کتاب اللہ وسنتی ضعیف روایت

١۔ حاکم نيشا پوری نے اپنی کتاب مستدرک ميں مذکوره مضمون کو ذيل کی سندوں کے ساتھ نقل کيا ہے.
”عباس بن أب أويس” عن ”أب أويس” عن ”ثور بن زيدالديلم”عن ”عکرمہ” عن ”ابن عباس” قال رسول للهّ :”يا أيّھا الناس اِنّ قدترکت فيکم ، اِن اعتصمتم بہ فلن تضلوا أبداً کتاب للهّ و سنة نبيہ.”
اے لوگو! ميں نے تمہارے درميان دو چيزوں کو چھوڑاہے اگر تم نے ان دونوں کو تھامے رکھاتو ہر گز گمراه نہ ہوگے . اور وه کتاب خدا اور سنت پيغمبرۖ ہيں.

اس حديث کے اس مضمون کے راويوں کے درميان ايک ايسے باپ بيٹے ہيں جو سند کی دنيا ميں آفت شمار ہوتے ہيں وه باپ بيٹے اسماعيل بن ابی اويس اور ابو اويس ہيں کسی نے بھی ان کے موثق ہونے کی شہادت نہيں دی ہے بلکہ ان کے بارے ميں يہ مشہور ہے کہ يہ دونوں جھوٹے اور حديثيں گھڑنے والے تھے.
ان دو کے بارے ميں علمائے رجال کا نظريہ
حافظ مزی نے اپنی کتاب تہذيب الکمال ميں اسماعيل اور اس کے باپ کے بارے ميں علم رجا ل کے محققين کا نظريہ اس طرح نقل کيا ہے: يحيیٰ بن معين ( جن کا شمار علم رجال کے بزرگ علماء ميں ہوتا ہے) کہتے ہيں کہ ابو اويس اور ان کا بيٹا دونوں ہی ضعيف ہيں.
اسی طرح يحيیٰ بن معين سے يہ بھی منقول ہے کہ وه کہتے تھے کہ يہ دونوں حديث کے چور تھے۔ ابن معين سے بھی اسی طرح منقول ہے کہ وه کہتے تھے کہ ابو اويس کے بيٹے پر اعتماد نہيں کيا جاسکتا. ابو اويس کے بيٹے کے بارے ميں نسائی کہتے تھے کہ وه ضعيف اور ناقابل اعتماد ہے .
.
ابوالقاسم لالکائی نے لکھا ہے کہ ”نسائی” نے اس کے خلاف بہت سی باتيں کہی ہيں اور يہاں تک کہا ہے کہ اس کی حديثوں کو چھوڑ ديا جائے.
ابن عدی (جو کہ علماء رجال ميں سے ہيں) کہتے ہيں کہ ابن ابی اويس نے اپنے ماموں مالک سے ايسی عجيب و غريب روايتيں نقل کی ہيں جن کو ماننے کے لئے کوئی بھی تيار نہيں ہے

ابن حجر اپنی کتاب فتح الباری کے مقدمہ ميں لکھتے ہيں ، ابن ابی اويس کی حديث سے ہر گز حجت قائم نہيں کی جاسکتی ، چونکہ نسائی نے اس کی مذمت کی ہے.

حافظ سيد احمد بن صديق اپنی کتاب فتح الملک العلی مينسلمہ بن شيب سے اسماعيل بن ابی اويس کے بارے ميں نقل کرتے ہيں ، سلمہ بن شيب کہتے ہيں کہ ميں نے خود اسماعيل بن ابی اويس سے سنا ہے کہ وه کہہ رہا تھا : جب ميں يہ ديکھتا کہ مدينہ والے کسی مسئلے ميں اختلاف کر کے دو گروہوں ميں بٹ گئے ہيں تو اس وقت ميں حديث گھڑ ليتا تھا .
اس اعتبار سے اسماعيل بن ابی اويس کا جرم يہ ہے کہ وه حديثيں گھڑتا تھا ابن معين نے کہا ہے کہ وه جھوٹا تھا

اس سے بڑھ کر يہ کہ اس کی حديث کو نہ تو صحيح مسلم نے نقل کيا ہے اور نہ ہی ترمذی نے ، اور نہ ہی دوسری کتب صحاح ميں اس کی حديث کو نقل کيا گيا ہے. اور اسی طرح ابو اويس کے بارے ميں اتنا ہی کافی ہے کہ ابو حاتم رازی نے اپنی کتاب ”جرح و تعديل” ميں اس کے بارے ميں يہ لکھا ہے کہ ابو اويس کی حديثيں کتابوں ميں لکھی تو جاتی ہيں مگر ان سے حجت قائم نہيں کی جاسکتی کيونکہ اس کی حديثيں قوی اور محکم نہيں ہيں

اسی طرح ابو حاتم نے ابن معين سے نقل کيا ہے کہ ابو اويس قابل اعتماد نہيں ہے. جب وه روايت صحيح نہيں ہوسکتی جس کی سند ميں يہ دو افراد ہوں تو پھر اس روايت کا کيا حال ہوگا جو ايک صحيح اور قابل عمل روايت کی مخالف ہو. يہاں پر قابل توجہ نکتہ يہ ہے کہ اس حديث کے ناقل حاکم نيشاپوری نے خود اس حديث کے ضعيف ہونے کا اعتراف کيا ہے اسی وجہ سے انہوں نے اس حديث کی سند کی تصحيح نہيں کی ہے ليکن اس حديث کے صحيح ہونے کے لئے ايک گواه لائے ہيں جو خود سندکے اعتبارسے کمزور اور ناقابل اعتبار ہے اسی وجہ سے يہ شاہد حديث کو تقويت دينے کے بجائے اس کو اور ضعيف بنا رہا ہے اب ہم يہاں ان کے لائے ہوئے فضول گواه کو درج ذيل عنوان کی صورت ميں ذکر کرتے ہيں:

حاکم نيشاپوری نے اس حديث کو ابو ہريره سے مرفوع ( ١) طريقہ سے ايک ايسی سند کے ساتھ جسے ہم بعد ميں پيش کريں گے يوں نقل کيا ہے:
اِن قد ترکت فيکم شيئين لن تضلوا بعدھما : کتاب للهّ و سنت و لن يفترقا حتی يردا علَّالحوض. ( ٢)
اس متن کوحاکم نيشاپوری نے درج ذيل سلسلہ سند کے ساتھ نقل کيا ہے:
”الضب” عن ”صالح بن موسیٰ الطلح” عن ”عبدالعزيز بن رفيع” عن ”أب صالح” عن ”أب ہريره”
يہ حديث بھی پہلی حديث کی طرح جعلی ہے .
اس حديث کے سلسلہ سند ميں صالح بن موسی الطلحی نامی شخص ہے جس کے بارے ميں ہم علم رجال کے بزرگ علماء کے نظريات کو يہاں بيان کرتے ہيں:
يحيیٰ بن معين کہتے ہيں: کہ صالح بن موسیٰ قابل اعتماد نہينہے . ابو حاتم رازی کہتے ہيں ، اس کی حديث ضعيف اور ناقابل قبول ہے اس نے بہت سے موثق و معتبر
١)حديث مرفوع: ايسی حديث کو کہا جاتا ہے جس کی سند سے ايک يا کئی افراد حذف ہوں اور ان کی جگہ کلمہ ”رفعہ” استعمال ) کرديا گيا ہوتو ايسی حديث ضعيف ہوگی.(مترجم)
٢) حاکم مستدرک جلد ١ ص ٩٣
افراد کی طرف نسبت دے کر بہت سی ناقابل قبول احاديث کو نقل کيا ہے .
نسائی کہتے ہيں کہ صالح بن موسیٰ کی نقل کرده احاديث لکھنے کے قابل نہيں ہيں، ايک اور مقام پر کہتے ہيں کہ اس کی نقل کرده احاديث متروک ہيں .( ١)
ابن حجر اپنی کتاب ” تھذيب التھذيب” ميں لکھتے ہيں :
ابن حِبانّ کہتے ہيں : کہ صالح بن موسیٰ موثق افراد کی طرف ايسی باتوں کی نسبت ديتا ہے جو ذرا بھی ان کی باتوں سے مشابہت نہيں رکھتيں سر انجام اس کے بارے ميں يوں کہتے ہيں: اس کی حديث نہ تو دليل بن سکتی ہے اور نہ ہی اس کی حديث حجت ہے ابونعيم اس کے بارے ميں يوں کہتے ہيں: اس کی حديث متروک ہے۔وه ہميشہ ناقابل قبول حديثيں نقل کرتا تھا( ٢)
اسی طرح ابن حجر اپنی کتاب تقريب ( ٣) ميں کہتے ہيں کہ اس کی حديث متروک ہے اسی طرح ذہبی نے اپنی کتاب کاشف
ميں اس کے بارے ميں لکھا ہے کہ صالح بن موسیٰ کی حديث ضعيف ہے(٤)
يہاں تک کہ ذہبی نے صالح بن موسیٰ کی اسی حديث کو اپنی کتاب ”ميزان الاعتدال” ميں ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ صالح بن موسیٰ کی نقل کرده يہ حديث اس کی ناقابل قبول احاديث ميں سے ہے.( ٥)

١)تہذيب الکمال جلد ١٣ ص ٩٦ حافظ مزی. )
٢)تہذيب التہذيب جلد ٤ ص ٣٥٥ ، ابن حجر )
٣)ترجمہ تقريب ، نمبر ٢٨٩١ ، ابن حجر )
٤)ترجمہ الکاشف، نمبر ٢٤١٢ ذہبی )
٥)ميزان الاعتدال جلد ٢ ص ٣٠٢ ذہبی

ابن عبدالبرنے اپنی کتاب ”تمہيد” ( ١) ميں اس حديث کے متن کو درج ذيل سلسلہ سند کے ساتھ نقل کيا ہے.
”عبدالرحمن بن يحيیٰ ” عن ”احمد بن سعيد ” عن ”محمد بن ابراھيم الدبيل” عن ”عل بن زيد الفرائض” عن ”الحنين” عن ”کثير بن عبدلله بن عمرو بن عوف” عن ”أبيہ” عن ”جده” .
امام شافعی نے کثير بن عبدلله کے بارے ميں کہا ہے کہ وه جھوٹ کے ارکان ميں سے ايک رکن تھا۔ ( ٢)
ابوداؤد کہتے ہيں کہ وه بہت زياده جھوٹ بولنے والے افراد ميں سے تھا.( ٣)
ابن حبان اس کے بارے ميں کہتے ہيں کہ عبدلله بن کثير نے حديث کی جو کتاب اپنے باپ اور دادا سے نقل کی ہے اس کی بنياد جعل حديث پر ہے اس کی کتاب سے کچھ نقل کرنا اور عبدلله بن کثير سے روايت لينا قطعا حرام ہے صرف اس صورت ميں صحيح ہے کہ اس کی بات کو تعجب کے طور پر يا تنقيد کرنے کے لئے نقل کيا جائے. ( ٤)

١) التمہيد، جلد ٢٤ ص ٣٣١ )
٢) تھذيب التھذيب جلد ٨ ص ٣٧٧ ( دارالفکر) اور تھذيب الکمال جلد ٢٤ ص ١٣٨ )
٣) گزشتہ کتابوں سے مأخوذ )
٤) المجروحين، جلد ٢ ص ٢٢١ ابن حبان
نسائی اور دارقطنی کہتے ہيں : اس کی حديث متروک ہے امام احمد کہتے ہيں : کہ وه معتبر راوی نہيں ہے اور اعتماد کے لائق نہيں ہے. اسی طرح اس کے بارے ميں ابن معين کا بھی يہی نظريہ ہے
تعجب انگيز بات تويہ ہے کہ ابن حجر نے ”التقريب” کے ترجمہ ميں صالح بن موسیٰ کو فقط ضعيف کہنے پر اکتفاء کيا ہے اور صالح بن موسیٰ کو جھوٹا کہنے والوں کو شدت پسند قرار ديا ہے ، حالانکہ علمائے رجال نے اس کے بارے ميں جھوٹا اور حديثيں گھڑنے والا جيسے الفاظ استعمال کئے ہيں يہاں تک کہ ذھبی اس کے بارے ميں کہتے ہيں : اس کی باتيں باطل اور ضعيف ہيں.

امام مالک نے اسی متن کو کتاب ”الموطا”( ١) ميں سند کے بغيراور بصورت مرسل ( ٢) نقل کيا ہے جبکہ ہم سب جانتے ہيں کہ اس قسم کی حديث کوئی حيثيت نہيں رکھتی اس تحقيق سے قطعی طور پر يہ ثابت ہوتا ہے کہ وه حديث جس ميں ”وسنتی” ہے وه جعلی اور من گھڑت ہے اور اسے جھوٹے راويوں اور اموی حکومت کے درباريوں نے ”وعترتی” کے کلمہ والی صحيح حديث کے مقابلے ميں گھڑا ہے لہذا مساجد کے خطباء ،
………….
١) الموطا ، مالک ص ٨٨٩ حديث ٣ )
٢)روايت مرسل : ايسی روايت کو کہا جاتا ہے جس کے سلسلہ سند سے کوئی راوی حذف ہو جيسے کہا جائے ”عن رجل” يا عن بعض اصحابنا تو ايسی روايت مرسلہ ہوگی(مترجم)
مقررين اور ائمہ جماعت حضرات کے لئے ضروری ہے کہ وه اس حديث کوچھوڑ دينجو رسول نے بيان نہيں کی ہے بلکہ اس کی جگہ صحيح حديث سے لوگوں کو آشنا کريں . اور وه حديث جسے مسلم نے اپنی کتاب ”صحيح” ميں لفظ ”و اہل بيتی” کے ساتھ اور ترمذی نے لفظ ”عترتی و اہل بيتی” کے ساتھ نقل کيا ہے اسے لوگوں کے سامنے بيان کريں اسی طرح علم ودانش کے متلاشی افراد کے لئے ضروری ہے کہ علم حديث سيکھيں تاکہ صحيح اور ضعيف حديث کو ايک دوسرے سے جدا کرسکيں.
آخر ميں ہم يہ ياددلا ديں کہ حديث ثقلين ميں لفظ ”اہل بيتی” سے پيغمبر اسلامۖ کی مراد حضرت علی اور وه حضرت فاطمہ زہرا ، حضرت امام حسن اورحضرت امام حسين ہيں ۔ کيونکہ مسلم نے( ١) اپنی کتاب صحيح ميناور ترمذی نے ( ٢) اپنی کتاب سنن مينحضرت عائشہ سے اس طرح نقل کيا ہے:
نزلت ھذه الآية علیٰ النب .( اِنّما يريدُ للهُّ ليذھبَ عَنْکم الرِجْسَ أھْلَ البيتِ و يُطِّھرکم تطھيراً) ف بيت أم سلمة فدعا النب فاطمة و حسناً و حسيناً فجللھم بکسائٍ و عَلّ خلف
…………
١)صحيح مسلم جلد ٤ ص ١٨٨٣ ح ٢٤٢٤ )
٢)ترمذی جلد ٥ ص ٦٦٣ )
ظھره فجللّہ بکساء ثم قال : أللّھم ھٰؤلائِ أھل بيت فأذھبعنھم الرجس و طھرھم تطھيرا. قالت أم سلمة و أنا معھم يا نب للهّ؟ قال أنتِ علیٰ مکانک و أنتِ اِلی الخير.( ١)
يہ آيت ( اِنّما يريدللهُ ليذھبَ عَنْکم الرِجْسَ اَھْلَ البيتِ و يُطَھِّرکم تطھيراً)ام سلمہ کے گھر ميننازل ہوئی ہے پيغمبر اسلامۖ نے فاطمہ ،حسن و حسين کو اپنی عبا کے اندر لے ليا اس وقت علی آنحضرتۖ کے پيچھے تھے آ پ نے ان کوبھی چادر کے اندر بلا ليا اور فرمايا : اے ميرے پروردگار يہ ميرے اہل بيت ہيں پليديوں کو ان سے دور رکھ اور ان کو پاک وپاکيزه قرار دے۔
ام سلمہ نے کہا : اے پيغمبر خداۖ کيا ميں بھی ان ميں سے ہوں(يعنی آيت ميں جو لفظ اہل بيت آيا ہے ميں بھی اس ميں شامل ہوں؟) پيغمبر اکرمۖ نے فرمايا تم اپنی جگہ پر ہی رہو (عبا کے نيچے مت آؤ) اور تم نيکی کے راستے پر ہو۔”


















*
من الناحية السندية*

*
من ثم البحث في الدلالة*

*
من ثم المعارضة إن وجدت*





















290 – حدثنا : أبوبكر أحمد بن إسحاق الفقيه ، أنبأ : العباس بن الفضل الأسفاطي ، ثنا :
*إسماعيل بن أبي أويس* ، وأخبرني : إسماعيل محمد بن الفضل الشعراني ، ثنا : جدي ، عن ثور زيد الديلي ، عن عكرمة ، عن إبن عباس : أن رسول الله (ص) خطب الناس في حجة الوداع فقال : قد يئس الشيطان بأن يعبد بأرضكم ، ولكنه رضي أن يطاع فيما سوى ذلك مما تحاقرون من أعمالكم ، فإحذروا يا أيها الناس ، إني قد تركت فيكم ما إن إعتصمتم به فلن تضلوا أبداً : *كتاب الله وسنة نبیه.*

*سبب ضعف الحديث : إسماعيل بن أبي أويس* قال : فيه جمع من العلماء بالضعف منهم :
إبن حجر – تهذيب التهذيب – الجزء : ( 1 ) – رقم الصفحة : ( 271 )

















*
النتیجه:الطریق الاول فیه ضعف ویسقط.*








291 – أخبرنا : أبوبكر بن إسحاق الفقيه ، أنبأ : محمد بن عيسى بن السكن الواسطي ، ثنا : داود بن عمرو الضبي ، ثنا :
*صالح بن موسى الطلحي* ، عن عبد العزيز بن رفيع ، عن أبي صالح ، عن أبي هريرة (ر) قال : قال رسول الله (ص) : إني قد تركت فيكم شيئين لن تضلوا بعدهما : *كتاب الله ، وسنتي* ، ولن يتفرقا حتى يردا علي الحوض.

الحاكم النيسابوري – المستدرك – كتاب العلم – خطبته (ص) في حجة الوداع رقم الحديث : ( 325 )
*سبب ضعف الحديث هو : صالح بن موسى الطلحي* وإليك كلام أئمة أهل الحديث من كبار الحفاظ اللذين طعنوا فيه :












– وفي إسناده صالح بن موسى بن إسحاق بن طلحة التيمي و *هو متروك* كما ذكر في التقريب.

– في إسناده صالح بن موسى ، *وهو ضعيف.*
*النتیجه:الطریق الثانی ضعیف.*







إبن عبدالبر – فتح المالك بتبويب التمهيد – الجزء : ( 9 ) – رقم الصفحة : ( 283 / 682 )
إبن عبدالبر – التمهيد – الجزء : ( 1 ) – رقم الصفحة : ( 525 / 824 )
رواية إبن عبد البر المتوفى سنة 463 هـ، والتي وصل بها خبر الموطأ
– وحدثنا : عبد الرحمن بن يحيى، قال : ، حدثنا : أحمد بن سعيد، قال : ، حدثنا : محمد إبن إبراهيم الديلي ، قال : الديلي علي بن زيد الفرائضي ، قال : ، حدثنا : الحنيني ، عن كثير بن عبد الله بن عمرو بن عوف ، عن أبيه ، عن جدّه ، قال : قال رسول الله (ص) : تركت فيكم أمرين *لن تضلوا ما تمسكتم بهما : كتاب الله ، وسنة نبيه (ص).*











الهيثمي – مجمع الزوائد – من الجزء : ( 1 إلى 6 )





*
النتیجه:ضعف الطریق الثالث*











.
.
حدیث ” کتاب اللہ و سنتی ” کے بارے میں اردن کے شافعی شیخ حسن بن علی السقاف کی تحقیق

ترجمہ اور اختصار : ذوالفقار مشرقی


امام مسلم نے اپنی صحیح (۴/۱۸۷۳، رقم ۲۴۰۸) میں سیدنا زید بن ارقم سے روایت کیا ہے کہ
رسول اللہ ﷺ ایک دن خطبہ سنانے کو کھڑے ہوئے ہم لوگوں میں ایک پانی پر جس کو خم کہتے تھے، مکہ اور مدینہ کے بیچ میں۔ آپ ﷺ نے اللہ کی حمد کی اور اس کی تعریف بیان کی اور وعظ و نصیحت کی، پھر فرمایا: ”بعد اس کے اے لوگو! میں آدمی ہوں، قریب ہے کہ میرے پروردگار کا بھیجا ہوا (موت کا فرشتہ) آئے اور میں قبول کروں، میں تم میں دو بڑی بڑی چیزیں چھوڑے جاتا ہوں، پہلے تو اللہ کی کتاب اس میں ہدایت ہے اور نور ہے، تو اللہ کی کتاب کو تھامے رہو اور اس کو مضبوط پکڑے رہو۔“ غرض آپ ﷺ نے رغبت دلائی اللہ کی کتاب کی طرف، پھر فرمایا: ”دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں، میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں تم کو اپنے اہل بیت کے باب میں۔“ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بیان فرمائی۔
یہ مسلم کے الفاظ ہیں۔ انہی الفاظ کے ساتھ دارمی نے اپنی سنن (۲/۴۳۱-۴۳۲) میں نقل کیا ہے اور اسکی سند آفتاب کی طرح صحیح ہے۔
اور ترمذی کی روایت میں یہ الفااط آئے ہیں ” اور میری عترت میری اہل بیت، پس سنن ترمذی (۵/۶۶۳، رقم ۳۷۸۸) میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
میں تمہارے درمیان وہ چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم ان سے تمسک رکھو گے تو میرے بعد گمراہ نہ ہوگے، ان میں ایک چیز اللہ کتاب ہے جو اسکی رسی کی مانند آسمان تا زمین ممدود ہے اور دوسرے میرے اہل بیت عترت(خاندان) ہیں، اور دونوں ہر گز ایک دوسرے سے جدا نہ ہونگے حتّی کہ حوض کوثر پر مجھ سے آن ملیں گے، اب میں دیکھتا ہوں کہ کہ (بھلا) تم ان کے بارے میں میری مخالفت کیسے کرو گے۔ یہ حدیث صحیح ہے۔
جہاں تک تعلق لفظ ” میری سنت ” کا ہے وہ من گھڑت ہے کیونکہ اسکی سند ضعیف، اس میں اموی مقاصد موجود ہے۔
اس تک جو سند ہے اسکو حاکم نے المستدرک (۱/۹۳) میں ابن ابی آویس عن ابيه عن ثور بن يزيد الديلي عن عكرمة عن ابن عباس سے نقل کیا ہے اور اس میں یوں ہے :
میں تم میں دو ایسی چيزچھوڑیں جا رہا ہوں جنہیں اگر تم مضبوطی سے پکڑے رکھو گے تو میرے بعد کبھی گمراہ نہیں ہونگے، ایک اللہ تعالی کی کتاب اور دوسری میری سنت۔
ہم کہتے ہیں : اسکی سند میں ابن ابی اویس اور اسکا باپ ہے۔
حافظ المزی نے تہذیب الکمال (۳/۱۲۷) میں ابن ابی اویس کے ترجمے میں اسکے متعلق جرح یوں نقل کی ہے۔
یحیی بن معین نے فرمایا : ابو اویس اور اسکا بیٹا دونوں ضعیف ہے۔
یحیی بن معین سے اسی طرح منقول ہے کہ ابن ابی اویس اور اسکا باپ احادیث چوری کیا کرتے تھے۔
یحیی بن معین سے اسی طرح منقول ہے کہ یہ مخلط، جھوٹا اور کوئی شئ ہی نہیں ہے۔
ابو حاتم نے کہا : صدوق جیسا تھا لیکن عافل ہوتا تھا۔
نسائی نے کہا : ضعیف اور دوسری جگہ کہا کہ یہ ثقہ نہیں۔
ابو القاسم اللاکائی نے کہا کہ نسائی کا کلام مجھے پہنچا جس میں تھا کہ اسکو ترک کیا جائے۔
ابو احمد بن عدی نے کہا : یہ ابن ابی اویس، یہ اپنے چچا مالک سے غریب احادیث نقل کرتا جنکی کوئی متابعت نہیں کرتا۔
میں کہتا ہوں : حافظ ابن حجر نے فتح الباری کے مقدمہ میں اس ابن ابی اویس کے بارے میں کہا کہ : اس سے کسی بھی بات میں احتجاج نہیں کرنا چاہئے صحیح بخاری کے علاوہ اس وجہ سے جو نسائی وغیرہم نے اسکے بارے میں بیان فرمایا۔
حافظ سید احمد بن صدیق الغماری نے کہا اپنی کتاب فتح الملک العلی(صفحہ ۱۵) میں کہا : سلمہ بن شبیب نے کہا کہ میں نے اسماعیل بن ابی اویس کو کہتے ہوئے سنا کہ میں کبھی اہل مدینہ کے لئے احادیث وضع کرتا ہوں جب ان میں کسی مسئلے پر اختلاف ہوجاتا تھا۔
پس اس شخص پر احادیث گھڑانے کی تہمت ہے۔ ابن معین نے اس پر کذب کی تہمت لگائی ہے اور اس حدیث جس میں لفظ ” میری سنت ” ہے صحیحین میں بھی کسی میں نہیں ہے۔
جہاں تک اسکے باپ کا تعلق ہے تو ابن ابی حاتم نے اپنی کتاب میں کہا : اسکی حدیث لکھی جائے گی لیکن اس سے احتجاج نہیں کرنا چاہئے۔ یہ اتنا زیادہ قوی نہیں۔
اسی مصدر میں ابن ابی حاتم نے ابن معین سے نقل کہ یہ ثقہ نہیں ہے۔
میں کہتا ہوں : جس سند میں ایسے دو راوی ہو جن کے بارے میں کلام گزر چکا ہے کبھی صحیح نہیں قرار پائے گی اگر اونٹ سوئی کے سراخ کے اندر سے بھی نکل جائے۔
حاکم نیساپوری نے بھی اسکے ضعف کا اعتراف کیا اسی وجہ سے اپنی مستدرک میں اسکی تصحیح نہیں کی بلکہ اسکا ایک شاید بیان کیا جسکی سند بھی خراب ہے لہذا اس نے ایک ضعیف حدیث پر ایک ضعیف حدیث کو جمع کیا۔ اور تحقیق سے ثابت ہے کہ ابن ابی اویس یا اسکے باپ دونوں میں سے ایک نے اس خراب حدیث کو چرایا اور پھر اپنی سند سے نقل کیا۔ ابن معین کی نص کے مطابق یہ دونوں احادیث چوری کیا کرتے تھے۔ پس حاکم نے مستدرک (۱/۹۳) میں اسلئے نقل کرتے ہوئے یوں کہا :
میں نے اسکا شاھد ابوہریرہ والی حدیث دیکھی،پھر اس سند سے اس کو روایت کیا :
الضبی ثنا صالح بن موسی الطلحی عن عبدالعزیز بن رفیع عن ابا صالح عن ابو ہریرہ مرفوعاً کی سند سے اسکو نقل کیا۔
میں کہتا ہوں : یہ بھی من گھڑت ہے، اختصار کے طور پر اس میں صرف ایک راوی پر کلام کرتا ہوں، وہ صالح بن موسی الطلحی ہے۔ ائمہ حدیث نے اس پر کلام کیا ہے تھذیب الکمال (۱۳/۹۶) میں ہے :
یحیی بن معین نے کہا : یہ کچھ بھی نہیں ہے۔
ابو حاتم نے کہا : حدیث میں ضعیف اور سخت منکر راوی۔ یہ ثقات سے کثرت سے منکرات نقل کرتا تھا۔
نسائی نے کہا : اسکی حدیث نہیں لکھی جائے گی۔ دوسری جگہ کہا : متروک حدیث۔
ابن حجر کی تہذیب التھذیب (۴/۳۵۵) میں ہے کہ :
ابن حبان نے کہا : یہ ثقات سے ایسی روایات نقل کرتا جو ثابت شدہ احادیث کے مثل نہیں ہوتی تھی یہاں تک کہ دیکھنے والوں نے اس بات کی شہادت ہے کی یہ معلول اور مقلوب ہوتی۔ اس سے احتجاج جائز نہیں۔
ابو نعیم نے کہا : یہ متروک حدیث ہے۔ یہ منکرات نقل کرتا تھا۔
میں کہتا ہوں : ابن حجر نے تقریب (۲۸۹۱) میں اس پر متروک کا حکم لگایا اور ذہبی نے بھی الکاشف (۲۴۱۲) میں اسکو خراب راوی قرار دیا۔
ذہبی نے میزان (۲/۳۰۲) میں اسکے ترجمے میں اسکی یہ والی حدیث نقل کی اور اسکو انکی منکرات میں شامل کیا۔
مالک بن انس نے بھی یہی حدیث موطا (۸۹۹، رقم ۳) میں نقل کی بلغنی صیغہ سے کسی سند کے بغیر جسکی کوئی قیمت نہیں کونکہ اسکی کوئی سند نہیں۔
حافظ ابن عبدالبر نے التمہید (۲۴/۳۳۱) میں اس خراب و موضوع حدیث کی تیسری سند نقل کی :
وحدثنا عبدالرحمان بن یحیی قال حدثنا احمد بن سعید قال حدثنا محمد بن ابراھیم الدیبلی قال حدثنا علی بن زید الفرائضی قال حدثنا الحنینی عن کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عوف عن ابیہ عن جدہ۔
میں کہتا ہوں : مختصر اسکی ایک علت کی طرف متوجہ کرتا ہوں وہ اسکی سند میں کثیر بن عبداللہ بن عمرو ہے جسکے بارے میں امام شافعی نے کہا کہ یہ جھوٹ کے ستونوں میں سے ایک ستون تھا۔
ابن داود نے کہا : جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا تھا۔
ابن حبان نے کہا : یہ اپنے باپ اور پھر جد سے ایک من گھڑت نسخہ نقل کرتا تھا جسکو لکھا یا روایت کرنا بھی حلال نہیں سوائے اس پر تعجب کرنا۔
نسائی اور دارقطنی نے کہا : یہ متروک حدیث تھا۔
احمد بن حنبل نے کہا : منکر حدیث، کوئی شئ ہی نہیں تھا یہ، یحیی بن معین نے بھی کہا کہ کوئی شئ ہی نہیں تھا یہ۔
میں کہتا ہوں : ابن حجر نے تقریب میں اسکے متعلق خطا فرمایا جب انہوں نے اسکے بارے میں لکھا صرف ” ضعیف ” لکھا اور اسکے بعد لکھا کہ جنہوں نے اس پر کذب کی تہمت لگائئ ہے وہ افراط کے شکار تھے۔
میں کہتا ہوں : وہ افراط کا شکار نہیں ہوئے بلکہ حقیقت میں ایسا ہی ہے جیسا کہ اوپر ائمہ کا کلام کزر چکا ہے۔اسی وجہ سے ذہبی نے اسکے بارے میں الکاشف میں کہا : ” واہ ” جیسا کہ یہ ہے۔ اور اسکی حدیث موضوع ہے۔ اس سے متابعت یا شواھد کا کام لینا جائز نہیں بلکہ ان پر ضرب لگانا چاہئے۔
اور متناقص (البانی) کا قول اپنی کتاب سلسلہ الضعیفہ (۴/۳۶۱) میں کہ یہ حدیث صحیح ثابت ہے ” میری عترت، میری اہل بیت ” الفاظ کے ساتھ جو شواہد ہے اس حدیث کا ” میری سنت ” کی مجھے اس بچے پر ہنسی آتی ہے۔ اللہ ہی ہدایت دینے والا ہے۔
تنبیہ : اور رسول اللہ ﷺ کا قول : میری عترت، میری اہل بیت سے مراد اسکی بیویاں اور اسکی ذریت اور ان میں بھی خاص ارادہ رسول اللہ ﷺ کا جنکے لئے تھا وہ سیدہ فاطمہؑ، سیدنا علیؑ، سیدنا حسنؑ اور سیدنا حسینؑ ہے، اور اسکے پیچھے دلیل ایک صحیح ثابت حدیث ہے جیسا کہ عائشہ سے روایت ہے کی صحیح مسلم (۴/۱۸۸۳، رقم ۲۴۲۴) میں اور عمر بن ابی سلمہ جسکو رسول اللہ ﷺ نے پالا تھا ترمذی (۵/۶۶۳) کی روایت میں اور اسکے الفاظ باقیوں میں صحیح الاساند کے ساتھ ہے کہ انہوں نے فرمایا :
آیت تطہیر رسول اکرم پر ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی ہے، جب آپ نے فاطمہؑ اور حسنؑ و حسینؑ کو طلب کیا اور سب پر ایک چادر اوڑھادی اور علیؑ پس پشت بیٹھے تھے انھیں بھی چادر شامل کرلیا اور فرمایا خدایا یہ میرے اہلبیتؑ ہیں، ان سے رجس کو دور رکھنا اور پاک و پاکیزہ رکھنا ۔
جس کے بعد ام سلمہ نے فرمایا کہ یا نبی اللہ کیا میں بھی انھیں میں سے ہوں؟ تو آپ نے فرمایا کہ تمھاری اپنی ایک جگہ ہے اور تمھارا انجام بخیر ہونے والا ہے
پس جنہوں نے بھی اہل بیت سے مراد صرف ازواج کو لیا انہوں نے خطا کیا اور اجماع کی مخالفت کی۔
پس اس سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ حدیث ” کتاب اللہ و عترتی ” صحیح ثابت صحیح مسلم میں اور لفظ ” کتاب اللہ و سنتی ” باطل ہے، سند کے اعتبار سے غیر صحیح ہے۔ پس مساجد کے خطاء ، واعظین اور اماموں کو چاہئے کہ ان الفاظ کو ترک کردیں جو رسول اللہ ﷺ سے ورد نہیں ہوا ہے اور لوگوں کے سامنے وہ ذکر کرے جو صحیح ثابت ہے رسول اللہ ﷺ سے صحیح مسلم سے ” کتاب اللہ اور میری اہل بیت یا میری عترت “۔ طالب علموں کو بھی چاہئے کہ وہ علم حدیث سیکھیں تاکہ وہ صحیح سنت اور ضعیف میں معرفت حاصل کر سکھیں۔ بے شک اللہ نے حق فرمایا ہے اور وہی ہدایت دینے والا ہے۔ تما تعریفین اللہ کے لئے ہیں۔







