ناصبیوں کے چند اعتراضات کے جوابات (پہلا حصہ)

بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم

پہلا اعتراض 👇🏼

جواب

سب سے پہلے عرض ہے کہ یہ روایت واقعی میں اصول الکافی کی کتاب الفضائل القرآن میں موجود ہے لیکن اس میں کچھ مسائل ہیں :

نسخوں کا اختلاف 👇🏼

جب ھم الکافی کے مختلف نسخوں کا موازنہ کرتے ہے تو یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ اس حدیث میں لفظ سبعة الف کے درمیاں عشرۃ ( سبعة عشرة الف ) کی زیادت بہت ہی کم قلمی نسخوں میں موجود ہے جبکہ اکثر نسخوں میں صرف سبعة الف کا ذکر ہے جیسا کہ الکافی کے اس مطبوع نسخہ سے پتا چلتا ہے جو دارالحدیث قم ( یہ نسخہ ۷۸ قلمی نسخوں کو تقابل کرکے طبع کیا گیا ہے ) کی طرف سے طبع ہوا ہے۰ چناچہ وہ اس حدیث کے زیل میں یوں لکھتے ہے :

[ سبعة الف ]

ایسا ہی – بر (یہ علامت مخطوط مکتبہ جامع گوھرشاد مشھد کے نسخہ نمبر ۲۷۹ کے لے ہے ) ، جش ( یہ علامت مکتبہ مرعشی نجفی قم کے نسخہ نمبر ۳۰۱۵ کی ہے ) اور الوافی میں بھی ہے جبکہ کچھ قلمی و طبع شدہ نسخوں میں ” سبعة عشرة الف ” ہے ،

اور محقق شعرانی فرماتے ہے کہ کہا جاتا ہے کہ اس ” سبعة عشرة الف ” میں عشرۃ کی زیادت کسی ناسخ یا کسی روای کی غلطی ہے جبکہ صحیح سبعة الف ہی ہے۰۔۔۔۔ الخ

سند کی تحقیق :

– اسکی سند معلق ہے ( مطلب شیخ کلینی نے اسکی سند کے پہلے حصے کو اس سے پہلی والی روایت کے ساتھ ملایا ہے کیونکہ علی بن حکم شیخ یعقوب الکلینی کے استاذہ میں شامل نہیں ۔

– اسکی سند میں احمد بن محمد سے مراد احمد بن محمد السیاری ہے کیونکہ شیخ نجاشی و شیخ طوسی نے اس راوی کی ایک کتاب کا ذکر کیا ہے جسکا نام کتاب القراء ہے اور اس کتاب القراء کے مختلف قلمی نسخے دنیا میں آج بھی موجود ہے مثلاً ایران ، استانبل وغیرھم ان ہی نسخوں میں ایک نسخہ سپین کی ایک لائبریری میں موجود ہے جو وہاں سے ہی مطبوع ہے ۔اس رسالہ میں بھی یہ حدیث موجود ہے جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہاں احمد بن محمد سے مراد السیاری ہی ہے

ملاخطہ ہو : کتاب القراء – احمد بن محمد السیاری صفحہ رقم ۱۶ صفحہ۹

نوٹ : کتاب القرآء للسیاری کی کتاب کے محققین نے بھی حاشیہ میں لکھا ہے کہ الکافی میں سبعة الف ہی ہے ۔

لہذا ثابت ہوا یہاں احمد بن محمد سے مراد احمد بن محمد السیاری ہی ہے۔ اب دیکھتے ہے علماء جرح و تعدیل انکے بارے میں کیا فرماتے ہے :

شيخ نجاشي انکے بارے میں یوں فرماتے ہے :

أحمد بن محمد بن سيار أبو عبد الله الكاتب بصري، كان من كتاب آل طاهر، في زمن أبي محمد عليه السلام، ويعرف بالسياري، ضعيف الحديث، فاسد المذهب

[ پھر انکی کتاب القراء کا بھی ذکر کیا ہے ]

حوالہ : الرجال نجاشی // صفحہ ۸۰ // رقم ۱۹۲ // طبع قم المقدس

اسی طرح شیخ طوسی انکے بارے میں یوں فرماتے ہے :

أحمد بن محمد بن سيار أبو عبد الله الكاتب، بصري، كان من كتاب آل طاهر، في زمن أبي محمد عليه السلام ويعرف بالسياري، ضعيف الحديث، فاسد المذهب، مجفو الرواية، كثير المراسيل،

اس راوی کے بارے میں باقی جرح کے اس لنک کو دیکھیں !

http://qadatona.org/%D8%B9%D8%B1%D8%A8%D9%8A/%D8%A7%D9%84%D8%B1%D8%AC%D8%A7%D9%84/874

.

شیعہ کتب رجال میں احمد بن محمد السیاری کے بارے میں درج ذیل الفاظ استعمال ہوئے ہیں:
وہ ضعیف الحدیث، فاسد المذہب، غالی اور منحرف ہے۔ (قاموس الرجال ج۱ ص ۴۰۳۔ طبع تہران۔ رجال نجاشی ص ۵۸۔ طبع بمبئی۔ نقد الرجال ص ۳۲ طبع ایران قدیم۔ معجم رجال الحدیث ج۲ ص ۲۹۔ طبع نجف)
ان روایات تحریف میں یونس بن ظبیان کا نام بھی آتا ہے۔ اس شخص کوعلمائے رجال نے ان الفاظ کے ساتھ یاد کیا ہے:
یہ نہایت ضعیف ، ناقابل توجہ، غالی، کذاب اور احادیث گھڑنے والا ہے۔ (نقد الرجال ص ۳۸۱)
پھر ان میں منخل بن جمیل الاسدی کوفی کا نام بھی آیا ہے جس کے بارے میں علمائے رجال نے لکھا ہے:
وہ فاسدالروایہ، ضعیف، غالی اور منحرف ہے۔ (دراسات فی الحدیث و المحدثین۔ نقد الرجال ص ۳۵۴)
محمد بن حسن بن جمہور بھی ان راویوں میں شامل ہے جس کے بارے میں علمائے رجال فرماتے ہیں:
ضعیف، غالی، فاسدالروایہ، ناقابل توجہ ا ور فاسدالمذہب ہے۔ (نقد الرجال ص ۲۹۹۔ رجال نجاشی ص ۲۳۸۔ طبع بمبئی)

.

لہذا ثابت ہوا کہ اس روایت جسکے بنیاد ہر شیعہ امامیہ کو طعن کیا جا رہا ہے پہلے تو اسکے متن میں ۱۷۰۰۰ کے برعکس ۷۰۰۰ آیات کا ذکر ہے اور دوسرا اسکی سند بھی ضعیف ہے

اگر کوئی اسکے بعد بھی ہٹ دھرمی کا مظاھرہ کرتے ہوئے کہیں کہ پھر علامہ باقر مجلسی نے اسکو صحیح کیوں کہا ھم یہیں کہیں گے انہوں نے شاید یہاں احمد بن محمد سے مراد کسی اور کو لیا ہوگا جسکی وجہ سے یہ غلطی ہوئی ان سے ( اللہ انکی غلطیان معاف فرمائیں ) جبکہ انہوں نے اپنی الرجال ” الوجیز ” میں اس احمد بن مھمد السیاری کو ضعیف کہا ہے

ملاخطہ ہو : الرجال مجلسی ( الوجیز ) // صفحہ ۱۵۴ // رقم ۱۳۴ // طبع بیروت