اعتراف اہلسنت کہ حدیث ثقلین (کتاب اللہ وسنتی) کے ساتھ گھڑی گئی ہے

حدیثِ ثقلین : اہل بیت کے الفاظ کے ساتھ یہ حدیث صحیح ہے، سنتی کے ساتھ موضوع (گھڑی ہوئی) ہے
آئمہ اہلِ بیت علیھم السلام کی اتباع کو فرض قرار دینے والی حدیثِ ثقلین سنن ترمذی، صحیح مسلم، مستدرک حاکم، مسند احمد بن حنل، کنز العمال، خصائص نسائی وغیرہ کتب میں پائی جاتی ہے، اس کا متن ملاحظہ ہو:
١- صحیح ترمذی الشریف میں روایت ہے کہ زید بن ارقم نے روایت کیا کہ قال رسول اللہ انِّي تارِكٌ فِيكُمْ ما انْ تَمَسَّكْتُمْ بِہ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدي، احَدُھما اَعْظَمُ مِنَ الآخَرِ: كِتابُ اللہ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّماءِ الَى الارْضِ، وَعِتْرَتِي اھْلُبَيْتِي، وَلَنْ يَفْتَرِقَا حَتّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ، فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُوني فِيھِما۔
صحیح الترمذی الشریف جلد ٥، حدیث نمبر ٣٧٨٦، طبع بیروت
ترجمہ؛ زید ابن ارقم نے کہا کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے سنا کہ میں تمہارے درمیان وہ چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم ان سے تمسک رکھو گے تو میرے بعد گمراہ نہ ہوگے، ان میں ایک چیز اللہ کتاب ہے جو اسکی رسی کی مانند آسمان تا زمین ممدود ہے اور دوسرے میرے اہل بیت عترت (خاندان) ہیں، اور دونوں ہر گز ایک دوسرے سے جدا نہ ہونگے حتّی کہ حوض کوثر پر مجھ سے آن ملیں گے، اب میں دیکھتا ہوں کہ کہ (بھلا) تم ان کے بارے میں میری مخالفت کیسے کرو گے۔
2- امام احمد بن حنبل نے کتاب مسند احمد میں روایت یوں لکھی ہے
عن ابي سعيد الخدري ، عن النبي صلى اللہ عليہ وآلہ قال : اني اوشك ان ادعى فاجيب ، واني تارك فيكم الثقلين : كتاب اللہ عز وجل ، وعترتي ، كتاب اللہ حبل ممدود من السماء الى الارض ، وعترتي اھل بيتي ، وان اللطيف الخبير اخبرني بھما انھما لن يفترقا حتى يردا علي الحوض ، فانظروا كيف تخلفوني فيھما۔
مسند حنبل ج٣، ص ١٧
ابو سعید خدری (رضٰ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ لگتا ہے کہ میرا وقت رحلت آن پہنچا ہے اور میں اللہ کے بلاوے کو جواب دینے کو ہوں، پس اسی لئے میں تمہارے مابین دو ایک جیسی گرانقدر چیزیں چھوڑ کر جا رہاں، اللہ کی کتاب اور میری عترت، اللہ کی کتاب آسمان سے زمین کی طرف کھنچی ہوئی اسکی رسی ہے اور میری عترت، اللہ نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ ایک دوسرے سے جدا ہونگے حتیٰ کہ مجھے حوض کوثر پر آن ملیں گے، اب دیکھتا ہوں کہ تم لوگ ان کے معاملے میں مجھ سے کیسے اختلاف کرتے ہو؟
اہلِ بیت کے مقام کو گرانے کی سازش:
اس حدیث کے الفاظ ” عترتی اہل بیتی” کی جگہ آج کل “سنتی” لگایا جارہا ہے، کہ اہل بیت سے نہیں، سنت سے وابستگی کا حکم ہے۔یہ روایت سند کے لحاظ سے انتہائی ضعیف کیا موضوع ہے۔
چنانچہ علامہ سقاف اپنی کتاب ” صحیح صفۃ صلاۃ النبی” کے صفحہ 289-290 پر رقم طراز ہیں کہ اہل بیت کے الفاظ کے ساتھ یہ حدیث صحیح ہے، سنتی کے ساتھ موضوع ہے۔
حدیث ثقلین (کتاب اللہ وسنتی) ضعیف روایت
حدیث “الله ﷻ کی کتاب اور میری سنت” کا جائزہ
ایک مشہور حدیث ہے جو اہل سنت بہت بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، الله ﷻ کی کتاب اور میری سنت، ہم اس حدیث کا جائزہ لیتے ہیں اور اسکے برعکس حدیث “الله ﷻ کی کتاب اور میرے اہل بیت” کی بھی اسناد دیکھتے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اہل سنت کی کتب الستہ یعنی چھے معتبر کتب میں سے کسی میں بھی یہ حدیث نہیں موجود الله ﷻ کی کتاب اور میری سنت والی۔ سب سے پہلے یہ حدیث امام مالک کی موطاء میں نقل ہوئی ہے، مگر ادھر اسکی کوئی سند ہی نہیں ہے، وہ ایسے ہے:
وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ ‏”‏ ‏.‏
یحیی نے مجھ سے روایت کی مالک سے کہ اس تک پہنچا کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ میں تم میں دو امر چھوڑے ہیں، تم گمراہ نہیں ہوگے اگر ان دونوں سے متمسک رہو، الله ﷻ کی کتاب اور اسکے نبی ﷺ کی سنت۔ (1)
اسکے علاوہ یہ حدیث سیرت ابن ہشام میں بھی موجود ہے کچھ الفاظی کے اختلاف کے ساتھ، ابن ہشام در اصل ابن اسحاق کی سیرت کی کتاب میں سے نقل کر رہا ہے (جو آج ہمارے پاس نہیں ہے)، مگر ادھر بھی اسکی کوئی سند نہیں موجود۔ (2) اسکے علاوہ یہ حدیث حاکم نیشاپوری نے مستدرک میں دو اسناد سے نقل کی ہے، ایک یہ ہے:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ الْفَقِيهُ، أَنْبَأَ الْعَبَّاسُ بْنُ الْفَضْلِ الْأَسْفَاطِيُّ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، وَأَخْبَرَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَضْلِ الشَّعْرَانِيُّ، ثنا جَدِّي، ثنا ابْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ الدِّيلِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (3)
تو یہ مرفوع حدیث ہے رسول الله ﷺ تک ابن عباس سے، مگر اس حدیث کی سند میں ابو اویس ہے اور اسکا بیٹا اسماعیل ابن ابی اویس اور وہ ضعیف ہیں، اسکی ایک اور سند یہ ہے مستدرک میں مرفوعاً ابو ہریرہ سے:
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ الْفَقِيهُ، أَنْبَأَ مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى بْنِ السَّكَنِ الْوَاسِطِيُّ، ثنا دَاوُدُ بْنُ عَمْرٍو الضَّبِّيُّ، ثنا صَالِحُ بْنُ مُوسَى الطَّلْحِيُّ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ شَيْئَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُمَا: كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّتِي، وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ “
ابو بکر بن اسحاق الفقیہ نے ہمیں خبر دی، کہا ہمیں محمد بن عیسی بن السکن الواسطی نے بتایا، کہا ہم سے بیان کیا داود بن عمرو الضبی نے، کہا ہم سے بیان کیا صالح بن موسی الطلحی نے، جنہوں نے عبد العزیز بن رفیع سے، اور انہوں نے ابو صالح سے، جنہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا میں نے تم میں دو چیزیں چھوڑی ہیں جنکے بعد تم گمراہ نہ ہوگے، الله ﷻ کی کتاب اور میری سنت، اور یہ دونوں جدا نہیں ہونگے حتی کہ میرے پاس حوض کوثر پر نہ پہنچ جائیں۔ (4) اسکی سند میں صالح بن موسی الطلحی ہے اور وہ متروک راوی ہے، شیخ مقبل نے مستدرک کی تحقیق کے ذیل میں لکھا ہے:
حديث ضعيف، لأنه من طريق إسماعيل بن أبي أويس عن أبيه وفيهما كلام، وشاهد من طريق صالح بن موسى الطالحي وهو متروك
حدیث ضعیف ہے، کیونکہ اسماعیل بن ابی اویس کا طرریق اپنے والد سے ہے اور ان دونوں کے بارے میں کلام ہے (یعنی ضعیف راوی ہیں)، اور اسکا شاھد طریق صالح بن موسی الطالحی سے ہے اور وہ متروک ہے۔
امام شمس الدین الذهبي نے صالح بن موسی الطلحی کے متعلق لکھا ہے:
كوفي ضعيف. يروى عن عبد العزيز بن رفيع. قال يحيى: ليس بشئ، ولا يكتب حديثه. وقال البخاري: منكر الحديث. وقال النسائي: متروك
کوفی تھا، ضعیف، عبد العزیز بن رفیع سے روایت کرتا تھا، یحیی بن معین نے کہا کہ وہ کوئی چیز نہیں، اور اسکی حدیث نہ لکھی جائے، بخاری نے کہا کہ وہ احادیث میں منکر (انکار کیا ہوا) تھا، نسائی نے کہا کہ وہ متروک ہے۔ (5) ہیثمی نے مجمع الزوائد میں ایک حدیث پر تبصرے کرتے ہوئے کہا، رَوَاهُ الْبَزَّارُ، وَفِيهِ صَالِحُ بْنُ مُوسَى الطِّلْحِيُّ، وَهُوَ ضَعِيفٌ. یعنی بزار نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور اسکی سند میں صالح بن موسی الطلحی ہے اور وہ ضعیف ہے۔
اسکے علاوہ یہ حدیث ابن عبد البر نے روایت کی ہے جامع بیان العلم وفضله میں اس سند سے:
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُثْمَانَ، نا أَحْمَدُ بْنُ دُحَيْمٍ، نا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّيْبُلِيُّ، نا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ الْفَرَائِضِيُّ، نا الْحُنَيْنِيُّ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ “
سعید بن عثمان نے ہم سے بیان کیا، کہا ہم سے احمد بن دحیم نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن ابراہیم الدیبلی نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن زید الفرائضی نے بیان کیا، کہا ہم سے حنینی نے بیان کیا، اس نے کثیر بن عبد الله بن عمرو بن عوف سے، جس نے اپنے والد سے اور اس نے اپنے جد سے روایت کی کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تم میں دو امر چھوڑے ہیں، تم گمراہ نہیں ہوگے اگر ان دونوں سے متمسک رہو، الله ﷻ کی کتاب اور اسکے نبی ﷺ کی سنت۔ (6)
یہ حدیث شاید سب سے ضعیف ہے، اس میں اسحاق بن ابراہیم الحنینی ہے اور وہ ضعیف ہے، اور اسکی سند میں کثیر بن عبد الله ہے، اسکو ابن حبان نے اپنی کتاب المجروحین میں شامل کیا ہے اور اس پر جرح کی ہے، اسکو حدیث میں بہت منکر کہا ہے، اور امام شافعی کا قول نقل کیا ہے جس نے کثیر بن عبد الله کو جھوٹ کے ستونوں میں سے ایک ستون کہا ہے (ركن من أركان الكذب)، ابن معین نے بھی اسکو ضعیف الحدیث کہا ہے، ایک اور جگہ ابن معین نے کہا کہ کثیر بن عبد الله کوئی چیز نہیں (ليس بشيء)۔ ادھر ہی ابن حبان نے اسماعیل بن ابی اویس جسکا ہم نے اوپر ذکر کیا تھا کو بھی حدیث میں بہت منکر کہا ہے۔ (7) اس ہی طرح ابن حجر، ابن جوزی، ابن حنبل، ابو بکر الہیثمی، یوسف المزی وغیرہم نے اسکو ضعیف کہا ہے، السیوطی نے اللآلی المصنوعة في الأحاديث الموضوعة میں بھی کثیر کو ضعیف کہا۔ ابن حجر عسقلانی نے لکھا:
٥٦١٧- كثير ابن عبد الله ابن عمرو ابن عوف المزني المدني ضعيف أفرط من نسبه إلى الكذب من السابعة
کثیر ابن عبد الله ابن عوف المزنی المدنی، ضعیف، جھوٹ بولتا تھا اپنے نسب کا فائدہ اٹھا کر، ساتویں طبقے سے تھا راویوں کے۔ (😎
اسکے علاوہ بیہقی نے السنن الکبری (رقم الحديث: 20337) میں یہی حدیث بیان کی ہے اور اسکی سند بھی حاکم نیشاپوری والی ہے، جس میں صالح بن موسی ہے لہذا وہ ضعیف ہے۔ ایسے ہی بیہقی نے دلائل النبوة (ج 5، ص 448) میں بھی نقل کیا ہے اس ضمن میں حدیث عروہ بن زبیر سے مرفوعاً مگر اس میں عبد الله بن لهيعة ہے اور وہ ضعیف ہے۔ خطیب بغدادی نے اپنی کتاب الفقیه والمتفقه میں اپنی اسناد سے نقل کی ابو سعید خدری سے حدیث مرفوعاً جنہوں نے وہی بیان کیا، اس میں سیف بن عمر التمیمی ہے جو متهم بالوضع تھا یعنی احادیث گھڑا کرتا تھا، طبری نے اس حدیث کو اپنی تاریخ الرسل والملوك میں نقل کیا صحابی عبد الله بن ابی نجیح سے مرفوعاً مگر سند میں اسکا شیخ محمد بن حمید الرازی ضعیف ہے۔ لہذا یہ بات سامنے آتی ہے کہ جتنی بھی احادیث ہیں اس ضمن میں “کتاب الله وسنتي” یا “کتاب الله وسنة نبیه” یا “كتاب الله وسنة نبيكم” اس کے تمام طُرق ضعیف ہیں۔ اب جو صحیح ثقلین حدیث ہے وہ یہ ہے:
وَأَنَا تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللَّهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللَّهِ وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ ‏”‏ ‏.‏ فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ وَرَغَّبَ فِيهِ ثُمَّ قَالَ ‏”‏ وَأَهْلُ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي ‏”‏ ‏.‏
رسول الله ﷺ نے فرمایا: میں تم میں دو بڑی چیزیں چھوڑے جاتا ہوں ۔ پہلے تو الله ﷻ کی کتاب ہے اور اس میں ہدایت ہے اور نور ہے ۔ تو الله ﷻ کی کتاب کو تھامے رہو اور اس کو مضبوط پکڑے رہو ۔ غرض کہ آپ ﷺ کی کتاب کی طرف رغبت دلائی ۔ پھر فرمایا کہ دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں ۔ میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں الله ﷻ یاد دلاتا ہوں (یعنی انکے معاملے میں الله ﷻ سے ڈرتے رہنا)، تین بار فرمایا ۔ (9)
یہ صحیح مسلم کی حدیث ہے اور اسکی سند میں بالکل بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ مختلف الفاظ کے ساتھ یہی حدیث آئی ہے جس میں سے ایک ہے میں “ثقلین” یعنی دو بھاری چیزیں چھوڑ رہا ہوں، ایک میں “خلیفتین” ہے یعنی دو خلیفہ چھوڑ رہا ہوں اور ایک میں “امرین” بھی ہے یعنی دو امر چھوڑ رہا ہوں، خلیفتین والی ہم نقل کرتے ہیں کیونکہ ثقلین والی اوپر کر چکے ہیں:
حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنِ الرُّكَيْنِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ خَلِيفَتَيْنِ: كِتَابُ اللهِ، حَبْلٌ مَمْدُودٌ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، أَوْ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ، وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي، وَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ “
ہم سے بیان کیا اسود بن عامر نے، کہا ہم سے شریک نے بیان کیا، جنہوں نے رکین سے روایت کی اور انہوں نے قاسم بن حسان سے، جنہوں نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کی جنہوں نے کہا کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ میں تم میں دو جانشین (خلیفہ) چھوڑ کر جا رہا ہوں، الله ﷻ کی کتاب جو کہ زمین و آسمان کے درمیان پھیلی ہوئی ایک رسی ہے (یا انہوں نے کہا کہ آسمان سے زمین تک)۔ اور میری عترت، میرے اہل بیت، اور یہ دونوں ایک دوسرے سے نہیں جدا ہونگے حتی کہ میرے پاس حوض کوثر تک نہ پہنچ جائیں۔ (10) وصی الله عباس نے کہا کہ حدیث حسن لغیرہ ہے، (11) شیخ ارناووط نے کہا کہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، شیخ البانی نے کہا کہ اسکی سند صحیح ہے، (12) ابو بکر ہیثمی نے کہا سب راوی ثقہ ہیں اور ایک اور جگہ کہا کہ سند جید ہے، (13) ترمذی نے بھی جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہ سے حدیث ثقلین روایت کی ہے (رقم الحديث: 3786) اور ایک اور صحابی زید بن ارقم سے بھی حدیث نقل کی ہے جو ہم نقل کرتے ہیں:
عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالاَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الآخَرِ كِتَابُ اللَّهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الأَرْضِ وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَىَّ الْحَوْضَ فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا ‏”‏ ‏.‏ قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ ‏.‏
رسول الله ﷺ نے فرمایا: ”میں تم میں ایسی چیز چھوڑنے والا ہوں کہ اگر تم اسے پکڑے رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے: ان میں سے ایک دوسرے سے بڑی ہے اور وہ الله ﷻ کی کتاب ہے گویا وہ ایک رسی ہے جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے، اور دوسری میری «عترت» یعنی میرے اہل بیت ہیں یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے، یہاں تک کہ یہ دونوں حوض کوثر پر میرے پاس آئیں گے، تو تم دیکھ لو کہ ان دونوں کے سلسلہ میں تم میری کیسی جانشینی کر رہے ہو“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ (14) احمد شاکر نے کہا حدیث صحیح ہے، دار السلام نے کہا حدیث صحیح ہے، شیخ البانی نے کہا حدیث صحیح ہے، اس طرح سے مختلف اسانید سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ رسول الله ﷺ نے اہل بیت کا ذکر کیا نہ کہ و ضعیف احادیث جن میں سنت کا ذکر ہے۔ اہل بیت والی احادیث تقریبا تیس صحابہ نے نقل کی ہے جن میں جابر بن عبد الله، زید بن ارقم، زید بن ثابت، ابو ہریرہ، ابو ذر الغفاری، حذیفہ بن اسید، ابو سعید الخدری، حضرت علی علیہ السلام وغیرہ ہیں، یہ متواتر حدیث ہے جسکے بہت سے مآخذ ہیں جن سب کو ہم ذکر نہیں کر سکتے، علماء نے اس حدیث اور اسکے تواتر پر پوری کتابیں لکھیں ہیں۔ تواتر تو ویسے بھی قائم ہے مگر اگر ہم شیعہ روایات کو شامل کریں تو مزید تقریبا 50 سے 100 روایات شامل ہوجاتی ہیں۔ یہ بھی ہے کہ ہمارا سہارا اہل سنت کتب پر بھی نہیں صحیح حدیث ثقلین کیلئے، بطور مثال ایک صحیح الاسناد روایت شیعہ مصدر سے بھی:
حَدَّثَنا أَحْمَدُ بْنُ زِيادِ بْنِ جَعْفَرٍ الْهَمَدانيُ‏ رَضِىَ اللهُ عَنْهُ قالَ: حَدَّثَنا عَلِىُّ بْنُ هاشِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبي عُمَيْرٍ، عَنْ غِياثِ بْنِ إِبْراهيمَ، عَنِ الصَّادِقِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبيهِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِىٍّ، عَنْ أَبيهِ عَلِىِّ بْنِ الحُسَيْنُ؛ عَنْ أَبيهِ الحُسَيْنِ بْنِ عَلِىٍ‏ عَلَيْهِ السَّلامُ قالَ: سُئِلَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنينَ‏ عَلَيْهِ السَّلامُ عَنْ مَعْنى‏ قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ‏ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ: «إنِّي مُخَلِّفٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ كِتابَ اللَّهِ وَعِتْرَتِي» مِنَ العِتْرَةُ؟ فَقالَ: أَنَا وَالحَسَنُ وَالحُسَيْنُ وَالأَئِمَّةُ التِّسْعَةُ مِنْ وُلْدِ الحُسَيْنِ، تاسِعُهُمْ مَهْدِيُّهُمْ وَقائِمُهُمْ، لا يُفارِقُونَ كِتابَ اللَّه، وَلا يُفارِقُهُمْ حَتّى‏ يَرِدُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ‏ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ حَوْضَهُ.
ہم سے بیان کیا احمد بن زیاد بن جعفر الہمدانی رضی اللہ عنہ نے، کہا ہم سے بیان کیا علی بن ہاشم نے، انہوں نے اپنے والد سے، جنہوں نے محمد بن ابی عمیر سے اور انہوں نے غیاث بن ابراہیم سے جنہوں نے جعفر بن محمد الصادق علیہ السلام سے جنہوں نے اپنے والد محمد بن علی علیہ السلام سے جنہوں نے اپنے والد علی بن الحسین علیہ السلام سے اور انہوں نے اپنے والد حسین بن علی علیہ السلام سے روایت کی جنہوں نے فرمایا کہ امیر المومنین علیہ السلام سے رسول الله ﷺ کے قول کے بارے میں پوچھا گیا “میں اپنے بعد دو گرانقدر چیزیں چھوڑ رہا ہوں الله ﷻ کی کتاب اور میری عترت”، تو انکی عترت کون ہیں؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: میں ہوں، اور حسن اور حسین اور 9 آئمہ حسین کی اولاد سے، ان میں سے نؤاں انکا مھدی اور انکا قائم ہے، الله ﷻ کی کتاب جدا نہیں ہوگی، اور نہ وہ جدا ہونگے حتی کہ وہ رسول الله ﷺ کے پاس حوض کوثر پر نہ پہنچ جائیں۔ (15) اسکو شیخ صدوق نے نقل کیا ہے اور سند بہترین ہے، تمام راوی ثقہ ہیں لہذا سند صحیح ہے، اسکے علاوہ اہل تشیع مصادر میں بھی تواتر قائم ہے اور اگر ہم حوالہ جات نقل کرتے رہیں تو بہت طویل فہرست ہوجائے گی۔ سب سے آخر میں ہم مختلف حوالہ جات دیتے ہیں حدیث ثقلین کے جو اوپر نقل کیا ہے ان سے مختلف سنی مصادر سے ہی (16)، متواتر احادیث کا انکار نہیں کیا جا سکتا اور متواتر احادیث کی ضد میں ضعیف احادیث قبول نہیں کی جا سکتیں، کچھ لوگوں نے حدیث ثقلین کے مقابلے میں “میری سنت” والی حدیث گھڑی، اور پھر کچھ اور لوگوں نے پورا ایک منہج بنا لیا “میری سنت” کی ضعیف حدیث کے نام پر اور سنت پر چلنے کا دعوی کرکے اور سنت والا کہا خود کو۔ الہی ہم سب کو قرآن و اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ یہی رسول الله ﷺ کے خلیفتین، امرین اور ثقلین ہیں۔
أحقر: سيد علي أصدق نقوي
اللهم صل على محمد ﷺ وآله
مآخذ:
(1) الموطا للإمام مالك، رقم الحديث: 1628
(2) السيرة لإبن هشام الحميري، ج 2، ص 593
(3) المستدرك على الصحيحين، رقم الحديث: 318
(4) المستدرك على الصحيحين، رقم الحديث: 319
(5) ميزان الإعتدال، رقم: 3831
(6) جامع بيان العلم وفضله، رقم الحديث: 1389
(7) كتاب المجروحين، رقم: 893
(😎 تقريب التهذيب، رقم: 5617
(9) صحيح مسلم، رقم الحديث: 6225
(10) مسند أحمد، رقم الحديث: ، المصنف لإبن أبي شيبة، رقم الحديث: 31679، المعجم الكبير، رقم الحديث: 4921
(11) فضائل الصحابة، رقم الحديث: 1032 و 1403
(12) صحيح الجامع وزيادته، رقم الحديث: 2457
(13) مجمع الزوائد، رقم الحديث: 784 و 14957
(14) جامع الترمذي، رقم الحديث: 3786 و 3788
(15) عيون أخبار الرضا، ج 2، ص 60
(16) المستدرك على الصحيحين، رقم الحديث: 4576 و 4711 و 4577، سنن الدارمي، رقم الحديث: 3316، السنن الكبرى للبيهقي، رقم الحديث: 13017، السنن الكبرى للنسائي، رقم الحديث: 8148 و 8175 و 8154، المصنف لإبن أبي شيبة، رقم الحديث: 30081، المعجم الأوسط، رقم الحديث: 3439 و 3542، البحر الزخار، رقم الحديث: 864، مسند أحمد، رقم الحديث: 11119 و 11147 و 11227 و 11578، المعجم الصغير، رقم الحديٹ: 363 و 376، مسند أبي يعلى، رقم الحديث: 1021 و 1140، مسند ابن الجعد، رقم الحديث: 2711، مسند عبد بن حميد، رقم الحديث: 265، المعجم الکبیر، 2679 و 2680 و 2681 و 2683 و 3052 و 4922 و 4923 و 4969 و 4981، السنة لإبن أبي عاصم، رقم الحديث: 754 و 1554 و 1555، فضائل الصحابة، رقم الحديث: 170 و 990 و 1382 و 1383، فضائل الصحابة للنسائي، رقم الحديث: 45، الطبقات الكبرى، ج 2، ص 194 وغيرهم