حضرت علی علیھ السلام نے نماز کی حالت میں کیوں زکات ادا کی؟ جبکہ ان پر زکوٰۃ واجب نھیں تھی؟

*حضرت علی علیھ السلام نے نماز کی حالت میں کیوں زکات ادا کی؟ جبکہ ان پر زکوٰۃ واجب نھیں تھی۔*
جواب:
اولاً حضرت علی علیہ السلام کی سیرت پر نظر ڈالتے سے یہ بات واضح ھوتی ھے وه کبھی بھی غر یب اور تنگدست نھیں تھے۔ بلکھ ھمیشہ اپنی جد و جھد اور محنت سے کافی مال کماتے تھے، لیکن سب کو خدا کی راه میں انفاق کردیتے تھے۔ وه کوئی بھی چیز اپنےلئے باقی نھیں رکھتے تھے۔ بلکہ سارے واقعات، جیسے روٹی اور خرما کو اپنے کندھوں پر لےجاکر غریبوں میں تقسیم کرتے تھے۔ ایسے مشھور واقعات ھیں جن کو یھاں پر ذکر کرنے کی ضرورت نھیں ھے اس طرح وه اپنے مال کا اکثر حصہ بندوں کو آزاد کرنے میں صرف کرتے تھے۔ یہاں تک کہ لکھا گیا ھے کہ انھوں نے اپنی کمائی سے ایک ھزار بندوں کو آزاد کیا ھے، اس کے علاوه جنگی غنیمتوں میں بھی ان کا حصہ قابل توجہ ھوتا تھا۔ مختصر ذخیره جس سے زکات تعلق پائے یا چھوٹا سا نخلستان جس کی زکات دینا واجب ھوتا، کوئی اھم چیزیں نھیں تھیں جو حضرت علی علیھ السلام نہ رکھتے تھے۔ [1]
پس اگر کھیں ان کے بارے میں غربت کی بات کی گئی ھے تو وه ان کے حد سےزیاده انفاق کرنے کی وجھ سے تھی۔ جو کچھ آیہ شریفہ میں ان کی زکات دینے کے بارے میں آیا ھے ایک مورد میں سے ھے جو بیان کرتا ھے کہ وه رکوع کی حالت میں بھی فقیروں کی مدد سے غافل نہ تھے۔
ثانیا : قرآن مجید میں بھت سے موارد میں مستحب صدقے کو بھی زکات کھا جاتا ھے، مثال کے طور پر بھت سی مکی سورتوں میں”زکات” کا لفظ آیا ھے، جس سے مراد مستحبی زکات ھے۔[2] کیوں کہ زکات کا وجوب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ھجرت کے بعد ھوا تھا۔[3] ( زکات مدینے کی جانب ھجرت کرنے کے بعد واجب ھوئی ) ھے ۔ علامہ طباطبائی المیزان میں فرماتے ھیں:
اگر آپ دیکھیں کہ آج کل جب زکات کہی جاتی ھے تو ذھن واجب زکات کی جانب جاتا ھےاور صدقہ ذھن میں آتا ھی نھیں ھے یہ اس لئے نھیں ھے کہ عربی لغت میں “صدقہ ” زکات نھیں ھے۔ بکھ اس لئے ھے کہ اسلام کی عمر کے جو چوده سو سال گزرے ھے اس دوران مسلمانوں اور متشرعہ میں زکات کو اپنے واجب معنی میں استعمال کیا گیا ھے ورنہ خود آنحضرت(ص) کے زمانے میں زکات اپنے لغوی معنی میں استعمال ھوتی تھی اور زکات کے معنی اس کے اصطلاحی معنی سے اعم تھے جو صدقہ کو بھی شامل ھوتے تھے۔ حقیقت میں زکات اگر نماز کےمقابلے میں استعمال کی جائے تو وه خدا کی راه میں مال انفاق کرنے کے معنی میں ھے۔ جیسے کہ یہ معنی ان آیات سے جو انبیاء سلف کے احوال کو بیان کرتی ھیں آسانی سے استفاده ھوتے ھیں۔[4]
سوره مائده کی آیت ۵۵ جو اکثر مفسرین کی نقل کے مطابق [5] حضرت علی علیھ السلام کے اُس انفاق کے بارے میں ھے کھ جو رکوع کی حالت میں واقع ھوا ھے اور جس میں انھوں نے اپنی انگوٹھی، فقیر کو دے دی، وه بھی ممکں ھے ان ھی موارد میں سے ھو۔
پس اگر فرض بھی کریں کہ حضرت علی علیہ السلام سے واجب زکات تعلق نھیں پاتی تھی تو انگوٹھی کا انفاق فقیر کو صدقہ یا مستحب انفاق کے بارے میں استعمال ھوا ھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] تفسیر نمونہ ، ج ۴ ص ۴۲۹۔
[2] آیہ ۳ سوره نمل اور آیہ ۳۹ سوره روم ، اور ۴ سوره لقمان ، اور ۷ سوره فصلت وغیره
[3] تفسیر نمونہ ، ج ۴ ص ۴۳۰۔
[4] ترجمہ تفسیر المیزان۔ ج ۶ ص ۱۱۔
[5] تفسیر نمونھ ، ج ۴ س ۴۳۴۔
.
.
کیا حضرت علی علیہ السلام بہت قیمتی انگوٹھی پہنچتے تھے
ہم سورہٴ مائدہ کی ۵۵ ویں آیت میں پڑھتے ہیں۔
” إِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اللهُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَہُمْ رَاکِعُونَ“
”تمہارا ولی صرف خدا ،اس کا رسول اور وہ صاحب ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰةدیتے ہیں“۔
شیعہ اور سنی دونوںسے متواتر روایت نقل ہوئی ہے کہ یہ آیت امیر الموٴمنین علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور یہ آیت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد آپ کی رہبری اور ولایت کی دلیل ہے۔
یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب مولائے کائنات علی بن ابی طالب علیہ السلام مسجد میں نمازپڑھ رہے تھے ایک سائل نے آکر سوال کیا تو کسی نے اسے کچھ نہیں دیا۔ حضرت علی علیہ السلام اس وقت رکوع میں تھے اور اسی رکوع کی حالت میں آپ نے اپنے داہنے ہاتھ کی انگوٹھی کی طرف اشارہ کیا اور سائل نے آکر آپ کی انگلی سے وہ انگو ٹھی اتارلی۔ اس طرح آپ نے نماز میں صدقہ کے طور پر اپنی انگوٹھی فقیر کو دے دی، اس کے بعد آپ کی تعریف و تمجید میں یہ آیت نازل ہوئی۔(1)
اب آپ ایک یونیورسٹی کے طالب علم کاایک عالم دین سے مناظرہ ملاحظہ فرمائیں:
طالب علم: ”میں نے سنا ہے کہ جو انگوٹھی علی علیہ السلام نے فقیر کو دی تھی وہ بہت ہی قیمتی تھی اور بعض کتب جیسے تفسیر برہان (ج۱،ص۴۸۵) میں ملتا ہے کہ اس انگوٹھی کا نگینہ ۵ مثقال سرخ یاقوت تھا جس کی قیمت شام کے خزانہ کے برابر تھی،
حضرت علی علیہ السلام یہ انگوٹھی کہاں سے لائے تھے ؟
کیا علی علیہ السلام حُسن وتزئین پسند تھے ؟
کیا اتنی قیمتی انگوٹھی پہننا فضول خرچی نہیں ہے؟
تصویر کے دوسرے رخ سے امام علی علیہ السلام کی طرف یہ نسبت دینا بالکل غلط ہے کیونکہ وہ لباس ،کھانے اور دوسری دنیوی اشیاء میں حد درجہ زہد سے کام لیتے تھے جیسا کہ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں:
”فوالله ما کنزت من دنیا کم تبراً ولاادخرت من غنائمھا وفراً ولا اعددت لبالی ثوبی طمر ا ولا حزت من ارضھا شبرا ولا اخذت منہ الا کقوت اتان دبرةٍ“۔
”خدا کی قسم !میں تمہاری دنیا سے سونا چاندی جمع نہیں کرتا اور غنائم اور ثروتوں کا ذخیرہ نہیں کرتا اور اس پرانے لباس کی جگہ کوئی نیا لباس نہیں بنواتا اور اس کی زمین سے ایک بالشت بھی میں نے اپنے قبضہ میں نہیں کیا اور اس دنیا سے اپنی تھوڑی سی خوراک سے زیادہ نہیں لیا ہے۔(2)
عالم دین: ”یہ گراں قیمت انگوٹھی کے بارے میں فالتو بات ہے جو بالکل بے بیناد ہے اور متعدد روایتوں کے ذریعہ اس آیت کے شان نزول کے بارے میں ہرگز اس طرح کی انگوٹھی کا ذکر نہیں ہوا ہے اور صرف تفسیر برہان میں ایک روایت نقل ہوئی ہے کہ اس انگوٹھی کی قیمت ملک شام کے خزانہ کے برابر تھی یہ روایت ”مرسلہ“ہے اور ممکن ہے کہ اس کے راویوں نے مولائے کائنات کی اہمیت کو کم کرنے کی خاطر اس روایت کو گڑھا ہو“۔
طالب علم: ”بہر حال انگوٹھی قیمتی تھی یہ بات تو یقینی ہے ورنہ پھر فقیر کا پیٹ کیسے بھرتا؟“
عالم دین: ”شاعر کے قول کے مطابق اگر ہم فرض کر لیں کہ یہ انگوٹھی بہت قیمتی تھی جیسا کہ شاعر کہتا ہے:
بر وای گدای مسکین درخانہ علی زن
کہ نگین پادشاہی دھد از کرم ،گدا را
تاریخ میں ملتا ہے کہ یہ انگوٹھی ”مروان بن طوق “نامی ایک مشرک کی تھی امام علیہ السلام جنگ کے دوران جب اس پر کامیاب ہوگئے تو اسے قتل کر کے غنیمت کے طور پر اس کے ہاتھ سے یہ انگوٹھی اتارلی اور اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لے کر آئے تو آپ نے فرمایا:
”اس انگوٹھی کو مال غنیمت سمجھ کر تم اپنے پاس رکھو“
ساتھ ساتھ یہ کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ جانتے تھے کہ اگر علی علیہ السلام اس انگوٹھی کو لے بھی لیں گے تو کسی امین کی طرح اس کی حفاظت کریں گے اور مناسب مو قع پر اسے کسی محتاج و فقیر کو دے دیں گے۔
اس طرح یہ انگوٹھی آپ نے خریدی نہیں تھی اور ابھی یہ انگوٹھی حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں میں چند دن ہی رہی ہوگی کہ صرف ایک محتاج کی آواز سن کر آپ نے اسے دے دیا۔(3)
طالب علم: ” لوگ نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نماز کے وقت خشوع و خضوع میں اس حد تک غرق ہوجاتے تھے کہ امام حسن علیہ السلام کے حکم کے مطابق جنگ صفین میں ان کے پیر میں لگے تیر کو نماز کی حالت میں نکال لیا گیا تھا لیکن انھیں احساس تک نہ ہوا اب اگر اس طرح ہے تو حالت رکوع میں انھوں نے اس فقیر کی آوازکیسے سن لی اور انگوٹھی اسے دےدی؟“
عالم دین: ” جو لوگ اس طرح کا اعتراض کرتے ہیں وہ یقینا غفلت میں ہیں کیونکہ محتاج و فقیر کی آواز سننا اپنی ذات کی طرف متوجہ کرنا نہیں ہے بلکہ یہ توجہ خدا کی طرف عین توجہ ہے۔
علی علیہ السلام نماز میں اپنے سے بیگانہ تھے نہ کہ خدا سے ، واضح طور پر نماز کی حالت میں زکوٰة دینا عبادت کے ضمن میں عبادت ہے اور جو روح عبادت کے لئے غیر مناسب ہے وہ مادی اور دنیاوی چیزیں ہیں لیکن جو توجہ خدا وند متعال کی راہ میں ہو وہ یقینا روح عبادت کے موافق ہے اور تقویت کرنے والی ہے۔
البتہ یہ جاننا چاہئے کہ خدا کی توجہ میں غرق ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا احساس بے اختیاری طور پر اس کے ہاتھ سے جاتا رہا ہے بلکہ اس سے مرادیہ ہے کہ جو چیز خداکی مرضی کے مطابق نہیں ہے اس سے اپنی توجہ ہٹالے۔
.
حوالاجات
(1): کتاب غایة المرام میں اس سلسلہ میں اہل سنت کے۱۲۴اور اہل تشیع سے۱۹روایتیں نقل ہوئی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی )منہاج البراعة، ج۲، ص۳۵۰(
(2): نہج البلاغہ، نامہ۴۵، اس خط کے مطابق آپ کے لئے اس طرح کی انگوٹھی پہننے کی بات ایک تہمت ہے ۔
(3) وقایع الایام، خیابانی صیام ص۶۲۷
.
.
ابو اسحاق ثعلبی نے اپنی تفسیر کبیر میں اپنی اسناد سے ابو ذر غفاری سے یہ روایت بیان کی ہے ۔ ابو ذر کہتے ہیں کہ : میں نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے ان کانوں سے سنا ،نہ سنا ہو تو یہ کان نپٹ بہرے ہوجائیں اور اپنی ان آنکھوں سے دیکھا ،نہ دیکھا ہو تو یہ آنکھیں پٹم اندھی ہوجائیں ۔آپ فرماتے تھے کہ “علی “نیکیوں کو رواج دینے والے اور کفر کو مٹانے والے ہیں ۔ کامیاب ہے وہ جوان کی مدد کرے گا اور ناکام ہے وہ جو ان کی مدد چھوڑ دے گا ۔ایک دن میں رسول اللہ کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ ایک مانگنے والا مسجد میں آگیا ،اسے کسی نے کچھ نہیں دیا ۔ علی ع نماز پڑھ رہے تھے ، انھوں نے اپنی چھوٹی انگلی سے انگوٹھی اتارلی ۔اس پر رسول اللہ ص نے عاجزی سے اللہ تعالی سے دعا کی کاور کہا : یا الہی میرے بھائی موسی نے تجھ سے دعا کی تھی اور کہا تھا : “اے میرے پروردگار ! میرا سینہ کھول دے اور میرا کا آسان کردے اورمیری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ لیں ، اور میرے اپنوں میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا مددگار بنادے تاکہ میں تقویت حاصل کرسکوں اور انھیں میرا شریک کار بنادے تاکہ ہم کثرت سے تیری تسبیح کریں اور بکثرت تجھے یاد کیا کریں “۔تب تو نے انھیں وحی بھیجی کہ اے موسی ! تمھاری دعا قبول ہوگئی ۔اے اللہ ! میں تیرا بندہ اور نبی ہوں ۔ میرا بھی سینہ کھول دے ،میرا کام بھی آسان کردے اور میرے اپنوں میں سے علی ع کو میرا مددگار بنادے تاکہ میں اس سے اپنی کمر مضبوط کرسکوں “۔ ابو ذر کہتے ہیں کہ ابھی رسول اللہ نے اپنی بات پوری کی ہی تھی جبریل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے :” إنما وليكم الله ورسوله”
علمائے اہل سنت کی بھی ایک بڑی تعداد نے اس آیت کے علی بن ابی طالب علیہ الصلواۃ والسلام کےبارے میں نازل ہونے کے متعلق روایت کی ہے ۔ میں ان میں سے فقط علمائے تفسیر کا ذکر کرتا ہوں :
1:- تفسیر کشّاف عن حقائق التنزیل ۔جار اللہ محمود بن عمر زمخشری سنہ 538 ھ جل 1 صفحہ 649
2:-تفسیر الجامع البیان ۔(4)حافظ محمد بن جریر طبری سنہ 310 ھ جلد 6 صفحہ 288
3:-تفسیر زاد المسیر فی علم التفسیر ۔سبط ابن جوزی سنہ 654ھجلد 2صفحہ 219۔4:- تفسیر الجامع الاحکام القرآن ۔محمد بن احمد قرطبی سنہ 671ھ جلد 63صفحہ 219
5:- تفسیر کبیر ۔امام فخر الدین رازی شافعی سنہ 606ھ جلد12 صفحہ 26۔6:- تفسیر القرآن العظیم ۔اسماعیل بن المعروف ابن کثیر سنہ 774ھ جلد 2 صفحہ 71
7:-تفسیر القرآن الکریم ۔ابو البرکات عبداللہ بن احمد نسفی سنہ 710 ھ جلد 1صفحہ 289۔8:- تفسیر شواہد التنزیل لقواعد التفصیل والتاویل ۔حافظ حاکم حسکانی جلد 1 صفحہ 161۔9:- تفسیر درّمنثور ۔حافظ جلال الدین سیوطی سنہ 911 ھ جلد 2 صفحہ 293
10:- اسباب النزول ۔ امام ابو الحسن واحدی نیشاپوری سنہ 468ھ صفحہ 148
11:- احکام القرآن ۔ابو بکر احمد بن علی الجصاص حنفی سنہ 370ھ جلد 4 صفحہ 103
12:- التسہیل لعلوم التنزیل ۔حافظ کلبی غرناطوی سنہ ھ جلد 1 صفحہ 181