آیہ تطہیر اور پیغمبر(ص) کی بیویاں!
«فَقُلْنَا من أَهْلُ بَیتِهِ نِسَاؤُهُ»
ان لوگوں نے پوچھا: کیا نبی کی بیویاں ان کے اہلبیت میں شامل ہیں؟
قال لَا وأیم اللَّهِ إِنَّ الْمَرْأَةَ تَکونُ مع الرَّجُلِ الْعَصْرَ من الدَّهْرِ ثُمَّ یطَلِّقُهَا فَتَرْجِعُ إلی أَبِیهَا»
کہا: نہیں اور خدا کی قسم ایک عورت ایک طویل مدت تک ایک آدمی کے ساتھ زندگی گزارتی ہے اور طلاق لے کر اپنے باپ کے گھر چلی جاتی ہے
صحیح مسلم، مؤلف: مسلم بن حجاج ابو الحسین القشیری نیشاپوری، ناشر: دار إحیاء التراث العربی – بیروت، تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقی، ج 4، ص 1874، ح 2408
.
مکمل روایت دیکھ سکتے ہیں
حدثنا محمد بن بكار بن الريان ، حدثنا حسان يعني ابن إبراهيم ، عن سعيد وهو ابن مسروق ، عن يزيد بن حيان ، عن زيد بن ارقم ، قال: دخلنا عليه، فقلنا له: لقد رايت خيرا لقد صاحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم وصليت خلفه، وساق الحديث بنحو حديث ابي حيان، غير انه قال: الا وإني تارك فيكم ثقلين احدهما كتاب الله عز وجل، هو حبل الله من اتبعه كان على الهدى، ومن تركه كان على ضلالة وفيه، فقلنا: من اهل بيته نساؤه؟ قال: لا وايم الله إن المراة تكون مع الرجل العصر من الدهر، ثم يطلقها، فترجع إلى ابيها وقومها اهل بيته اصله، وعصبته الذين حرموا الصدقة بعده.
یزید بن حیان سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ہم نے کہا: تم نے بہت ثواب کمایا، تم نے صحبت اٹھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی اور بیان کیا حدیث کو اسی طرح جیسے اوپر گزری۔ اس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جاتا ہوں ایک تو اللہ کی کتاب، وہ اللہ کی رسی ہے جو اس کی پیروی کرے گا ہدایت پر ہو گا اور جو اس کو چھوڑ دے گا گمراہ ہو جائے گا۔“ اس روایت میں یہ ہے کہ ہم نے کہا: اہل بیت کون لوگ ہیں بیبیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی؟ زید رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم عورت ایک مدت تک مرد کے ساتھ رہتی ہے، پھر وہ اس کو طلاق دے دیتا ہے تو اپنے باپ اور قوم کی طرف چلی جاتی ہے۔ اہل بیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دودھیال کے لوگ اور عصبہ ہیں جن پر صدقہ حرام ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد۔
.
اسی طرح امام “نووی” “شرح صحیح مسلم” میں کہتے ہیں:
«والمعروف فی معظم الروایات فی غیر مسلم أنه قال نساؤه لسن من أهل بیته»
صحیح مسلم کے علاوہ اکثر روایات میں پیغمبر کی بیویاں اہلبیت کا جز نہیں قرار پائی ہیں۔
شرح صحیح مسلم، مصنف: نووی، جلد: 15، وفات: 676، رده: مصادر حدیث سنی – فقه، خطی: خیر، سال نشر: 1407 – 1987 م، ناشر: دار الکتاب العربی – بیروت – لبنان، ج 15، ص 180، باب من فضائل علی بن أبی طالب رضی الله عنه
وہابی متفکر “آلوسی” “روح المعانی” کی ۲۲ ویں جلد میں صراحت کے ساتھ لکھتے ہیں:
«أن النساء المطهرات غیر داخلات فی أهل البیت الذین هم أحد الثقلین»
پیغمر کی ازواج پاک، اس اہلبیت میں جو ثقلین کا ایک جز ہے، شامل نہیں ہیں۔
روح المعانی؛ شهاب الدین سید محمود آلوسی، بغدادی، ناشر دار احیاء التراث العربی، بیروت، ج 22، ص 16
“ابو جعفر طحاوی” کی کتاب “شرح مشکل الآثار” میں ام سلمہ سے اسی مضمون کی ایک روایت نقل ہوئی ہے:
«فقالت أَنْزَلَ اللَّهُ هذه الآیةَ إنَّمَا یرِیدُ اللَّهُ إلَی آخِرِهَا وما فی الْبَیتِ إِلاَّ جِبْرِیلُ وَرَسُولُ اللهِ وَعَلِی وَفَاطِمَةُ وَحَسَنٌ وَحُسَینٌ علیهم السلام»
جب آیہ (إنَّمَا یرِیدُ اللَّهُ) میرے گھر میں نازل ہوئی، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، امیر المومنین علیہ السلام فاطمہ سلام اللہ علیھا اور حسن و حسین علیھم السلام موجود تھے۔
«فَقُلْت یا رَسُولَ اللهِ أنا من أَهْلِ الْبَیتِ»
میں نے کیا یا رسول اللہ کیا میں بھی اہلبیت میں سے ہوں آنحضرت نے
«فقال إنَّ لَک عِنْدَ اللهِ خَیرًا»
فرمایا: تم خیر پر ہو،
فَوَدِدْتُ أَنَّهُ قال نعم فَکانَ أَحَبَّ إلَی مِمَّا تَطْلُعُ علیه الشَّمْسُ وَتَغْرُبُ»
میں چاہتی تھی کہ کاش پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کہ دیتے کہ تم بھی اہلیبت کا جز ہو، اور ہاں اگر وہ یہ کہہ دیتے تو وہ میرے لئے ہر اس چیز سے زیادہ قیمتی ہوتا جس پر سورج اپنی روشنی بکھیرتا ہے۔
شرح مشکل الآثار، مؤلف: ابو جعفر أحمد بن محمد بن سلامہ طحاوی، ناشر: مؤسسہ رسالت – لبنان/ بیروت – 1408 هـ – 1987 م، پہلا ایڈیشن، تحقیق: شعیب ارنؤوط، ج 2، ص 244
“تفسیر این کثیر دمشقی” میں عائشہ سے ایک روایت نقل کرتے ہیں اور لکھتے ہیں:
«فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَ أَنَا مِنْ أَهْلِ بَيْتِكَ»
میں نے کہا: یا رسول اللہ کیا میں بھی اہلیبیت میں سے ہوں؟
«فَقَالَ: تَنَحَّيْ فَإِنَّكِ عَلَى خَيْر»
پیغمبر اسلام نے فرمایا: نہیں، میرے اہلبیت سے دور ہو جاؤ۔
تفسیر القرآن العظیم، مؤلف: اسماعیل بن عمر بن کثیر دمشقی ابو الفداء، ناشر: دار الفکر – بیروت – 1401، ج 3، ص 486، ح 296
عائشہ کہتی ہیں: میں اہلبیت میں سے نہیں ہوں،
ام سلمہ کہتی ہیں: میں اہلبیت میں سے نہیں ہوں،
لیکن
یہ کچھ لوگ زبردستی یہ کہہ رہے ہیں کہ: “یہ افراد اہلبیت میں سے ہیں”
صلوات اور سلام ہو صاحبان عرش و زمیں کا حضرت محمد مصطفی اور آپ کے اہلبیت اطہار کی ذوات مقدسہ پر
.
.
*سوال*
شیعہ حضرات آیت تطہیر میں ازواج رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو شامل کیوں نہیں کرتے؟
*جواب*
اگر اہل بیت علیہم السلام میں ازواج بھی شامل ہوتیں تو وہ بھی خطا سے پاک ہوتیں اس لیے کہ اللہ تعالی نے جن کی تطہیر کر دی ہو پھر بھی خطا سے پاک نہ ہوں تو اللہ تعالی پر نقص لازم آئے گا جو کہ ممکن نہیں ہے اور دوسرا یہ کہ آپ بھی ازواج کو خطا سے محفوظ نہیں سمجھتے۔
جبکہ پنجتن پاک علیہم السلام خطا سے محفوظ ہیں اور یہی ہستیاں آیت تطہیر کا مصداق ہے۔
انس بن مالک سے روایت ہے کہ آنحضرت کی چھ ماہ کی عادت رہی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فجر کی نماز کے لیے نکلتے تو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر کے دروازے کے سامنے سے گزرتے ہوئے آیت تطہیر تلاوت فرمایا کرتے تھے
حوالے کے لئے دیکھیے
جامع ترمذی جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 356۔
تفسیر ابن کثیر جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 413۔
.
.
عمومی طور پر اہلبیت میں تمام گھر والے شامل ہوتے ہیں یہاں تک کہ
بلی
بھی


جیسا کہ روایت میں ہے



ہمیں یہاں اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ اہل بیت سے مراد تمام گھر والے ہیں۔ بیویاں بھی ماں باپ بھی اولاد بھی۔
یہاں تک کہ اہل بیت میں تو رسول اللّه کی وہ بیوی بھی شمار ہوگی جو بعد میں مرتد ہو گئی یعنی قتیلہ بنت قیس
جیسا کہ حضرت نوح نے اپنے بیٹے کو اپنے اہل میں شمار کیا (سوره ھود آیت 45) جو کہ کافر تھا
مگر یہاں بات ان اہل بیت کی ہو رہی ہے جن کی فضیلت پر قرآن کی آیت تطہیر نازل ہوئی (جیسا کہ فتح الباری میں واضح ہے کہ آیت تطہیر جناب خدیجہ ص کے گھر والوں کے لئے ہے)
انہی میں شمار ہونے میں بزبان خود عائشہ نے انکار کیا ہے اور صحیح کتاب کی صحیح روایت کے مطابق صحابہ بھی انہیں شمار نہیں کرتے تھے اوپر پوسٹ دوبارہ غور سے دیکھیں

بندا حضرت عائشہ کی مانے یا مولوی کی ؟
اک طرف حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ


اور دوسری طرف مولوی کہتا ہے آیت تطہیر انکے لئے نازل ہوئی ۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ؟
مطلب ایک صدیقہ بھی مانتے ہیں اور دوسری طرف اسی کی گواہی نہیں مانتے ؟
