پیغمبر اکرم (ص) کا علی (ع) و فاطمہ (ع) کے گھر کے دروازے پر آیت تطہیر کی تلاوت کرنا

پیغمبر اکرم (ص) کا علی (ع) و فاطمہ (ع) کے گھر کے دروازے پر آیت تطہیر کی تلاوت کرنا:
عَنْ اَبِی الْحَمْرَاء قٰالَ أَقَمْتُ بِالْمَدِیْنَةِ سَبْعَةَ اَشْھُرٍ کَیَوْمٍ وَاحِدٍ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّم یَجِیٴُ کُلَّ غَدَاةٍ فَیَقُوْمُ عَلٰی بٰابِ فٰاطِمَةَ یَقُولُ: اَلصَّلَاة “اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْراً۔ (سورہ احزاب: آیت33)
ابی الحمراء سے روایت کی گئی ہے ،وہ کہتے ہیں کہ میں سات ماہ تک متواتر مدینہ میں قیام پذیر رہا (اور اس چیز کا مشاہدہ کرتا رہا)۔ رسولِ خدا (ص) ہر روز صبح تشریف لاتے اور خانہٴ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا پر رُکتے اور فرماتے” الصَّلاة ” اور پھر فرماتے: اے اہلِ بیت ! سوائے اس کے نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے ہر قسم کے رجس کو دور رکھے اور تم کو ایسا پاک کر دے جیسا کہ پاک کرنے کا حق ہے۔
ابن عساکر ،تاریخ دمشق ،باب شرح حالِ امیر الموٴمنین ،ج1، حدیث320تا322۔
بلاذری،انساب الاشراف ،ج2، ص157 ،215 اور اشاعت ِ بیروت، صفحہ104۔
گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب62،صفحہ242۔
شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة میں، باب5،صفحہ51۔
حاکم، المستدرک میں،جلد3،صفحہ158۔
ابن کثیر اپنی تفسیر میں،جلد3،صفحہ483،آیہٴ تطہیر کے ذیل میں۔
متقی ہندی، کنز العمال ،ج13، ص646 (موٴسسة الرسالہ، بیروت،اشاعت پنجم)
.
.
فاطمہ سلام اللہ علیہا کے دروازے پر آیت تطہیر کی تلاوت
” أخرج الحاكم في المستدرك
عن أنس بن مالك رضي الله عنه ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يمر بباب فاطمة رضي الله عنها ستة أشهر إذا خرج لصلاة الفجر ، يقول :
الصلاة يا أهل البيت (إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا)
هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجاه ”
” حاکم نیشاپوری نے المستدرک میں نقل کی ہے کہ انس بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل چھ مہینے تک جب بھی آپ نماز صبح کے لئے تشریف لے جاتے تو فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے دروازے کے سامنے کھڑے ہوتے اور فرماتے الصلاۃ یا اھل البیت ، اور پھر آپ آیت مجیدہ انما یرید اللہ ۔۔۔۔ کی تلاوت فرماتے ۔”
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چھ مہینے تک یعنی آیت تطہیر کے نزول سے لیکر آپ کی رحلت تک در زہراء پر کھڑے ہونا اور الصلاۃ یا اھل البیت کہنا ایک طرف زہراء کی عظمت ، رسول خدا کی نگاہ میں آپ کا مقام اور رسول خدا کے دل میں آپ کے احترام کی دلیل ہے ، وہیں پر آپ کا ہر بار یا اھل البیت کہنا شاید اھل مدینہ کو یہ سمجھانے کا ذریعہ بھی تھا کہ آیت انما میں اھل بیت سے مراد نبی کے گھر والے ہی ہیں لہذا اوروں کو سند تطہیر کی فضیلت میں شامل کرنے کی سعی لا حاصل نہ کرنا ، کیونکہ اھل البیت سے مراد وہی ہیں کہ جن کے دروازے پر رسول خدا کھڑے ہو کر اس آیت کی مسلسل تلاوت کرتے ہیں ۔
فتال النیشاپوری : محمد بن احمد (508ھ)روضۃ الواعظین وبصیرۃ المتعظین ، منشورات الرضی
.
.
دنیا میں نبی پاک کی نظر میں زہرا سلام اللہ علیہا اور اس کے گھر کی اہمیت
كَانَ يَمُرُّ بِبَيْتِ فَاطِمَةَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ
المستدرك على الصحيحين للحاكم (3/ 172)
4748 – حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَفِيدُ، ثنا الْحُسَيْنُ بْنُ الْفَضْلِ الْبَجَلِيُّ، ثنا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، أَخْبَرَنِي حُمَيْدٌ، وَعَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمُرُّ بِبَابِ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا سِتَّةَ أَشْهُرٍ إِذَا خَرَجَ لِصَلَاةِ الْفَجْرِ، يَقُولُ: ” الصَّلَاةُ يَا أَهْلَ الْبَيْتِ، {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا} [الأحزاب: 33] ” هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ
[التعليق – من تلخيص الذهبي] 4748 – سكت عنه الذهبي في التلخيص
نبی پاک جب بھی نماز فجر پڑھنے کے لیے نکلتے ہوئے فاطمہ س کے گھر سے گذرتے تھے یعنی (آیت نازل ہونے کے بعد) 6 ماہ تک( یعنی اپنی آخری دنوں تک) تو فرماتے تھے: الصلاۃ یا اھل البیت! پھر یہ آیت تلاوت فماتے تھے!{إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا} [الأحزاب: 33]
یہ حدیث مسلم کی شرط پر صحیح ہے لیکن بخاری اور مسلم نے اپنی کتاب میں درج نہیں کی ہے!
ذہبی نے اس سے سکوت اختیار کیا ہے!
سوال یہ ہے کہ یہ حدیث اہل سنت کی تیس سے زائد کتب کے اندر آئی ہے تو میں نے فقط مستدرک کا انتخاب کیوں کیا ہے ؟؟
جواب👇👇👇
اس کے دو اہم سبب ہیں
1ـ اس کی سند بالکل صحیح ہے
2ـ اس میں مصنف نے صحت کی تصریح کی ہے
ویسے یہ اصول ہے مناظرے کا کہ جب بھی کوئی حدیث پیش کرنی ہو تو سب سے پہلے صحیحین سے پیش کرنی چاہیے
اس کے بعد صحاح تسعہ سے پیش کرنی چاہیے
اس کے بعد سند پر ذاتی تحقیق کی ہوئی حدیث پیش کرنی چاہیے۔
ہمارے مخالفین کی طرف سے سند اور متن پر کیا اشکال ہیں یا کیا اشکال ہوسکتے ہیں ؟ اور ان کے جوابات کیا ہیں؟
.
سند پر اشکال
اس سند میں علی بن زید ہے جو کہ ضعیف راوی ہے
جواب: علی بن زید بے شک ضعیف ہو لیکن ایس ہی طبقے میں دوسرا راوی حمید بھی موجود ہے جوکہ ثقہ ہے اور بخاری و مسلم دونوں کا راوی ہے لہذآ علی بن زید کی موجودگی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
یہاں پر ہمارے بہت سارے دوستان کا جواب: بہت سارے دوستان یہ غلطی کرتے ہیں کہ یہ صحیح مسلم کا راوی ہے لہذآ یہ سند صحیح ہوئی۔
میں ابومہدی کہتا ہوں کہ یہ صحیح جواب نہیں ہے کیونکہ صحیح مسلم میں یہ راوی جس سند میں آیا ہے وہاں پر عطف کے ساتھ آیا ہے یعنی اسی ہی طبقے میں دوسرا راوی بھی موجود ہے جس کی ہی وجہ سے وہ سند صحیح ہوئی ہے۔
صحیح مسلم کی وہ حدیث پیش کر رہا ہوں تاکہ بات واضح ہوجائے
صحيح مسلم (3/ 1415)
100 – (1789) وحَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ الْأَزْدِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، وَثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُفْرِدَ يَوْمَ أُحُدٍ فِي سَبْعَةٍ مِنَ الْأَنْصَارِ وَرَجُلَيْنِ مِنْ قُرَيْشٍ، فَلَمَّا رَهِقُوهُ، قَالَ: «مَنْ يَرُدُّهُمْ عَنَّا وَلَهُ الْجَنَّةُ؟» – أَوْ «هُوَ رَفِيقِي فِي الْجَنَّةِ» -، فَتَقَدَّمَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ، ثُمَّ رَهِقُوهُ أَيْضًا، فَقَالَ: «مَنْ يَرُدُّهُمْ عَنَّا وَلَهُ الْجَنَّةُ؟ -» أَوْ «هُوَ رَفِيقِي فِي الْجَنَّةِ» -، فَتَقَدَّمَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ، فَلَمْ يَزَلْ كَذَلِكَ حَتَّى قُتِلَ السَّبْعَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَاحِبَيْهِ: «مَا أَنْصَفْنَا أَصْحَابَنَا»
ابھی آپ نے دیکھا کہ علی بن زید کے طبقہ میں الثابت البنانی بھی آیا ہوا ہے جو کہ عطف ہے علی بن زید پر یعنی ایک ہی طبقے میں دو راوی ہیں۔ لہذآ ایک کے ضعیف ہونے سے سند پر فرق نہیں پڑتا۔
میں ابومہدی معصومی کہتا ہوں کہ اس حدیث کی سند صرف مسلم کے مطابق نہیں بلکہ بخاری اور مسلم دونوں کے مطابق ہے
یہی راز ہے کہ میں اسی سند کا انتخاب کیا ہے ورنہ دیگر تمام کتب کے اندر آئی ہوئی حدیث میں علی بن زید تنہا راوی ہے اپنے طبقے میں جس کی وجہ سے سند ضعیف ہوجاتی ہے۔
.
متن پر اعتراض:
ہمارے مخالفین بہانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ حدیث کوئی فضیلت بیان نہیں کر رہی ہے بلکہ یہ تو اہل بیت ع کی نماز سے سستی کو بیان کر رہی ہے اور نبی پاک کو ضرورت پرتی تھی انہیں اٹھانے کی!!!
جواب: اولا: مان لیں کہ اگر نبی پاک ان کو کم دکھاتے تھے تو آیت کی تلاوت کیوں فرماتے تھے؟؟؟
ثانیا: اگر یہ حدیث فضیلت کو بیان نہیں کرتی تو تمام محدثین نے اس کو زہرا سلام اللہ علیہا کے فضائل میں سے کیوں ذکر کیا ہے؟؟
👈لہذآ ثابت ہوتا ہے کہ نبی پاک نے اہل بیت ع کی فضیلت کے بنیاد پر ہی مسلسل 6 ماہ تک اس آیت کی اہل بیت ع کے دروازہ پر تلاوت فرمائی ہے!🌹
ایک مثال بطور باب فضیلت
👇👇👇
ابن ابی شبیہ نے اس حدیث کو فضائل کے باب میں ذکر کیا ہے
مصنف ابن أبي شيبة (6/ 388)
مَا ذُكِرَ فِي فَضْلِ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ابْنَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
32272 – حَدَّثَنَا شَاذَانُ، قَالَ: ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمُرُّ بِبَيْتِ فَاطِمَةَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ إِذَا خَرَجَ إِلَى الْفَجْرِ فَيَقُولُ: ” الصَّلَاةَ يَا أَهْلَ الْبَيْتِ {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا} [الأحزاب: 33]
دوسری مثال
👇👇👇
ابن شاہین سنی عالم نے فضائل فاطمہ کتاب لکھی ہے اسی میں اس حدیث کا ذکر کیا ہے
فضائل فاطمة لابن شاهين (ص: 32)
15- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْبَغَوِيُّ، ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ الْعَيْشِيِّ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمُرُّ بِبَيْتِ فَاطِمَةَ بَعْدَ أَنْ بَنَى بِهَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِسِتَّةِ أَشْهُرٍ يَقُولُ: الصَّلَاةَ: {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا} .