بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم
.
سب سے پہلے قرآن کس نے جمع کیا ؟
.
امام علی ع نے سب سے پہلے قرآن جمع کرکے رسول اللّه ص کی خدمت میں پیش کیا
.
ناصبیوں کی اپنی کتاب کا سکین👇🏼
مولا علی نے فرمایا: میں تب تک اپنی چادر نہیں اوڑھوں گا جب تک قرآن جمع نا کر لوں (ترتیب نزولی کے حساب سے)
ایک طرف ابن حجر کا بغض دیکھیں امیر المومنین علی علیہ السلام کے جمع کردہ قرآن والی روایت کو اس منطق سے رد کرتا ہے کہ علی علیہ السلام کی مراد قرآن کو جمع کرنے سے یہ تھی کہ وہ اسے اپنے سینے میں محفوظ بناتے تھے یعنی حفظ کرنا چاہتے۔
حالنکہ نیچے اسی صفحہ پر ابن اشتہ اور ابن سیرین بیان فرما رہے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کے جمع کردہ قرآن میں ناسخ و منسوخ آیات درج تھی.
تاریخ خلفاء میں ملاحضہ فرمائیں…
اس ہی روایت کی تناظر میں ابن سیرین سے روایت بیان کرتے ہیں کہ
.
آپ امیر المومنین علیہ السلام نے قرآن شریف اسی ترتیب سے جمع کیا تھا جس طرح سے کہ نازل ہوا تھا..
سب سے بڑی اور پیاری بات فرماتے ہیں کہ کاش وہ قرآن شریف ہمارے پاس تک پہنچتا تو علم کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہوتا.
سبحان اللہ
مگر آج افسوس عوام الناس قرآن تو پڑھتے ہیں مگر سمجھنے سے قاصر ہیں اور اس کا گناہ صرف اور صرف انہی لوگوں پر جاتا ہے جن لوگوں نے مولا علی علیہ السلام کے جمع کردو قرآن کو اہمیت نا دی اور رد کردیا.
صحیح بخاری سے ثبوت کہ قرآن مجید زمانہ رسالت ص میں کتابی صورت میں بالکل موجود تھا
دلیل 👇🏼
صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
کتاب: جہاد کا بیان
129. بَابُ السَّفَرِ بِالْمَصَاحِفِ إِلَى أَرْضِ الْعَدُوِّ:
باب: مصحف یعنی لکھا ہوا قرآن شریف لے کر دشمن کے ملک میں جانا منع ہے
حدیث نمبر: 2990
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم” نهى” ان يسافر بالقرآن إلى ارض العدو”.
سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک رحمہ اللہ نے، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کے علاقے میں قرآن مجید لے کر جانے سے منع فرمایا تھا۔
.
.
جبرئیل رمضان میں رسول ص کے پاس قرآن کا دورہ کرنے آتا تھا
.
صحيح البخاري – حدیث 4997
كِتَابُ فَضَائِلِ القُرْآنِ بَابٌ صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ قَزَعَةَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَيْرِ وَأَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ لِأَنَّ جِبْرِيلَ كَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ حَتَّى يَنْسَلِخَ يَعْرِضُ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقُرْآنَ فَإِذَا لَقِيَهُ جِبْرِيلُ كَانَ أَجْوَدَ بِالْخَيْرِ مِنْ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ
قرآن رسول اللّه کے عہد میں ہی جمع کیا گیا تھا








.
شیعہ کتاب سے حوالہ
.
مصحف عثمانی؟
بقلم ذوالفقار مشرقی
.
موجودہ دور میں جس مصحف کی قرات اکثر مسلمان کرتے ہیں وہ حفص بن عاصم کی قرات ہے۔
اسکی سند آپکو قرآن کے آخر میں مل جائے گی۔
.
📜 حفص بن سلیمان بن مغیرہ الاسدی الکوفی عن عاصم بن ابی النحود الکوفی عن ابو عبدالرحمان السلمی عن عثمان بن عفان و علی ابن ابی طالب و زید بن ثابت و ابن ابی کعب عن النبی ﷺ
.
کسی بھی قرآن کے آخر میں آپکو یہ مل جائے گی۔
لیکن اس مصحف جس کا انتساب عثمان بن عفان کی طرف کیا گیا ہے اصلاً یہ عثمان بن عفان سے ثابت ہی نہیں ہے۔
.
ابن ابی حاتم الرازی (المتوفی ۳۲۷ھ) نے اس طرح نقل کیا ہے :
📜 حدثنا علي بن الحسن الهسنجاني نا أحمد بن حنبل نا حجاج يعني ابن محمد الأعور قال قال شعبة لم يسمع أبو عبد الرحمن السلمي من عثمان ولكنه قد سمع من علي رضي الله عنهما
.
📝 امیر المومنین فی علم الجرح و التعدیل امام شعبہ بن حجاج نے فرمایا :
ابو عبدالرحمان سلمی نے عثمان بن عفان سے کچھ نہیں سنا لیکن اس سے علی ابن ابی طالبؑ سے سنا تھا۔
📚 کتاب المراسیل – ابن ابی حاتم // صفحہ ۹۴ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
لہذا اہل سنت محدثین نے خود تصریح فرمائی ہے کہ ابو عبدالرحمان السلمی نے عثمان بن عفان سے کچھ سنا ہی نہیں تو اسکو مصحف عثمانی کہنا کیا معنی رکھتا ہے ؟؟؟
.
.