تیسری صدی کے عظیم محدث و فقیہہ ہیں محدثین کے ہاں انہیں حافظ اور امام کا درجہ حاصل ہے ۔
امام ابو جعفر طحاوی آیت تطہیر کے بارے لکھتے ہیں کہ اس سے مراد رسول اللہﷺ ، حضرت علیؑ،حضرت فاطمہؑ ،امام حسینؑ اور امام حسنؑ ہیں دوسرا کوئی نہیں ۔
پہلا حوالہ:
امام ابو جعفر طحاوی متوفی ۳۲۱ ھ کہتے ہیں:


اس آیت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، علیؑ، فاطمہؑ، حسنؑ اور حسینؑ ہیں۔

المؤلف: أبو جعفر الطحاوي
المحقق: شعيب الأرناؤوط
اِسنادہ صحیح ، رجالہ رجال الصحیح
.
دوسرا حوالہ:
تحفة الأخيار بترتيب شرح مشكل الآثار – أبو جعفر الطحاوي
طحاوی حضرت ام سلمہؓ سے حدیث کساء کی متعدد روایات ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:


کتاب
تحفة الأخيار بترتيب شرح مشكل الآثار – أبو جعفر الطحاوي
.



.



اصحاب کساء (پیغمبر، امیر المومنین، حضرت زهرا، حضرت امام حسن و امام حسین علیهم السلام).

سوال:




جواب کا منتظر
.
.
اہل بیت (ع) کے مصادیق کے بارے میں پانچ ایسے بنیادی سوال جن کا جواب اہل سنت کے پاس نہیں ہے !
اس بارے میں کہ آیت تطھیر میں اہل بیت (ع) کے مصداق کون ہیں، تاریخ اسلام میں شیعہ سنی کی جانب سے بہت زیادہ ابحاث پیش کی گئی ہیں ۔ اہل سنت، اہل بیت کا مصداق ازواج نبی(ص) کو مانتے ہیں جب کہ شیعہ صرف پانچ ہستیوں یعنی پیغمبر اکرم(ص) ، امام علی(ع) ، حضرت فاطمہ(ع) ، امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کو اہل بیت کا مصداق مانتے ہیں ۔
اس حوالے سے آیت اللہ حیدری نے پانچ استدلالات کو پانچ سوالوں کی صورت میں پیش کیا ہے کہ جن کی بنیاد پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ صرف اور صرف یہ پانچ ہستیاں ہی اہل بیت میں سے شمار ہوتی ہیں اور طاہر و معصوم ہیں !










اس بنا پر جو کچھ مذکورہ بالا ان پانچ استدلالات اور سوالات سے حاصل ہوتا ہے؛ یہ ہے : آیت تطھیر میں اہل بیت کا مصداق کہ جنہیں خدا نے ہر نجاست اور پلیدی سے پاک فرمایا ہے اور انہیں عصمت کی نعمت عطا کی ہے ان پانچ افراد میں منحصر ہے : رسول اکرم(ص)، امام علی(ع)، حضرت زہرا (ع) ، امام حسن(ع) اور امام حسین(ع)۔
.
.
.
کیا شیعہ امامیہ آیت تطہیر کو پنجتن پاک کے لئےمخصوص ماننے میں منفرد ہے ؟
.
جواب : بلکل بھی نہیں کیونکہ بہت سے علماء اہل سنت نے اس فہم کو لیا ہے اور اپنی کتب میں اسکو نقل کیا ہے، اسکی بنیاد متعتدد صحیح روایات ہیں جو اس فہم پر دلالت کرتی ہیں، ہم یہاں پر اہل سنت کے ایک محدث ابو جعفر الطحاوی (المتوفی ۳۴۱ھ) کا فہم نقل کریں گے۔ انہوں نے اس آیت کی تفہیم میں احادیث کے تناظر میں ایک اعتراض پر اس طرح نقد کیا ہے اور اپنی رائے ظاہر کی ہے، وہ کہتے ہیں :
فإن قال قائل: فإن كتاب الله تعالى يدل على أن أزواج النبي هم المقصودون بتلك الآية، لأنه قال قبلها في السورة التي هي فيها: (يا أيها النبي قل لأزواجك..) فكان ذلك كله يؤذن به، لأنه على خطاب النساء لا على خطاب الرجال، ثم قال: (إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس..)
فكان جوابنا له: إن الذي تلاه إلى آخر ما قبل قوله: (إنما يريد الله..) خطاب لأزواجه، ثم أعقب ذلك بخطابه لأهله بقوله تعالى: (إنما يريد الله..)، فجاء به على خطاب الرجال، لأنه قال فيه: (ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم) وهكذا خطاب الرجال، وما قبله فجاء به بالنون وكذلك خطاب النساء.
فعقلنا أن قوله: (إنما يريد الله..) خطاب لمن أراده من الرجال بذلك، ليعلمهم تشريفه لهم ورفعه لمقدارهم، أن جعل نساءهم ممن قد وصفه لما وصفه به مما في الآيات المتلوة قبل الذي خاطبهم به تعالى.
ومما دل على ذلك أيضا ما حدثنا (..) عن أنس: أن رسول الله -ص- كان إذا خرج إلى صلاة الفجر يقول: الصلاة يا أهل البيت (إنما يريد الله..) في هذا أيضا دليل على أن هذه الآية فيهم، وبالله التوفيق
اگر کوئی کہنے والا کہے کہ قرآن کی رو سے (اس آیت میں) نبی ﷺ کی بیویاں ہی مقصود ہےکیونکہ اسی سورۃ میں پہلے یہ ذکر ہے ( اے نبی، اپنی ازواج سے کہہ دو) اور یہاں خطاب عورتوں سے ہے نہ کہ مردوں سے۔ اسکے بعد کہا : (بیشک اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ہر قسم کے رجس کو دور کریں)
پس ہمارا جواب ہے کہ جو یہ آیت ہے اس سے پہلے آیات میں ازواج سے ہی خطاب ہے لیکن اسکے بعد اللہ نے خطاب نبی ﷺ کے اہل بیتؑ سے کیا جب یوں کہا (إنما يريد الله..)، پس یہاں مردوں سے خطاب ہے کیونکہ اس آیت میں (ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم) ہے اور یہ خطاب مردوں سے ہے، اس سے پہلی آیات میں نون (نون نساء) ہے جسکی وجہ سے خطاب عورتوں کے لئے ہے۔
پس ہم نے اس میں یہی سمجھاہے کہ مردوں میں سے جو مراد ہے اللہ کی ان سے یہ خطاب ہے تاکہ اللہ انکی شرافت کو پہچانوادے اور انکی بلندی ظاہر ہو اور رسول اللہ ﷺ کی ازواج کے بارے میں جو کہنا تھا وہ اللہ نے اس سے پہلی آیات میں بیان کیا ہے۔ اور اس پر ایک اور چیز جو اس پر دلالت کرتی ہے وہ انس بن مالک سے مروی ہے احادیث کہ جن میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بھی نماز فجر کے لئے نکلتے تو فرماتے : نماز ! اے اہل بیتؑ (إنما يريد الله..)، اس میں بھی اس بات کی دلیل موجود ہے کہ یہ آیت ان (علیؑ، فاطمہؑ، حسنؑ اور حسینؑ) ہی کے لئے ہے۔


