حدیث ثقلین (بمعنی دو خلیفہ)

دو خلیفہ (قرآن اور اہل بیت ع)
رسول ص نے فرمایا میں تمھارے درمیان اپنے دو خلیفہ چھوڑ کر جا رہا ہوں۔
قال رسول الله إني تارك فيكم الخليفتين من بعدي كتاب الله و عترتي أهل بيتي و إنهما لن يتفرقا حتى يردا على الحوض
الراوي: زيد بن ثابت المحدث: الألباني – المصدر: تخريج كتاب السنة – الصفحة أو الرقم: 754
خلاصة حكم المحدث: صحيح
البانی نے کہا، صحیح
اب اسے مجمع الزوائد میں دیکھتے ہیں
إني تركت فيكم خليفتين كتاب الله وأهل بيتي وإنهما لن يتفرقا حتى يردا على الحوض الراوي: زيد بن ثابت المحدث: الهيثمي – المصدر: مجمع الزوائد – الصفحة أو الرقم: 1/175 خلاصة حكم المحدث: رجاله ثقات‏‏ ‏‏
ایک اور حدیث
إني تارك فيكم خليفتين كتاب الله عز وجل حبل ممدود ما بين السماء والأرض أو ما بين السماء إلى الأرض وعترتي أهل بيتي وإنهما لن يفترقا حتى يردا علي الحوض الراوي: زيد بن ثابت المحدث: الهيثمي – المصدر: مجمع الزوائد – الصفحة أو الرقم: 9/165 خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد
رسول اکرم نے کہا، میں اپنے بعد دو خلیفے چھوڑ کر جا رہا ہوں، ایک اللہ کا پاک کلام (قرآن) جو زمین اور آسمان کے درمیان ذریعہ ہے اور دوسری میری اہلبیت، یہ دونوں تب تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے جب تک کوثر پر نہ پہنچ جائیں۔
حیثمی نے کہا، اس کی اسناد مضبوط ہیں۔
سیوطی
إني تارك فيكم خليفتين : كتاب الله حبل ممدود ما بين السماء والأرض، وعترتي أهل بيتي، و إنهما لن يتفرقا حتى يردا علي الحوض الراوي: زيد بن ثابت المحدث: السيوطي – المصدر: الجامع الصغير – الصفحة أو الرقم: 2631 خلاصة حكم المحدث: صحيح
البانی
إني تارك فيكم خليفتين : كتاب الله حبل ممدود ما بين السماء والأرض ، وعترتي أهل بيتي ، و إنهما لن يتفرقا حتى يردا علي الحوض
الراوي: زيد بن ثابت المحدث: الألباني – المصدر: صحيح الجامع – الصفحة أو الرقم: 2457
خلاصة حكم المحدث: صحيح
۔
۔
۔
رسول خدا (ص) کے دو کامل خلیفے اور جانشین کون ؟
رسول خدا (ص) نے فرمایا میں تم میں دو کامل خلیفہ و جانشین چھوڑ کر جا رہا ہوں آئیے دیکھتے ھیں وہ دو خلفاء کون ھیں
قدیم ترین کتاب ابن ابی شیبہ استاد امام بخاری کی نقل کردہ روایت کو ذکر کرتے ہیں:
حدثنا أَبُو دَاوُدَ عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنِ الرُّكَيْنِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، يَرْفَعُهُ، قَالَ:
« إِنِّي تَرَكْتُ فِيكُمُ الْخَلِيفَتَيْنِ كَامِلَتَيْنِ: كِتَابَ اللَّهِ، وَ عِتْرَتِي، و إِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّي يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ »
میں تم میں دو کامل خلیفہ و جانشین چھوڑ کر جا رہا ہوں، خداوند کی کتاب اور اپنی عترت (اہل بیت)، اور حوض کوثر کے کنارے میرے پاس آنے تک، وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔
إبن أبي شيبة الكوفي، ابوبكر عبد الله بن محمد (متوفاي235 هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج 6، ص309، ح31679، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد – الرياض، الطبعة: الأولي، 1409هـ؛ اعربی کتاب اور اردو کتاب کا سکین پیچ بھی ملاحظہ کریں
بررسی سند روايت:
عُمَرُ ابْنُ سَعْد:
یہ کتاب صحیح مسلم اور دوسری صحاح ستہ کا راوی ہے:
عمر بن سعد بن عبيد أبو داود الحفري بفتح المهملة والفاء نسبة إلي موضع بالكوفة ثقة عابد من التاسعة مات سنة ثلاث ومائتين م 4
۔۔۔۔ یہ ایک ثقہ و عابد انسان تھا۔۔۔۔۔
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاي852هـ)، تقريب التهذيب، ج1 ، ص413، رقم: 4904، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشيد – سوريا، الطبعة: الأولي، 1406 – 1986.
شريك بن عبد الله:
یہ کتاب صحیح بخاری، صحیح مسلم اور دوسری صحاح ستہ کا راوی ہے:
شريك بن عبد الله النخعي الكوفي القاضي بواسط ثم الكوفة أبو عبد الله صدوق يخطيء كثيرا تغير حفظه منذ ولي القضاء بالكوفة وكان عادلا فاضلا عابدا شديدا علي أهل البدع من الثامنة مات سنة سبع أو ثمان وسبعين خت م 4
یہ بہت سچّا اور عادل، فاضل، عابد انسان تھا کہ جو اہل بدعت پر بہت سخت تھا۔
تقريب التهذيب ، ج1 ، ص266، رقم: 2787
ركين بن الربيع الفزاري:
یہ کتاب صحیح مسلم اور دوسری صحاح ستہ کا راوی ہے:
ركين بالتصغير بن الربيع بن عميلة بفتح المهملة الفزاري أبو الربيع الكوفي ثقة من الرابعة مات سنة إحدي وثلاثين بخ م 4
وہ کوفی و ثقہ تھا۔
تقريب التهذيب ، ج 1، ص1944، رقم: 1956
القاسم بن حسان:
القاسم بن حسان العامري الكوفي مقبول من الثالثة د س
اسکی روایات کو قبول کیا جاتا تھا۔
تقريب التهذيب، ج1 ، ص449، رقم: 5454
زيد بن ثابت:
صحابي.
یہ راوی صحابی تھے
تصحيح روايت:
ناصر الدين البانی کہ اسکو اپنے زمانے کا بخاری کہا جاتا تھا۔ اس نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے:
2457. إني تارك فيكم خليفتين : كتاب الله حبل ممدود ما بين السماء و الأرض و عترتي أهل بيتي و إنهما لن يتفرقا حتي يردا علي الحوض
( حم طب ) عن زيد بن ثابت .
( صحيح )
ألباني، محمد ناصر الدين (متوفاي1420هـ)، صحيح جامع الصغير وزيادته، ج1، ص482، ح2457، ناشر: المكتب الإسلامي .
علی ابن ابی بكر ہيثمی نے بھی اپنی کتاب میں دو جگہ پر اس روایت کی سند کو صحیح قرار دیا ہے:
رواه الطبراني في الكبير ورجاله ثقات.
الهيثمي، ابوالحسن نور الدين علي بن أبي بكر (متوفاي 807 هـ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج 1، ص170، ناشر: دار الريان للتراث/ دار الكتاب العربي – القاهرة، بيروت – 1407هـ.
رواه أحمد وإسناده جيد
مجمع الزوائد، ج 9، ص163
قرآن و اہل بيت عليہم السلام ہر دو رسول خدا (ص) کے جانشین ہیں، انکی جانشینی کو قبول نہ کرنا یا ان میں سے ایک کی اتباع و پیروی نہ کرنا، یہ رسول خدا (ص) کے فرمان کو ردّ کرنے کے مترادف ہے کہ جو انسان کے لیے ابدی گمراہی کا سبب بنتی ہے:
وَما كانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ إِذا قَضَي اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْراً أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالاً مُبيناً.
کسی بھی مؤمن مرد اور مؤمنہ عورت کے لیے اپنی مرضی کرنا جائز نہیں ہے، جب خدا اور اسکا رسول کسی کام کے بارے میں فیصلہ کریں اور جو بھی خدا اور اسکے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ واضح گمراہی میں مبتلا ہوا ہے۔
سورہ أحزاب آیت 36
اس بیان کے ساتھ وہ لوگ جہنوں نے اہل بیت کی اطاعت کو چھوڑ کر دوسروں کی اطاعت کی ہے، واضح ہو جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے آپکو کس گمراہی میں ڈالا ہے ؟!
2. اہل بیت کی اطاعت مطلق (اطاعت بے چون و چرا) واجب ہے، جس طرح کہ قرآن کی بھی اطاعت مطلق واجب ہے، کوئی بھی یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ قرآن کی اطاعت کے ساتھ، اہل بیت (ع) کی اطاعت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اس صورت میں رسول خدا (ص)کی نافرمانی کرنا لازم آئے گا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث خلیفتین مکمل جامع دلائل و برھان کے ساتھ سلفیوں اور دیوگندیوں کو کھلا چیلنج ھے
چند دن قبل ہم نے ایک روایت المصنف لابن ابی شیبہ سے لگائ تھی جس میں اس روایت کی مکمل جامع تخریج کی گئ تھی اور اس روایت کو رجال کی روشنی میں صحیح ثابت کیا گیا تھا
جس پر کچھ سلفی حضرات اور چند ناصبی چیچڑوں نے آ کے اپنی جہالت کو پھیلانا شروع کیا اور اپنے ہی محدثین کے بناۓ ہو ۓ اصولوں پر گمراہی پھیلانی شروع کی
وجہ صرف یہ ھے کہ ان کے اندر اھلبیت اطہار علیھم السلام کا بغض اس قدر سرائت کر چکا ھے کہ ان کی شان میں وارد روایات کو بلا سوچے سمجھے ہی رد کر دیتے ہیں کہ اس کی تو سند صحیح نہیں یا فلاں مدلس ھے اس کی معنن روایت پر جرح ھے سماع کی تصریح لاؤ
جبکہ اس جہلاء کی جماعت کو یہ تک نہیں پتا کہ سماع کی تصریح ھے کیا
اب ہم اسی روایت کو ان کے متقدمین محدثین کے اصول پر صحیح حسن ثابت کریں گے اور انہی کی کتب سے ثابت کریں گے ان شاء اللہ عزوجل
اس سے پہلے ہم شریک کی تدلیس پر آتے ہیں
کہ جس کو سلفی وہابڑے اور ناصبی دیو گندی لیکر شور مچاتے ہیں
کہ شریک تو مدلس ھے تو اس کی معنن قابل قبول نہیں
ہم ان سے سوال کرتے ہیں اپنے کسی ایک محدث اور آئمہ جرح و تعدیل کا قول لاو جس میں اس نے حدیث خلیفتین پر شریک کی تدلیس کا ذکر کیا ہو
حافظ ابن حجر عسقلانی
طبقات المدلسین میں فرماتے ہیں
٥٦) ت / شريك بن عبدالله النخعي، القاضي ، مشهور ،
كان من الأثبات ، ولما ولي القضاء تغير حفظه ، وكان يتبرأ
من التدليس ، ونسبة عبد الحق في الأحكام الى التدليس ،
وسبقه الى وصفه به الدارقطني
شریک بن عبداللہ النخعی قاضی القضاة ہیں ثقات میں سے تھے
آخری عمر میں حافظہ خراب ہو گیا تھا یہ تدلیس کو رد کرتے ہیں ان کی طرف عبدالحق نے احکام کے مسائل میں تدلیس کی طرف اشارہ کیا ھے
اور سب سے پہلے ان پر دارقطنی نے تدلیس کی جرح بیان کی ھے
طبقات المدلسین ص 34
حافظ ابن حجر عسقلانی نے طبقات المدلسین میں ان کو طبقہ ثانیہ میں ذکر کیا ھے جن کی تدلیس مضر نہیں ھے
اب ہم مزید طبقہ ثانیہ کے مدلسین کا ذکر کرتے ہیں کیونکہ اس صف میں ان کے بڑے بڑے آئمہ حدیث کھڑے ہیں اگر ان سب کو مدلس مان کے ان کی بیان کردہ روایات کو تدلیس جی زد میں لایا گیا تو اھلسنت اور سلفیوں کے پاس علم الحدیث اور روایات کی صورت میں کچھ نہیں بچے گا
طبقہ ثانیہ کے مدلسین
1 ابراھیم بن سلیمان الاندلسی مدلس
2 ابراھیم بن یزید النخعی الفقیہ مدلس
3 اسماعیل بن ابی خالد الکوفی الثقہ مدلس
4 اشعث بن عبداللہ الحمرانی البصری مدلس
بشیر بن المھاجر الغنوی الکوفی التابعی مدلس
5 الحسن بن ابی الحسن البصری الامام المشھور مدلس
6 الحسن بن علی بن محمد التیمی ابو علی مدلس
7 حماد بن ابی اسامہ ابو اسامہ الکوفی مدلس
8 حماد بن ابی سلیمان الکوفی مدلس
9 خالد بن معدان قاضی
یرسل و یدلس
10 سعید بن عبدالعزیز الدمشقی
11 سعید بن ابی عروبہ البصری
12 سفیان بن سعید الثوری مدلس
13 سفیان بن عینیہ الھلالی مدلس
14 سلیمان بن داود الطیالسی
15 سیلمان بن طرحان التیمی
16 عبدالرزاق بن ھمام الصنعانی
جو کہ احمد بن حنبل کے مشائخ میں سے ھے
طبقات المدلسین ص 30 تا 34
اگر ان سب مدلسین کا عنعنہ مضر ھے تو ہھر ہروگرام تو وڑ گیا سلفیوں کا
کیونکہ یہ سب ان کے چوٹی کے محدثین ہیں
ابن حجر نے حقیقت میں انکو طبقہ ثانیہ میں اس لیے شامل کیا ھے کہ ان کی تدلیس مضر نہیں ھے بلکہ ان کی مدلس روایت بھی قبول کی جاتی ھے
اور رہی بات شریک کی تو شریک پر خود ابن حجر نے تدلیس کی جرح کو رد کر دیا ھے
اب ہم مزید حوالہ جات نقل کرتے ہیں کہ شریک قلیل التدلیس تھے
اور حدیث خلیفتین پر تو شریک کی تدلیس ثابت نہیں بلکہ رکین بن الربیع سے سماع موجود ھے
برھان الدین الحلبی اپنی کتاب
التبيين الأسماء المدلسين میں
کہتے ہیں
شريك بن عبد الله النخعي القاضي كوفي وليس تدليسه بالكثير
ان کی تدلیس زیادہ نہیں ھے
ایسے ہی امام جلال الدین السیوطی اپنی کتاب اسماء المدلسین میں فرماتے ہیں
٢٤ شريك بن عبد الله النخعي
كان قليل التدليس
شریک کی تھوڑی تدلیس کرتے تھے
اسماء المدلسین ص 58
ولي الدين العراقي اپنی کتاب – المدلسين میں کہتے ہیں
شريك بن عبد الله النخعي القاضي مدلس وليس تدليسه بالكثير.
انکی تدلیس زیادہ نہیں ھے
شریک پر سب سے پہلے جس شخص نے تدلیس کی جرح کی ھے وہ ابن حجر عسقلانی کے نزدیک دارقطنی ھے جو کہ خود شریک کی وفات سے 129 سال بعد پیدا ہوا
تو اس لحاظ سے اس کی جرح کی کیا حثییت ھے جب کہ وہ شریک کے زمانے کا ہی نہیں اور شریک کے معاصرین یا اس کے نزدیکی زمانے کے کسی محدث اور جارح نے شریک پر تدلیس کی جرح نہیں کی
اس روایت پر کسی بھی محدث کا جرح نہ کرنا خاص کر شریک کی تدلیس کے حوالے سے ثابت کرتا ھے کہ شریک کہ یہ معنن روایت صحیح ھے
اور سماع رکین سے ثابت ھے
حدیث خلیفتین علماۓ اھلسنت کے نزدیک صحیح اور درجہ حسن پر ھے اس کی اسناد حسن لغیرہ ہیں
آئیے اب دیکھتے ہیں کہ اھلسنت وہابیہ سلفیہ اور شافیعہ اور دیگر علماۓ اھلسنت نے اس حدیث کو اسی سند کے ساتھ اپنی کتب میں جگہ دی ھے اور اس کی اسناد کو صحیح قرار دیا ھے
_______________________________________________
پہلا حوالہ سکین نمبر 1
سب سے پہلے ہم سلفیوں کے امام اور ماہر جرح و تعدیل البانی کی کتاب سے اسی حدیث کو صحیح ثابت کریں گے
صحیح الجامع الصغير زيادتة
الفتح الكبير
تأليف محمد ناصر الدين الألباني
نے اپنی کتاب میں اسی روایت کو نقل کرنے کے بعد صحیح کا حکم لگایا ھے
٢٤٥٧ – إني تارك فيكم خليفتين : كتاب الله حبل ممدود ما بين السماء والأرض ، وعترتي أهل بيتي ، وإنهما لن (١) يتفرقا حتى يردا علي
الحوض» .
١ (صحيح) (حم ، طب عن زيد بن ثابت)
صحیح جامع الصغیر ص 482 ح 2457
________________________________________________
2دوسرا حوالہ
سکین نمبر 2
اسی روایت کو اسی سند سے
ابن ابی عاصم نے اپنی کتاب السنة میں نقل کیا ھے
١٥٩٣ – أنا أبو بكر بن أبي عاصم ، ثنا أبو بكر بن أبي شيبة ، ثنا شريك، عن الركين ، عن القاسم بن حسان ، عن زيد بن ثابت يرفعه قال : «إني قد تركت فيكم
الخليفتين بعدي : كتاب الله ، وعترتي ، إنهما لن
يتفرقا حتى يردا على الحوض
کتاب السنة
للإمام أبي بكر أحمد بن عمرو بن أبي عاصم المتوفى ٢٨٧ هـ
باسم بن فيصل الجوابرة أستاذ الحديث بكلية أصول الديري
اس کتاب کی تحقیق و تخریج کرنے والے استاد الحدیث باسم بن فیصل الجوابرة نے اسی کتاب میں اس روایت کی تخریج میں اسی سند کو حسن قرار دیا ھے
ملاحظہ ہو
إسناده حسن فيه شريك بن عبد الله صدوق ، وفيه القاسم بن حسان قال عنه الحامل
مقبول ووثقه البعض وضعفه آخرين وقد توبع .
رواه الطبراني ۱۷۱/۵ رقم ٤۹۱۱ من طريق ابن أبي شيبة .
ورواه أحمد ۱۸۱/٥ ، والطبراني في الكبير ۱۷۰/۵ رقم ٤٩٢١ من طريق شريك .
قال الهيثمي ۱٦۳/۹ : رواه أحمد وإسناده جيد . وقال أيضا ۱۷۰/۱ رواه الطبراني في معجم
الكبير ورجاله ثقات . وصححه الشيخ ناصر في السلسلة الصحيحة رقم ١٧٦١ .
کتاب السنة لابن ابی عاصم ج 1 ص 1021 ح 1593
________________________________________________
3 تیسرا حوالہ
سکین نمبر 3
اسی روایت کو امام احمد بن حنبل جو کہ سلفیوں کے نزدیک ثقہ ترین اور اھلحدیث مکتب کے بانی ہیں نے اپنی کتاب مسند میں نقل کیا ھے
٢١٤٧٠ – حدثنا الأسود بن عامر ثنا شريك عن الركين عن القاسم بن حسان عن زيد بن ثابت قال: قال رسول الله الله إني تارك فيكم خليفتين كتاب الله حبل ممدود بين السماء والأرض – أوما بين السماء إلى الأرض – وعترتي أهل بيتي وإنهما لن يتفرقا حتى يردا على الحوض» .
مسند احمد کی تحقیق و تخریج کرنے والے عالم حمزہ احمد الزین
نے اس کی سند کو مسند کے حاشیے میں حسن قرار دیا ھے
إسناده حسن، لأجل شريك ولأجل القاسم بن حسان العامري، وثقه العجلي وابن
حبان وابن شاهين
المسند لاحمد بن حنبل ج 16 ص 28 حدیث 21370
________________________________________________
چوتھا اور پانچواں حوالہ سکین نمبر 4 اور 5
ایسے ہی احمد بن حنبل نے اپنی کتاب فضائل الصحابہ میں اسی روایت کو دومقام پر ذکر کیا ھے ہم۔دونوں مقامات کو ظاہر کریں گے
۱۰۳۲) حدثنا عبد الله قال حدثني أبي حدثنا اسود بن عامر نا شريك عن الركين عن القاسم بن حسان عن زيد بن ثابت قال : قال رسول الله الله إني تارك فيكم خلفيتين كتاب الله حبل ممدود ما بين السماء والأرض (۳) أو ما بين بيتي وانها لن (1) يتفرقا حتى يردا على الحوض. السماء والأرض وعترتي أهل :
(۱۰۳۲) اسناده حسن لغيره .
کتاب کے محقق وصی اللہ خان بن محمد عباس نے اسی حدیث خلیفتین کی سند کو حسن لغیرہ قرار دیا ھے
فضائل الصحابہ ج 2 ص 603 ح 1032
ایسے ہی احمد بن حنبل نے اسی روایت کو اسی کتاب یعنی فضائل صحابہ میں شریک تک ایک دوسری سند سے بھی ذکر کیا ھے
روایت ملاحظہ ہو
( ١٤٠٣ ) حدثنا أبو عمرو محمد بن محمود الأصبهاني جاز أبي بكر بن أبي داود نا علي بن خشرم المروزي نا الفضل عن شريك هو ابن عبدالله يعني عن الركين عن القاسم بن حسان عن زيد بن ثابت قال : قال رسول الله الله اني قد تركت فيكم خليفتين كتاب الله وعترتي أهل بيتي وإنهما يردان علي الحوض
وصی اللہ بن محمد عباس نے اس سند کو بھی حسن لغیرہ کہا ھے اور کہا ھے کہ اس کے شواہد کثیر ہیں
( ١٤٠٣) إسناده حسن لغيره . شريك سيء الحفظ لكن له شواهد كثيرة فيما مضى برقم ۱۷۰ .
وفضل هو ابن موسى السينائي أبو عبد الله المروزي الثقة .
وأخرجه أحمد ( ۵ : ۱۸۱ ، ۱۸۲) وابن أبي عاصم في السنة ( ل ٦٧ ب) كلاهما من طريق شريك . وعند أحمد وانها لن يتفرقا حتى يردا على الحوض.
فضائل الصحابہ ج 2 ص 785 ح 1403
________________________________________________
چھٹا حوالہ سکین نمبر 6
اسی روایت کو امام جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب
الجامع الصغير وزوائده والجامع الكبير
الحافظ جلال الدين عبد الرحمن السيوطي المتوفى سنة ٩١١ م
قسم الأقوال
جمع و ترتیب
مجارس أحمد صقر أحمد الجواد
مكتب البحوث والدراسات في دار الفكر
الجزء الثاني ص 443 ح 6526 میں نقل کیا ھے
٦٥٢٦ – قال النبي ﷺ : « إني تارك فيكم خليفتين : كِتَابَ اللهِ حَبْلَ مَمْدُودَ مَا بينَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ، وَعِتْرَتِي أَهْلُ بيتي ، وَإِنَّهُمَا لَمْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ
الْحَوْضَ ) ( حم (۲) طب ) عن زيد بن ثابت رضي الله عنہ
________________________________________________
ساتواں حوالہ سکین نمبر 7
ماضی قریب کے محدث شیخ یوسف النبھانی نے اپنی کتاب
الفتح الكبير
ضم الزيادة إلى الجامع الصغيرة
العلامة الفاضل والملاذ الكامل لوذعى زمانه وفريد أوانه حضرة الشيخ يوسف النبهاني جمل الله مسعاه
نے اسی روایت کو نقل کیا ھے اس پر اعتماد کیا ھے
الفتح لکبیر ج 1 ص 451
_______________________________________________
آٹھواں حوالہ سکین نمبر 8
ابن الملقن متوفی 804 ھجری جوکہ
عمر بن علي بن أحمد بن محمد بن عبد الله، سراج الدين أبو حفص الأنصاري الوادي آشي الأندلسي التكروري المصري الشافعي، ويعرف بابن النَّحْوِيّ
ہیں ابن ملقن اور ابن النحوی کے نام سے جانے جاتے ہیں
انہوں نے اپنی کتاب
تذكرة المحتاج
إلى أحاديث المنهاج
میں اسی روایت کو نقل کیا ھے اور اس پر اعتماد کیا ھے
ومن حديث شريك، عن الركين عن القاسم بن حسان، عن زيد بن ثابت رفعه : إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ خَلِيفَتَيْنِ كِتَابَ اللَّهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْنِي، وَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ
تذکرة المحتاج الی حدیث المنھاج ص 64
________________________________________________
نواں حوالہ اور سکین نمبر 9
ابو یوسف یعقوب بن سفیان الفسوی متوفی 277 ھجری
جو کہ أبو عيسى الترمذي وأبو عبد الرحمن النسائي إبراهيم بن أبي طالب ، الحسن بن سفيان الفسوي ، عبد الرحمن بن خراش ، أبو بكر بن أبي داود ، وأبو بكر بن خزيمة ، محمد بن حمزة بن عمارة الأصبهاني ، أبو عوانة الإسفراييني کے مشائخ ہیں جو کہ انتہائ ثقہ ثبت محدث ہیں انہوں نے اپنی کتاب المعرفة والتاریخ میں اسی روایت کو نقل کیا ھے اور اسی پر اعتماد کیا ھے
المعرفة والتاریخ ج 1 ص 537
________________________________________________
آخری حوالہ ہم
إتحاف السادة المتقين بشرح إحياء علوم الدين سے پیش کرتے ہیں جو کہ
محبّ الدين أبي الفيض محمّد بن محمّد بن عبد الرزاق الحسيني الزبيدي الحنفي المولود سنة 1145هـ کی تالیف ھے انہوں نے بھی اپنی کتاب میں اسی روایت کو نقل کیا ھے اور اس پر اعتماد کرتے ہیں
إتحاف السادة المتقين بشرح إحياء علوم الدين
سکین نمبر 10
تحقیق و تحریر سید ساجد بخاری النقوی
.
.
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم
قال ابی بکر ابن شیبہ
حدثنا أَبُو دَاوُدَ عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ شَرِیکٍ، عَنِ الرُّکَیْنِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ، یَرْفَعُهُ، قَال إِنِّی تَرَکْتُ فِیکُمُ الْخَلِیفَتَیْنِ کَامِلَتَیْنِ:
“”کِتَابَ اللَّهِ، وَ عِتْرَتِی ، و إِنَّهُمَا لَنْ یَتَفَرَّقَا حَتَّی یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ “”
“میں تم میں دو کامل خلیفہ و جانشین چھوڑ کر جا رہا ہوں، خداوند کی کتاب اور اپنی عترت (اہل بیت)، اور حوض کوثر کے کنارے میرے پاس آنے تک، وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔”
المصنف لابن ابی شیبہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابو داود عمر بن سعد الحفري
یہ مسلم ابی داود ابن ماجہ سنن نسائ اور ترمذی کا متفق علیہ راوی ھے
قال ذھبی :
الامام الثبت القدوة الولی ابو داود عمر بن سعد الحفری الکوفی العابد
یہ امام ثبت قابل اتباع عابد ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدث عن مالک بن مفعول و مسعر بن کدام و صالح بن حسان و بدر بن عثمان و سفیان الثوری
ولکنہ ثقہ صاحب الحدیث
روی عنہ
احمد بن حنبل و محمود بن غیلان و اسحاق بن منصور و علی بن حرب وابی شیبہ و ابو کریب
“وقال ابو حاتم صدوق رجل صالح “
ابو حاتم نے کہا صالح بزرگ اور ثقہ ہیں
(جرح و تعدیل جلد 6 ص 112)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقال دارقطنی : “کان من الصالحین الثقات “
دارقطنی نے کہا :
یہ ثقات میں ہیں اور صالحین میں سے ہیں
(سیر اعلام النبلاء ذھبی جلد 9 ص 416)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابو داود سجستانی
وقال الاجری عن ابی داود کان جلیلا جدا
الاجری نے ابی داود سے نقل کیا کہ وہ جلیل القدر تھے
(تہذیب التہذیب جلد 3 ص 227)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابن حبان ذکرہ کتاب الثقات
ابن حبان نے ان کا ذکر الثقات میں کیا ھے
(اکمال تہذیب الکمال جلد 10 ص 58 )
(الثقات لابن حبان جلد 8 ص 440)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یحیحی ابن معین
قال عثمان بن سعید: “قلت یحیحی ابن معین
ابی داود الحفری ثقہ “
عثمان بن سعید کہتے ہیں کہ یحیحی ابن معین نے کہا کہ یہ ثقہ ہیں
(جرح و تعدیل جلد 6 ص 112)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابو سعد السمعانی
وقال ابن السمعانی ابی داود کثیر العبادہ
ابن سمعانی کہتے ہیں کہ یہ کثرت سے عبادت کرنے والے تھے
(اکمال تہذیب الکمال جلد 10 ص 58)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علی بن المدینی
لا اعلم انی رایت بالکوفہ اعبد منہ
میں کوفہ میں ان سے بڑے کسی عابد کو نہیں جانتا
(تہذیب التہذیب جلد 3 ص 227)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
العجلی
وقال احمد بن صالح العجلی کان رجلا صالحا متعبدا
عجلی نے ان کا ذکر اپنی کتاب ثقات میں کیا ھے احمد بن صالح نے کہا کہ عجلی نے کہا یہ صالح اور قابل اتباع تھے
(اکمال تہذیب الکمال جلد 10 ص 58)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شریک بن عبداللہ النخعی
اعلی بن عبد اللہ المدینی (المتوفی 234)
کہتے ہیں کہ میں نے یحیی بن سعید القطان (المتوفی 120) کو فرماتے سنا: “قَدِمَ شَرِيكٌ مَكَّةَ، فَقِيلَ لِي آتِهِ، فَقُلْتُ: لَوْ كَانَ بَيْنَ يَدَيَّ مَا سَأَلْتُهُ عَنْ شَيْءٍ، وَضَعَّفَ يَحْيَى حَدِيثَهُ جِدًّا”
شریک مکہ میں آئے تو مجھے ان کے آنے کی خبر دی گئی، تو میں نے کہا، اگر وہ میرے سامنے بھی ہوتے تو میں ان سے کسی چیز کے متعلق نا پوچھتا، اور یحیی نے انہیں سخت ضعیف قرار دیا۔
لضعفاء الکبیر للعقیلی: 2/193
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابراہیم بن سعید الجوہری (المتوفی 249) فرماتے ہیں: “أخطأ شَرِيك في أربع مِئَة حديث”
“شریک نے چار سو حدیثوں میں غلطی کی ہے”
(الکامل لابن عدی: 5/12 وسندہ صحیح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابراہیم بن یعقوب الجوزجانی (المتوفی 259) فرماتے ہیں: “شريك بن عبد الله سيء الحفظ مضطرب الحديث مائل” “شریک بن عبد اللہ خراب حافظے والے اور مضطرب الحدیث مائل شخص تھے”
(احوال الرجال للجوزجانی: 1/150)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام ابو زرعہ الرازی (المتوفی 264) نے فرمایا:
“كان كثير الحديث صاحب وهم، يغلط أحيانا”
“وہ کثیر الحدیث تھے، اور اکثر وہم اور غلطی کرتے تھے۔”
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 4/367)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب امام ابو زرعہ کو بتایا گیا کہ شریک القاضی نے واسط میں باطل روایتیں بیان کی ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ: “(انہیں) باطل نہ کہو” (ایضا) یعنی امام ابو زرعہ کے نزدیک شریک کی غلطیاں زیادہ شدید نہ تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابو الحسن الدارقطنی (المتوفی 385) فرماتے ہیں:
“وَشَرِيكٌ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ فِيمَا يَتَفَرَّدُ بِهِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ”
“شریک جس روایت کو روایت کرنے میں منفرد ہوں اس میں وہ لیس بالقوی ہیں، واللہ اعلم۔”
(سنن الدارقطنی: 2/150 ح 1307)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: اس کے برعکس ایک دوسری جگہ پر دارقطنی نے شریک کو “حفاظ ثقات” میں شمار کیا ہے۔ (سنن: 1/89)
ابو بکر البیہقی (المتوفی 458) فرماتے ہیں: “وَشَرِيكٌ مِمَّنْ لَا يُحْتَجُّ بِهِ فِيمَا يُخَالِفُهُ فِيهِ أَهْلُ الْحِفْظِ وَالثِّقَةُ لِمَا ظَهَرَ مِنْ سُوءِ حِفْظِهِ” “شریک ان لوگوں میں سے ہے جو اگر اہل الحفظ والثقہ کی مخالفت کریں تو حجت نہیں پکڑی جاتی جیسا کہ ان کے حافظے میں خرابی ظاہر ہوئی ہے”
(معرفۃ السنن والآثار: 12/388 # 17115)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ہم #معدلین کی طرف آتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمرو بن فلاس متوفی 249 ھجری کان یحیحی بن سعید لا یحدث عن شریک ولا عن اسرائیل و کان عبدالرحمن یحث عنھما
عمرو بن فلاس کہتے ہیں :
یحیحی بن سعید نہ شریک سے روایت کرتے ہیں نہ اسرائیل سے جبکہ عبدالرحمن دونوں سے روایت کرتے تھے
اس کا فائدہ کیونکہ عبدالرحمن بن مھدی صرف ثقہ سے ہی روایت کرتے تھے
(الضعفا ء الکبیر العقیلی جلد 2 ص 193 )
(الجرح والتعدیل ابن حاتم جلد 4 ص 365)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عبداللہ بن مبارک (متوفی 181 ھجری) کہتے ہیں
شریک اعلم بحدیث الکوفین من سفیان الثوری
اہل کوفہ کی حدیث کو شریک سفیان ثوری سے بہتر جانتے تھے
(جرح و تعدیل جلد 4 ص 366)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عیسی بن یونس السبیعی متوفی 187 ھجری
مارایت اقط اورع فی علمہ من شریک
میں نے کبھی کسی کو اپنے علم میں شریک سے زیادہ متقی نہیں دیکھا
(جرح و تعدیل جلد 4 ص 366)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد بن حنبل فرماتے ہیں
کان عاقلا صدوقا محدث عندی وکان شدیدا علی اھل الریب والبدع قدیم السماع عن ابی اسحاق قبل زھیر و قبل
اسرائیل ۔۔۔۔۔۔
یہ عاقل صدوق محدث تھے میرے نزدیک اھل بدعت پر سخت تھے اور ان کا سماع ابی اسحاق سے زھیر اور اسرائیل سے بھی پہلے ھے
(الضعفاء الکبیر جلد 2 ص 193)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یحیحی ابن معین فرماتے ہیں :
شریک ثقہ من یسال عنہ
شریک ثقہ ھے ان کے بارے کون پوچھتا ھے
(جرح و تعدیل جلد 4 ص 367)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام یحیی بن معین سے پوچھا گیا کہ آپ کے نزدیک ابو اسحاق سے روایت کرنے میں کون زیادہ پسندیدہ ہے،
شریک یا اسرائیل؟
تو انہوں نے فرمایا:
“شریک زیادہ پسندیدہ اور مقدم ہے”
(الجرح والتعدیل: 4/367 و اسنادہ صحیح)
ایک دوسری روایت میں امام ابن معین سے پوچھا گیا کہ منصور سے روایت کرنے میں شریک آپ کو زیادہ پسند ہے یا ابو الاحوص؟
تو انہوں نے فرمایا:
“شریک اس معاملے میں زیادہ اعلم ہیں”
(الجرح والتعدیل: 4/367 واسنادہ صحیح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسماعیل بخاری نے شریک کی حدیث کی تصحیح کی
اور کہا : ھو حدیث حسن وقال لا,اعرفہ من حدیث ابی اسحاق الا من الروایة شریک
اس کی حدیث حسن ھے میں اس کو ابی اسحاق کے طریق کے علاوہ نہیں جانتا
(سنن ترمذی ح 1366)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابن سعد کاتب واقدی متوفی 230 ھجری کہتے ہیں
کان شریک ثقة مامونا کثیر الحدیث و کان یغلط کثیر
شریک مامون تھے کثیر الحدیث تھے لیکن اختلاط کے بعد کثیر غلطیاں کرتے تھے
(طبقات الکبری جلد 6 ص 356)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام عجلی اپنی کتاب الثقات میں کہتے ہیں ثقہ کان حسن الحدیث
یہ ثقہ ہیں اور ان کی روایات حسن درجہ کی ہیں
(الثقات العجلی جلد 1 ص 453)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابو اسحاق الحربی م 285 ھجری کہتے ہیں شریک کان ثقہ
اکمال تہذیب الکمال فی اسماء الرجال ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ نیسابور میں امام حاکم فرماتے ہیں:
“وشريك أحد أركان الفقه والحديث”
“شریک فقہ اور حدیث کے ارکانوں میں ایک ہیں”
(بحوالہ اکمال تہذٰب الکمال: 6/247)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام الجرح والتعدیل شمس الدین ذہبی
(المتوفی 748) فرماتے ہیں:
“كان شريك حسن الحديث إماما فقيها ومحدثا مكثرا”
(تذکرۃ الحفاظ للذہبی: 1/170)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور جگہ پہ فرمایا:
“وَكَانَ مِنْ كِبَارِ الفُقَهَاءِ”
(سیر اعلام النبلاء 7/247)
اور المیزان میں فرمایا:
“الحافظ الصادق أحد الأئمة” (2/270)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام ذہبی نے شریک کو اپنی کتاب “من تکلم فیہ وھو موثق” میں بھی ذکر کیا ہے (1/99 ت 159)
حافظ نور الدین الہیثمی (المتوفی 807) نے شریک کی ایک حدیث کے متعلق فرمایا:
“وَفِيهِ شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ النَّخَعِيُّ، وَهُوَ ثِقَةٌ”
(مجمع الزوائد: 3/211 )
نیز دیکھیں:
(9/123 وقال ھو حسن الحدیث)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حافظ شہاب الدین البوصیری (المتوفی 840)
نے شریک کی ایک روایت کے متعلق فرمایا:
“هَذَا إِسْنَادٌ رُوَاتُهُ ثِقَاتٌ”
(اتحاف الخیرۃ 6/43)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شریک کی ثقاہت اسکین کے ساتھ ثابت ہوگئ
شریک کا سماع رکین سے ثابت ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حافظ مزی نے شریک کے تذکرہ میں ان رواة کا ذکر کیا ھے جن سے شریک نے روایات لی ہیں ان میں تزکرہ کرتے ہوۓ لکھا: “روی عن الرکین بن ربیع “
یعنی انہوں نے رکین بن ربیع سے بھی روایات کی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب #تدلیس کی #جرح پر آتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شریک پر مدلس کی جرح بھی وارد ھے لیکن یہ جرح مضر نہیں کیونکہ سماع کی تصریح موجود ھے اس لیے خطرے کی بات نہیں ھے۔۔۔۔
جس نے بھی شریک پر مدلس کی جرح کی ھے وہ کوئ بھی شریک کے زمانے کا نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابن حزم الاندلسی (المتوفی 456) نے فرمایا:
“وَهَذَا لَا حُجَّةَ فِيهِ، لِأَنَّ شَرِيكًا مُطَّرِحٌ، مَشْهُورٌ بِتَدْلِيسِ الْمُنْكَرَاتِ إلَى الثِّقَاتِ”
“اس میں کوئی حجت نہیں ہے کیونکہ شریک مجروح اور ثقات کی طرف منکرات کی تدلیس کے ساتھ مشہور ہے”
(المحلی بالآثار: 4/48)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حافظ ابو الحسن ابن القطان (المتوفی 628) فرماتے ہیں: “وَشريك مُخْتَلف فِيهِ، وَهُوَ مُدَلّس”
(بیان الوہم الایہام: 3/122)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حافظ ابن الملقن (المتوفی 804) فرماتے ہیں: “شريك بن عبد الله القَاضِي، وَهُوَ مَعْرُوف بتدليس الْمُنْكَرَات عَن الثِّقَات”
(البدر المنیر: 2/597)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ شریک کو ابن حجر، ابو زرعہ ابن العراقی، السیوطی، الحلبی، اور المقدسی وغیرہ نے بھی مدلسین میں ذکر کیا ہے
لیکن کیونکہ ان لوگوں نے شریک کا زمانہ نہیں پایا،اس لیے ان کے قول کی کوئ اہمیت ہی نہیں ھے
دوسرا شریک کا رکین سے سماع ثابت ھے اس لیے سب علتیں مردود ہیں !
ابن حجر نے بھی مدلسین کے دوسرے طبقے میں شریک کو لکھا ھے جو کہ مدلسین کی جرح کی زد میں نہیں ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شریک کی روایات اختلاط سے پہلے اور سماع کی تصریح کے ساتھ درجہ حسن سے نیچے نہیں ہوں گی
ابن حجر نے دوسرے طبقے میں ان کا ذکر کیا ھے
و کان یتبرا من التدلیس
ابن حجر کہتے ہیں تدلیس سے ان کے لیے برآت ثابت ھے !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الرکین بن ربیع
یہ الرکین بن الربیع بن عملیة الفزاری ابو الربیع الکوفی ہیں۔۔۔ (تابعی ہیں)
روی عن حصین بن قبیصة و ابیہ الربیع بن عملیة وابی طفیل عامر بن واثلہ و عبداللہ بن زبیر و عبداللہ بن عمر و عدی بن ثابت و عکرمہ مولی عباس والقاسم بن حسان و قیس بن مسلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روی عنہ اسرائیل بن یونس و جریر بن عبدالحمید وابن ابنہ الربیع بن سھل بن الرکین بن الربیع و سفیان الثوری و شریک بن عبداللہ و شعبہ بن الحجاج و عبدالرحمان بن عبداللہ المسعودی
یحیحی ابن معین والنسائ ثقہ
وقال ابو حاتم صالح
روی لہ البخاری فی کتاب الادب
(تہذیب الکمال فی اسماء الرجال جلد 9 ص 225)
(جرح و تعدیل الرزای جلد 3 ص 460 باب الراء رقم 2070)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
القاسم بن حسان العامری الکوفی
القاسم بن حسان العامری الکوفی اخو عثمان بن حسان وابن اخی عبدالرحمان بن حرملة صاحب عبداللہ بن مسعود
قاسم بن حسان عامری الکوفی ، عثمان بن حسان کے بھائ ہیں اور عبدالرحمان بن حرملة
جو کہ عبداللہ بن مسعود کے غلام تھے ان کے بھتیجے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روی عن ابیہ حسان العامری و زید بن ثابت و عمہ عبدالرحمان بن حرملة و فلفة الجمعفی
یہ اپنے والد حسان عامری اور زید بن ثابت اور اہنے چچا عبدالرحمان بن حرملة سے اور فلفلة جعفی سے روایت کرتے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روی عنہ الرکین بن الربیع والولید بن قیس السکونی
والد ابی بدر شجاع بن الولید بن قیس
ان سے رکین ولید بن قیس اور ابی بدر شجاع بن الولید بن قیس نے روایت کی ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذکرہ ابن حبان فی کتاب الثقات
ابن حبان نے ان کا ذکر الثقات میں کیا ھے
روی لہ ابو داود والنسائ
ان سے ابو داود اور نسائ نے روایات لی ہیں
(تہذیب الکمال فی اسماء الرجال جلد 23 ص 341)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقال العجلی
کوفی تابعی ثقہ
عجلی کہتے ہیں یہ کوفی تابعی اور ثقہ ہیں
(الثقات العجلی جلد 2 ص 210 رقم 1495)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابن شاھین ذکرہ فی الثقات
قال احمد بن صالح ثقہ
ابن شاھین نے ان کا ذکر ثقات میں کیا ھے
احمد بن صالح نے کہا یہ ثقہ ہیں
(الثقات لابن شاھین ص 189 رقم 1148)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زید بن ثابت صحابی رسول ﷺ
یہ زید بن ثابت ابن الضحاک بن زید بن لوذان بن عمرو بن عبد عوف بن غنم بن مالک بن نجار بن ثعلبہ ہیں
قال ذھبی:”الامام الکبیر شیخ المقرئین مفتی المدینہ کاتب وحی حدث عن النبی ﷺ”
(سیر اعلام النبلاء جلد 2 ص 427)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تخریج مکمل ھوئ !!
اس روایت کے شواہد میں کئ طرق سے روایات موجود ہیں
ہم نے تخریج میں شریک کا رکین سے سماع اور شریک پر مدلس کی جرح اور شریک کی توثیق پر مکمل کلام کیا !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحقیق: سید ساجد بخاری