24 زی الحجہ: آیت ولایت علی ع
اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوۃَ وَہُمْ رٰكِعُوْنَ۵۵
۵۵۔تمہارا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔
یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی جب آپؑ نے مسجد نبویؐ میں حالت رکوع میں ایک سائل کو انگشتری عطا فرمائی۔
اس کے راوی یہ ائمہ و اصحاب ہیں: 1۔ ابن عباس 2۔ عمار یاسر 3۔ عبد اللہ بن سلام 4۔ سلمہ بن کہیل 5۔ انس بن مالک 6۔ عتبہ بن حکم 7۔ عبد اللہ بن ابی 8۔ ابوذر غفاری 9۔جابر بن عبداللہ انصاری 10۔عبد اللہ بن غالب 11۔ عمرو بن عاص 12۔ ابو رافع 13۔حضرت علی علیہ السلام 14۔ حضرت امام حسین علیہ السلام 15۔ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام۔ 16۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام 17۔امام جعفر صادق علیہ السلام۔
قاضی یحییٰ نے المواقف صفحہ 405 میں، شریف جرجانی نے شرح مواقف 8: 360 میں، سعد الدین نے شرح مواقف 5: 17 میں، علاء الدین قوشجی نے شرح تجرید میں کہا ہے کہ اس بات پر اجماع ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
یاد رہے کہ علی (ع) انہی معنوں میں ولی ہیں جن معنوں میں اللہ اور اس کے رسولؐ ولی ہیں، کیونکہ ایک ہی استعمال میں لفظ کے دو معانی مراد نہیں لیے جا سکتے۔یہاں ولایت سے حاکمیت مراد ہے جو اللہ، رسولؐ اور رکوع میں زکوۃ دینے والے سے مختص ہے۔ یہاں ولایت سے مراد دوستی اور نصرت و محبت نہیں، کیونکہ یہ تو تمام مومنین میں موجود ہوتی ہیں۔ نماز اور زکوۃ دونوں پر بیک وقت عمل صرف یہاں ہوا ہے۔
.
.
سورہ مائدہ کی اس آیت جو کہ آیت نمبر 55 ھے اس کے ضمن میں بے شمار طریق نقل ہیں جو کہ امام علی ؑ کی حالت رکوع میں انگوٹھی سائل کو دینے کے اثبات کے لیے کافی ہیں
لیکن ہم اس میں صرف تین طریق دیکھائیں گے اور اس کی سند پر بات بھی کریں گے
جو اس روایت کا انکاری ھے اس کو کم از کم اپنے اسلاف کے عقائد کا ہی مطالعہ کر لینا چاہیے
پہلا طریق ہم تفسیر القرآن العظیم مسنداً عن الرسول ﷺ والصحابہ والتابعین
ابو حاتم الرازی کی تفسیر سے پیش کرتے ہیں
طریق نمبر 1
«حدثنا أبو سعيد الأشج، ثنا الفضل بن دكين أبو نعيم الأحول، ثنا موسى بن قيس الحضرمي، عن سلمة بن كهيل، قال:”تصدق علي بخاتمه وهو راكع، فنزلت: ” إنما وليكم الله ورسوله والذين آمنوا الذين يقيمون الصلاة، ويؤتون الزكاة وهم راكعون
سلمة بن کھیل کہتے ہیں آیت انما ولیکم اللہ ورسولہ تب نازل ہوئ جب علی ؑ نے رکوع میں انگوٹھی خیرات فرمائ
تفسیر القرآن ابو حاتم جلد 5 ص 152 حدیث 283
اس حدیث کی تخریج میں واضح نقل ھے کہ
۲۸۳] إسناده حسن، ويشهد له ما أخرجه ابن جرير عن السدي ـ كما سيأتي في
تخريجه ؛ فهو صحيح لغیرہ
اس کی اسناد حسن ھے اور ابن جریر نے سدی کے طریق سے جو تخریج کی ھے وہ اس کی شاہد ھے جو کہ صحیح لغیرہ ھے
مزید ہم مختصر احوال سند بیان کرتے ہیں
اس روایت کا پہلا راوی
ابو سعید الاشج
ذھبی سیر الاعلام النبلاء میں کہتے ہیں
الحافظ الامام الثبت شیخ الوقت ابو سعید عبداللہ بن سعید الکندی الکوفی
حدث عن ھشیم بن بشیر ,وابو بکر بن عیاش ,و عبداللہ بن ادریس ,و عقبہ بن خالد
روی عنہ ابو زرعہ و ابو حاتم و یعقوب الفسوی و ابو یعلی الموصلی و زکریا الساجی
یہ ابو حاتم کے شیوخ میں سے ہیں
قال ابو حاتم الرازی ھو امام اہل الزمانہ
قال نسائ صدوق
سیر اعلام النبلاء جلد 12 ص 183 مکتبة الاسلامیة
دوسرے راوی
2 فضل بن دکین ابو نعیم
یہ الحافظ الکبیر شیخ الاسلام الفضل بن عمرو بن حماد بن حماد بن زھیر بن درھم التمیمی القرشی ہیں
بخاری نے ان سے روایات کو لیا ھے
یہ ثقہ کثیر الرواة ہیں
سیر اعلام النبلاء جلد 10 ص 142 مکتبة الاسلامیہ
تیسرے راوی
3 موسی بن قیس حضرمی
ابن ابی حاتم جرح و تعدیل میں کہتے ہیں
موسی بن قیس حضرمی
روی عن حجر بن عنبس و سلمہ ابن کھیل و مسلم البطین و عطیہ العوفی
عبدالرحمن انا عبداللہ بن احمد بن حنبل فیما کتب الی قال سمعت ابی و ذکر موسی بن قیس فقال ما اعلم الا خیر
عبداللہ بن احمد اپنے والد احمد بن حنبل سے نقل کرتے ہیںکہ میں نے والد سے سنا انہوں نے موسی بن قیس کے ذکر میں کہا میں اس کے بارے میں خیر کے علاوہ کچھ نہیں جانتا
عبدالرحمن قال ذکرہ ابی عن اسحاق بن منصور عن یحیحی ابن معین قال موسی بن قیس الحضرمی ثقہ
رعبدالرحمن اپنے والد سے وہ اسحاق بن منصور سے وہ یحیحی ابن معین سے نقل کرتے ہیں کہ یحیحی ابن معین کہتے ہیں کہ انہوں نے کہا موسی بن قیس الحضرمی ثقہ ہیں
سألت أبی عن موسی بن قیس فقال لا بأس بہ
ابن ابی حاتم کہتے ہیں میں نے اپنے والد سے سوال کیا موسی بن قیس کے متعلق تو آپ نے کہا ان میں کوئ حرج نہیں
جرح و تعدیل ابن ابی حاتم جلد 8 ترجمة 703
تہذیب التہذیب ج 10 ص 360 ,367
تہذیب الکمال ج 29 ص 134
روایت کے چوتھے راوی
4ؓسلمة بن کھیل
بن حصين الإمام الثبت الحافظ أبو يحيى الحضرمي ثم التنعي الكوفي
حدث عن علی و زید بن ارقم و ابی جحیفة السوائ و جندب البجلی وابن ابی اوفی وابی طفیل و سوید بن غفلہ
وحبہ بن جوین
روی عنہ یحیی بن سلمة ابنہ و منصور والاعمش و ھلال بن یساف و شعبة
قال احمد بن حنبل کان متقنا للحدیث احمد العجلی تابعی ثقہ ثبت فی الحدیث قال ابو حاتم ثقہ متقن
سیر اعلام النبلاء ج 5 ص299 مکتبة الاسلامیة
دوسرا طرہق
دوسرا طریق ہم ابن جریر طبری کی مشہور زمانہ تفسیر جامع البیان سے پیش کرتے ہیں
حدثنا محمد بن الحسين ، قال : ثنا أحمدُ بنُ المُفَضّل ، قال : ثنا أسباط ، السدي ، قال : ثم أخبرهم بمن يَتَوَلَّاهم ، فقال : إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ ءَامَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَوةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَوةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ هؤلاء جميع المؤمنين ، ولكنَّ على ابن أبي طالب مرَّ به سائل وهو راكعٌ فى المسجدِ فأعطاه خاتمه )
تفسیر جامع البیان جلد 8 ص 530 ابن جریر الطبری
ابن جریر طبری جو تاریخ طبری اور جامع البیان جیسی تفسیر کے مولف ہیں اور جن کی ثقاہت پر اجماع ھے
انہوں نے بھی اس روایت کو اپنی سند سے نقل کیا ھے
آئیے دیکھتے ہیں اس طریق کے رجال کو
اس روایت کے پہلے راوی
1 احمد بن الحسین بن عبدالملک ابو جعفر
حدث عن حامد بن یحیحی البلخی و احمد بن بدیل الکوفی
روی عنہ عبدالصمد الطیبسی والطبرانی
ذکرہ الدارقطنی فقال لا باس بہ
دارقطنی کہتے ہیں ان میں کوئ حرج نہیں ھے
تاریخ بغداد خطیب بغدادی
روایت کے دوسرے راوی
2 أحمد بن المفضل القرشی الاموی ابو علی الکوفی
روی عن اسباط بن نصر ھمدانی و اسرائیل بن یونس و جعفر بن زیاد الاحمر والحسن بن صالح بن حی و سفیان الثوری
یہ اسباط بن نصر ھمدانی و اسرائیل بن یونس و جعفر بن زیاد الاحمر والحسن بن صالح بن حی و سفیان الثوری سے روایت کرتے ہیں
جبکہ ان سے روایت کرنے والوں میں
احمد بن الحسین بن عبدالملک واحمد بن عثمان ابن حکیم الدوری و احمد بن یحیحی الصیرفی اور ابو حاتم محمد بن ادریس الرازی روایت کرتے ہءں
قال ابو حاتم کان صدوقاً و کان من روساء الشیعہ
ابو حاتم کہتے ہیں یہ صدوق اور شیعہ کے سرداروں میں سے تھے
تہذیب الکمال جلد 1 ص487 حافظ مزی
روایت کے تیسرے راوی
3 اسباط بن نصر ھمدانی
یہ اسماعیل بن عبدالرحمن السدی کے تلامذہ میں سے تھے
ابن حجر صدوق
ذکرہ ابن حبان فی الثقات
تہذیب التہذیب ج 1 ص 109
ذکرہ ابو حاتم البستی فی جملة الثقات ابن شاھین فی الثقات
تہذیب الکمال جلد 2 ص 64
قال بخاری فی تاریخ الاوسط صدوق
ایضا جلد 2 ص 64
قال ابو بکر ابن خثیمہ عن یحیی ثقہ
تہذیب الکمال
ج 2 ص 357
روایت کے چوتھے راوی
4 السدي
یہ اسماعیل بن عبد الرحمن بن أبی کریمة ہیں
امام مفسر قرآن ابو محمد الکوفی ہیں
حدث عن انس بن مالک و ابن عباس و عبدالخیر الھمدانی و معصب بن سعد و ابی صالح
یہ انس بن مالک و ابن عباس و عبدالخیر الھمدانی و معصب بن سعد و ابی صالح سے روایت کرتے ہیں
جبکہ ان سے شعبہ سفیان الثوری اسباط بن نصر اور ابو بکر بن عیاش جیسے محدث روایت کرتے ہیں
قال النسائ صالح الحدیث
یحیی بن سعید القطان لا بأس بہ
قال ابن السدی ھو عندی صدوق
نسائ کہتے ہیں صالح الحدیث ہیں یحیحی بن سعید قطان کہتے ہیں ان میں حرج نہیں ھے
ابن سدی کہتے ہیں میرے نزدیک صدوق ہیں
سیر اعلام النبلاء جلد 5 ص 264 مکتبة الاسلامیہ
تیسرا طریق اور سند
تیسرا طریق
– حدثنا هناد بن السري قال، حدثنا عبدة، عن عبد الملك، عن أبي جعفر قال: سألته عن هذه الآية: ” إنما وليكم الله ورسوله والذين آمنوا الذين يقيمون الصلاة ويؤتون الزكاة وهم راكعون “، قلت:من الذين آمنوا؟ قال: الذين آمنوا! قلنا: بلغنا أنها نـزلت في علي بن أبي طالب! قال: عليٌّ من الذين آمنوا
تفسیر جامع البیان جلد 8 ص 531 ابن جریر طبری
روایت کے رجال پر نظر
پہلا راوی
1ھناد بن السري
یہ ھناد بن السري ابن معصب بن ابی بکر ہیں
حافظ ذھبی کہتے ہیں یہ الامام الحجة ہیں
یہ شریک وابی الاحوص ابن مبارک اسماعیل بن عیاش اور ابی الزناد سے روایت کرتے ہیں
جبکہ ان سے ابو زرعہ ابن ابی الدنیا ابو حاتم اور مطین روایت کرتے ہیں
قال ابو حاتم صدوق صدوق قال نسائ ثقہ
سیر اعلام النبلاء ج 11 ص 465
دوسرے راوی
2 عبدة بن سلیمان
الحافظ الحجة ابو محمد الکلابی الکوفی
قال احمد بن حنبل ثقہ ثقہ
قال عجلی ثقہ صالح الحدیث صاحب قرآن
سیر اعلام جلد 8 ص511
تیسرے راوی
3 عبدالملک بن ابی سلیماب ابو سلیمان ابو عبداللہ
واسم ابی سلیمان میسرة
مولی لبنی فزراة
حدث عن انس بن مالک و عطاء بن ابی رباح و سعید بن جبیر و سلمة بن کھیل و انس بن سیرین
روی عنہ سفیان الثوتی و شعبة بن الحجاج و یحیی بن سعید القطان و عبداللہ بن مبارک و جریر بن عبدالحمید
قال احمد عبدالملک بن ابی سلیمان قال ثقہ کان من احفظ اھل الکوفہ
حدثنا ابو نعیم حدثنا سفیان عن عبدالملک بن ابی سلیمان ثقہ متقن فقیہ
حدثنا عبداللہ بن احمد بن حنبل قال سألت ابی عن عبدالملک بن ابی سلیمان فقال ثقہ
سالت یحیی ابن معین قلت عبدالملک بن ابی سلیمان احب الیک او ابن جریج فقال کلاھما ثقہ
احمد بن عبداللہ العجلی ثقہ
چوتھے راوی امام باقر بن علی ؑ بن الحسین ؑ ہیں جو کہ تمام مکاتب فکر کے اندر بالاجماع ثقات آئمہ اھلبیت اطہار ؑ میں سے ہیں
تحریر و تحقیق سید ساجد بخاری
















قرآن کریم میں ارشاد ھو تا ھے:
اِنَّماَ وَلِیُّکُمُ اللهُ وَ رسُولُہ وَ الَّذِین آمَنُوا الّذِینَ یُقیمُونَ الصَّلوٰة ویُؤتُون الزَّکَاةَ وَہُمْ راکعون
بےشک اللہ اور اس کا رسول اور اس کے بعد وہ تمہاراولی ھے جو ایمان لایا اورنماز قائم کی اور رکوع کی حالت میں زکوۃ ادا کی۔
زمخشری اپنی کتاب کشاف میں بیان کرتے ھیں کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں اس وقت نازل ھوئی جب آپ نے نما ز پڑھتے وقت حالت رکوع میں سائل کو اپنی انگوٹھی عطا کی

جب اہل تشیع حضرات حضرت علی علیہ السلام کی امامت و خلافت پر آیت بلغ ” يا ايها الرسول بلغ ما انزل اليك….. الخ” سے کتب اہلسنت میں موجود مختلف روایات کی روشنی میں استدلال کرتے ہیں تو ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں کسی معین شئ کے متعلق دلالت نہیں اور اگر یہ ( یعنی امامت) نقل سے ثابت ہیں تو یہ اثبات خبر کے ذریعہ سے ہوا نہ کہ قرآن کے ذریعہ سے.. ابن تیمیہ کہتے ہیں پس جو کوئی یہ دعویٰ کرے کہ قران اس بات پر دلالت کرتا ھے کہ علی کی امامت کی تبلیغ کے متعلق حکم ہوا ھے تو گویا اس نے قرآن پر افترا باندھا۔۔


مگر ابوبکر کی فضیلت کا اثبات کا جب موقع آیا تو واقعہ غار کے متعلق کہا کہ اس پر نص قرآن ھے اور پھر ” اذا يقول لصاحبه….. الخ ” آیت نقل کرکے اس کی تفسیر میں صحیحین سے روایت پیش کی ھے۔۔۔ یعنی آیت کی تفسیر پیش کرکے ابوبکر کی فضیلت پیش کی ھے۔۔


المختصر…جب ابوبکر کی فضیلت کی اثبات کی بات آئی تو غار والی فضیلت ثابت کرنے کے لیے کہا کہ اس پر نص قرآن ھے حالانکہ آیت کی تفسیر صحیحین سے پیش کرکے اثبات کی سعی کی ھے۔۔ مگر جب حضرت علی کے لیے اہل تشیع آیت تبلیغ سے استدلال کرے اور کتب اہلسنت سے اس کا شان نزول پیش کرے تو ابن تیمیہ کہتا ھے کہ یہ قرآن سے اثبات تو نہ ہوا بلکہ خبر سے اثبات ہوا۔۔ اور ابن تیمیہ کہتے ہیں اس طرح کا دعویٰ قرآن پر افترا ہوا۔۔
اب یہ کس طرح کا مرض ہوا..




