حدیث ثقلین
اہل سنت امام مسلم نے اپنی صحیح میں زید بن ارقم سے نقل کرتے ہیں: ایک دن پیغمبر اکرمۖ نے ایک ایسے تالاب کے کنارے ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس کا نام ”خم” تھا یہ مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع تھا اس خطبے میں آپۖ نے خداوندکریم کی حمدو ثنا کے بعد لوگوں کو نصیحت فرمائی اور یوں فرمایا:



ترمذی نے بھی اس حدیث کے متن کو لفظ ”عترتی اھل بیتی” کے ساتھ نقل کیا ہے : متنِ حدیث اس طرح ہے:

بعد ، أحدھما أعظم من الاخر : کتاب اللّہ
حبل ممدود من السماء اِلی الأرض و عترت
أھل بیت ، لن یفترقا حتی یردا علَّ الحوض
فانظروا کیف تخلفون فیھما”


حددیث ثقلین کی ٣٤ صحابہ و صحابیات نے جناب رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم سے روایت کی ہے، اور دور تالیف سے آج تک ہر عہد کے علماء ،انہیں حدیث و سیرت و مناقب و تاریخ کی کتابوں میں درج کرتے چلے آئے ہیں:
١۔ حضرت امیرالمو منین علی علیہ السلا م سے بزار، محب الدین طبری ،دولالی، سخاوی، سمہودی وغیرہ نے اپنی تالیفات میں حدیث ثقلین کو درج کیا ہے۔
٢۔ امام حسن سے ابن قندوزی نے ” ینابیع المودة” میں حدیث ثقلین کی روایت کی ہے ۔
٣۔سلمان فارسی سے بھی قندوزی نے حدیث ثقلین کی روایت کی ہے ۔
٤۔ حضرت ابوذرغفاری سے ( صحیح ترمذی )
٥۔ ابن عباس سے ( قندوزی)
٦۔ ابوسعیدی خدری سے (مسعودی، طبری، ترمذی و غیرہ )
٧۔ جابر بن عبد اللہ انصاری سے (ترمذی ،ابن اثیر و غیرہ)
٨۔ ابوالہیثم تیہان سے (سخاوی وقندوزی)
٩۔ ابورافع سے (سخاوی وقندوزی )
١٠۔ حذیفہ یمان سے (، محب الدین طبری ،مودةالقربی)
١١۔ حذیفہ بن اسید غفاری سے (ترمذی،ابونعیم اصفہانی،ابن اثیر ،سخاوی و غیرہ)
١٢ ۔ خزیمہ بن ثابت سے (سخاوی ،سہمودی،قندوزی )
١٣۔ ابوہریرہ سے (بزار ، سخاوی،سہمودی)
١٤ ۔ زیدبن ثابت سے (احمدبن حنبل، محب الدین طبری، ابن اثیر و غیرہ)
١٥ ۔ عبد اللہ بن حنطب سے (طبرانی،ابن اثیر وغیرہ)
١٦۔ جبیربن مطعم سے (ابونعیم اصفہانی و غیرہ)
١٧ ۔ براا بن عازب سے ( ابو نعیم اصفہانی)
١٨۔ انس بن مالک سے ( ابو نعیم اصفہانی )
١٩ ۔ طلحہ بن عبید اﷲ بن تمیمی سے ( قندوزی )
٢٠۔ عبد الرحمن بن عوف سے ( قندوزی )
٢١۔ سعد بن وقاص سے ( قندوزی )
٢٢۔ عمرو بن عاص ( خوارزمی )
٢٣۔ سہل بن سعد انصاری (سخاوی ، سمہودی )
٢٤ ۔ عدی بن حاتم ( سخاوی ،سمہودی و غیرہ)
٢٥۔ عقبہ بن عامر (سخاوی وغیرہ )
٢٦۔ ابو ایوب انصاری ( سخاوی)
٢٧۔ شریح خزاعی ( سخاوی ، سمہودی و غیرہ)
٢٨۔ ابو قدامہ انصاری ( سخاوی وغیرہ )
٢٩۔ ضمیرہ ٔ اسلمی( سخاوی وغیرہ)
٣٠۔ ابو لیلی انصاری ( سخاوی ، سمہودی ، قندوزی )
٣١۔ حضرت فاطمہ الزہرا ص سے ( قندوزی )
٣٢۔ ام المومنین ام سلمہ رض سے ( سخاوی س،سمہودی )
٣٣۔ ام ہانی بنت ابو طالب سے ( سخاوی، سمہودی وغیرہ )
٣٤۔ زید بن ارقم سے ( صحیح مسلم ،مسند احمد بن حنبل ، کنزالعمال ۔ سیوطی؛ در منثور،ترمذی)
.
.
حدیث ثقلین کے منابع:
صحیح مسلم بن حجاج ج 7 ص 122
ابو داؤد مسند میں
ترمذی جزء دوم ص 307 سنن، میں
نسائی در ص 30 خصائص میں
احمد بن حنبل جلد سوئم صص 14 و 17، جلد صص 26 و 59 جلد چہارم و صص 182 و 189 جلد پنجم مسند، میں
حاکم جلد سوئم صص 109 و 148 مستدرک میں
حافظ ابو نعیم اصفهانی ص 355 جلد اول حلیة الاولیاء میں
سبط ابن جوزی صفحه 182 تذکره الاولیاء میں
ابن اثیر الجزری جلد 2 ص 12 و ص 147 ج 3 اسدالغابه میں
حمیدی جمع بین الصحیحین میں
رزین جمع بین الصحاح السته میں
طبرانی معجم الکبیر میں
ذهبی تلخیص مستدرک میں
ابن عبد ربه عقد الفرید میں
محمد بن طلحه شافعی مطالب السؤل میں
خطیب خوارزمی مناقب میں
سلیمان بلخی حنفی باب 4 ینابیع الموده میں
میر سید علی همدانی مودة دوئم از مودة القربی میں
ابن ابی الحدید شرح نهج البلاغه میں
شبلنجی ص 99 نور الابصار میں
نورالدین ابن صباغ مالکی ص 25 فصول المهمة میں
حموینی فرائد السمطین میں
امام ثعلبی تفسیر البیان میں
سمعانی و ابن مغازلی شافعی مناقب میں
محمد بن یوسف گنجی شافعی باب اول صحت خطبه غدیر خم کے ضمن میں اور ص 130 کفایة الطالب باب 62 میں
محمد بن سعد کاتب ص 8 جلد 4 طبقات میں
فخر رازی در ص 113 ج 4 تفسیر آیت اعتصام کی تفسیر میں
ابن کثیر دمشقی ص 113 جلد چہارم تفسیر میں آیت مودت کی تفسیر میں
ابن عبد ربه ص 158 اور 346 جلد 2 عقد الفرید میں
ابن ابی الحدید ص 130 جزء ششم شرح نهج البلاغه میں
سلیمان حنفی قندوزی صص 18، 25، 29، 30، 31، 32، 34، 95، 115، 126، 199 و 230 ینابیع المودة میں مختلف عبارات کے ساتھ
٭ ابن حجر مکی صص 75، 78، 90، 99 و 136 صواعق المحرقة میں،
اور دیگر اکابر علمائے اہل سنت نے مختصر سے لفظی اختلاف کے ساتھ اس حدیث شریفہ کو شیعہ اور سنی منابع کے حوالے سے تواتر کے ساتھ رسول اکرم صلی الله علیه و آله و سلم سے نقل کیا ہے














































































حدیثِ ثقلین کا انکار
قارئین: حدیثِ ثقلین جو کہ شیعہ سنی کے نزدیک ایک ثابت شدہ حدیث ہے اور سونے جیسی کھری اسناد کے ساتھ ثابت ہے جس سے اہلِ بیت علیہم السلام کی خلافت و امامت ثابت ہوتی ہے مولانا اسحاق صاحب نے سِرے سے ہی اس حدیث کا انکار کیا چنانچہ فرماتے ہیں:
“یہ ذرہ جو شیعہ حضرات پڑھتے ہیں آپ نے میدانِ عرفات میں کہا کہ میں دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں
ایک قرآن ایک اہلبیت جو ان کو مضبوط پکڑ کر رکھے گا وہ گمراہ نہیں ہوگا یہ خطبہ بھی ان کا ٹھیک نہیں ہے اہلبیت کا ذکر آپ نے کیا مگر اس میں یہ نہیں کہ دونوں کو پکڑ کر رکھو وہ صحیح الفاظ یہ ہیں وہ غدیر خم پر دیا کہ میں دو عظیم چیزیں چھوڑ رہا ہوں ایک اللہ کی کتاب ہے پکڑنے کے لیے صرف اس کے لیے کہا ہے اس میں ہدایت ہے نور ہے اس کو مظبوط پکڑنا، اہلبیت جو فرمایا نہ “ان کے بارے میں دین کا نہیں کہا کہ ان سے دین لینا ہے یا پکڑنا ہے” کوئی لفظ ہے جہاں یہ تمسک آیا ہے یہ ضعیف و موضوع ہے”
وڈیو پوسٹ میں موجود ہے لنک بھی ملاحظہ کیجئے :
جواب: قارئین جیسا کہ ہم نے گزارش کی تھی کہ ان کا بنیادی ہدف اہلِ علیہم السلام کی امامت کا رد کرنا ہے تو اس جو بھی دلیل ہوگی اس کا انکار ان پر لازم ہوجائے گا چونکہ اگر انھوں نے اہلِ بیت علیہم السلام کو جانشینِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مان لیا تو ان کا پورا نظام ہ خلافت سے لیکر نکاحِ متعہ تک باطل ہوجائے گا۔
خیر آمد برسر مطلب
حدیثِ ثقلین عند الفریقین ثابت شدہ حدیث ہے اس کا انکار محض تعصب ہے جیسا کہ آلوسی بغدادی فرماتے ہیں :
“أن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – قال «إني تارك فيكم الثقلين، فإن تمسكتم بهما لن تضلوا بعدى أحدهما أعظم من الآخر: كتاب الله وعترتي أهل بيتي» وهذا الحديث ثابت عند الفريقين أهل السنة والشيعة”
یعنی: رسول اللہﷺ کا ارشاد : ”لوگو! میں تم میں ایسی ( دو) چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم نے ان کو تھامے رکھا تو کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے: ( ۱) اللہ تعالیٰ کی کتاب اور ( ۲) اپنی اہل بیت۔ یہ حدیث فریقین (شیعہ، سنی) کے نزدیک ثابت شدہ ہے
حوالہ: [مختصر التحفه، ص 52 طبع السلفیة]
قارئین: اگر حدیثِ ثقلین کے متعلق ہم تفصیل سے بات کریں تو تحریر بہت طولانی ہوجائے گی ہم فقط علماء اہلِ سنت کی تصحیحات آپ خدمت میں پیش کرتے ہیں جس کے بعد آپ کے لیے فیصلہ کرنا آسان ہوجائے گا
1: کنز العمال میں ہندی متقی حدیث ثقلین کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
“إني قد تركت فيكم ما إن أخذتم به لن تضلوا، كتاب الله، سبب بيد الله، وسبب بأيديكم وأهل بيتي”.
(ابن جرير) وصححه”
یعنی: ابن جریر طبری نے اس کی تصحیح کی ہے۔
حوالہ:[ کنزالعمال جلد 1 ص 379، 380 طبع موسسة الرسالة]
2: حاکم نیشابوری فرماتے ہیں :
“حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ “
یعنی: یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
حوالہ:[ المستدرک علی الصحیحین جلد 3 ص 118 حدیث 4576 طبع دار الکتب العلمیة]
3 : امام بوصیری حدیث ثقلین کو نقل کرکے فرماتے ہیں :
“رَوَاهُ إِسْحَاقُ بِسَنَدٍ صَحِيحٍ”
اس کی سند صحیح ہے ۔
حوالہ: [ إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة
جلد 7 ص 210 حدیث: 6683 ،طبع دار الوطن للنشر، الرياض]
4: محاملی کی تصحیح :
جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں:
محاملی فی امالیہ و صحیح
یعنی: محاملی نے اپنی امالی اسے صحیح کہا ہے۔
حوالہ:[ مسند علي بن أبي طالب ص 192 حدیث: 605، طبع حیدر آباد دکن]
5: شمس الدین ذہبی کی تصحیح، ابنِ کثیر کہتے ہیں :
قَالَ شَيْخُنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الذَّهَبِيُّ: وَهَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
ہمارے شیخ ابوعبداللہ (یعنی شمس الدین) ذہبی کہتے ہیں یہ حدیث صحیح ہے۔
حوالہ: [ البدایة والنھایة جلد 7 ص 668 طبع دار الھجر]
اس کے علاوہ بھی اس حدیث کی درجنوں علماء نے تصحیح کی ہے جیسے:
1 : ابن حجر عسقلانی
2 : ابن حجر مکی
3 ؛ البانی
4 ؛ ابنِ کثیر
ْ5: جمال الدین قاسمی
6: علامہ ہیثمی صاحب مجمع الزوائد
7: سمھودی
8 : احمد شاکر
9 : شعیب الارنووط
10: علامہ مناوی
ہم طوالت کے خوف سے یہیں بات کا اختتام کرتے ہیں اب فیصلہ آپ خود کیجئے کہ ایسی واضح اور ثابت شدہ حدیث کا انکار کرنے والا شخص
کیا اہلِ حق میں سے ہوسکتا ہے ؟
کیا انہیں حق گو کہنا حق کے ساتھ ظلم نہیں ؟
والسلام
خاکسار عبداللہ الإمامي






قال رسول الله ﷺ وآلہ ! اني تارك فیکم الثقلین ما ان تمسسکتم بھما لن تضلوا بعدي کتاب الله و عترتي__
ترجمہ: “میں تم میں دو عظیم الشان چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں جن کا دامن اگر تم نے تھامے رکھا تو میرے بعد ہرگز گمراہی کا شکار نہ ہونگے ایک الله کی کتاب اور دوسری میری عترت ؑ ___
(معجم احادیث معتبرہ/ جلد 1 / کتاب علم اصول الفقہ/ باب 5 / حدیث 12)
حضرت امیر المومنین ؑ نے عترت ؑ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
انا و الحسن ؑ و الحسین ؑ و الائمة التسعة من ولد الحسین ؑ تاسعھم مھدیھم و قائمھم لا یفارقون کتاب الله و لا یفارقھم حتی یردوا علی رسول الله ﷺ وآلہ و اله حوضه
ترجمہ: “عترت ؑ سے مراد میں (علی ؑ) ہوں حسن ؑ و حسین ؑ ہیں اور نسل حسین ؑ سے ہونے والے نو امام ہیں۔ ان میں سے نواں ان کا مہدی ؑ اور قائم ؑ ہو گا۔ نہ یہ امام الله کی کتاب سے جدا ہونگے اور نہ کتاب ان سے یہاں تک کہ یہ تمام ہستیاں رسول اکرم ﷺ وآلہ پر آپ کے حوض کے پاس وارد ہونگی”.
(معجم احادیث معتبرہ/ جلد 2 / کتاب الامامت و الائمہ ؑ / باب 52 / حدیث 2)


.
دار العلوم کراچی کی طرف ایک کتاب ” المدونة الجامعة للاحاديث المروية عن النبي الكريم ﷺ ” کے کچھ جلد آئے ہیں۔ اس کتاب کی خاصیت یہ ہے کہ اہل سنت کے ذخیرہ احادیث میں تمام احادیث کو ایک جگہ جمع کیا گیا ہے اور ان تمام کو ایک عالمی حدیث نمبر کے تحت نقل کیا گیا ہے اور اسکے زیل میں مختلف حوالے اور شواہد کو نقل کیا گیا ہے جہاں جہاں وہ روایت کتب احادیث میں آئی ہے۔
اس کتاب کے جلد ۲ پر محققین نے حدیث ثقلین کے طرق کو جمع کیا گیا ہے۔ جو ہم یہاں سکین کے ذریعے پیش کر رہے ہیں۔
نوٹ : اس میں انہوں کثیر شواہد و طریق کو چھوڈ دیا ہے۔








