قرآن اور علمائے امامیہ

بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم

.

قرآن اور علمائے امامیہ

.

مکتب اہل بیت ع میں علمائے متقدمین تا متاخرین قرآن کی صحت پر اتفاق رہا ہے

ہم چند علمائے امامیہ کے اقوال پیش کرتے ہیں

1️⃣ شیخ صدوق رح فرماتے ہیں :

📜 ” اعتقادنا ان القرآن الذی انزل الله علی نبیه محمد (ص) هو ما بین الدفتین و هو ما بأیدی الناس لیس بأکثر من ذلک و من نسب الینا انه اکثر من ذلک فهو کاذب‘‘ ۔

📝 ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ وہ قرآن جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی حضرت محمد ﷺ پر نازل کیا وہ یہی دو جلدوں کے درمیان موجود قرآن ہے ، وہ یہی قرآن ہے جو اس وقت لوگوں کے پاس ہے اور اس سے زیادہ نہیں اور جو کوئی بھی ہماری طرف اس کے علاوہ کوئی اور نسبت دے وہ جھوٹا ہے ۔

📚 اعتقادات صدوق ، ص ۸۴

2️⃣ شیخ مفید (متوفی ۴۱۳) تحریف کا رد کرتے ہوئے کہتے ہیں

📜 امامیہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم سے کوئی کلمہ یا آیت یا سورہ کم نہیں ہے ، مصحف علی میں جو معانی بعنوان تشریح ہیں وہ کم ہیں اور وہ اللہ کا کلام نہیں ہیں ( یعنی وہ فقط تفسیر ہے ) اور وہ تاویل قرآن کے عنوان سے ہیں
یہی بات میرے نزدیک حق سے مشابہ ہے بہ نسبت ان لوگوں کے جو کمی و بیشی کے قائل ہیں

📚 اوائل المقالات , ص ۸۱

 

3️⃣ شیخ طوسی رح فرماتے ہیں

📜 ”قرآن مجید میں کمی یا زیادتی کا نظریہ کسی بھی اعتبار سے اس مقدس کتاب کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ تمام مسلمان اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں کسی طرح کی زیادتی واقع نہیں ہوئی ہے اسی طرح ظاہراً سارے مسلمان متفق ہیں کہ قرآن مجید میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوئی ہے اور یہ نظریہ کہ (قرآن میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوئی ہے) ہمارے مذہب سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے جناب سید مرتضی نے بھی اس بات کی تائید کی ہے اور روایات کے ظاہری مفہوم سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کچھ لوگوں نے بعض ایسی روایتوں کی طرف اشارہ کیا ہےجن میں قرآن مجید کی آیات میں کمی یا ان کے جابجا ہوجانے کا ذکر ہے ایسی روایتیں شیعہ اور سنی دونوں ہی کے یہاں پائی جاتی ہیں۔ لیکن چونکہ یہ روایتیں خبر واحد ہیں ان سے نہ تو یقین حاصل ہوتا ہے اور نہ ہی ان پر عمل کیا جاسکتا ہے .
لہذا بہتر یہ ہے کہ اس قسم کی روایتوں سے روگردانی کی جائے۔

📚 التبیان فی تفسیر القرآن ، ج ۱ ،ص ۳

 

4️⃣ جناب سید مرتضیٰ علی بن حسین موسوی علوی (متوفی ٤٣٦ھ) جو ”علم الہدیٰ” کے نام سے مشہور ہیں فرماتے ہیں:

انہوں نے تحریف کی نفی پر پورا باب باندھا ہے
وہ تحریف کے عقیدہ کو باطل قرار دیتے ہوئے دلیل کے طور پر لکھتے ہیں کہ

📜 ”پیغمبر اکرم ۖ کے بعض صحابۂ کرام جیسے عبداللہ بن مسعود اور اُبیّ بن کعب وغیرہ نے بارہا آنحضرت ۖ کے حضور میں قرآن مجید کو اول سے لے کر آخر تک پڑھا ہے یہ بات اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے کہ قرآن مجید ہر طرح کی کمی یا پراگندگی کے بغیر اسی زمانے میں جمع کر کے مرتب کیا جاچکا تھا

📚 الذخیرہ فی علم الکلام ج ۲ ، ص ۸۱

5️⃣ جناب ابوعلی طبرسی صاحب تفسیر ”مجمع البیان” فرماتے ہیں:

📜 الكلام في زيادة القرآن ونقصانه؛ فإنّه لا يليق بالتفسير. فأمّا الزيادة فيه: فمجمع على بطلانه.
وأما النقصان منه: فقد روى جماعة من أصحابنا، وقوم من حشوية العامّة أنّ في القرآن تغييراً أو نقصاناً، والصحيح من مذهب أصحابنا خلافه”

📝 ”پوری امت اسلامیہ اس بات پر متفق ہے کہ قرآن مجید میں کسی بھی قسم کا اضافہ نہیں ہوا ہے اس کے برخلاف ہمارے کچھ لوگ اور عامہ میں ”حشویہ” کے ماننے والے قرآن مجید کی آیات میں کمی کے سلسلے میں بعض روایتوں کو پیش کرتے ہیں لیکن جس چیز کو ہمارے مذہب نے مانا ہے جو صحیح بھی ہے وہ اس نظریہ کے برخلاف ہے.
( یعنی کسی قسم کی کمی یا زیادتی نہیں ہوئی )

📚 تفسیر مجمع البیان ، ج ۱ ، ص ۱۴

6️⃣ علامہ حلی (متوفی ۷۲۶) نے سید مہنا کے جواب میں کہا ہے :

📜 حق یہ ہے کہ قرآن مجید میں تقدم و تاخر، کم اور اضافہ نہیں ہوا ہے اور اس عقیدہ کے متعلق ہم خدا کی پناہ مانگتے ہیں، یہ عقیدہ ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زندہ و جاوید معجزہ میں شک کا باعث ہوگا اور یہ ایسا معجزہ ہے جو تواتر سے نقل ہوا ہے

📚 اجوبتہ المسائل النھایہ ج ۱ ، ص ۱۲۱