آیت تطہیر اور ازواج نبی (ص)
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْتَطْهِيرًا
ترجمہ: خدا تو یہی ارادہ کرتا ہے کہ ہر قسم کہ رجس کو تم اہلیبیت علیہ سلام سے دور رکھے اور تمہیں اس طرح پاک رکھے جیسے پاک رکھنے کا حق ہے
اس آیت میں لفظ “انما” یعنی “یہ ہی ” احاطہ کر رہا ہے “یرید ” یعنی “ارادے کا “
ارادوں کی اقسام
ارادے دو طرح کے ہوتے ہیں
* ارادہ تشریعی: اس کا تعلق بندے کے فعل سے ہے یعنی خدا کا وو ارادہ جس میں وہ اپنے بندے سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ بعض کاموں کو بجا لاے(یعنی نماز ، روزہ ، حج زکات وغیرہ ) اور بعض سے دور رہے(یعنی گںاہوں سے). یعنی خدا کے “اوامرو نواہی” کا نام ہے.
*ارادہ تکوینی : اس کا تعلق بندے کے فعل سے نہیں ہے بلکہ خدا کے فعل سے ہے. یعنی کہ “کن” سے ہے یعنی خدا نے ارادہ کیااور ہوگیا
اب ارادہ کیا ہے ؟؟؟؟
“ہر قسم کے رجس سےاہلیبیت(علیہ سلام)کو دور رکھے “
یہ ارادہ تکونی ہے یعنی خدا نے چاہا اور کر دیا .
رجس یعنی ناپاکی کو نجاست کو چاہے بدنی ہو یا باطنی .
مگر اس آیت میں لفظ “الرجس ” الف اور لام جنس پر دلالت دے کر بتا رہا ہے ہر قسم کے رجس سے پاک رکھنے کا ارادہ ہے .
اب سوال ہے “کب سے” ؟؟؟
یہ بات سمجھانےکے دو طریقے ہیں :
*پہلا : خدا کا قدیم ہونا خدا کی “صفات ثبوتیہ” میں سے ہے . یعنی خدا کی ذات قدیم ہے تو ارادہ بھی قدیم ہوگا. یعنی جب سے ہیں پاک ہیں .
دوسرا:آیت میں الفاظ ہیں جس طرح پاک رکھنے کا حق ہے . خدا عادل ہیں خدا کے عدل کا تقاضا یہی ہے کہ حق پیدا ہوتے ہی ادا ہو .یعنی جب سے ہیں پاک ہیں.
اب سوال ہے “آیت میں شامل کون کون ہیں”؟؟؟؟
آیت کا شان نزول یہ ہے: نبی پاک (ص) تشریف لاۓ اور بیبی فاطمہ (س) سے چادر طالب کی بیبی(س) نےیمنی چادر اوڑھائی پس بری بری حسنین(س) ،علی(س) اور بیبی فاطمہ(س) کساء کے نیچے تشریف لے آئے
نبی پاک (ص) نے ارشاد فرمایا : “خدایا ! یہ میرے اہلیبیت(س) ہیں اور میری عترت ہیں ان سے ہر قسم کی نجاست سے دور رکھ اور انہیں اس طرح پاک رکھ جیسے پاک رکھنے کا حق ہے “.
اس موقع پے جبرائل(س) وحی لے کر آئے اور آیت سنائی
ام المومنین حضرت ام سلمہ(س) نے چادر کے نیچے انے کی اجازت طلب کی تو نبی پاک (ص) نے روک دیا اور فرمایا ” تو نیکی پر ہے “.
حوالاجات:
صحیح مسلم ، جلد 2 ،باب فضائل اہل بیت النبی(ص) ،صفحہ 368
صحیح ترمذی ، جلد 5 ،صفحہ 30
مسند احمد بن حنبل، جلد 2، صفحہ 330
آیت نازل ہونے کے آٹھ یا نو ماہ تک نبی پاک (ص) جب بھی نماز کے وقت در فاطمہ(س) سے گزرتے فرماتے
“نماز کا وقت ہے اے اہلبیت (س)!خدا تو یہی ارادہ کرتا ہے کہ ہر قسم کہ رجس کو تم اہلیبیت علیہ سلام سے دور رکھے اور تمہیں اس طرح پاک رکھے جیسے پاک رکھنے کا حق ہے.”
حوالاجات:
تفسیر درالمنشور
شواہد التنزیل ، جلد 2، صفحہ 28 اور 29
کیا ازواج نبی پاک(ص) اس آیت میں شامل ہیں ؟؟؟؟
اس سوال کی وضاحت آیات واحادیث کی مدد سے کرتے ہیں
آیات
پہلا جواز:
يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ مَنْ يَأْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ يُضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا
“اے نبی پاک(ص) کی بیویو! جو کوئی تم میں سے کھلی بےحیائی کرے اسے دو چند سزا دی جائے گی اور یہ الله پر آسان ہے “
(سوره احزاب آیت 30 ،پارہ 21 )
جب خدا نے اہلبیت (س) سےہر طرح کی نجاست دور کردی پھر بےحیائی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور عذاب بھی دوگنا کیا گیا .اگر ازواج اہلبیت ہوتی تو وہ نجاست سے دور ہوتی اور بے حیائی سے ڈرایا نہ جاتا
دوسرا جواز:
إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا ۖ وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ
“تم دونوں (عائشہ حفصہ) اس حرکت سے توبہ کروکیونکہ تمھارے دل ٹیڑھے ہوگے ہیں اور اگر تم دونوں نبی پاک(ص) کی مخالفت میں ایک دوسرے کی اعانت کرتی رہو گی تو کچھ پرواہ نہیں کیونکہ خدا اور جبرائل اور تمام ایماندار ان کے مددگار ہیں اور ان کے علاوہ کل فرشتے مددگار ہیں “
(سوره تحریم ،آیت 4،پارہ 28)
اب اس آیت میں الله نے اپنے نبی (ص) کی مخالفت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوۓ فرمایا تمھارے دل ٹیڑھےہوگئے ہیں
آیت تطہیر کی مصدق ہستیوں میں سے کوئی کبھی نبی الله کی مخالفت نہیں کر سکتا اور نہ ہی ٹیڑھے دل والے اس میں شامل ہو سکتے ہیں
اگر شامل کیا گیا تو پھر اتنی بڑی فضیلت کا کیا فائدہ؟؟؟
تیسرا جواز:
عَسَىٰ رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَيِّبَاتٍ وَأَبْكَارًا
اگر رسول تم کو طلاق دے دیں تو عنقریب ہی ان کا پرودگار تمھارے بدلے ان کو اچھی ازواج عطا کرے گا جو فرمانبردار ، ایمان دار ، مطیع، توبہ کرنے والیاں ، عبادت گزر، روزہ رکھنے والیاں ،کچھ بیوہ اور کنواریاں “
(سوره تحریم، آیت 5،پارہ 28)
عمر کہتے ہیں یہ آیت عائشہ اور حفصہ کے لئے نازل ہوئی تھی ( صحیح بخاری جلد 6، صفحہ 70،باب واذا اسرالنبی (ص)الی بعض ازواجہ )اس سے ثابت ہوتا ہے عائشہ حفصہ سے بہتر تو مسلمانوں کی مومنہ عورتیں ہیں
اب جن عورتوں سے مسلمانوں کی عام عورتیں ہوں ان کو آیت تطہیر میں شامل کرنا آیت کی شان گھٹانا ہوگا . جب کہ ان کو طلاق کی دھمکی بھی دی گئی.
چوتھا جواز:
ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ ۖ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاهُمَافَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَقِيلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ
“خدا نے کفر اختیار کرنے والوں کے لئے نوح اور لوط کی زوجہ کی مثال بیان کی ہے کہ یہ دونوں ہمارے نیک بندوں کی زوجیت میں تھیں لیکن دونوں نے ان سے خیانت کی تو اس زوجیت نے خدا کی بارگاہ میں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور ان سے کہ دیا گیا تم بھی تمام جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہوجاؤ “
(سوره تحریم، آیت 10،پارہ 28)
اب لوگ کہیں گئے نبی پاک(ص) کی ازواج امت کی مائیں ہیں بشک حضرت لوط و نوح علیہ سلام کی ازواج بھی اپنی امت کی مائیں تھیں خدا نے صاف بتا دیا زوجیت خیانت کی صورت میں کام نہیں آئے گی جب کہ حضرت عائشہ جمل میں گئیں اور حواب کے کتے بھی بھونکے(العقد الفرید صفحہ 29)
پانچواں جواز:
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِالْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ
اور تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو ،اور مت پھرو قدیم جہالیت کے طریقے پر،اور نماز پڑھتی رہو اور زکات دیتی رہو اور اسکے رسول کی اطاعت کرتی رہو “
(سوره احزاب آیت 30 ،پارہ 21 )
اب اس آیت میں ازواج کو قدیم زمانہ کی عورتوں کی طرح گومنے سے روکا گیا مگر تاریخ گواہ ہے عائشہ نے مولا علی علیہ سلام سے جنگ کی اور بیگناہ مسلمانوں کے قتل کا موجب بنی اس سے بری خیانت کیا ہوگی؟؟؟
عائشہ اسی وجہ سے رویا کرتی تھیں (تفسیر درمنشور ،جلد 5، اسی آیت کے ذیل میں )
الله اور نبی پاک(ص) کی نافرمانی کرنے والی عورت کیسے شامل کی جا سکتی ہے آیت میں؟؟؟
احادیث
درج بالا آیات کے بعد اب سنی بھائیو کی کتاب سے احادیث دیکھتے ہیں
پہلا جواز :
ابو سلمہ اور عائشہ کے بھائی ان کی خدمت میں گئے اور غسل کا پوچھا اور بیبی نے پردے کے پیچھے سے غسل کر کے دکھایا”
(صحیح بخاری ،باب غسل کے احکام ومسائل، جلد 1 صفحہ368)
بیبی کا غسل کرنا ابو سلمہ کے سامنے چاہے ایک باریک پردے کے دوسری طرف ہو(سوره احزاب آیت 30 ،پارہ 21 ) کے مطابق اس بات کا ثبوت اہے بیبی آیت کی مصداق نہیں.
دوسرا جواز:
“ہمارے(آل ابی بکر کے) بارے میں الله نے کوئی آیت نازل نہیں کی بلکہ تہمت سے میری برایت ضرور نازل کی تھی “
(صحیح بخاری،جلد 6،باب قرآن کی تفسیر،صفحہ387)
آیت تطہیر کا مصداق ہونا کوئی چھوٹی بات نہیں ہے اگر بیبی آیت میں شامل ہوتیں تو ضرور بتاتیں
تیسرا جواز:
“ہمارے پاس صرف ایک کپڑا ہوتا تھا جسے ہم حیض کے وقت پہنتے تھے. جب اس میں خوں لگ جاتا اس پر تھوک ڈال لیتے اور پھر ناخنوں سے مسل دیتے “
(صحیح بخاری،حیض کے مسائل،جلد1صفحہ 398)
حیض نجاست ہے جس میں عورت نام خدا کو بھی نہیں چھو سکتی اور آیت میں توآیت کی مصداق ہستیوں سے نجاست کے دور ہونے کا واضح ذکر ہے .
چوتھا جواز:
حضرت عائشہ جمل میں گئیں اور حواب کے کتے بھی بھونکے اور نبی پاک (ص) نے تمام ازواج کو پہلے ہی خبردار کر دیا تھا
(العقد الفرید صفحہ 29)
عائشہ نے مولا علی علیہ سلام سے جنگ کی اور بیگناہ مسلمانوں کے قتل کا موجب بنی جب کے ازواج نبی پاک(ص) کو گھر رہنے کا حکم تھا
کیا عام آدمی کی بیوی اس کے اہلبیت میں شامل ہے؟؟؟؟
عام آدمی کی بیوی اس کے اہل بیت میں شامل ہے مگر نبی پاک (ص) کی نہیں
اس کا جواب کچھ یوں ہے کہ نبی پاک(ص) کے اہلبیت علیہ سلام کا میعار کچھ اور تھا. بیشک بیبی خدیجہ سلام علیھا، بیبی ماریہ سلام علیھا ،بیبی ام سلمہ سلام علیھا وغیرہ جیسی پاک باز اور افضل خواتین شامل تھیں .
مگر کساء کے نیچے جمع کر کے پنجتن کو خدا نے بتا دیا یی ہیں موجب تخلیق کائنات . (اگرچہ بیبی ام سلمہ سلام علیھا نے چادر کےنیچے آنےکی اجازت بھی طلب کی تھی)
خدا نے اپنے نور کی پہچاں کروانی تھی (تاریخ دمشق الکبیر، مولف ابن عساکر ، جلد45 صفحہ 52،حدیث9062)
خدا نے اہلبیت علیہ سلام کو مقام عصمت عطا کیا اور اجر رسالت میں ان کی محبت کو واجب قرار دیا (سوره الشوریٰ، آیت 23، پارہ 25)اور بتا دیا اس میں امت کا ہی فائدہ ہے (سوره سبا آیت 47) کیوں کہ خدا نے ان کو رہبریاور قیادت کی بھاری ذمہ داری سے نوازا اور اس میں بیشک ہمارا ہی فائدہ ہے
.
.
قرآن مجید کی سورہ ۔ الاحزاب کی آیت نمبر 28 تا 34 تک رسول اللہ کی بیویوں کا ذکر ، جمع مٶنث کے صیغہ میں موجود ھے۔ لیکن آیت نمبر 33 کے آخری حصہ ” انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیتے و یطہرکم تطہیرا “ میں جمع مٶنث کے صیغے استعمال نہیں ھوۓ ۔ (مسلمانوں میں یہ امر تسلیم شدہ ھے کہ قرآن مجید کی موجودہ تدوین بمطابق ترتیب ء تنزیل نہیں ورنہ آغاز ء قرآن میں پہلی وحی اقراء باسم ربک الذی کا اندراج ھوتا ) اگر آپ اس ٹکڑے کو یہاں سے اٹھا لیں تو ربط ء کلام منقطع نہیں ھوتا۔
یہ آیت ء مبارکہ جن اھل بیت کی شان میں نازل ھوئ ، گھر کی چاردیواری کے حصار میں رھنے والے نہیں ۔ رسول اللہ نےان ذوات ء مقدسہ کو ،زیر کساء لے کر یوں تخصیص فرمائی ۔۔۔ یا اللہ یہ میرے اھل ء بیت ھیں ۔ ۔ یعنی ھم فاطمة و ابیہا و بعلھا و بنیھا ۔ ۔
یہاں واقعہ جناب ام ء سلمہ ، زوجہ ء رسول اللہ کے گھر وقوع پذیر ھوا ۔ جب اس مخدرہ نے زیر کساء آنے کی خواھش کا اظہار فرمایا تو رحمت اللعالمین نے فرمایا ۔ ۔ آپ یقیناً خیر پر ھو مگر زیر ء کساء اھل بیت میں شامل نہیں ھو
جناب ڈاکٹر طاھرالقادری صاحب اپنی booklet ” الدرة البیضاء فی مناقب فاطمة الزھرا میں اس روایت کو یوں مستند فرماتے ھیں کہ جب آیت تطہیر نازل ھوئ تو یہ ذوات مقدسہ ، محبوب ء کبریا کے ساتھ زیر ء کساء تھیں اور آیت ء مبارکہ انہیں کے شان میں نازل ھوئ۔ براۓ حوال ملاحظ ھو ۔۔
معجم الاوسط + معجم الصغیر طبرانی۔ طبقات المحدثین ابن حیان ۔ تاریخی بغداد
.
پہلے سے آخر تک تمام آیات میں مخاطبین کو پڑھ لو۔۔۔۔صیغہ جمعہ مونث سے مخاطب کیا گیا ہے۔۔۔
کنتن
تردن
امتعکن
و اسرحکن
منکن
لستن
تخضعن
تبرجن
بیوتکن
و اطغن
یہ سارے مخاطب صیغہ جمع مونث کے ہیں۔۔۔ سوائے ایت انما یرید اللہ لیذھب عنکم۔۔۔۔۔
غور کرو پھر غور کرو۔۔ اچانک صیغہ جمع مزکر ہوگیا۔۔۔۔ اور مخاطب بدل گئے۔۔۔۔!!!!
“عنکن” کی جگہ “عنکم” ہے۔۔۔ یطہرکن کی جگہ یطہرکم ہے۔۔۔۔
یعنی ایک سےزیادہ مردوں اور ان سے کم عورتوں کو مخاطب کیا گیا ہے( یعنی صیغہ جمع مزکر)مگر گرامر کا فرق چھپ نہیں سکتا۔۔۔
ایت 30 میں ازواج رسول کو کھلی بدکاری پر دوہرے عزاب کی وارننگ دی جارہی ہے، یعنی کہ اس بات کا احتمال ہے کہ ازواج رسول سے گناہ کا سردہ ہونا ممکن رہے گا۔ تو پھر آیت 33 میں طہارت کس کی ہورہی ہے۔۔۔۔؟؟؟؟؟ وہ کونسا رجس ہے جسکی طہارت کا ارادہ اللہ نے کیا ہے۔۔۔۔؟
سمپل سی بات ہے کہ ایت 333 کا مخاطب کوئی اور ہے۔۔۔ یہاں اہلبیت مخصوص لوگوں کے ساتھ مخاطب کیا گیا اور یہ ہمیں زبان بیان رسالت میں حدیث کساء سے معلوم ہوا۔ جب چادر میں چار نفوس کو لیکر نبی ص نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔۔۔ جبکہ ازدواج رسول پاس کھڑی سب کچھ دیکھ رہی تھیں۔۔۔!
۔
۔۔یہ قران کا مزاج ہے ایک ہی آیت میں دو مختلف گروہوں کو متعدد مقام پر مخاطب کیا گیا ہے۔۔۔ قرآن اللہ کا فصیح و بلیغ کلام ہے لاشک۔
.
.
اہل بیت (ع) کے مصادیق کے بارے میں پانچ ایسے بنیادی سوال جن کا جواب اہل سنت کے پاس نہیں ہے !
اس بارے میں کہ آیت تطھیر میں اہل بیت (ع) کے مصداق کون ہیں، تاریخ اسلام میں شیعہ سنی کی جانب سے بہت زیادہ ابحاث پیش کی گئی ہیں ۔ اہل سنت، اہل بیت کا مصداق ازواج نبی(ص) کو مانتے ہیں جب کہ شیعہ صرف پانچ ہستیوں یعنی پیغمبر اکرم(ص) ، امام علی(ع) ، حضرت فاطمہ(ع) ، امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کو اہل بیت کا مصداق مانتے ہیں ۔
اس حوالے سے آیت اللہ حیدری نے پانچ استدلالات کو پانچ سوالوں کی صورت میں پیش کیا ہے کہ جن کی بنیاد پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ صرف اور صرف یہ پانچ ہستیاں ہی اہل بیت میں سے شمار ہوتی ہیں اور طاہر و معصوم ہیں !










اس بنا پر جو کچھ مذکورہ بالا ان پانچ استدلالات اور سوالات سے حاصل ہوتا ہے؛ یہ ہے : آیت تطھیر میں اہل بیت کا مصداق کہ جنہیں خدا نے ہر نجاست اور پلیدی سے پاک فرمایا ہے اور انہیں عصمت کی نعمت عطا کی ہے ان پانچ افراد میں منحصر ہے : رسول اکرم(ص)، امام علی(ع)، حضرت زہرا (ع) ، امام حسن(ع) اور امام حسین(ع)۔